میرے نبی ﷺ سے میرا رشتہ

2270

کرن وسیم
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’مجھے تمنا ہے کہ میں اپنے بھائیوں سے ملتا‘‘۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا ’’کیا ہم آپ ؐ کے بھائی نہیں ہیں؟‘‘ آپؐ نے ارشاد فرمایا ’’تم تو میرے صحابہؓ ہو اور میرے بھائی وہ لوگ ہیں جو مجھے دیکھے بغیر مجھ پر ایمان لائیں گے۔‘‘(مسند احمد)
اسی موضوع پر ایک اور حدیث پیشِ خدمت ہے۔ حضرت ابو امامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’خوش خبری ہو اُسے جس نے مجھے دیکھا، اور سات بار خوش خبری ہو اُسے جس نے مجھے نہیں دیکھا اور مجھ پر ایمان لایا۔‘‘ (مسند احمد)
کتنے لطیف اور خوش کن انداز میں ذکر کیا ہے میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مستقبل میں آنے والے اپنے امتیوں کا ان احادیث میں کہ ساڑھے چودہ سو سال گزرنے کے بعد بھی عقیدت اور محبت کی یہ ڈور اُمت کے موجودہ اور تاقیامت آنے والے ہر فرد کا روحانی و شعوری رشتہ اپنے عظیم مربی و محسن سے جوڑے رکھتی ہے۔ ہر کلمہ گو کا اپنے نبی پاک سرورِ کائنات محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے جڑا یہ رشتہ ہی تو اسے اللہ کے نزدیک خاص الخاص بنادیتا ہے۔
اندھیری راتوں کی تنہائیوں میں اپنے رب سے سرگوشیوں اور سسکیوں میں بھی ’’امتی، امتی‘‘ کی گردان کرنے والے سے محبت بھرا یہ رشتہ ہی تو ہے جو میرے دل میں دھڑکتا ہے، میرے خون میں گردش کرتا ہے، میری سانسوں میں مہکتا ہے، پھر کبھی محبوبؐ کی یاد میں آنکھوں سے بہتا ہے، کبھی ملنے کی تڑپ پیدا کرتا ہے تو کبھی آنکھوں میں پیاس بن کر محبوب کے دیدار کی تمنا کر بیٹھتا ہے کہ کبھی خواب میں ہی سہی مجھے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا دیدار کرادے مولا! اس دائمی رشتے کی حساسیت ہی تو ہے کہ مسجد نبویؐ میں روضۂ رسولؐ کی سنہری جالیوں کے اُس پار سے وہ شفیق ہستی زخمی دلوں پر اپنی رحمت و شفقت کے پھاہے رکھتی میدانِ عمل میں جمے رہنے کے لیے حوصلہ فراہم کردیتی ہے۔
اللہ رب العزت کے بعد مجھ گناہ گار سے سب سے زیادہ محبت کرنے والا یہی تو رشتہ ہے جس کی محبت اور خلوص نے ساڑھے چودہ سو سال پہلے طائف کی وادیوں میں خون آلود وجود اور رنجیدہ قلب کے ساتھ میرے لیے، ہم سب کے لیے عذاب کے فرشتے کی، سامنے موجودگی کے باوجود دعائے خیر مانگی۔ اہلِ طائف کے ناروا سلوک کے باوجود امید و اخلاص سے بھرپور وہ دعا کہ ان کی آئندہ نسلوں سے باایمان، ہدایت یافتہ افراد اٹھیں، کتنے دوررس مثبت اثرات رکھتی ہے کہ اسی طائف کی وادی کا نوجوان محمد بن قاسمؒ برصغیر میں اسلامی تہذیب کے آغاز کا باعث بن گیا۔ میرے محبوب نبیؐ کی وہ دعا میرے اور اس خطے میں تاقیامت آنے والے ہر ذی شعور مسلم کے لیے کیسی بارآور ثابت ہوئی۔
میں کیسے بیان کروں کہ میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے میرے اس لازوال رشتے کی کیا اہمیت ہے۔ قلبی کیفیات کو تحریر کرنا بہت کٹھن معاملہ ہے، میں تو ایمان و اخلاص کی انتہائی پست حالت میں ہوں، مجھ بے عمل کی اوقات سے ماورا ہے کہ میں اس رشتے اور نسبت کا کبھی حق ادا کرسکوں۔

میں فقط خاک ہوں پر محمدؐ سے ہے نسبت میری
یہ ایک رشتہ ہے جو میری اوقات بدل دیتا ہے

مجھے شاہِ لولاکؐ اپنے ماں باپ، اولاد اور ہر شے، ہر رشتے سے بڑھ کر عزیز ہیں۔ بس یہی میری متاعِ کُل ہے، مجھے تو یہ احساس ہی سیر نہیں ہونے دیتا کہ میرے رب نے مجھے خاتم النبیین ؐ کا امتی بنایا جس کی دعائیں اور گریہ و زاری دنیاوی فتنوں سے لے کر روزِ محشر کی ہوش ربا حاضری تک اپنی امت کی کفایت کرتی ہیں۔
اے میرے رب! تُو میدانِ حشر میں ہم سب کو پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت نصیب کرنا، ہم سے اس دنیاوی زندگی میں حُبِّ الٰہی اور حُبِّ رسولؐ کے تقاضے پورے کروا، پیارے نبیؐ آخری ادوار کے امتیوں کے لیے جو خوش خبری دے گئے ہیں ہمیں ان کا مستحق بنادے۔ بے شک نیک عمل کرنے اور بدعملی سے بچنے کی توفیق تیری ہی طرف سے ہے۔آمین یارب العالمین۔

حصہ