عائشہ صدف… ہیوسٹن
جب امید خواہش اور آس بن کر دل میں کنڈلی مارکر بیٹھ جائے تو انسان اس خواہش کو پورا کرنے کے لیے ہر ممکن حد تک جانے کو تیار ہوجاتا ہے۔ لیکن جہاں امید ہی نہ ہو، وہاں خواہش سر اٹھانے سے پہلے ہی اپنی موت آپ مرجاتی ہے۔ یہی معاملہ میرا تھا۔ میرے خواب و خیال میں بھی نہ تھا کہ میں مسجد اقصیٰ، ارضِ فلسطین کو اپنی گناہ گار آنکھوں سے دیکھ سکوں گی، اس کی زیارت کرسکوں گی، انبیا کی سرزمین پر قدم رکھ سکوں گی، اس کی مٹی چوم سکوں گی، اس پر اپنی جبینِ نیاز ٹکا سکوں گی۔ میرے لیے یہ مقام بلند! حالانکہ کعبۃ اللہ عظمت کے لحاظ سے اعلیٰ تر ہے مگر اس کے دروازے کھلے ہیں اور شادی کے بعد میرے شوہر نے یہ اوّلین خواہش خوش دلی سے پوری کروا دی تھی اور اسی دوران مسجد نبویؐ کا بھی شوق پورا ہوا۔ مگر مسجد اقصیٰ… یہ تو میرے لیے ایک ایسی سوچ تھی جس کے لیے کوئی روزن دل اور دماغ کے درمیان موجود نہیں تھا۔ اس لیے دل نے اس کو کبھی پنپنے کی اجازت ہی نہ دی تھی… اور اب مسجد اقصیٰ کی زیارت کے بعد لگتا ہے کہ دنیا میں کوئی چیز ناممکن نہیں، دنیا کا کوئی کونہ میرے لیے شجرِ ممنوعہ نہیں ہے۔ دل میں خواہش پیدا ہوگی تو اللہ تعالیٰ اس کو پورا کرنے کا وسیلہ بھی بنادے گا۔ اللہ تعالیٰ میرے سر کے تاج کو دنیا و آخرت کی ڈھیروں بھلائیوں سے نوازے جن کے وسیلے سے یہ متبرک سفر ممکن ہوا۔
جب میرے شوہر نے ہماری فلسطین کی سیٹیں کنفرم ہونے کی خبر سنائی تو اپنی خوش بختی پر نازاں ہونے سے زیادہ دل و دماغ پر پریشانی نے قبضہ کیے رکھا۔ سمجھ میں نہیں آرہا تھا یہ مرحلہ طے کیسے ہوگا؟ نوجوان بچوں کا ساتھ تھا، ایسے میں اسرائیل کا سفر… حالات کیسے رہیں گے؟ یروشلم، غزہ اور دوسرے مقبوضہ علاقوں کی دل دہلا دینے والی خبریں اور تصویریں ذہن کے پردے پر یکے بعد دیگرے ابھرنا شروع ہوگئیں۔ دعائوں کا سلسلہ شروع کیا تو شیطان نے اپنے چنگل میں پھنسا کر دنیاوی جھمیلوں میں ایسا پھنسایا کہ پریشانی دماغ سے ہوا ہوگئی۔ کبھی سوتے جاگتے خیال آیا مگر زیادہ دیر ٹھیر نہ سکا۔ چھوٹی بہن فارحہ نے ڈاکٹر کاشف مصطفی (افریقہ میں کارڈیالوجسٹ) کے سفرنامے کا لنک بھیجا جو حال ہی میں وہاں سے تشریف لائے ہیں، مگر مصروفیت کے اس عالم میں کچھ سمجھ میں آیا، اور کچھ نہیں۔ مگر بہرحال ذہنی تیاری کا کام شروع ہوگیا۔ ایک دو کتابوں سے مدد حاصل کی مگر کوئی خاص جامع کتاب نہ مل سکی۔ google سے استفادے کا موقع یوں نہ مل سکا کہ دو چھوٹے بچے اس سے فارغ ہوں تو میں بھی کچھ دیکھوں۔
