بینیو ایک سیارچہ

608

قاضی مظہرالدین طارق
’بَینیُو‘ ایک ایسٹرائیڈ ہے، جوانتہائی خطرناک ہے، زمین سے ٹکرا کر ہم سب کو مٹانے کی طاقت رکھنے والا۔
جس کی پیدائش زبردست ہنگامی دور میں ہوئی، یہ اُن مادّوں سے بنا جو ایک بڑے ستارے نے مرتے مرتے گرد، گیس اور توانائی خلاء میں بکھیری تھی،اس سے نظامِ شمسی بننا شروع ہوا،یہ گیس اور گرد، ایک دوسرے سے مسلسل ٹکراؤ کی کیفیت میں مبتلا تھے۔
گرد اور گیس ایک دوسرے سے ٹکرا رہے تھے، گرم ہو رہے تھے،پگھل کر مائع میں تبدیل ہو رہے تھے،ایک دوسرے سے چپکتے جاتے تھے،حجم میں بڑے ہوتے جاتے تھے،گرد کے ذرّے سے پَتّھر،پتّھر سے چٹان، چٹان سے پہاڑ،پہاڑ سے سیّارچے، سیارچے سے سیّارے بنتے جا رہے تھے۔
جس سے ذرّے پگھلے ؛ یہ گرمی کہاں سے آئی؟یہ بھی ایک عجیب معمہ ہے! سلجھنے کا نہ سلجھانے کا۔
’بَینیُو‘ کی ابتدائی زندگی بڑی سخت تھی،اس کی پیدائش کے وقت ماحول بڑا ہولناک تھا،نظامِ شمسی پیدا ہو رہا تھا،ہر طرف ٹکراؤ تھا،اس ٹکراؤ سے کوئی ٹوٹ رہا تھا، تو کوئی ایک دوسرے کے ساتھ جُڑ کر اپنے حجم میں اضافہ کررہا تھا۔
اریزونا یونیورسٹی کے ایڈورڈ بیشورؔ کہتے ہیں:
’’ہم ’بَینیُو‘پر جاکر معلوم کرنا چاہتے ہیں کہ اُس نے نظامِ شمسی کی پیدائش کے کیامناظر دیکھے ہیں؟‘‘
بیشور،ؔ ’بَینیُو‘کی طرف بھیجے جانے اور وہاں کی مٹّی کا نمونہ زمین پر واپس لانے والی مہم’اُسیرســ ریکس‘کے ڈپٹی پرنسپل انوسٹی گیٹر ہیں،سالوں کی محنت کے بعدیہ مہم ۲۰۱۶؁ء کو روانہ کی گئی تھی،اب ’اُسیرس ریکس‘ سیّارچے ’بَینیُو‘کے قریب پہنچا ہے،اور ۲۰۲۳؁ء میں اس کی مٹّی کا نمونہ زمین پر واپس لائے گا۔
ایڈورڈ بیشورؔ کا کہنا ہے کہ:’’بَینیُواِن ہی مرکّبات سے بنا ہوا ہے جن سے آگے چل کر سیّارے،سیّارچے اوردمدار تارے بنے۔ہم اس نمونے پر تحقیق کر کے بہتر طور پر جان سکیں گے کہ نظام شمسی کن مادّوں سے کیسے تشکیل پایا، ہم اِن کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں پر سے جاسوسوں کی ماننداس بات کی شہادت حاصل کریں گے، کہ ہمارا نظام ِشمسی کی ابتداء کن عناصر اور سالموں سے ہوئی،پھر ظاہر ہے کہ ہم بھی اِس کا حصہ ہیں،اس میں اس کا بھی جواب شامل ہو گا کہ، ہم اور زمین پر حیات کیسے وجود میں آئی؟‘‘
زمین کی طرح کے سیّاروں پر اس وقت جو مادّے ہیں، وہ زمین کی تہوں کی اُتھل پَتھل،کیمیائی عمل اور ارضیاتی وجوہات سے اورپھر ایک زمانہ بیت جانے کی وجہ سے اصل حالت میں قائم نہ رہ سکے،تبدیل ہو گئے۔
