گزشتہ سے پیوستہ
کہ اسے کون سا سا کام کس سے لینا چاہیے یا کس کے سپرد کرنا چاہیے۔
اب میں اس مضمون کے اس حصے کی جانب آتا ہوں جہاں دنیا اس فریب میں پڑ گئی ہے کہ دائرۂ عمل اور حقوق ایک جیسے لگنے لگے ہیں اور اگر خواتین کا دائرہ کار کا ذکر کیا جائے تو یہ سمجھ لیا جاتا ہے جیسے ان کے حقوق پر ڈاکا ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
میں نے اپنی گفتگو کے آغاز میں کہا تھا کہ تمدنی زندگی اور مہذب انسانی معاشرے کے امور کے اگر دو بڑے بڑے دائرے بنائے جائیں تو ان میں سے ایک وہ دائرہ کار یا دائرہ عمل ہوگا جس کا تعلق چاردیواری سے ہے اور دوسرا دائرہ کار یا دائرہ عمل وہ ہوگا جو چاردیواری سے باہر کا ہے۔ اپنی اپنی نوعیت کے اعتبار سے دونوں بہت بھرپور اور اہم ہیں ان امور کو ان کے حق کے مطابق انجام دینا ہی کسی معاشرے کو تمدنی زندگی کے معیار کو اوج ثریا تک لے جاسکنے کا سبب بن سکتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ یہ بات بھی واضح کردی تھی کہ یہ دونوں دائرہ ہائے امور گو کہ خواتین و حضرات میں تقسیم نظر آتے ہیں اور ایساکرنا ہی اس کا حق نظر آتا ہے لیکن ہر دو پر ایسی کوئی پابندی نہیں کہ وہ اپنے اپنے اختیار کار سے نکل کرایک دوسرے کا کام انجام نہیں دے سکتے اور خصوصاً کسی ہنگامی صورت میں تو بہت ساری حدود و قیود، اصول و قوائد اور ضابطہ و قوانین ویسے بھی نرم ہو جایا کرتے ہیں۔
اس تمام بحث کا ماحصل وہ یہ ہے کہ امور یا کام کی اپنی اہمیت اور نوعیت ہے اور حقوق کا مفہوم اس سے بہت مختلف ہے۔ حقوق کا اس سے کوئی تعلق نہیں کہ ایک مرد یا عورت ایک جیسے کام انجام نہیں دے سکتے بلکہ حقوق کا تعلق اس بات سے ہے کہ کیا عورت سے وہ کام لینا جائز ہے جو اس کی جسمانی ساخت، جسمانی صلاحیت، استعداد کار اور اس کے قویٰ سے زیادہ ہو یا کسی مرد کو وہ کام کرنا چاہیے جو اس کی صلاحیت و طاقت سے کم ہو یا مطابقت نہ رکھتا ہو؟۔ کیا یہ انصاف ہوگا یا ظلم؟۔
ہوتا یہ ہے کہ ہم بحث میں اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ حق یا حقوق اور کام یا امور میں بہت فرق ہے اور ہر فرد ہی نہیں جانوروں سے بھی ان کی طاقت، صلاحیت یا استعدادکار سے بڑھ کر کام لینا ان کے حقوق کی خلاف ورزی، ظلم اور زیادتی ہے۔
اس ساری بحث کو سامنے رکھتے ہوئے اگر میں اپنی اس بات پر قائم ہوں کہ خواتین کے سارے کام صرف اور صرف وہ ہی ہیں جو چاردیواری کے اندر کے ہیں اور وہ سارے کام جو چاردیواری سے باہر کے ہیں وہ سارے کے سارے مردوں کے ہیں تو اس میں معاشرے کے کسی طبقے کی تیوری پر بل کیوں پڑتے ہیں۔ وہ مجھے یہ سمجھانے کی کوشش کیوں کرتا ہے کہ ایسا کرنا خواتین کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنا ہے اور ان کو ہزار سال پرانے زمانے میں پہنچانے کے مترادف ہے۔
لبوں پر حرف تنقید لانے والے زمانے کے بدلتے ہوئے حالات اور تقاضوں کو سامنے رکھ کر ممکن ہے ایسا سوچتے ہوں کہ ہزار ڈیڑھ سال قبل تقاضے کچھ اور ہوا کرتے تھے اور اب ان میں بہت تبدیلی آچکی ہے اس لیے اب ایک عورت کا گھر سے باہر نکل کر کچھ اور امور انجام دینا بھی بہت ضروری ہو گیا ہے۔ میں ان کے اس پریشانی پر یہی کہہ سکتا ہوں کہ امور خانہ داری آج سے کئی ہزار سال پہلے بھی وہی تھی اور آج بھی وہی ہے اور چادر اور چاردیواری کا مفہوم آج بھی وہی ہے جو ہزاروں برس قبل تھا۔
