قاضی مظہرالدین طارق
پلوٹو ، نئے اُفق کا خلائی جہاز
اس کے بعد،نئی اُفق کی ٹیم کی اَگلی منزل ’اَلطِیماتُھول‘ ہے:
’اَلطِیما تھول‘ ،کیا ہے ؟ابھی کچھ معلوم نہیں۔کیا یہ سیّارہ ہے ؟سیّارچہ ہے یا محض ایک چٹان ہے ؟کیوں کہ’ نئی اُفق‘کی ٹیم نے جو جہاز اس کو دیکھنے کے لئے بھیجا ہے وہ ابھی اس سے بہت دُور ہے، فاصلہ دو کروڑ کلومیٹر ہے۔
یہ نظامِ شمسی کے آخری بونے سیّارے ُپلوٹو‘سے بھی ایک ارب میل کے فاصلے پر ہے،جبکہ پلوٹو خود زمین سے تین ارب میل دُور ہے،نئی اُفق ٹیم کی ٹیم کے اس جہاز نے ابھی تک تقریباً دو تہائی فاصلہ ہی ہے طے کیا ہے۔
’اَلطیما تھول‘؛ ’کائیپر پٹّی‘ میں ہے ، جو نظامِ شمسی کی آخری سرحد ہے،مگر’ اُوٹ کلائوڈ‘ اس سے بھی آگے ہے ۔ ’اَلطیما تھول ‘اس ’کائیپرپٹّی‘ کے ساتھ سورج کے مدار میں بڑا لمبا چکّر کھا رہا ہے۔مگر اس کی رفتار کا حال نہ پوچھیں؟
یہ جہاز کی رفتار ہی دیکھیئے، صرف دو سال میں یہ پچاس لاکھ میل کا سفر طے کرے گا ،کچھ ہم بھی حساب لگالیں ،یہ کتنے میل فی گھنٹہ سفر کر رہا ہوگا؟
یہ خلائی جہاز زمین سے جنوری 2006ء کو روانہ کیا گیا تھا، اس کی پہلی منزل ’پلوٹو‘ تھی،اس کی رفتار اتنی تیز کہ وہ نو9گھنٹے میں ہمارے چاند سے آگے نکل چکا تھا جبکہ یہی فاصلہ طے کرنے کے لئے’ اَپولو ‘مہم نے دس گنا زیادہ وقت لیا تھا۔
ہم بہت بے چین اور منتظر تھے کہ یہ جہاز کب پلوٹو کے قریب پہنچے گا اور ہم کو دیکھائے گا کہ یہ کیسا ہے؟ کیسا نظر آتا ہے؟ اب تک اس کی سب سے اچھی تصویر جو ہم نے دیکھی وہ ہبل دوربین کی تھی، جس میں وہ مختلف رنگوں کے دھبّوں کے سوا کچھ نہیں نظر آرہا،اس لئے کہ یہ بہت چھوٹا اور بہت دُور ہے۔ پلوٹو کچھ قریب سے
نو9 سال کے انتظار کے بعد یہ جہاز،2015ء میںیہ پلوٹو کے قریب سے گزرا،’بوناپلوٹو‘چاند سے چھوٹا اور زمین سے تین ارب میل دُور ہے ،اس جہاز نے پلوٹو سے آٹھ ہزار میل کے فاصلے سے گزرتے ہوئے اُس کی ہزاروں تصاویر بنا کے زمین پر بھیجیں،یہ فاصلہ زمین سے چاند کے مقابلے میں تیس۳۰ گُنا کم ہے۔
جہاز نے اُس کا اندرونی تجزیہ بھی کیا،فضاء کی معلومات بھی بھیجی کہ اُس میں کیا کیا عناصر اور سالمے (مالیکیولز) موجودہیں،اس کا نقشہ بنایا،اِس پر پہاڑی سلسلے اور جھیلیں دکھائیں ۔اس نے یہ اطلاع بھی دی کہ اس پرمُردہ آتش فشاں بھی ہیں۔
