ایک شام ڈاکٹر اقبال پیرزادہ کے نام

1263

ڈاکٹر نثار احمد نثار
سندھ کے سرسبز و شاداب شہر ٹنڈو آدم میں گزشتہ سال ایک ادبی تنظیم ادارۂ اظہار کا قیام عمل میں آیا جس کے تحت وہاں ادبی پروگرام ہو رہے ہیں اس تنظیم کی روح رواں یاسمین زاہد ہیں جن کے شوہر ڈاکٹر زاہد Eye Specialist ہیں۔ ڈاکٹر صاحب بھی شعر و ادب سے خصوصی دل چسپی رکھتے ہیں اس ادارے نے 29 ستمبر 2018ء کو کراچی کے رہائشی ممتاز شاعر ڈاکٹر اقبال پیرزادہ کے اعزاز میں تقریب پزیرائی کا اہتمام کیا جس کی صدارت معروف شاعر یامین اختر نے کی۔ ممتاز شاعر و نقاد سلمان صدیقی مہمان خصوصی تھے۔ مہمان توقیری بزرگ شاعر ماہر اجمیری جب کہ نوید سروش اور حبیب چوہان مہمانان اعزازی تھے۔ اس تقریب میں ٹنڈو آدم‘ میرپور خاص اور حیدرآباد کے ادیب و شاعر بڑی تعداد میں شریک تھے۔ تقریب کی ابتدا تلاوت کلام پاک اور نعت رسولؐ سے ہوئی جس کی سعادت ڈاکٹر زاہد نے حاصل کی اس کے بعد تقریب کی ناظمہ یاسمین زاہد نے صاحبِ اعزاز کے بارے میں تعارفی کلمات ادا کرتے ہوئے کہا کہ ڈاکٹر اقبال پیرزادہ ایک کہنہ مشق شاعر ہیں اور ادبی منظر نامے میں اہمیت کے حامل ہیں پیشے کے اعتبار سے Chest Speialist ہیں اور اوجھائی ٹی بی سینوٹوریم کراچی میں اپنی خدمات انجام دینے کے بعد مدتِ ملازمت پوری ہونے پر ریٹائر ہوئے ہیں انہوں نے اپنے ادارے میں کئی شان دار مشاعرے منعقد کرائے اس کے ساتھ ساتھ یہ قلم کاروں کی حوصلہ افزائی کے حوالے سے بھی شہرت رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر حبیب الرحمن چوہان نے اپنی گفتگو میں ڈاکٹر اقبال پیرزادہ کو موجودہ دور کا ایک اہم شاعر قرار دیا اور کہا کہ ان کی شاعری میں غزل کے مروجہ مضامین کے علاوہ جدید استعارے اور خوب صورت الفاظ نظر آتے ہیں میں انہیں خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ نوید سروش نے کہا کہ ڈاکٹر اقبال پیرزادہ سے ان کے دیرینہ مراسم ہیں اور وہ طویل عرصے سے ان کی شاعری سے لطف اندوز ہو رہے ہیں یہ محبتوں کے انسان ہیں‘ یہ دکھی انسانیت کے خدمت گزار بھی ہیں۔ یہ اپنی شاعرانہ صلاحیتوں کی بنیاد پر ادبی حلقوں میں شہرت کی بلندیوں پر ہیں۔ ماہر اجمیری نے ڈاکٹر اقبال پیرزادہ کو منظوم خراج تحسین پیش کرنے کے ساتھ ساتھ کہا کہ ایک زمانے میں اقبال پیرزادہ سندھ کے مختلف شہروں کے مشاعروں میں شریک ہوتے تھے کیونکہ یہ اس وقت تک کراچی منتقل نہیں ہوئے تھے انہوں نے بہت کم وقت میں اپنی شناخت بنائی اللہ تعالیٰ انہیں مزید عزت و شہرت عطا فرمائے۔ سلمان صدیقی نے کہا کہ وہ اظہار کی ادبی خدمات سے متاثر ہیں یہ ایک قابل ستائش کام ہے اور ٹنڈو آدم کی ادبی فضائوں میں خوش گوار اضافہ ہے۔ آج کے صاحبِ اعزاز ڈاکٹر اقبال پیرزادہ ایک مقبول شاعر ہیں ان کی تازہ کاری اور لب و لہجہ کا تھیکا پن ان کی پہچان ہے‘ ان کے بہت سے اشعار ضرب المثل بننے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ مشاعروں میں ان کی بہت سی مشہور غزلیں پُر زور فرمائش کرکے سنی جاتی ہیں یہ ایک حساس‘ درد مند اور خدمت خلق کا جذبہ رکھنے والے شاعر ہیں انہوں نے بھرپور زندگی گزاری ہے ان کی شاعری کا ایک مجموعہ شائع ہوچکا ہے جب کہ دوسرا زیر ترتیب ہے۔ صاحب صدر نے اپنے خطاب میں کہا کہ ڈاکٹر اقبال پیرازادہ ایک کامیاب شاعر‘ درد آشنا انسان اور اپنے طبی شعبے میں خصوصی شہرت کے حامل ہیں کہ انہوں نے بطور ڈائریکٹر اپنے ادارے میں شعر و ادب کے چراغ بھی روشن کیے۔ اپنے ادارے کی ترقی کے لیے گراں قدر خدمات انجام دیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ شاعری ان کو ورثے میں ملی ہے ان کے والد صاحب بہت عمدہ اشعار کہتے تھے یہ میرے حلقۂ احباب کے اہم لوگوں میں شامل ہیں ان کی تربیت میں میرا بھی حصہ ہے مجھے ان کی صلاحیتوں پر ناز ہے۔ انہوں نے میری تربیت کا حق ادا کر دیا۔ صاحبِ اعزاز ڈاکٹر اقبال پیرزادہ نے کہا کہ وہ ادارۂ اظہار کے ممنون و شکر گزار ہیں کہ جس نے ان کے اعزاز میں ایک شان دار محفل سجائی میرے بارے میں آج جن صاحبانِ علم و دانش نے اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے وہ میرا سرمایۂ حیات ہے انہوں نے مزید کہا کہ زبان و ادب کی ترویج و ترقی کے لیے ہم سب کو مل جل کر کام کرنا ہے کیونکہ اس وقت ہم مختلف قسم کے مسائل میں گھرے ہوئے ہیں ادبا اور شعرائے کرام قوم کے مسیحائوں میں شمار ہوتے ہیں کیوں کہ یہ بتاتے ہیں کہ معاشرے کی فلاح و بہبود کے لیے ہمیں کیا اقدامات کرنے ہوں گے۔ اس موقع پر یامین اختر‘ ماہر اجمیری‘ اقبال پیرزادہ‘ سلمان صدیقی‘ نوید سروش‘ حبیب الرحمن چوہان‘ جاوید خان جاوید‘ یاسمین زاہد‘ ڈاکٹر زاہد اور کامران عشرت نے اپنا کلام پیش کیا۔