اسی ادھیڑبن میں 16 دسمبر کا تاریخی دن آگیا جب ہماری ترکش ایئر لائن سے فلائٹ تھی۔ بچوں کے mid term کا آخری دن تھا۔ اسکول سے آکر پیکنگ مکمل کی۔ ویسے ہی بہت تاکید کی جارہی تھی کہ سامان ہلکا ہو، لہٰذا ہر ایک کے خیال سے ایک ایک ہینڈ کیری کرلیا جس میں پانچ دن کا ضروری سامان رکھا۔ باقی پاکستان کے لحاظ سے خیال تھا کہ ضرورت پڑی تو وہیں سے خریداری کرلی جائے گی۔ خیریت سے سفر شروع ہوا۔ ترکی سے جب connecting flight لے کر اسرائیل کے لیے روانہ ہوئے تو میاں صاحب نے خوش خبری سنائی ’’Sami (برادر حسن) بھی ہمارے آگے پیچھے اسرائیل پہنچ جائیں گے۔‘‘
برادر حسن فلسطینی فارمسٹ ہیں جن کی فارمیسی میرے شوہر کے آفس کے ساتھ ہی ہے۔ تعلقات بہت اچھے ہیں اور ان کے پُرروز اصرار پر ہی ہم نے اپنا یہ trip ترتیب دیا تھا۔ مگر وہ ان تاریخوں میں مصروف تھے، لہٰذا ہمارے ساتھ جانے کا پروگرام نہ تھا، مگر بعد میں انھوں نے اپنا شیڈول سیٹ کرکے اپنی سیٹیں بک کروائیں اور چار جہاز بدل کر ہمیں خوش آمدید کہنے اسرائیل پہنچ گئے۔
اسرائیل کے بن گوریان ایئرپورٹ پر (جو ماضی میں ’لد‘ کے نام سے جانا جاتا تھا) ہماری فلائٹ نے لینڈ کیا جو اسرائیل کے پہلے وزیراعظم کے نام پر ہے۔ اس کا شمار دنیا کے محفوظ ترین ایئرپورٹس میں ہوتا ہے، جہاں آج تک ہائی جیکنگ کا کوئی واقعہ نہیں ہوا ہے۔ اچھا وسیع ایئرپورٹ تھا مگر امریکا کے ایئر پورٹس کے مقابلے میں خاصا سنسان لگ رہا تھا۔ پانچ چھ کائونٹر کھلے تھے جہاں شہریوں اور مسافروں کو الگ کردیا گیا تھا۔ لائنیں اگرچہ طویل نہ تھیں مگر طریقہ کار خاصا طویل تھا۔ سب کے ویزے لگادیئے گئے مگر شوہر صاحب کا پاسپورٹ مزید پوچھ گچھ کے لیے آگے بھیج دیا گیا۔ خوف تو سولہ سالہ بیٹے کا تھا مگر اس کی قسمت اور ہماری دعائوں نے ساتھ دیا۔ ایک علیحدہ کمرے میں بیٹھنے کا انتظام تھا مگر چھوٹے دو بچوں کی وجہ سے باہر کھڑے رہنے کو ترجیح دی۔ ایک دو بار سیکورٹی والوں نے آکر کچھ سوالات کیے۔ شاید زندگی میں دادا کا نام بھی پہلی دفعہ ہی پوچھا گیا۔ بہرحال تقریباً چالیس منٹ بعد کلیرنس دے دی گئی۔ امریکا میں ہر شخص مسکراہٹیں نچھاور کرنے کے لیے تیار ہوتا ہے، اگرچہ 9/11 کے بعد خاصی تبدیلی آگئی ہے، مگر یہاں تمام چہرے نہایت سنجیدہ تھے۔ بچوں کے ساتھ بھی کوئی دل لگی کرنے کے موڈ میں نہ تھا۔ ویزہ ایک مستطیل دو انچ کے پیپر کی شکل میں حوالے کردیا گیا۔ پاسپورٹ پر اسرائیلی ویزہ نہیں لگایا جاتا تاکہ ان ممالک میں سفر میں کوئی رکاوٹ درپیش نہ ہو جنہوں نے اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا ہے۔ بہرحال جتنا سنا تھا، اس کے عشر عشیر بھی پریشانی نہیں اٹھانی پڑی۔
