اللہ کی یاد

1022

سید مہرالدین افضل
سورۃ الاعراف کے مضامین کا خلاصہ
59واں اور آخری حصہ
(تفصیلات کے لیے دیکھیے، سورۃ الاعراف آیت 203 تا 206 حاشیہ نمبر:151، 152، 153، 154، 155، 156،157)
کفار حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے طعنہ دینے کے انداز میں کہتے تھے کہ ’’تم نے اپنے لیے کوئی نشانی کیوں نہ انتخاب کرلی؟‘‘ یہ اُس وقت کے لوگوں کا پاپولر مطالبہ تھا۔ اس کا مقصد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مذاق اڑانا بھی تھا… اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دعویٰ نبوت کو جھٹلانا بھی تھا کہ جس طرح تم نے نبوت حاصل کی ہے، کوئی معجزہ بھی حاصل کرلو… یا جیسے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کررہے ہو، کوئی جھوٹا موٹا معجزہ بھی بنالو۔ اس طرح کا مطالبہ کرنے والوں کا مقصد یہ نہیں ہوتا کہ اگر ہمارا مطالبہ پورا ہوگیا، اور ہمارا شک دور ہوگیا تو ہم ایمان لے آئیں گے۔ بلکہ یہ دبائو داعی کو سیدھے راستے سے ہٹانے کے لیے ہوتا ہے۔ اِس کا جواب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دیا کہ: میرا منصب یہ نہیں ہے کہ پبلک ڈیمانڈ کے مطابق کوئی چیز تیار کروں… میں اللہ کا رسول ہوں اور اللہ کی ہدایت کا پابند ہوں۔ اللہ نے مجھے قرآن دیا ہے جس میں وہ نورِ بصیرت ہے جو انسان کا وژن بڑا کرتا ہے… اور دور تک دیکھنے، اور اس مختصر زندگی کے بعد آنے والی زندگی کو دیکھنے کی صلاحیت پیدا کرتا ہے۔ اس کے نتیجے کے طور پر ہر آنکھوں والا یہ دیکھ سکتا ہے کہ جو لوگ اِس کو مان لیتے ہیں ان کو زندگی کا سیدھا راستہ مل جاتا ہے… اور ان کے اخلاق و کردار میں اللہ کی رحمت کے آثار صاف نظر آنے لگتے ہیں۔ تم لوگ صرف تعصب اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے قرآن کی آواز سنتے ہی کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیتے ہو… اور شور مچاتے ہو… تاکہ نہ خود سنو اور نہ کوئی دوسرا سن سکے۔ تم ذرا خاموش ہوکر اِسے غور سے سنو تو سہی کہ اس میں تعلیم کیا دی گئی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ اس کی تعلیم سے واقف ہوجانے کے بعد تم خود بھی اُسی رحمت کے حصہ دار بن جاؤ جو ایمان لانے والوں کو نصیب ہوچکی ہے۔ مخالفین کی زہر بھری بات کے جواب میں یہ میٹھا بول دلوں کو فتح کرنے والا ہے… اس انداز کی تعریف کرنے کا حق زبان و قلم ادا نہیں کرسکتے… جو بھی تبلیغ کی حکمت سیکھنا چاہتا ہو وہ اگر غور کرے تو اس جواب میں بڑے سبق پاسکتا ہے۔
توجہ سے سنو اور خاموش رہو:
’’جب قرآن تمہارے سامنے پڑھا جائے تو اسے توجہ سے سُنو اور خاموش رہو، شاید کہ تم پر بھی رحمت ہوجائے۔‘‘
