سیکولر جناح؟

757

احمد سعید
قائداعظم محمد علی جناحؒ نے دْنیا کے نقشے پر ایک نئی مملکت قائم کر کے جو کرشمہ کر دکھایا ان کے مخالفین ابھی تک اس صدمے سے نڈھال ہیں۔ کبھی وہ ابوالکلام آزاد کے اس قول کا سہارا لیتے ہیں کہ: ’’پاکستان صرف چند برسوں کے لیے معرضِ وجود میں آیا ہے‘‘، کبھی پاکستان کی بنیادوں پر کلہاڑی چلاتے ہوئے کہتے ہیں کہ: ’’مذہب کی بنیاد پر قائم ہونے والا ملک زیادہ دیر تک قائم نہیں رہ سکتا‘‘۔ معاندین قائداعظم کی ذاتی زندگی پر بے بنیاد الزامات عائد کرنے سے بھی نہیں چْوکتے۔ ان پر ہندستان کی ’’وحدت پر کلہاڑی چلانے‘‘ کا الزام عائد کیا جاتا ہے۔ ایک صاحب کچھ عرصے سے انھیں ’سیکولر‘ ثابت کرنے کی ناکام سعی میں مصروف ہیں۔
اگر آ پ کوئی بھی لغت اْٹھا کر دیکھیں تو آپ کو ’سیکولر‘ کے پانچ معنی نظر آئیں گے:
-1 عمر میں ایک دفعہ آنے والا۔
-2 صدیوں رہنے والا دوامی جیسے ’چرچ‘ اور ’سٹیٹ‘ کے درمیان مخاصمت۔
-3 دْنیوی و دْنیاوی ، غیر مذہبی اور غیر دینی۔
-4 متشکک، دینی صداقت میں شک کرنے والا یا دینی تعلیم کا مخالف۔
-5 دْنیا دار پادری، متاہلِ پادری، گر ہست پادری۔
ان معنوں میں سے پہلے دو کا اطلاق تو کسی بھی صورت قائداعظم پر نہیں ہوسکتا۔یورپ میں چرچ اور اسٹیٹ میں مغائرت کا جو تصور ہے وہ اسلام پر منطبق نہیں کیا جاسکتا کیوں کہ اسلام میں چرچ اور اسٹیٹ کی علیحدگی کا کوئی تصور موجود نہیں۔ یورپ میں اس تصور کی ضرورت یوں پیش آئی کہ چوں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی کُل زندگی کا صرف 35 سالہ دور محفوظ ہے، اس لیے ان کے لیے ممکن نہیں کہ وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زندگی کے تمام پہلوئوں کو بطور نمونہ پیش کرسکیں، جب کہ احادیث کے ذریعے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے تمام پہلوئوں کا ایک ایسا بھرپور نقشہ سامنے آتا ہے، جس میں تمام مسلمانوں کے لیے ہدایت کا پیغام موجود ہے۔ صبح سے شام تک زندگی گزارنے کا عمل، پیدایش سے موت تک کے سفر کے لیے ہدایات، ناخن کاٹنے، بیت الخلا جانے، غسل کرنے، کاروبار کرنے، اولاد کی پرورش، جنگ کرنے، صلح کرنے، معاہدہ کرنے، حکومت کرنے، گھر چلانے، غرض زندگی کا کوئی ایسا پہلونہیں جس کے بارے میں کوئی ہدایت نہ ملتی ہو اور جس پر آپؐ کی رہنمائی نظر نہ آتی ہو، لہٰذا اسلام میں چرچ اور اسٹیٹ ایک ہی ہیں اور ان میں مخاصمت کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
قائداعظم کو سیکولر ثابت کرنے کے لیے معاندین اور دوست نما دشمن مختلف ہتھیار استعمال کرتے ہیں۔ ایک دور میں یہ کہا جاتا رہا کہ ان کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں، نہ تو انھیں نماز آتی ہے اور نہ وہ نماز پڑھتے ہیں۔ دل چسپ بات یہ ہے کہ یہ الزام لگانے والوں میں آل انڈیا مسلم لیگ کے ایک نام نہاد ’’ستون‘‘ سرسکندر حیات بھی شامل تھے۔ ملک برکت علی نے 21جولائی1941ء کو قائداعظم کو لکھا تھا کہ سر سکندر حیات نے لائل پور (فیصل آباد) میں تقریرکرتے ہوئے کہا ہے کہ: میں گناہ گار ہوسکتا ہوں، لیکن باقاعدگی کے ساتھ نماز پڑھتا ہوں، جب کہ آپ کے قائداعظم دن میں ایک بھی نماز نہیں پڑھتے۔(رضوان احمد، Quaid-i-Azam Papers, 1941، کراچی، 1976ء، ص64)