حوالہ دیتے ہیں کہ اگر ہسپتال میں خواتین کا علاج کون کرے گا اور خاص طور سے پیدائش جیسا عمل بنا خواتین کیسے ہو سکے گا لہٰذا خواتین کو باہر نکل کر ایسی تعلیم و تربیت کی ضرورت ہے جو ایسے سارے امورکوخواتین انجام دینے کے قابل بنا سکیں تو کیا ہزاروں برس قبل یہ سارے امور مرد انجام دیا کرتے تھے؟۔ کیا آج بھی دور دراز کے علاقے جہاں ہسپتال ناپید ہیں وہاں ایسے نازک اور پوشیدہ امور مرد حضرات انجام دیتے ہیں۔ ایسی خواتین کی نگہداشت اب بھی خواتین ہی انجام دیتی ہیں اور وہ اس ماحول کے حساب سے کافی تربیت یافتہ اور تجربہ کار ہوتی ہیں۔ لہٰذا وہ خواتین جو معالج بھی ہوتی ہیں، تعلیم اور تربیت یافتہ بھی ہوتی ہیں اور گھر سے نکل کر ہسپتالوں میں خواتین کی دیکھ بھال کر رہی ہوتی ہیں وہ دراصل چاردیواری ہی کے امور انجام دے رہی ہوتی ہیں اور چاردیواری کے اندر ہی انجام دے رہی ہوتی ہیں خدانخواستہ گلیوں، چوراہوں یا میدانوں میں انجام نہیں دے رہی ہوتیں۔
اب بات آجاتی ہے دفاتر، ملوں، فرموں اور کارخانوں کی اور ان میں ان خواتین کی جو مختلف کام انجام دے رہی ہوتی ہیں تو خواہ معاشرہ مغربی ہو یا مشرقی، یہی دیکھا گیا ہے کہ خواتین کے لیے کوشش کی جاتی ہے کہ ان سے سہل (سوفٹ) کام لیے جائیں اور ایسے امور جو سخت محنت طلب (ہارڈ) ہوں ان پر مردوں کو مامور کیا جائے۔ یہ شکل بھی اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ ہر طبقے میں امورِ “چاردیواری” کا خیال بہر طور کیا جاتا ہے۔
راقم کو ایسا کرنا یا ایسے طرز عمل کی تائید مطلوب و مقصود نہیں اور نہ ہی اس دلیل سے خواتین کا گھر سے باہر نکلنا جائز قرار دینا ہے صرف سمجھانا یہ مقصود ہے کہ دنیا میں ہر جگہ خواتین کے قویٰ اور اور صلاحیتوں کے مطابق ہی کام لینے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن اگر وہ سخت ترین کام بھی کرنا چاہیں تو ان پر کوئی پابندی نہیں ہے۔
اسلامی معاشرہ بھی خواتین پر کسی بھی قسم کی کوئی پابندی عائد نہیں کرتا لیکن اس کے نزدیک پسندیدہ چیز یہی ہے کہ وہ چاردیواری ہی میں محدود رہیں۔
ایک مسلمان خاتون جنگوں میں بھی حصہ لے سکتی ہے، زخمیوں کی مرہم پٹی کر سکتی ہے، تلوار پکڑ کر مردوں کی طرح مردوں کے شانہ بہشانہ لڑ سکتی ہے، سرداروں کے سر کاٹ کر شہر کے دروازوں پر لٹکا سکتی ہے، گھڑ سواری بھی کر سکتی ہے لیکن کیا جنگیں روز روز ہوتی ہیں؟۔ آخر کار اس کو اپنے مخصوص کاموں کی جانب ہی لوٹنا ہوتا ہے۔
گھر سے لےکر گھر سے باہر کا کوئی ایک کام بھی ایسا نہیں جس کو انجام دینے کے لیے کسی خاتون پر کوئی قدغن ہو لیکن وہ سارے کام جو اس کے باہر نکل کر انجام دینے کی وجہ سے اپنے انجام سے محروم ہو جائیں گے اس خلا کو کوئی نہ کوئی تو پورا کرے گا۔ میں پہلے ہی تحریر کرچکا ہوں کہ جن امور کو منسوخ کیا ہی نہ جاسکتا ہو ان کو بہر صورت انجام تو دینا ہی ہوگا تو یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کوئی تو ہوگا جو ان امور کو نمٹائے گا؟۔ وہ مذکر ہوگا یا مونث۔ گویا کام، کام کا ہونا اور اسے انجام تک پہنچانا تو اٹل ہی ہوا تو پھر کیوں نہ اس کام کو وہی جنس ادا کرے جس کے لیے اس کے قویٰ یا صلاحیتیں اجازت دیتی ہوں۔ اور یہی دراصل حق کو اس کے حق کے مطابق ادا کرنا سمجھا جائے گا اور اس کے بر عکس ظلم کے سوا کچھ نہ ہوگا۔
