آنکھیں کھلی رکھنا

769

سیدہ عنبرین عالم
عادل فراز تین سال سے فرینکفرٹ یونیورسٹی آف امریکا میں زیر تعلیم تھا۔ تین دن پہلے فرسٹ ایئر میں ایک نیا لڑکا آیا، وہ افریقن تھا۔ چھوٹا سا قد، گھنگریالے بال اور انتہائی کالا۔ سیاہ فام لڑکے اور لڑکیاں تک اُس سے دوستی کرنے پر تیار نہیں تھے۔ وہ فارغ اوقات میں اکیلا اپنے کمپیوٹر کے ساتھ ہوتا اور نہایت محویت سے کمپیوٹر پر کام کرتا تھا۔ کھاتا پیتا بھی نظر نہ آتا اور کپڑے بھی بہت معمولی پہنتا تھا۔ ایک دن عادل اپنے سینڈوچز لے کر اُس افریقن لڑکے کے پاس چلا گیا۔ اُس کا ایسے تنہا رہنا عادل کو اچھا نہ لگتا۔
’’ہائے، آپ کا نام کیا ہے؟‘‘ عادل نے پوچھا۔
’’اَلوباگانی میرا نام ہے۔‘‘ افریقن لڑکا بولا۔
’’یہ بھلا کیسا نام ہوا؟‘‘ عادل نے حیرت سے پوچھا۔
’’کانگو میں ایسے ہی نام ہوتے ہیں۔ میرا تعلق کانگو کے جنگلات میں رہنے والے ایک افریقن قبیلے سے ہے۔ ہمارے رہن سہن میں جدید سہولیات بالکل شامل نہیں ہیں۔‘‘ اَلوباگانی نے بتایا۔
’’مگر آپ لوگ سینڈوچ تو کھاتے ہوں گے، یہ میری امی نے بنائے ہیں۔‘‘ عادل نے سینڈوچ پیش کیے۔
’’ضرور کیوں نہیں‘‘۔ اَلوباگانی نے ایک سیندوچ اٹھالیا، یعنی اس نے دوستی کی آفر قبول کرلی تھی۔
’’آپ کمپیوٹر پر اتنی محنت سے کام کرتے ہیں، آخر کیا کام ہے یہ؟‘‘ عادل نے سوال پوچھا۔
’’یہ تو بہت لمبی کہانی ہے ظلم اور مظلوم کی، آپ کے پاس وقت نہیں ہوگا۔‘‘
’’ارے بھائی دوستی کی ہے آپ سے، آپ فرمایئے میں سن رہا ہوں۔‘‘ عادل نے سینڈوچ کھاتے ہوئے کہا۔
’’بھائی ہم افریقی بہت مصیبت میں ہیں۔ میں سب کا حال تو نہیں سنا سکتا، مگر کانگو اور کانگو میں رہنے والے قبائل کا معاملہ ضرور آپ کے سامنے پیش کروں گا۔‘‘ اَلوباگانی نے کہا۔
’’کہیں آپ کو بھی یہودی تو تنگ نہیں کررہے؟ جیسے مسلمانوں کی نسل کُشی ہورہی ہے؟‘‘ عادل نے پوچھا۔
’’یونہی سمجھ لیجیے۔ ہم نے 1960ء میں بیلجیم کی استعماریت سے تو نجات حاصل کرلی تھی مگر گوروں کی نظریں ہماری معدنیات اور جنگلات پر تھیں۔ دنیا بھر میں سب سے بڑا بارانی جنگل بھی کانگو میں تھا اور دنیا میں سب سے زیادہ خام ڈائمنڈ، کوبالٹ، یورینیم اور پلاٹینیم بھی کانگو کے پاس تھا۔ کانگو کے عوام کو خانہ جنگی میں دھکیل دیا گیا، اتنی بڑی خانہ جنگی کہ ہر گھر کا کوئی نہ کوئی فرد یا تو جان سے گیا یا پھر معذور ہوا۔ اتنی بڑی خانہ جنگی کہ لوگ پڑی ہوئی انسانی لاشوں کو ہی اپنی خوراک بنا لیتے۔ اس کا نتیجہ ہوا: بے انتہا غربت۔ اس وقت یہ گورے آتے، ہم پر ہیلی کاپٹر سے خشک دودھ کے پیکٹ، بسکٹ، کھجور وغیرہ پھینکتے، اور اس کے بدلے ہماری زمینیں کھود کر ہماری کروڑوں ڈالر کی معدنیات لے جاتے۔‘‘ الوباگانی نے بتایا۔