قائداعظم کی زندگی کے اس پہلو پر کوئی خاص کام نہیں ہوا، اس لیے اخبارات میں شائع شدہ خبروں سے اس بے بنیاد الزام کا جائزہ لیتے ہیں:
قائداعظم نے 1935ئمیں عیدالفطر کی نماز بمبئی کی کرکٹ گرائونڈ میں ادا کی تھی۔ اس موقعے پر ہندستان میں افغانستان کے سفیر مارشل شاہ ولی بھی موجود تھے۔(رحیم بخش شاہین، نقوشِ قائداعظم ، لاہور،1976ء ، ص 76)
یکم مئی 1936ء کو قائداعظم نے بادشاہی مسجد لاہور میں نمازِ جمعہ ادا کی۔ ہنگری کے مفتیِ اعظم علّامہ آفندی نے بھی ان کی ہمراہی میں نماز ادا کی۔ (گفتارِ قائداعظم، (مرتبہ: احمد سعید)1976ء ، ص151 بحوالہ انقلاب ، 3مئی1936)
3نومبر1940 کو آزاد میدان پارک بمبئی میں نمازِ عید کے بعد مسلمانوں سے خطاب کیا تھا۔(ایضاً، ص251)
3مارچ 1941ء کو آسٹریلیشا مسجد، لاہور میں نمازِ عصر ادا کی تھی۔ اس موقع پر آپ نے چوڑی دار پاجامہ اور اچکن زیب ِ تن کر رکھی تھی۔ چوں کہ مسجد میں تاخیر سے پہنچے تھے اس لیے صفیں پھلانگ کر آگے جانے کی بجاے پچھلی صف میں آبیٹھے تھے۔ نماز سے فراغت کے بعد اپنے جوتے خود اُٹھائے تھے۔
29دسمبر1941ء کو آپ نے عیدالاضحی ناگ پور میں ادا کی تھی۔ اس موقعے پر خطبے اور دْعا کے بعد لوگ آپ سے مصافحہ کے لیے بے چین تھے۔ آپ مائیک پر تشریف لائے اور سب کو عیدمبارک کہہ کر نہایت شگفتہ انداز میں کہا کہ: ’’اگر آپ سب لوگ میرے ساتھ ہاتھ ملائیں تو میرا ہاتھ یہیں رہ جائے گا۔‘‘(نواب صدیق علی خان، بے تیغ سپاہی، کراچی، 1971 ، ص 428)
آل انڈیا مسلم لیگ کے کراچی اجلاس (1934ء ) کے موقع پر قائداعظم نے نمازِجمعہ سندھ مدرسۃ الاسلام کی مسجد میں ادا کی تھی۔(صادق قصوری، تحریکِ پاکستان اور مشائخِ عظام، لاہور، ص 22-36)
30نومبر1944ئکو نئی دہلی میں نمازِ عید ادا کی اور اس موقع پر مسلمانوں سے خطاب بھی کیا۔ اسی طرح5نومبر 1945کو نماز عیدالاضحی کے بعد مسلمانانِ بمبئی سے خطاب کیا تھا۔ دسمبر1946 میں قائداعظم لندن تشریف لے گئے تھے۔ اس موقعے پر ممتاز حسن بھی ان کے ہمراہ تھے۔ ممتاز حسن نے اس سفر کا حال بیان کرتے ہوئے لکھا ہے کہ: لندن میں قائداعظم نے اس مسجد میں نماز پڑھنے کے لیے جانا پسند کیا جہاں عام مسلمان نماز پڑھتے ہوں۔ چنانچہ آپ نے ایسٹ اینڈ کی مسجد میں، جو غریب مسلمانوں کی آباد کی ہوئی تھی ، نماز ادا کی۔ قائداعظم کی آمد پر خطبہ ہو رہا تھا تو کچھ لوگ کھڑے ہوگئے۔ اس پر آپ نے آگے بڑھنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ: ’میں دیر سے آیا ہوں اس لیے مجھے جہاں جگہ ملی ہے وہی میرے لیے مناسب ہے‘۔(سہ ماہی صحیفہ ، ’قائداعظم نمبر‘لاہور، 1976 ، ص 64)
