کراچی پبلک ٹرانسپورٹ کا نظام کب بہتر ہوگا؟۔

746

محمد انور
ملک کے سب سے بڑے شہر میں پبلک ٹرانسپورٹ کا مسئلہ کب حل ہوگا، یہ کون کرے گا اور کیسے ہوگا؟ یہ وہ سوالات ہیں جو 1460 مربع میل رقبے پر پھیلے ہوئے اس شہر کے ہر باسی کی زبان پر ہوتے ہیں۔ اگرچہ پبلک ٹرانسپورٹ غریب اور متوسط طبقے کی ضرورت ہے، لیکن اس کی عدم دستیابی کے نتیجے میں وہ بھی پریشان ہوتے ہیں جو صاحبِ ثروت ہیں اور جن کی اپنی گاڑیاں ہیں۔ شہر کے بس اسٹاپس پر صبح اور شام کے اوقات میں بسوں اور منی بسوں کے منتظر مجبور مسافروں کے رش سے ٹرانسپورٹ کے ناقص نظام کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ جبکہ گاڑیوں میں مسافروں کے چھتوں پر بھی مجبوراً بیٹھ کر سفر کرنے سے بسوں کی قلت واضح ہوجاتی ہے، مگر اس کے سدباب کے لیے حکومت کچھ بھی کرتی ہوئی نظر نہیں آتی۔ صوبائی حکومت کی عدم دلچسپی کا اندازہ تو اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ ان دنوں سندھ میں کوئی صوبائی وزیر ٹرانسپورٹ ہی نہیں ہے، اس محکمے کا قلمدان وزیراعلیٰ مراد علی شاہ نے اپنے پاس ہی رکھا ہوا ہے۔ لوگوں کو امید ہے کہ وہ اس بارے میں جلد اہم فیصلے کریں گے۔ تاہم فی الحال شہر کے ٹرانسپورٹ سیکٹر میں ان دنوں پرائیویٹ ٹرانسپورٹرز کا راج ہے۔ یا یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان ہی کی وجہ سے شہریوں کو سفر کی سہولیات مل رہی ہیں۔ پبلک سیکٹر یعنی سرکاری شعبے میں ان دنوں صرف ایک روٹ پر بسیں چلتی ہیں جو صدر سے براستہ شاہراہ فیصل اسٹیل ٹائون تک ہے۔ اس روٹ پر چلنے والی بسوں کی کُل تعداد 10 ہے جو ’’اونٹ کے منہ میں زیرہ‘‘ کے مترادف ہے ۔
کراچی میں آبادی کے لحاظ سے کم ازکم 25 ہزار بڑی اور 5 ہزار چھوٹی بسوں کی ضرورت ہے۔ ویسے یہاں کے ٹرانسپورٹ کے مسائل کا حل بڑی بسیں ہی ہیں، اس لیے کم ازکم 15 ہزار بڑی 75 سیٹر بسوں کا فوری اضافہ کیا جانا ضروری ہے۔
شہر کی یہ بھی بدقسمتی ہے کہ اس کی کُل آبادی کسی طور پر بھی ڈھائی کروڑ سے کم نہیں مگر گزشتہ متنازع مردم شماری میں یہاں کی آبادی ایک کروڑ 49 لاکھ 10 ہزار ظاہر کی گئی ہے، جسے کوئی بھی ماننے کے لیے تیار نہیں ہے۔
ویسے تو کراچی آبادی کے لحاظ سے دنیا کے دس بڑے شہروں میں چھٹے نمبر پر ہے، لیکن یہ دنیا کا شاید واحد بڑا شہر ہے جہاں پبلک ٹرانسپورٹ کا فقدان ہے۔ یہ شہر انٹرنیشنل سٹی ہونے کے ساتھ غریب پرور بھی ہے جہاں اب تک تانگہ (گھوڑا گاڑی) بھی صدر کے علاقے میں چلا کرتا ہے۔ جبکہ چنگ چی رکشے بھی چل رہے ہیں۔ دنیا کے ہر بڑے شہر کی طرح یہاں بھی بڑی بسیں ناگزیر ہیں۔ افسوس کی بات تو یہ ہے کہ صوبائی حکومت بڑی بسوں کے لیے دلچسپی لیتی ہوئی نظر نہیں آتی، جس کی وجہ سے اس ٹرانسپورٹ کا 95 فیصد دار و مدار نجی ٹرانسپورٹرز پر ہے۔ نجی ٹرانسپورٹرز بھی کوچز اور منی بسوں کو چلانے میں زیادہ متحرک نظر آتے ہیں تاکہ کم خرچے میں زیادہ منافع کمایا جاسکے۔
سرکاری شعبے میں کراچی ٹرانسپورٹ کارپوریشن (کے ٹی سی) آخری بس سروس ہوا کرتی تھی جسے 1998ء میں بند کردیا گیا تھا۔ اس کے بعد سے اب تک کوئی بھی روڈ ٹرانسپورٹ کا ادارہ صوبائی حکومت کی نگرانی میں دوبارہ قائم نہ ہوسکا۔ البتہ 2001ء میں سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کراچی کے پہلے ناظم اور سابق امیر جماعت اسلامی کراچی نعمت اللہ خاں ایڈووکیٹ نے کراچی اربن ٹرانسپورٹ بس سروس شروع کی تھی۔ یہ بسیں شہر کے تقریباً ایک درجن روٹس پر چلا کرتی تھیں، لیکن نعمت اللہ خان کی نظامت کا دور ختم ہوا اور مصطفی کمال ناظم بنے تو یہ بسیں مختلف روٹس سے غائب ہونا شروع ہوگئیں۔ اب بھی 60 بسیں خراب حالت میں اورنگی بس ٹرمینل میں کھڑی ہیں، مگر موجودہ میئر کراچی وسیم اختر بسوں کو درست کرانے پر کوئی توجہ نہیں دے رہے۔ البتہ معلوم ہوا ہے کہ جامعہ کراچی اور کراچی میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج کو ان ہی بسوں میں سے چار بسیں مرمت کرکے بطور عطیہ دی دی گئی ہیں۔
وفاقی حکومت نے 2014ء میں کراچی کے ٹرانسپورٹ نظام کی بہتری کے لیے 16 ارب روپے کی لاگت سے گرین لائن بس ریپڈ ٹرانزٹ کا منصوبہ بنایا۔ اس منصوبے کی تعمیر کا باقاعدہ افتتاح 2016ء میں ہوا، مگر تاحال یہ مکمل نہ ہوسکا۔ اس پروجیکٹ کے لیے سو بسیں سندھ حکومت کو خریدنی ہے تاکہ منصوبے کے مطابق روزانہ 3 لاکھ افراد سفر کی سہولت حاصل کرسکیں، لیکن تاحال صوبائی حکومت کسی ادارے سے بسیں خریدنے کا معاہدہ تک نہیں کرسکی، جس کی وجہ سے شہریوں میں تشویش پائی جاتی ہے۔ سندھ حکومت نے اورنج لائن کے منصوبے کے لیے کنکریٹ کا کام تو کسی حد تک مکمل کرلیا ہے، لیکن وفاقی حکومت کی جانب سے یہ کام بھی ابھی 20 فیصد باقی ہے۔ گرین لائن بس سروس جو سخی حسن تا نمائش چورنگی چلنا ہے اس کا افتتاح دسمبر 2018ء تک ہوجانا چاہیے، مگر خدشہ ہے کہ آئندہ سال جون تک بھی یہ سروس شروع نہیں ہوسکے گی۔