’’آپ کی حکومت نے ان کو روکنے کی کوشش نہیں کی؟ یہ تو قومی ورثہ ہے۔‘‘ عادل نے پوچھا۔
’’نہیں، ہمارے حکمران نہ خود معدنیات کو نکالتے نہ استعمال کرتے، بلکہ ان کا طریقہ یہ تھا کہ وہ ان گوروں کے ملکوں میں امداد مانگنے جاتے، جو امداد ملتی وہ اپنے اکائونٹس میں بھرتے، اور اس کے بدلے کانگو کی سرزمین کا سینہ کچھ اور خالی ہوجاتا۔‘‘ الوباگانی نے جواب دیا۔
’’یہ گورے ہی ہر جگہ مصیبت بنے ہوئے ہیں، ان کے پیٹ ہی نہیں بھرتے۔‘‘ عادل نے کہا۔
’’کانگو کی سرزمین پر بارانی جنگلات فرانس سے دگنے رقبے پر پھیلے ہوئے ہیں جہاں 5 لاکھ افریقی لوگ قیام کرتے ہیں۔ بالکل جنگلی، نہ کپڑے پہنتے ہیں، نہ مشینیں استعمال کرتے ہیں، نہ باہر کی دنیا سے ان کا کوئی تعلق ہے۔ بس شکار کرتے ہیں، جھیلوں کا پانی پیتے ہوئے۔ اور بالکل ابتدائی انسان کی سی زندگی گزارتے ہیں۔ درخت کے پتوں کی جھونپڑیاں بنا لیتے ہیں۔ میرا تعلق ایسے ہی ایک قبیلے سے ہے۔ میں جنگل میں آنے والے ٹورسٹ کا گائیڈ بنا تو ان میں سے ایک بے اولاد میاں بیوی مجھے لے آئے، پڑھایا لکھایا۔ اب وہ بوڑھے ہوگئے ہیں۔ میں پڑھتا بھی ہوں اور نوکری کرکے اپنا اور اُن کا خرچ اٹھاتا ہوں۔‘‘ الوباگانی نے تفصیل بتائی۔
’’روزگار کا تو بہت مسئلہ ہوگا آپ جنگل میں رہنے والوں کو؟‘‘ عادل نے پوچھا۔
’’جب تک گورے نہیں پہنچے تھے کوئی مسئلہ نہیں تھا، انہوں نے ہمارے جنگلوں میں اتنا شکار کیا کہ ہمارے پیٹ بھرنے کو کچھ نہیں بچا۔ ہم کو کھیتوں میں غلامی کرنی پڑی، کانوں میں ہیرے تلاش کرنے پڑے، اور اس کے بدلے ہمیں اجرت نہیں ملتی کیونکہ ہم کرنسی کا استعمال نہیں جانتے، بلکہ کبھی ڈبل روٹی، کبھی انڈے اور کبھی جوس کے ڈبے دے کر ہم سے 18 گھنٹے کام لیا جاتا۔ ہم کو قتل کرنا بھی بہت آسان ہے، کیونکہ ہم دنیا میں کہیں ایک زندہ انسان کی طرح رجسٹرڈ نہیں ہیں، نہ ہمارے آئی ڈی کارڈ ہوتے ہیں۔‘‘ الوباگانی نے تفصیل بتائی۔
’’تم کام کیا کرتے ہو کمپیوٹر پر، کوئی نیا مسئلہ درپیش ہے کیا؟‘‘ عادل نے پوچھا۔
’’ہاں! 2002ء میں ایک نیا قانون آیا ہے جس کے مطابق جنگل میں رہنے والے 5 لاکھ افراد کو بے دخل کردیا جائے گا۔ ورلڈ بینک اور دوسرے بین الاقوامی مالیاتی اداروں نے باقاعدہ فنڈز جاری کیے ہیں کہ جنگلات کو کاٹ کر صنعتی زون، مارکیٹیں، پارکس وغیرہ بنائے جائیں۔ یو این او نے خوراک کے عالمی ادارے کے ساتھ مل کر یہ پراجیکٹ شروع کیا، اور کانگو کی حکومت ہے کہ ہر چیز پر راضی ہے۔ پہلے ہماری معدنیات لوٹی گئیں، اور اب ہمارے جنگلات لوٹے جارہے ہیں۔ آخر یہ 5 لاکھ لوگ کہاں جائیں گے؟ ان سب لوگوں میں ایک میں ہی پڑھا لکھا ہوں، اس لیے مختلف اداروں سے رابطے کررہا ہوں۔‘‘ الوباگانی نے بتایا۔