یہاں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث کا تذکرہ بے جا نہ ہوگا، جس میں آپؐ نے لوگوں کے سروں کو پھلانگتے ہوئے آگے صف میں جانے سے منع فرمایا تھا۔ زیڈ اے سلہری بھی اس موقع پر قائداعظم کے ساتھ نماز پڑھ رہے تھے۔ ان کی روایت ہے کہ قائداعظم آخری صف میں بیٹھے بڑے روایتی انداز میں خطبہ پوری توجہ سے سن رہے تھے۔ میں نماز میں ان کے ساتھ ہی کھڑا تھا۔ ایک شخص نے نماز کے بعد ان کے جوتوں کے تسمے باندھنے چاہے مگر آپ نے اسے ایسا نہ کرنے دیا۔
12جولائی 1946کو قائداعظم نے حیدرآباد دکن کی مسجد میں نمازِ جمعہ ادا کی تھی۔
اسلامیہ کالج لاہور میں پنجاب مسلم سٹودنٹس فیڈریشن کے ایک جلسے میں علامہ مشرقی کے اذان دینے کا واقعہ تو13جنوری1946 کی بات ہے جب قائداعظم نے دن بارہ بجے اذان سنی تو کہا کہ یہ تو نماز کا کوئی وقت نہیں۔ ظاہر ہے کہ ایک شخص نماز نہیں پڑھتا، اس کو یہ کیسے معلوم ہوگیا کہ کون سی نماز کس وقت پڑھی جاتی ہے؟(بیدار ملک، یارانِ مکتب، جلد دوم، پاکستان سٹڈی سنٹر، لاہور،1992، ص42-43)
سیکولر کا تیسرا معنی، یعنی دْنیوی، دْنیاوی، غیر مذہبی اور غیردینی۔ آیئے اس کو قائداعظم پر منطبق کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر قائداعظم کی ابتدائی زندگی پر ایک غائر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ معاندین کے دعویٰ کے برعکس ایک مذہبی اور دینی ذہن رکھنے والے انسان تھے۔
بمبئی پریذیڈنسی سے شائع ہونے والے ایک اخبار بمبے گزٹ نے اپنی 13اگست 1897ء کی اشاعت میں شہر کی مشہور و معروف سماجی تنظیم انجمن اسلام کے زیرِاہتمام 12اگست 1897ء بروز جمعرات منعقدہ ایک محفلِ میلاد کی تفصیل دی ہے۔ انجمن اسلام کی عمارت میں محمد جعفری کی تحریک اور نواب محسن الملک کی زیرصدارت یہ جلسہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یومِ ولادت منانے کے سلسلے میں منعقد ہوا تھا اور اس میں ہرطبقے کے مسلمان مغل، عرب، میمن اور بوہرے شریک ہوئے تھے۔ نواب محسن الملک نے اپنی صدارتی تقریر میں اسلام نے مسلمانوں پر جو فرائض عائد کیے ان کا ذکر کیا اور مسلمانوں سے کہا کہ وہ اپنی زندگیاں احکامِ اسلام کے مطابق پرہیزگاری، تقویٰ و طہارت اور راست بازی سے بسر کریں۔ صدارتی تقریر سے قبل سامعین نے بھرپور توجہ اور دھیان سے مولود شریف سنا۔ اس مولود شریف میں21سالہ ’سیکولر‘ جناح بھی موجود تھے۔(ریاض احمد (مرتب): The Works of Quaid-i-Azam Mohammad Ali Jinnah، جلد۱، اسلام آباد،1996 ، ص 4)
تقریباً چار سال بعد انجمن ِ اسلام نے30جون1901ء بروز اتوار کو اپنے اسکول کے ہال میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یومِ ولادت منایا جس میں چار سو کے قریب مسلمانوں نے شرکت کی تھی۔ مرزا علی محمد خان نے اپنی صدارتی تقریر میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی اور تعلیمات کا بھرپور احاطہ کیا اور آپؐ کے کردار کی سادگی، عالی حوصلگی، عالی ظرفی، شرافت و نجابت کا ذکر کیا۔ اس تقریب میں بھی ’سیکولر‘جناح موجود تھا۔(ایضاً، ص 68-67)