پلوٹو کی سطح پر۹۸فیصد نائیٹروجن کی ٹھوس چٹانیں ہیں، بڑے بڑے پہاڑی سلسلے ہیں،جن پر پانی کی برف بھی جمی ہے،ان پہاڑوں کا منظر بھی عجیب ہے ،ایسا لگتا ہے جیسے سانپ کی کھال یا کسی درخت کی چھال ہے۔
نا ئیٹروجن کے ٹھوس گلیشیئرز ہیں ، جو زمین پر پانی کے گلیشیئرز کی طرح مائع نائیٹروجن پر سرکتے رہتے ہیں ، کچھ تصاویر میں مائع نائیٹروجن کی مائع یاجمی ہوئی جھیلیں بھی نظر آرہی ہیں۔
واہ ! کیا بات ہے کہ پانی بھی سخت بُھربُھرے چٹانوں اور مِٹّی کی صورت میں موجود ہے،کیوں کہ درجۂ حرارت منفی دو سو بیس ۲۲۰؍سے بھی زیادہ ہے۔شائد کہ سطح کے نیچے پانی کے سمندربھی موجزن ہوں۔
اس کی سطح پر ایک نمایاں چیز جو دور سے نظر آرہی تھی، ایک دم ہلکے اور گہرے رنگوں کا اختلاف(کنٹراسٹ)،ایک طرف نہایت ہلکے رنگ سے پان کی شکل بنی ہے،تو دوسری طرف گہرے رنگ میں سب سے بڑی جگہ لئے ہوئے نقشہ ،وہیل مچھلی کی ہیّت کا نظر آرہا ہے۔
یہ گہرے رنگ کے ڈانبر کی قسم کے مرکّبات ہیں جو ممکن ہے کہ سورج کی روشنی کے ساتھ کاربن مونو آکسائیڈ کے ’ری ایکشن ‘ کی بنا پر بن گئے ہیں۔
سب سے حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس مہم نے اس کی تصدیق کردی ہے کہ پلوٹو کا ایک ہوائی کرّہ بھی ہے،جو بہت اونچا ہے،جو تصاویر میں دھند کی طرح مگر تہہ در تہہ نظر آرہی ہے، شائد اس کی وجہ پلوٹو کی بہت کم کششِ ثقل ہے۔مگر اس لئے بھی کہ اس کی سطح پر جو ٹھوس نائیٹروجن ہے وہ بھی تطہیر(سبلیمیٹ) ہو کر مسلسل گیس کی صورت اس کی فضاء میں بلند ہو رہی ہے۔ اس لئے یہ ہوائی کرّہ قائم و دائم ہے،تطہیر کا مطلب ایسا ٹھوس مادّہ جو مائع بنے بغیر براہِ راست گیس بن جا تا ہے اور گیس سے پھر ٹھوس صورت میں ڈھل جا تا ہے،مریخ کے مقابلے اس کی سطح پر ہوا کا دباؤ تین گُنا زیادہ ہے۔
اِس سے بھی عجیب بات ’پلوٹو‘ کا اپنے سب سے بڑے چاند ’کیرون ‘سے رشتہ ہے ؛ ہمارے چاند سے زمین کا رشتہ یک طرفہ ہے، جس کی وجہ سے چاند کا ایک ہی رُخ زمین سے نظر آتا ہے،یعنی صرف چاند زمین کی طرف ’ٹائیڈل لاک‘ ہے چاند کا رُخ ہمیشہ زمین کی طرف رہتا ہے۔ مگر چاند سے زمین گھومتی ہوئی نظر آتی ہے۔ جبکہ’پلوٹو‘ اور’کیرون‘ دو طرفہ رشتے میں بندھے ہوئے ہیں،یعنی کیرون اور پلوٹو دونوںہی دو طرفہ ’ٹائیڈل لاک‘ میں بندھے ہیں، یہ ایک ’جیو سٹلائیٹ‘ کی طرح جس رفتار سے کیرون، پلوٹو کے مدار میں چکّر لگا رہا ہے اُسی رفتار سے پلوٹو بھی اپنے محور پر گھوم رہا ہے۔ ہمارے یک طرفہ رشتے کی بنا پر ہم کو چاند کبھی مشرق میں کبھی مغرب گھومتا دیکھتے ہیں،چاند زمین کے مدار میں ایک چکّر ساڑھے ستائیس دن میں پورا کرتا ہے، زمین اپنے محور پر صرف چوبیس گھنٹے ایک چکّر پورا کرتی ہے، تو یہ چاند سے گھومتی ہوئی نظر آتی ہے۔