جبکہ ہمارے خیال میں’بَینیُو‘ کے مادّوں میںبہت کم تبدیلی آئی ہوگی، اس لئے یہ ہمارے لئے ٹائم کیپسول کی طرح ہے، ’بَینیُو‘سے لائے گئے نمونوں پرجب ’اُسیرس ریکس‘ کی ٹیم تجزیہ اور تحقیق کرے گی، تو اس کے ہاتھ میں وہ اصل اور خالص مادّہ ہوگا،یہاں ٹیم کا ذکر اس لئے ہے کہ ایک مہم میں اتنا وقت لگتاہے،کہ اس کا منصوبہ بنانے والے اس پر عمل ہونے تک ریٹائرہو چکے ہوتے ہیں،پھر اس پر عمل کرنے والے اس پر تحقیقات کے مکمل ہونے تک فوت ہوچکے ہوتے ہیں،بلکہ تحقیقات تو قیامت تک ختم نہیں ہوں گی ہر نئی نسل ان نمونوں پر پچھلی نسل سے بہتر تحقیق کرے گی۔
خیال ہے کہ ’بَینیُو‘ میں وہ نامیاتی مرکّبات(آرگینک میٹر) بھی ہوں گے جن سے زمین پرزندگی کی تشکیل ہوئی،یہ نامیاتی سالمے (مالیکیولز) بنیادی طور پر پانی، کاربن اور ہائیڈروجن کا مرکّب ہوتے ہیں۔
سیّارچہ’بَینیُو‘سے لائے ہوئے کوئی بھی نامیاتی سالمے تحقیق کے لئے زبردست کھیپ ہوگی،جس سے معلوم ہوگا کہ ابتدائے نظامِ شمسی میں کیا کیا نامیاتی سالمے تھے،جن کی موجود گی زمین پر حیات کے لئے لازم تھی۔
’’بَینیُو کے مادّوں پراسی جہازپر تحقیق کر نے کے مقابلے وہاں سے زمین پرلائے گئے اَجزا پرتحقیق بہت وسعت و گہرائی کے ساتھ کی جا سکتی ہے،کیوں کہ جہاز میںآلات کے لئے محدود جگہ اور توانائی ہوتی ہے،‘‘ بشورؔ کہہ رہے تھے: ’’ہم یہ نمونے اگلی نسل کے لئے محفوظ کر کے جائیں گے،کیوں کہ اگلی نسل اس پر ہم سے بہتر تحقیق کر سکے، اُس کے پاس تحقیق کے ایسے ذرائع ہوں گے جن کا ہم ابھی تصور بھی نہیں کر سکتے!‘‘
یہ مہم ناسا کی ایک اور مہم کی مدد کرے گی،جس کا کام زمین کے قریب ایسے’ ایسٹرائیڈز‘ کی تلاش کرنا،ان کو قابو میں کرنا اور اس کو چاند کے گرد مستحکم مدار میں پہنچانا ہے، تاکہ خلاباز اس پرجا کرمزید تجزیہ کرسکیں۔ اور یہ بھی کہ آئندہ کے سیّارہ مریخ پر انسان کے بسنے کا عملی تجربہ کریں اوراس کا یہاںایک ابتدائی نمونہ بھی بنائیں۔
یہ مہم ان مہمات میں بھی مددگارہے،جوزمین کو متوقع نقصان پہنچانے والے سیّارچوں کی تلاش اور ان کو قابو میں کرنے اوران کا رُخ تبدیل کرنے کے مقصد سے بھیجی جا رہی ہیں۔
تین ارب اسی کروڑسال پہلے تک،جب زمین پرزندگی کی آمد شروع ہوئی تھی،نظام شمسی بڑے بڑے اجسام کی زبردست بمباری کی زد میں تھا۔
خیال ہے کہ اسی بمباری کے ذریعہ ہی زمین پر پانی اور نامیاتی سالمے نازل ہوئے۔
اگرچہ یہ بمباری زمین پر بڑے بڑے وقفوں کے ساتھ بعد میں بھی جاری رہی،اور اب بھی کبھی کبھی اِن کی بارش ہوتی رہتی ہے،جبکہ گرد اور فضاء میں جل کر بھسم ہوجا نے والے چھوٹے ایسٹرائیڈز تواب بھی ٹنوں کے حساب سے مسلسل نازل ہوہی رہے ہیں۔