اس آیت کا اصل مقصد تو یہی ہے کہ توہینِ قرآن و رسالت کرنے والوں کو قرآن کی طرف متوجہ کیا جائے… اور اہلِ ایمان کے سیرت و کردار کو اس کی صداقت کی دلیل کے طور پر پیش کیا جائے۔ لیکن اہلِ ایمان کے لیے اس سے یہ حکم بھی نکلتا ہے کہ جب خدا کا کلام پڑھا جا رہا ہو تو لوگوں کو ادب سے خاموش ہوجانا چاہیے، اور توجہ کے ساتھ اسے سننا چاہیے۔ اسی سے یہ بات بھی نکلی ہے کہ امام جب نماز میں قرآن کی تلاوت کررہا ہو تو اس کے پیچھے نمازیوں کو خاموشی سے سننا چاہیے۔ لیکن اس مسئلے میں فقہ کے اماموں کے درمیان اختلاف ہے۔ امام ابوحنیفہؒ اور ان کے ساتھیوں کا مسلک یہ ہے کہ قرأت بلند آواز سے ہو یا بغیر آواز کے، نمازیوں کو خاموش ہی رہنا چاہیے۔ امام مالکؒ اور امام احمدؒ کی رائے یہ ہے کہ صرف بلند آواز سے قرأت ہو تو نمازیوں کو خاموش رہنا چاہیے۔ لیکن امام شافعیؒ کی رائے یہ ہے کہ دونوں صورتوں میں نمازیوں کو خود بھی قرأت کرنی چاہیے…کیونکہ بعض احادیث کی بنا پر وہ سمجھتے ہیں کہ جو شخص نماز میں سورہ فاتحہ نہ پڑھے اس کی نماز نہیں ہوتی۔
اللہ کی یاد:
’’اے نبیؐ، اپنے ربّ کو صبح و شام یاد کیا کرو… دل ہی دل میں زاری اور خوف کے ساتھ… اور زبان سے بھی ہلکی آواز کے ساتھ۔ تم اُن لوگوں میں نہ ہوجائو جو غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔‘‘
یاد کرنے سے مراد نماز بھی ہے اور دوسری قسم کی یاد بھی… چاہے وہ زبان سے ہو یا خیال سے۔ صبح و شام سے مراد یہی دونوں وقت بھی ہیں… اور اِن اوقات میں اللہ کی یاد سے مقصود نماز ہے… اور صبح و شام کا لفظ ’’ہر وقت‘‘ کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے… اور اس سے مقصود ہمیشہ خدا کی یاد میں مشغول رہنا ہے۔ یہ آخری نصیحت ہے جو سورہ کو ختم کرتے ہوئے اِرشاد فرمائی گئی ہے، اور اس کی غرض یہ بیان کی گئی ہے کہ… تمہارا حال کہیں غافلوں جیسا نہ ہوجائے۔ دُنیا میں جو کچھ گمراہی پھیلی ہے اور انسان کے اخلاق و اعمال میں جو خرابی پیدا ہوئی ہے، اس کی وجہ صرف اور صرف یہ ہے کہ انسان اس بات کو بھول جاتا ہے کہ… اس کا رب اللہ ہے اور وہ اللہ کا بندہ ہے… اور دنیا میں اُس کو آزمائش کے لیے بھیجا گیا ہے… اور دنیا کی زندگی ختم ہونے کے بعد اسے اپنے رب کو حساب دینا ہوگا۔ اس حقیقت کو تسلیم کرنے کے بعد… جو شخص سیدھے راستے پر چلنا اور دنیا کو سیدھا راستہ دکھانا اور اُس پر چلانا چاہتا ہو… اُس کو بہت زیادہ خیال کرنا چاہیے کہ کہیں وہ خود نہ بھول جائے کہ اللہ ہے، اور مجھے اللہ کے پاس جانا ہے… اِسی لیے نماز اور ذکر الٰہی، اور اللہ کی طرف مستقل توجہ کی بار بار تاکید کی گئی ہے۔ ارشاد ہوا: ’’جو فرشتے تمہارے ربّ کے حضور تقرب کا مقام رکھتے ہیں وہ کبھی اپنی بڑائی کے گھمنڈ میں آکر اُس کی عبادت سے منہ نہیں موڑتے، اور اُس کی تسبیح کرتے ہیں‘‘۔ مطلب یہ ہے کہ بڑائی کا گھمنڈ اور بندگی سے منہ موڑنا شیاطین کا کام ہے… اور اس کا نتیجہ اپنے مرتبے اور مقام سے نیچے گرنا ہے ۔ جب کہ اللہ کے آگے جھکنا اور بندگی میں ثابت قدم رہنا فرشتوں کا عمل ہے اور اس کا نتیجہ ترقی و بلندی اور اللہ سے قربت ہے۔ اگر تم اس ترقی کے خواہش مند ہو تو اپنے طرزِعمل کو شیاطین کے بجائے ملائکہ کے طرزِعمل کے مطابق بناؤ… جو اللہ کی تسبیح کرتے ہیں، یعنی وہ اللہ تعالیٰ کا بے عیب اور بے نقص اور بے خطا ہونا… ہر قسم کی کمزوریوں سے اس کا منزہ ہونا… اور اس کا لاشریک اور بے مثل اور ہمتا ہونا… دل سے مانتے ہیں۔ اس کا اقرار و اعتراف کرتے ہیں اور ہر وقت اس کے اِظہار و اعلان میں مشعول رہتے ہیں۔