32سال بعد ۷دسمبر1933ء بروز بدھ لندن کے میٹروپول ہوٹل میں مسلم سوسائٹی برطانیہ نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے سر اکبر حیدری کی زیرِ صدارت ایک تقریب کا اہتمام کیا تھا۔ اس تقریب میں علامہ اقبال، عباس علی بیگ، لارڈ ہیڈلے (نومسلم)، ڈاکٹر شفاعت احمد خان، اے ایچ غزنوی اور سردار اقبال علی شاہ کے علاوہ ایران، البانیہ، مصر اور سعودی عرب کے وزرا بھی شامل تھے۔ شرکا میں محمدعلی جناح کا نام نمایاں تھا۔(جمیل الدین احمد،Quaid-i-Azam as Seen by His Contemporaries،پبلشرز یونائیٹڈ، لاہور، دسمبر 1966)
تقریباً 14سال بعد25 جنوری1984ء کو کراچی بار ایسوسی ایشن نے عیدمیلاد النبیؐ کی تقریب کا اہتمام کیا۔ قائداعظم نے اس تقریب کی صدارت کی تھی۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے آپ نے کہا کہ: ’’میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ ایک طبقہ دانستہ طور پر یہ پروپیگنڈا کر رہا ہے کہ پاکستان کے دستور کی اساس شریعت پر استوار نہیں کی جائے گی۔ آج بھی اسلامی اصولوں کا اطلاق زندگی پر اسی طرح ہوتا ہے جس طرح آج سے 13سوسال پہلے ہوتا تھا۔ جو لوگ گمراہ ہوگئے ہیں یا کچھ لوگ جو اس پروپیگنڈے سے متاثر ہیں، میں انھیں بتلا دینا چاہتا ہوں کہ نہ صرف مسلمانوں بلکہ غیرمسلموں کو بھی خوف زدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ اسلام اور اس کے اعلیٰ نصب العین نے ہمیں جمہوریت کا سبق سکھایا ہے۔ اسلام نے ہرشخص کو مساوات، عدل اور انصاف کا درس دیا ہے‘‘۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو شان دار الفاظ میں خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے آپ نے کہا کہ:’’ آج ہم اس عظیم ہستی کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کے لیے جمع ہوئے ہیں جن کے لیے نہ صرف لاکھوں دل احترام سے لبریز ہیں بلکہ جو دنیا کے عظیم ترین لوگوں کی نظر میں بھی محترم ہیں۔ میں ایک حقیر آدمی اس عظیم المرتبت شخصیت کو کیا خراجِ عقیدت پیش کرسکتا ہوں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک عظیم رہبر تھے۔ آپؐ ایک عظیم قانون عطا کرنے والے تھے، آپؐ ایک عظم مدبّر تھے، آپؐ ایک عظیم فرماں روا تھے۔ جب ہم اسلام کی بات کرتے ہیں تو بلاشبہہ بہت سے لوگ ایسے ہیں جو اس بات کو بالکل نہیں سراہتے۔ اسلام نہ صرف رسوم و رواج، روایات اور روحانی نظریات کا مجموعہ ہے، بلکہ اسلام ہرمسلمان کے لیے ضابطہ بھی ہے جو اس کی زندگی کے رویے، بلکہ اس کی سیاست و اقتصادیات وغیرہ پر محیط ہے‘‘۔(وحید احمد(مرتب) ، The Nation’s Voiceجلد ہفتم، قائداعظم اکادمی، کراچی،2003 ، ص153)
گویا ایک شخص21سال کی عمر سے لے کر 72سال کی عمر تک مذہبی مجالس میں شرکت کرتا رہا، عام مسلمانوں کے ساتھ نمازیں ادا کرتا رہا اور مختلف خطابات میں آں حضوؐر کو خراجِ عقیدت پیش کرتا رہا، لیکن اس کے باوجود اس پر سیکولرہونے کا الزام ہے۔
(جاری ہے)

حصہ