لیکن اگر ہم پلوٹو پر کھڑے ہوں تو’کیرون‘ ایک انچ بھی ہلتا ہوا نظر نہیں آئے گا،ہاں! اگر ہم خود حرکت کریں تو وہ بھی مشرق یا مغرب کی طرف جائے گا،جب ہمارے چلنے کی وجہ سے وہ غروب ہو جائے گا تو آدھا پلوٹو کا فاصلہ گھوم کر آنے تک ہم کو چاند نظر ہی نہیں آئے گا،یعنی ایک طرف سے کیرون کبھی نظر ہی نہیں آسکتا! دونوں کی گردش کا ایسا حساب کتاب مقرر کیا گیا ہے،کہ عاشق و معشوق کبھی ایک دوجے کو پیٹ نہیں دکھاتے،اور پلوٹو کی سطح سے کیرون ،جیو سٹلائیٹ کی طرح ایک ہی جگہ کھڑا نظر آتا ہے،اوراسی طرح کیرون کی سطح سے پلوٹو بھی ایک ہی جگہ رُکا ہو نظر آتا ہے۔
اس کی دوسری عجیب بات یہ ہے کہ کیرون اور پلوٹو کا حجم میں ایسا فرق نہیں ہے جیسے نظامِ شمسی کے دوسرے سیّاروں کے چاندوں میں ہے،کیرون پلوٹو سے حجم میں تقریباً آدھا ہے۔
تیسری عجیب بات یہ ہے کہ پلوٹو کا چاند خود اُس اطراف نہیں گھوم رہا بلکہ یہ دونوں مل کر ایک ساتھ خلاء میں ایک خیالی نُکتے کے اطراف گھوم رہے ہیں۔
چوتھی بات یہ ہے کہ یہ دونوں انتہائی قریب ہیں۔
اس چاند کے علاوہ پلوٹو کے اور بھی کئی چاند ہیں،مگریہ بہت چھوٹے،بہت دُور ،بہت تیز رفتار،اور مکمل دائرے میں حرکت کر رہے ہیں۔
کیروں کا رنگ پلوٹو کے مقابلے میں بہت گہرا ہے۔ شائد کہ اس کی ساخت کسی اور مادّے سے بنی ہے،اس کا مطلب شائد کے یہ دونوں الگ الگ جگہ سے آئے اور آپس میں بندھ گئے۔
رہا ’الطما تھول‘ کا معاملہ اس سے ہم ابھی دُور ہیں،اس کے بارے میں ہم ابھی تک صرف اتنا جانتے ہیں کہ یہ زمین سے چار ارب میل دُور’کائیپرپٹّی‘میں ایک نمایاں روشن نکتا ہے اور بس۔ان شاء اللہ جب جنوری ۲۰۱۹ء میں’ نئی اُفق کی ٹیم‘ کا جہاز اس کے قریب سے گزرے گاتو ہم کچھ تفصلات بتانے کے قابل ہوں گے۔
توجہ کیجیئے اوردیکھیئے! یہ سب انسان کے تجسس کا کمال ہے کہ تین چار ارب میل دُور کا بھی کھوج لگا رہاہے،کس لئے؟
اس لئے کہ وہ یہ معلوم کرنا چاہتاہے کہ یہ کائنات کیسے بنی؟اس میں حیات کیوں کر اُگی؟ اور اس کائنات سے انسان کا رشتہ کیا ہے؟
سب سے بڑھ کر وہ یہ جاننا چاہتا ہے کہ یہ سب کیوں تخلیق کیا گیا ہے؟یعنی ہم کیوں پیدا کئے گئے ہیں!!!
٭…٭…٭