عادل سوچ میں پڑ گیا ’’ایک بات بتائو الوباگانی، ان پانچ لاکھ لوگوں کی زندگی خطرے میں ہے۔ ان کا صفایا اسی طرح کردیا جائے گا جیسے کہ ریڈانڈینز کو ملیامیٹ کرکے ان کی زمینوں پر قبضہ کرلیا گیا، اس کے باوجود بھی تم دہشت گرد ہوں گے اور وہ انسانی حقوق کے چیمپئن… تم کچھ بھی نہیں کرسکتے۔ ‘‘
’’آپ اپنے بارے میں کچھ بتایئے، آپ کا تعلق کہاں سے ہے؟‘‘ الوباگانی نے پوچھا۔
’’میرا نام عادل فراز ہے، میں پاکستان سے تعلق رکھتا ہوں، یہاں پڑھنے کے لیے آیا ہوں، فیملی بھی ادھر ہے۔ ہم مسلمان ہیں اور امریکا میں خاصی مشکلات کا شکار ہیں۔ ہمارے ملک پر بھی امریکا ہی کی حکمرانی چلتی ہے اور ہمارے حکمران بھی بکے ہوئے ہیں۔‘‘ عادل نے اپنا تعارف کرایا۔
الوباگانی مسکرانے لگا ’’اچھا وہی پاکستانی، جنہوں نے اسامہ بن لادن کو ایبٹ آباد میں پناہ دی تھی، آپ لوگ تو دہشت گرد مشہور ہیں پوردی دنیا میں۔‘‘ اس نے مذاق سے کہا۔
’’بالکل جناب، مجھ سے بچ کر رہیے گا۔‘‘ عادل نے قہقہہ لگایا۔ ’’الوباگانی بھائی! میں تو شروع سے ہی حیران تھا کہ امریکا اور انڈیا کو ہمارے بچوں سے اتنی دلچسپی کیسے ہوگئی کہ ہر سال لاکھوں ڈالر کی پولیو ویکسین ہمیں فری میں دی جارہی ہے، اور اتنے ثابت قدم اہلکار کہ اگر ایک دن منع کردو کہ بچہ بیمار ہے تو دوسرے دن پھر پلانے آجاتے ہیں، دوسرے دن منع کرو تو تیسرے دن آجاتے ہیں، یعنی جب تک پولیو کے قطرے پلا نہ دیں، جان نہیں چھوڑتے۔ میری قوم میں کبھی پہلے تو ایسی استقامت نہیں تھی، اسی وقت مجھے شک تھا کہ دال میں کچھ کالا ہے، پولیو ویکسین کے ان قطروں میں کوئی ایسی چیز ضرور ہے جو ہماری نسلیں خراب کررہی ہے، اور انہی کے ذریعے اسامہ بن لادن کو پکڑنے کا ڈراما ہوا۔ ایک تصویر تو لاش کی دکھاتے۔ احمقانہ تصویریں دکھاتے رہے کہ پگڑی میں سے خون بہہ رہا ہے، سر پھٹ گیا، پگڑی نہیں گری۔‘‘ عادل نے جواز پیش کیا۔
الوباگانی فکرمند ہوگیا ’’یہ پولیو کے قطروں کا معاملہ سنگین ہے، انڈیا اور امریکا بھلا کیوں برسوں سے یہ ویکسین پاکستانیوں کو مفت میں دے رہے ہیں! تم لوگوں نے اس دوا کا کیا کبھی کوئی ٹیسٹ کیا تاکہ معلوم ہو کہ واقعی یہ پولیو ویکسین ہی ہے؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’نہیں، پورے کراچی، بلکہ پورے پاکستان میں ایسی کوئی لیبارٹری نہیں ہے جو پتا لگا سکے کہ پولیو ویکسین میں کیا اجزاء شامل ہیں اور اس کا مقصد کیا ہے۔ اس کے لیے بھی ہمیں گوروں کی کسی لیبارٹری سے رابطہ کرنا پڑے گا، لیکن وہ کیوں سچ بتائیں گے!‘‘ عادل نے جواب دیا۔