آیاتِ سجدہ
اس مقام پر حکم ہے کہ جو شخص اس آیت کو پڑھے یا سنے وہ سجدہ کرے… تاکہ اس کا حال ملائکہ مقربین کے حال سے مطابق ہوجائے… اور ساری کائنات کا انتظام چلانے والے کارکن جس خدا کے آگے جھکے ہوئے ہیں… اسی کے آگے وہ بھی ان سب کے ساتھ جھک جائے… اور اپنے عمل سے فوراً یہ ثابت کردے کہ وہ نہ تو کسی گھمنڈ میں مبتلا ہے اور نہ خدا کی بندگی سے منہ موڑنے والا ہے۔
قرآن مجید میں ایسے 14 مقامات ہیں جہاں آیاتِ سجدہ آئی ہیں۔ اِن آیات پر سجدہ کرنے پر سب کا اتفاق ہے… لیکن اس کے واجب ہونے میں اختلاف ہے۔ امام ابوحنیفہؒ سجدہ تلاوت کو واجب کہتے ہیں… اور دوسرے علماء نے اس کو سنت قرار دیا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کبھی ایک بڑے مجمع میں قرآن پڑھتے… اور اس میں جب آیت سجدہ آتی تو آپؐ خود بھی سجدے میں گر جاتے تھے… اور جو شخص جہاں ہوتا وہیں سجدہ ریز ہوجاتا تھا۔ یہاں تک کہ کسی کو سجدہ کرنے کے لیے جگہ نہ ملتی تو وہ اپنے آگے والے شخص کی پیٹھ پر سر رکھ دیتا۔ یہ بھی روایات میں آیا ہے کہ آپؐ نے فتح مکہ کے موقع پر قرآن پڑھا اور اس میں جب آیت سجدہ آئی تو جو لوگ زمین پرکھڑے تھے انہوں نے زمین پر سجدہ کیا… اور جو گھوڑوں اور اونٹوں پر سوار تھے وہ اپنی سواریوں پر ہی جھک گئے۔ کبھی آپؐ نے دورانِ خطبہ میں آیت سجدہ پڑھی ہے تو منبر سے اتر کر سجدہ کیا ہے… اور پھر اوپر جاکر خطبہ شروع کردیا ہے۔ اس سجدہ کے لیے اکثریت اُنہی شرائط کی قائل ہیں جو نماز کی شرطیں ہیں… یعنی باوضو ہونا، قبلہ رُخ ہونا، اور نماز کی طرح سجدے میں سر زمین پر رکھنا… لیکن جتنی احادیث ’’سجدہ تلاوۃ‘‘ کے باب میں ہم کو ملی ہیں… اُن میں کہیں اِن شرطوں کے لیے کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔ اُن سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ آیت سجدہ سن کر جو شخص جہاں جس حال میں ہو جھک جائے… چاہے باوضو ہو یا نہ ہو… قبلہ کی طرف رخ کرنا ممکن ہو یا نہ ہو… زمین پر سر رکھنے کا موقع ہو یا نہ ہو۔ امام بخاری نے حضرت عبداللہ بن عمرؓ کے متعلق لکھا ہے کہ وہ وضو کے بغیر سجدہ تلاوت کرتے تھے۔ اور ابو عبدالرحمن سُلّمی کے متعلق فتح الباری میں لکھا ہے کہ وہ راستہ چلتے ہوئے قرآن مجید پڑھتے جاتے تھے اور اگر کہیں آیت سجدہ آجاتی تو بس سر جھکا لیتے تھے چاہے وضو سے ہوں یا نہ ہوں، اور قبلہ رُخ ہوں یا نہ ہوں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ سجدہ تلاوت میں عام طور پر جو احتیاط کی جاتی ہے وہی بہتر ہے… لیکن اگر کوئی شخص ایسا نہ کرے تو اُسے برا نہیں کہنا چاہیے ۔
اللہ سبحانہٗ وتعالیٰ ہم سب کو اپنے دین کا صحیح فہم بخشے، اور اُس فہم کے مطابق دین کے سارے تقاضے اور مطالبے پورے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
وآخر دعوانا ان لحمد للہ رب العالمین۔

حصہ