دنیائے ادب کراچی کا 65 واں ادبی پروگرام

دنیائے ادب کراچی نے آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کے تعاون سے اپنا 65 واں ادبی پروگرام ڈاکٹر نزہت عباسی اور عبدالرحمن مومن کے ساتھ منعقد کیا جس کی صدارت ظہور الاسلام جاوید نے کی۔ صائمہ نفیس نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ تبصرہ نگاروں میں پروفیسر سحر انصاری‘ احمد نوید‘ پروفیسر ہارون رشید‘ صفدر علی انشاء‘ حجاب عباسی اور ڈاکٹر اوجِ کمال شامل تھے۔ صاحبِ صدر نے کہا کہ ڈاکٹر نزہت عباسی دورِ حاضر کی بہترین شاعرہ ہونے کے ساتھ ساتھ ممتاز ماہر تعلیم بھی ہیں ان کے نقد و نظر کے تبصرے بھی ادبی حلقوں میں پسند کیے جارہے ہیں یہ علم و ادب کی ترقی کے لیے بے مثال خدمات انجام دے رہی ہیں۔ صاحبِ صدر نے عبدالرحمن مومن کے بارے میں کہا کہ وہ بہت اچھے اشعار کہہ رہے ہیں امید ہے کہ وہ مزید ترقی کریں گے میری دعائیں ان کے ساتھ ہیں۔ انہوں نے پروفیسر اوج کمال کو خراج تحسین پیش کیا کہ ان کی ادبی خدمات قابل ستائش ہیں۔ پروفیسر سحر انصاری نے کہا کہ عبدالرحمن مومن شاعروں میں خوش گوار اضافہ ہیں ان کے یہاں شاعری کے تمام لوازمات موجو دہیں آج انہوں نے جو کلام سنایا اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ بہت تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں یہ ایک علمی و ادبی خانوادے کے چشم و چراغ ہیں ان کے والد بھی شاعر ہیں ان کے دادا بھی شاعر تھے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ڈاکٹر نزہت عباسی ان کی شاگر ہیں ان کا مطالعہ اور مشاہدہ بہت وسیع ہے جس کی جھلک ان کی شاعری میں نظر آتی ہے۔ احمد نوید نے کہا کہ اوجِ کمال نے شاعروں کی حوصلہ افزائی کا جو سلسلہ شروع کیا ہے اس سے اردو زبان و ادب کی ترقی ہو رہی ہے اور سامعین کو عمدہ شاعری بھی سننے کو مل رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ عبدالرحمن مومن نے کم عمری میں ہی اپنی شناخت بنا لی ہے ان کا کلام شاعری کے جدید تقاضوں پر مشتمل ہے جس کی وجہ سے یہ ہر مشاعرے میں بھرپور داد پاتے ہیں جب کہ ڈاکٹر نزہت عباسی ایک باشعور شاعرہ ہیں ان کی شاعری میں گہرائی اور گیرائی موجود ہے۔ حجاب عباسی نے کہا کہ عبدالرحمن مومن کی شاعرانہ صلاحیتیں ہمیں اپنی طرف متوجہ کر رہی ہیں۔ ڈاکٹر نزہت عباسی نے کے یہاں تمام شعری محاسن موجود ہیں۔ پروفیسر ہارون رشید نے کہا کہ عبدالرحمن مومن کی شاعری متاثر کن ہے‘ نزہت عباسی کی غزلوں اور نظموں میں زندگی رواں دواں ہے ان کی شاعرانہ صلاحیتوں سے انکار ممکن نہیں۔ صفدر علی انشا نے کہا کہ دونوں شعرا نے بہت اچھی شاعری پیش کی اس پر میں انہیں خراج تحسین پیش کرتا ہوں۔ میزبانِ تقریب ڈاکٹر اوج کمال نے کہا کہ ہم نوجوان نسل کے ساتھ ساتھ ایک سینئر شاعر کو شامل کرکے اپنا پروگرام ترتیب دیتے ہیں آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کی لائبریری کمیٹی کے سہیل احمد‘ انیس جعفری اور وقار زیدی ہمارے ساتھ ہوتے ہیں جن کی دل چسپی کے باعث پروگرام میں چار چاند لگ جاتے ہیں انہوں نے شرکائے محفل کا شکر ادا کیا۔ اس موقع پر عبدالرحمن مومن اور ڈاکٹر نزہت عباسی نے 50-50 منٹ اپنے اشعار سنا کر سامعین سے خوب داد وصول کی۔ راقم الحروف اپنے قارئین کی معلومات میں اضافے کے لیے یہ عرض کرنا چاہتا ہے کہ 21 جولائی 1996ء کو معروف ادبی گھرانے میں پیدا ہونے والی سید عبدالرحمن مومن کراچی یونیورسٹی سے بی اے آنرز کر رہے ہیں ساتھ ہی وہ بچوں کے معروف رسالے ’’ماہ نامہ ساتھی‘‘ کی مجلس ادارت میں انچارج کے عہدے پر فائز ہیں۔ آج کل وہ ایک نجی ٹی وی چینل پر ادبی پروگرام کی میزبانی بھی کر رہے ہیں انہوں نے بزم طلبا‘ ریڈیو پاکستان میں بھی کئی پروگراموں میں شان دار کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔ ڈاکٹر نزہت عباسی اردو زبان و ادب کی استاد ہیں اور مقامی کالج میں طالبات کو زیور تعلیم سے آراستہ کر رہی ہیں ان کے دو شعری مجموعے شائع ہو چکے ہیں جن کے نام ’’سکوت‘‘ اور ’’دستک‘‘ ہیں۔ انہیں پروین شاکر ایوارڈ بھی مل چکا ہے۔ 2013ء افسانوی ادب پر بھی ان کی ایک کتاب منظر عام پر آچکی ہے یہ ادبی تنظیم دبستانِ غزل کی صدر‘ شاعراتِ پاکستان اور تحریک نفاذ اردو کی جنرل سیکرٹری بھی ہیں ان کا حقیقی مقالہ اور تنقیدی مضامین بھی شائع ہو چکے ہیں۔