ایئرپورٹ سے سامان اٹھاکر باہر نکلے تو سامنے ہی تین افراد ’راشد صدیقی‘ کے نام کا بورڈ لے کر کھڑے تھے۔ بات چیت سے اندازہ ہوا کہ برادر حسن کے دُور پرے کے رشتے دار ہیں۔ انہوں نے ہمیں مطلع کیا کہ اگر ہم آدھا گھنٹہ انتظار کرسکتے ہوں تو برادر حسن کی فلائٹ لینڈ کرچکی ہے اور وہ بھی ہم سے آملیں گے۔ باہم مشورے سے یہی طے ہوا کہ رکنا ہی بہتر ہے۔ اتنی دیر کے لیے میزبانوں نے ٹھنڈا پانی اور چاکلیٹس مہیا کردیں۔ آدھا گھنٹہ واقعی آدھا گھنٹہ ہی ثابت ہوا۔ ہم لوگوں کا قافلہ ایئرپورٹ کے پارکنگ لاٹ میں پہنچا۔ ہماری نسبتاً بڑی فیملی کے پیش نظر دو گاڑیوں کا انتظام تھا۔ اندھیرا چاروں طرف چھا چکا تھا مگر تل ابیب شہر روشنیوں سے جگمگا رہا تھا۔ سفر یروشلم کی جانب شروع ہوا۔ تقریباً چالیس منٹ کی ڈرائیو تھی۔ ہائی ویز کا معیار امریکا کی طرح کا تھا مگر روشنیوں کی بہتات تھی۔ امریکا میں تو غیرآباد علاقے اندھیرے میں ڈوبے ہوتے ہیں، صرف اپنی گاڑی یا دوسروں کی گاڑیوں کی لائٹوں سے کام چلایا جاتا ہے۔ مگر یہاں سڑک کا کوئی حصہ ایسا نہ تھا جہاں لائٹیں نہ ہوں۔ شاید خوف، پریشانی یا پھرچوکنے پن کی نشانی۔
تل ابیب اسرائیل کا دوسرا بڑا شہرہے۔ اس کا نام تھیوڈر ہرتزل (father of Zionism) کے ناول Bid New Land سے لیا گیا ہے۔ تاریخی طور پر یہ اس شہر کا نام تھا جہاں بخت نصر نے یہودیوں کو بابل شہر کے باہر غلام بناکر رکھا تھا۔ یہ شہر 1909ء میں وجود میں آیا۔ اس کے وجود میں آنے کی کہانی خاصی دلچسپ ہے۔ ساٹھ پلاٹ پر مشتمل یہ زمین ایک ڈچ شہری نے ترکی سلطنت کو اندھیرے میں رکھ کر خریدی تھی، کیونکہ یہودیوں کا یہاں زمین خریدنا ترک حکومت نے ممنوع قرار دیا ہوا تھا۔ ایک غیرآباد صحرائی ٹیلے پر بیٹھ کر ان پلاٹس کی لاٹری کا انتظام بلڈنگ سوسائٹی کے صدر کی طرف سے کیا گیا تھا۔ اس نے 120 گرے اور سفید سمندری شیل (sea shell) جمع کیے۔ سفید پر ممبرز کے نام اور گرے پر پلاٹ کے نمبر لکھے گئے۔ ایک لڑکا سفید شیل ڈبے سے نکالتا اور ایک لڑکی گرے شیل کے ڈبے سے گرے شیل نکالتی اور اس طرح زمین الاٹ کردی جاتی۔ اس طرح ساٹھ گھروں پر مشتمل یہ شہر قائم ہوا۔ چند ہی برسوں میں اس شہر نے خاطر خواہ ترقی کرلی تھی۔ 1917ء میں ترک گورنمنٹ کو اطلاع مل گئی تو انہوں نے یہ بستی یہودیوں سے خالی کروالی، مگر اسی سال کے آخر میں جنگ عظیم اوّل میں ترکوں کی شکست کے بعد یہودی، برطانوی حکومت کی مدد سے یہاں آکر دوبارہ آباد ہوگئے۔
Legacy ہوٹل پہنچ کر نہا دھوکر نماز سے فارغ ہوئے تو ہمارے میزبان کی طرف سے گرما گرم پیزا کمرے میں پہنچادیا گیا۔ پیزا ایسا اطالوی کھانا ہے جسے عموماً ہر عمر کا شخص دن کے ہر حصے میں بخوشی کھانے کو تیار ہوتا ہے۔ لمبے سفر کی وجہ سے سب تھکے ہارے تھے لہٰذا جلد ہی خوابِ خرگوش کے مزے لینے لگے۔
(جاری ہے)