’’افریقہ کے کئی ملکوں میں بھی گوروں نے موبائل اسپتال بنائے اور علاج کے نام پر کئی لوگوں کے جسم میں وائرس HIV+ داخل کردیا۔ اب افریقہ میں کئی ممالک ایسے ہیں جہاں ہر گھر میں ایڈز کا کم از کم ایک مریض موجود ہے، بعض تو پورے پورے گھرانے ختم ہوگئے۔ یہ سب انہوں نے اس لیے کیا کہ جن قوموں کا نوجوان طبقہ ہی بیمار ہوگا وہ قومیں کبھی اُن کے آگے سر نہیں اٹھا سکیں گی اور لٹتی رہیں گی۔ انہوں نے ان علاقوں میں کروڑوں کی HIV+ کی ویکسین بیچی ہے اور تم لوگوں کو مفت پولیو ویکسین دے رہے ہیں تو یہ حیرت کی بات ہے۔ یاد رکھو دنیا میں کچھ بھی مفت نہیں ہوتا، اور یہودیوں اور ہندوئوں سے تو یہ توقع بالکل مت رکھو۔‘‘ الوباگانی نے بتایا۔
’’جیسے یہ ایک سازش ہے اسی طرح اسامہ بن لادن کو دہشت گرد قرار دینا بھی ایک سازش ہے۔ اب کانگو میں تمہارے جنگلوں پر قبضہ کیا جارہا ہے تو تم بھی تو دوستوں کی مدد طلب کررہے ہو ناں۔ اسی طرح روس نے جب افغانستان پر حملہ کیا تو اسامہ بن لادن کو اس کے افغانی دوستوںنے مدد کے لیے بلایا، پھر وہ وہیں رہنے لگا۔ امریکا نے اس کا بہانہ بناکر افغانستان پر حملہ کردیا اور پھر قبضہ کرلیا۔ اب اسامہ پھر اپنے دوستوں کو اور افغانستان کو بچانے کے لیے ویسے ہی لڑنے لگا جیسے روس کے خلاف امریکا کے کہنے پر لڑا تھا۔ اب مجھے بتائو کسی دوسرے کے ملک پر قبضہ کرنا دہشت گردی ہے یا کسی دوست کے ملک پر قبضہ ہوجائے تو آزادی کے لیے اس کی مدد کرنا دہشت گردی ہے؟ کون دہشت گرد ہے؟‘‘ عادل نے سوال پوچھا۔
’’بے شک امریکا اور یہودیوں کے شیطانی دماغ ہی پوری دنیا میں تباہی کا باعث بن رہے ہیں۔ وہ کہاں سے حملہ کریں، کیا سازش کریں، کچھ اندازہ نہیں ہوتا۔‘‘ الوباگانی نے جواب دیا۔
’’یہودی اپنے عقیدے کے مطابق دجال کے آنے سے پہلے تمام دنیا پر قابض ہونا چاہتے ہیں۔ جہاں مسلمان ملکوں میں خانہ جنگی اور حملوں سے انہوں نے قبضے کرلیے ہیں، وہیں افریقہ اور دیگر مذاہب کے ماننے والوں کو بھی قابو کررہے ہیں۔ اگر تم سمجھتے ہو کہ یہودی کوئی ہمدردی عیسائیوں یا ہندوئوں سے رکھتے ہیں تو یہ تمہاری غلط فہمی ہے۔ یہودی ان کو استعمال کررہے ہیں جیسا کہ صلیبی جنگوں میں عیسائیوں کو استعمال کیا گیا، مگر ہتھیار یہودیوں کا بکا اور عیسائی بادشاہوں نے اتنے قرضے لیے کہ ان کی نسلیں یہودیوں کو سود ادا کرتی رہیں اور یہودی ہزاروں سال بیٹھ کر سود کھاتے رہے۔‘‘ عادل نے جواب دیا۔