یہاں مغربی معاشرے یا مغربانہ سوچ کا ذکر بھی بہت ضروری ہے۔ وہ مسلمانوں کو شدت پسند کہتے ہیں اور خود کو آزاد خیال گردانتے ہیں لیکن اگر عملی طور پر دیکھا جائے تو وہ مسلمانوں سے بھی زیادہ شدت پسند اور متعصب ذہن کے مالک ہیں۔ ایک جانب وہ مردوزن کی ہر قسم کی آزادی کے قائل ہیں لیکن دوسری جانب وہ اپنے معاشرے میں رہنے، پلنے اور پرورش پانے والی خاتون کو اپنی مرضی کی زندگی گزارنے کی اجازت دینے کے لیے تیار نہیں۔ وہ اپنی مرضی و منشا کے مطابق اگر اپنا لباس، اپنی وضع قطع، اپنی بود و باش وغیرہ ایک خاص انداز میں اختیار کرنا چاہتی ہے، اپنے سر اور چہرے کے کو عباء سے ڈھانپناچاہتی ہے یا چہرے کو بھی چھپانا چاہتی ہے تو وہ معاشرہ جو اپنے آپ کو بہت آزاد خیال کہتا ہے اور دعویٰ کرتا ہے کہ وہ ہر عورت اور مرد کو اس کی اپنی مرضی کے مطابق زندگی گزارنے کی مکمل آزادی کا علم بردار ہے، یہاں آکر اس کے سارے اصول بدل جاتے ہیں اور ایسی خواتین کے لیے وہی معاشرہ اس کا دشمن بن جاتا ہے۔
وہ دلیل یہ دیتے ہیں کہ ایسی خواتین ان کے لیے خطرہ ہیں، ان کی شناخت نہیں ہوپاتی اور وہ کسی بھی قسم کی دہشت گردی کر سکتی ہیں۔ یہ سارے معذورات بے حقیقت ہیں کیونکہ اب تک یورپ اور امریکہ میں دہشت گردی، فائرنگ، خنجر اور چاقو زنی کے جتنے بھی واقعات ہوئے اس میں پردہ نشین خواتین کبھی بھی ملوث نہیں پائی گئیں۔ یہ اس بات کا اظہار ہے کہ اصل مسئلہ یہ نہیں کہ وہ خواتین کے چہرہ ڈھانپنے سے خوف زدہ نہیں ان کو خوف اس بات سے ہے کہ ان کے اپنے مذہب اور معاشرے کی خواتین بھی اس طرز عمل کی نہ صرف حامی ہوتی جا رہی ہیں بلکہ پردے کے ساتھ ساتھ اس میں اسلام سے قربت بھی بڑھتی جا رہی ہے اور یہ سب اس لیے ہو رہا ہے کہ وہ مادر پدر آزاد جانوروں کی سی زندگی کے ہاتھوں تنگ آچکی ہیں اور وہ حقوق کے نام پر آزدی کے طوفان کی تباہ کاریوں کا شکار ہوکر اپنا سب کچھ برباد کر چکی ہیں۔
میں ان سارے لوگوں سے جو بات بات پر یہ حوالہ دیتے ہیں کہ یہ باتیں تو ہزاروں سال پرانی ہیں اور ان کو اب ترک کردینا چاہیے، تو سوال کرتا ہوں کے ایسی ساری رواجوں کو ترک کرنے اور ڈھیر سارے حقوق حاصل کرکے اس معاشرے کی عورت زیادہ معتبر، خوش، با عزت، محترم اور مطمین ہے یا ایک ایسا معاشرہ جس کی عورت معاشرے میں اس لئے شرمندہ نہیں کہ وہ مردوں کی طرح ٹفن کیریئر پکڑکر صبح تڑکے آفس کی جانب دوڑ لگا رہی ہوتی ہے، اس سے یہی پتہ نہیں ہوتا کہ اس کا بوائے فرینڈ کب کسی اور کو فرینڈ بنا کر اسے اس لئے چھوڑ جائے گا کہ وہ کسی اور کو تلاش کرے، اس معاشرے کے بچے اس سوچ میں ہوں کہ اس کے حقیقی والد کون ہیں اور کچھ دونوں ہی کو نہ جانتے ہوں، والد کو اپنے بچوں کا ہی نہ پتہ ہو اور ماں کو بچوں کے اصل والد کا۔
ذرا بھی گردن جھکا کر کچھ دیر کے لئے اس تفریق پر غور کرلیا جائے تو انسان کو ایسے معاشرے کا تصور کرکے “قے”آجائے۔
وہ تمام افراد جن کے ذہنوں میں “امور” اور “حقوق” کی تفریق معدوم ہوچکی ہے یا معدوم ہوتی جارہی ہے ان کی خدمت میں عرض ہے کہ ان دونوں کو الگ الگ نگاہ سے دیکھیں۔ عورت کو اس نظر سے نہ دیکھیں کہ وہ حقوق والی جب کہلائے گی جب مردوں کے سے انداز میں ایک کی پنڈلیاں گھومی ہوئی دکھائی دیں گی اور مرد اپنے ہر مردانہ پن کو بھول کر خواتین کی طرح ادائیں دکھارہا ہوگا تو معاشرے میں سربلند و سرخ رو کہلائے گا۔ دونوں کے امور اس کی صلاحیتوں کے حساب سے ہی موجود ہیں اور ان ہی کی انجام دہی ان دونوں پر سجے گی البتہ پابندی کوئی نہیں ہے بشرط کوئی عذر موجود ہو۔ بقول اقبالؒ(رح)