قومی شخصیت محفوظ رکھنا ہوگی

300

ثنا نوشیں
معاشرہ کبھی برا نہیں ہوتا برے انسان ہوتے ہیں ۔ معاشرہ تو ہمارا اسلامی ہے بس ایک مسئلہ ہے اس اسلامی معاشرے کے ریپر میں بے دین اور بے صبرے لوگ چھپے ہیں۔ ہماری ذاتی کمزوریاں ہمارے دین پر اثر انداز ہو رہی ہیں جب بھی کسی دین کسی مذہب کو پڑھنا ہو اس مذہب کی کتاب لوگ نہیں کھولتے بلکہ اس مذہب کے پیروکاروں سے مل کر نتیجہ اخذ کر لیتے ہیں۔ایک ہزار سال پہلے البیرونی سال ہاسال تک ہندو معاشرے کے مطالعے کے بعد اس نتیجے پر پہنچا کہ ہندو اور مسلمان ہر معاملے میں ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔
ان کے عقائد اور ہمارے عقائد میں زمین وآسمان کا فرق ہے۔ ہندوئوں کا کٹرپن تمام غیر ہندوئوںپر مرتکز ہے۔ ہندو انہیں ملیچھ یا ناپاک کہتے ہیں۔ ان کے ساتھ ہر قسم کا رابطہ ممنوع قراردیتے ہیں نہ ان کے ساتھ شادی بیاہ کا رشتہ روا رکھتے ہیں نہ ان کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے اور کھانے پینے کے روادار ہیں کیوں کہ ان کا عقیدہ ہے کہ ایسا کرنے سے ان کا دھرم بھر شٹ ہوجائے گا۔ تحریک آزادی ہند کے جدید مورخ آر۔ سی موجمدار تو یہاں تک لکھتے ہیں کہ البیرونی کے الفاظ 1800ء تک قریب قریب بالکل درست تھے۔ ایک عام تاثر ہے ہمیں انگریز سے آزادی چاہیے تھے اس لیے پاکستان بنا نہیں جناب اگر فقط انگریز سے آزادی چاہیے ہوتی تو آج ہم ہندوستان میں ہوتے اصل کہانی تو دو مختلف قوموں کا ایک جگہ اکٹھے رہنا ایک مسلمان کے لیے کسی عظیم اذیت کا باعث تھا اس لیے پاکستان بنا ۔
مگر افسوس آج ہم اس ہندوستان جس سے ہم علیحدہ ہوئے تھے اس کی فلموں ڈراموں پروگراموں کو جدید ٹیکنالوجی کی بدولت اپنے گھروں میں کھینچ لائے ہیں۔ آج جس طرح ہم ہندوستان سے متاثر ہیں دبے الفاظ نہیں نہیں با آواز بلند ہمیں ایک قوم سمجھا جاتا جن کی شادی خوشی غمی عقائدد سوچ سب ایک جیسا ہے۔ آج ہمارے بزرگوں کی قربانیاں رائیگاں جارہی ہیں جس مذہب اور ثقافت سے ہمارے آبائو اجداد ہمیں بہت دور لے آئے۔ ہماری روشن خیالی کہ اس مذہب کو ہم اپنے ڈرائنگ روم اور بیڈ روم تک لے آئے۔ البیرونی ہم شرمندہ ہیں آپ کی بصیرت نے ایک ہزار سال پہلے جو تباہی دیکھی تھی آج ہمارے گھروں میں آ چکی اور ہم ہاتھ پر ہاتھ دھرے اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد میں میں بیٹھے رہ گئے۔البیرونی آپ دیکھ رہے ہو ناں ہمارے مسلمان پوری دنیا میں ایک مذاق بن کر رہ گئے ہیں۔ ہمارے بچوں کو جتنے بھارتی اداکاروں کی ہسٹری پتا ہے اتناتو قرآن نہیں آتا انہیں۔ ہماری بچیاں اسٹیج پر آکر ایک کٹر ہندو کی طرح کتھک رقص کرتی اور سامنے اس کے والدین تالیاں پیٹتے ہیں۔ ہم نے اپنی اصل پہچان کو بھلادیا ہے۔ ہم نے اپنے مذہب سے رخ موڑلیا ہے۔ ہم اقبال کاخواب پورا نہ کرسکے، ہم نے اپنے قائد کی قربانیوں کو بھی فراموش کردیا۔ ہم قیامِ پاکستان کے مقصد کو یکسر فراموش کرچکے ہیں۔ ارے ہم تو وہ لوگ ہیں جو اپنے نبیﷺ کی تعلیمات کو بھی بھلا بیٹھے ہیں۔میرے ہم وطنو!اب کوئی نیا قائد اعظم، علامہ اقبال، البیرونی نہیں آئے گا، ہمیں ان ہی کے الفاظ سے مدد لینی ہو گی اصلاح کے لیے ایک اسلامی ریاست قائم کرنی ہوگی ہمیں اپنے دین کے مطابق زندگی بسر کرنی ہوگی ۔ تب تمام برائیاں مٹ جائیں گی ہمیں خود کو پہچاننا ہوگا۔ پوری دنیا ورطہ حیرت میں غوطہ لگاتی جب دیکھتی ہزاروں سال کی سائنس جو علم حاصل کرتی چودہ سو سال پہلے قرآن پاک وہ علم دے چکا تب وہ مسلمان کو دیکھنے آتے اور ہمیں دیکھ کر ہمارے اعمال اور قرآن پاک کے احکامات میں فرق دیکھ کر وہ حیرت زدہ رہ جاتے ہیں۔ وہ حیران ہوتے ہیں کہ یہ کیسی قوم ہے جس کے پاس نسخہ ٔ کیمیا ہے لیکن یہ اس سے استفادہ نہیں کرتے۔ہمیں وہ ایثار وہ درگزر وہ محبت اور ان تمام تعلیمات کوہمیں اپنانا ہو گا بس ہمیں ایک اسلامی معاشرے کی ضرورت ہے جہاں کسی غیر مسلم روایت کا گزر نہ ہو۔
مارچ 1909ء میں ہندو رہنمامنرو راج امر تسر نے علامہ اقبال کو مہمان خصوصی کی حیثیت سے متحدہ قومیت کے موضوع پر خطاب کرنے کی دعوت دی علامہ اقبال نے ناصرف متحدہ قومیت کے تصور کو مسترد کیا بلکہ مہمان خصوصی بننے سے بھی انکار کردیا۔ آپ نے فرمایا ،’’میں خود اس خیال کا حامی رہ چکا ہوں کہ امتیاز مذہب اس ملک سے اٹھ جانا چاہیے مگر اب میرا خیال ہے کہ قومی تشخص کو برقرار رکھنا ہندو اور مسلمان کے لیے یکساں مفید ہے۔‘‘

حصہ