بزم یاور مہدی کے زیر اہتمام مجلسِ مسالمہ

یاور مہدی ایک علم دوست شخصیت ہیں‘ وہ اپنی تنظیم کے تحت تواتر کے ساتھ کے ڈی آفیسر کلب کشمیر روڈ کراچی میں ادبی پروگرام ترتیب دیتے رہتے ہیں۔ گزشتہ ہفتے انہوں نے محفل مسالمہ کا اہتمام کیا جس کی صدارت پروفیسر جاذب قریشی نے کی۔ ندیم ہاشمی نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ مولانا قاری عبدالرحمن نے تلاوتِ کلام مجید کے ساتھ ساتھ نعت رسول مقبولؐ پیش کرنے کی سعادت حاصل کی۔ میزبانِ تقریب یاور مہدی نے خطبۂ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ان کی کوشش ہے کہ وہ اردو زبان و ادب کے فروغ میں مصروف رہیں کیونکہ ادب ہماری زندگی سے جڑا ہوا ہے جن قوموں نے قلم کاروں کو نظر انداز کیا وہ ترقی کی منزلیں طے نہیں کرسکیں انہوں نے مزید کہا کہ ہماری تقریبات کے اسپانسر طاہر مہدی ہیں جو کہ ہوسٹن امریکا میں مقیم ہیں جب تک مجھے میرے بیٹے کی امریکی امداد ملتی رہے گی میں تقریبات منعقد کرتا رہوں گا۔ اس موقع پر انہوں نے یہ اعلان بھی کیا کہ بزم یاور مہدی کی تقریب 8 بجے شب شروع ہو جائے گی اور دیر سے آنے والے شعرا کا شمار سامعین میں ہوگا۔ ناظمِ تقریب ندیم ہاشمی نے نپے تلے الفاظ میں پروگرام چلایا اور کسی بھی موقع پر ٹمپو ٹوٹنے نہیں دیا انہوں نے کہا کہ بزم یاور مہدی کی 136 ویں تقریب ہے خدا کا شکر ہے کہ ہمارا ہر پروگرام کامیاب ہوتا ہے ہم 8 بجے اپنا پروگرام شروع کرتے ہیں اور 10 بجے تک ہمیں یہ کمرہ کے ڈی اے آفیسر کلب کے حوالے کرنا ہوتا ہے۔ لہٰذا آپ حضرات پابندیٔ وقت کے ساتھ شرکت فرمائیں۔ صاحب صدر پروفیسر جاذب قریشی نے صدارتی خطبے میں کہا کہ واقعۂ کربلا انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ حضرت امام حسینؓ اور ان کے ساتھیوں نے یزید کی بیعت نہیں کی کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ یزید غاصب ہے وہ کسی بھی عنوان حضرت امام حسینؓ سے معتبر نہیں ہے۔ یزیدی لشکر نے کربلا کے میدان میں 72 جاں نثاران حسینؓ کو شہید کیا حضرت امام حسینؓ نے حق و باطل کے درمیان حدِ فاصل کھینچ کر اسلام کی عظمت بحال کی انہوں نے اپنا سب کچھ قربان کر دیا لیکن باطل قوتوں کے سامنے خود کو سرنڈر نہیں کیا۔ تاریخِ اسلام میں حضرت امام حسینؓ اور ان کے رفقائے کار ہمیشہ زندہ رہیں گے۔ جو لوگ ذکرِ حسینؓ کی محافل سجاتے ہیں وہ قابل ستائش ہیں کیونکہ ذکر غم حسین اسلام روایات کا حصہ ہے صاحبِ صدر نے یاور مہدی کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنے زمانے میں ریڈیو پاکستان پر بھی ادبی پروگرام منعقد کراتے رہے ہیں اور آرٹس کونسل کے حوالے سے بھی ان کی خدمات سب پر روشن ہیں نیز آج بھی یہ ادب کے لیے کام کر رہے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں مزید عزت و شہرت عطا فرمائے۔ اس محفلِ مسالمہ میں یداللہ حیدر‘ ظہورالاسلام جاوید‘ نسیم نازش‘ ضغیم حمیدی‘ اختر سعیدی‘ راشد نور‘ سلیم فوز‘ افضال بیلا‘ راقم الحروف ڈاکٹر نثار‘ فہیم شناس کاظمی‘ سحر علی اور شاہدہ خورشید نے شہدائے کربلا کو منظوم خراج عقیدت پیش کیا۔ راشد عالم نے کلمات تشکر ادا کرتے ہوئے کہا کہ آپ خواتین و حضرات کا شکریہ کہ آپ نے وقت نکال کر محفل مسالمہ میں شرکت کی اللہ تعالیٰ آپ کو اجرِ عظیم عطا فرمائے۔ رفیق حسین نے کہا کہ وہ یاور مہدی کی ادبی و علمی خدمات پر انہیں خراجِ تحسین پیش کرتے ہیں اور دعا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ انہیں تن درستی عطا فرمائے اور یہ اسی طرح سے ادبی پروگرام منعقد کرتے رہیں۔

حصہ