کراچی ٹرانسپورٹ اتحاد کے سربراہ ارشاد بخاری کا مؤقف

کراچی کے ٹرانسپورٹ نظام سے منسلک مشہور شخصیت اور کراچی ٹرانسپورٹ اتحاد کے سرپرستِ اعلیٰ ارشاد بخاری کا کہنا ہے کہ کراچی میں ٹرانسپورٹ کی بہتری کے لیے فوری طور پر کم ازکم 25 ہزار بسوں کی ضرورت ہے، مگر ان دنوں صرف 8 ہزار بسیں مختلف روٹس پر نجی شعبہ بمشکل چلا پارہا ہے۔ ان بسوں میں صرف 2 ہزار بڑی بسیں ہیں۔ یہ بھی بھی 1960ء اور 1970ء کی ماڈل کی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر حکومت نجی ٹرانسپورٹرز کو سہولیات اور آسان شرائط پر قرضے فراہم کرے تو ٹرانسپورٹرز بڑی بسیں چلانے پر تیار ہیں۔

چین کی کمپنی کی پیشکش مسترد

چند ماہ قبل چین کی ایک فرم نے کراچی میں چھ سو ایکو الیکٹرو بسیں چلانے کی مشروط پیشکش کی تھی۔ چین کی کمپنی کی شرط یہ تھی کہ وہ خود اگر مختلف روٹس پر بسیں چلائے گی تو شہر میں چلنے والی دیگر بسوں کے روٹ پرمٹ ختم کرنے ہوں گے۔ یہ شرط صوبائی حکومت نے ابتدائی مراحل ہی میں ماننے سے انکار کردیا جس کے نتیجے میں مذکورہ فرم کو مایوس لوٹنا پڑا۔ اس طرح شہر میں ٹرانسپورٹ سیکٹر میں فوری بہتری کے امکانات ختم ہوگئے۔

حصہ