’’یار! تمہارے تو سعودی عرب کے لوگ ہی ان کے قدموں میں بچھے ہوئے ہیں، حالانکہ جتنے ہم جنگلی ہیں وہ تو اتنے جنگلی بھی نہیں، جب ہمیں ساری سازشیں سمجھ میں آرہی ہیں تو کیا انہیں سمجھ میں نہیں آرہیں؟ ہمارے لوگوں کو جب جنگلوں میں ذبح کیا جاتا ہے تو ہمیں کوئی میڈیا کوریج نہیں ملتی، نہ کوئی آنکھ ہم پر روتی ہے، مگر جب فلسطین میں لاشیں گرتی ہیں تو ساری دنیا کو نظر آتا ہے، ایک سعودی عرب والوں کی آنکھوں پر ہی پردہ پڑا ہوا ہے۔ اللہ نے ان کو منتخب کیا تھا، وہ چاہتے تو تمام امتِ مسلمہ کو اکٹھا باندھ کر رکھتے اور دوسرے غیر مسلم مظلوموں کی مدد بھی کرتے۔ مگر وہ تو امریکا کو خدا مان کر اُس کی خوشنودی میں لگے ہوئے ہیں۔‘‘ الوباگانی نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
’’صحیح کہہ رہے ہو بھائی! نام کی ایک فوج بھی بنا لی 50 مسلم ممالک کی‘ اب تک تو کسی کے کام نہ آئی یہ فوج۔ جب کشمیر میں خون کی ندیاں بہہ رہی تھیں تو یہ فوج خاموش، جب فلسطین میں روز درجنوں لوگ شہید ہورہے تھے تو یہ فوج سوئی ہوئی، میانمر میں کیا ہوگیا، یہ فوج بے ہوش… آخر کس کام کی ہے یہ مشترکہ فوج؟ کیا یہ سعودی عرب کے خلاف لڑنے والے مسلم ممالک کی سرکوبی میں کام آئے گی؟‘‘ عادل نے جواب دیا۔
’’بھائی! پاکستان کو سب جانتے ہیں۔ تمہاری تہذیب ہے، تمہاری فوج ہے، مگر خدا کی قسم لگتا یہی ہے کہ تم بھی کانگو کے ایک جنگلی قبیلے کے فرد کی طرح بے بس اور کمزور ہو، تم میں اور مجھ میں کوئی فرق نہیں ہے، نہ تمہاری کوئی شناخت ہے نہ میری کوئی شناخت۔ جیسے کسی موذی جانور کی موت سے کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا اسی طرح میری اور تمہاری موت سے بھی کوئی فرق نہیں پڑتا۔‘‘ الوباگانی نے بہت افسردگی سے کہا۔
’’ہاں ہم پڑھ لکھ کر انہی کے بنائے ہوئے نظام کا ایک پرزہ بن جائیں گے، ان کی نوکری کرتے رہیں گے اور ایک دن قبر میں جا سوئیں گے۔‘‘ عادل فراز نے الوباگانی کی تائید کی۔
’’تبدیلی اُس دن آئے گی جب ہم اُن کے نظام کا پرزہ بننے کے بجائے ایک نیا نظام وضع کریں، جہاں لوٹ کھسوٹ، قتل و غارت گری اور طبقاتی نظام نہ ہو۔ سب روکی سوکھی کھاکر اللہ کا شکر ادا کریں، ہوس نہ ہو، دوسرں کے سر کچل کر آگے نہ بڑھنا پڑے۔ ہمیں ایک نئے نظام کی بنیاد رکھنی ہوگی۔ عدل اور سچ کے نظام کی۔‘‘ الوباگانی نے کہا۔
’’یہ نظام میرے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم چودہ سو سال پہلے پیش کرچکے ہیں، اسی لیے یہودی مسلمانوں سے خوف زدہ ہیں اور ان کی نسل کُشی کررہے ہیں۔ مگر اللہ کا نور پھونکوں سے نہیں بجھایا جاسکتا، اللہ اپنے نور کو پورا کرکے رہے گا۔‘‘ عادل فراز نے مضبوط لہجے میں کہا۔

حصہ