حساب بتاتا ہے کہ ’بَینیُو‘کی کثافت چٹان کی کثافت سے کم ہے،معلوم ہوتا ہے کہ یہ پتّھروں کا مجموعہ ہے،جن کے درمیان خلاء ہے،اس لئے یہ ٹھوس چٹان سے ہلکا ہے۔
بقول بشورؔ:’’ ایسے سیّاچے، چٹانوں،پتّھروں،گرداور گیسوں کا ڈھیلا دڈھالا مجموعہ ہوتے ہیں۔‘‘
’بَینیُو‘کا رنگ کالا سیاہ ہے،جیسے گرم ڈانبر۔یہ سورج کی زیادہ تر شعاعوں کو جذب کر لیتا ہے، پھراس توانائی کو حرارت کی شکل میں جَیٹ انجن کی طرح پھینکتا ہے، جس کی وجہ سے اس کا مدار آہستہ آہستہ تبدیل ہورہا ہے۔
’بَینیُو‘سیّارہ زحل کی کششِ ثقل سے جَھٹکا لے کر نظامِ شمسی کے اندر کی طرف آئے گا،پھرزمین اور زہرہ کے بار بارجَھٹکوں کی وجہ سے اس کایہ ڈھیلابدن اُتّھل پُتّھل ہو جائے گا۔
’بَینیُو‘ بائیسویں صدی میںزمین کے قریب گزرے گاتو ایک خفیف سا امکان ہے کہ یہ زمین سے ٹکرائے گا۔ ایڈورڈ بشورؔ کے مطابق:’’جب ہماری مہم’اُسیرســ ریکس‘ کا جہاز اس اَیسٹرائیڈ کے گرد مدار(اَوربِٹ) میں چکّر لگانے لگے گا تو ہم اس کے جَیٹس کا صحیح صحیح حساب لگا کر دیکھیں گے کہ اس کے زمین سے ٹکرانے کا امکان بڑھے گا یا کم ہو گا۔‘‘
وہ کہہ رہے تھے:’’ایک بات قابلِ توجہ ہے کہ’اُسیرســ ریکس‘میں جو آلات نسب ہیں،وہ اس کی مکمل اِستعداد رکھتے ہیں کہ وہ ہر اس چیز کا باریک بینی سے حساب کر سکیں، جو ذرا بھی ’بَینیُو‘ کے رُخ کو تبدیل کر سکتی ہے۔ ان میں اس کی اندرونی ساخت اور باہر کی بناوٹ،اس کے سطح پر توانائیوں کی نقل و حرکت، ’بَینیُو‘ کا درجہ حرارت،اور اس کے سطح کے اُتار چڑھاؤ وغیرہ۔‘‘
انہوں نے مزید کہا :’’اگر کسی وقت، کسی اَیسٹرائیڈ کے زمین ٹکرا نے اورانسانیّت کو فنا کرنے کا حقیقی خطرہ ہوا، توہمارا پہلا قدم یہ ہوگا کہ اس کے بارے میں مکمل معلومات حاصل کرکے،کوئی کاروائی کی جاسکے گی۔‘‘
وہ بولے جا رہے تھے:’’خوش قسمتی ہے کہ اُس وقت تک ہم ’بَینیُو‘ پر بھیجی جانے والی اس مہم ’اُسیرِســ رَیکس‘ کے ذریعہ آلات کے اِنتخاب اور اِستعمال کا کافی و شافی تجربہ حاصل کر چکے ہوں گے۔‘‘
اللہ ربّ العٰلمین نے قرآن میں(سورۃ عنکبوت آیت ۲۰) ہم سے کہا ہے کہ جو اللہ اور آخرت کو نہیں مانتے اُن سے کہو’’کیا تم نے کبھی دیکھا نہیں کہ کس طرح اللہ خلق کی ابتداء کرتا ہے،پھر اس کا اعادہ کرتاہے؟یقینا دوبارہ پیدا کرنا اُس کے لئے اورزیادہ آسان ہے۔‘‘
توجہ کیجیئے! ہم مسلمانوں نے تو اللہ کایہ ’پیغام ‘اِن لوگوں تک نہیں پہنچا یا،لیکن وہ خود اپنی ہی علم کی تڑپ اور تجسس کی بنا پر اس کام میں لگے ہوئے ہیں،تاکہ معلوم کریں یہ کائنات کیسے بنی،ہم کیسے پیدا ہوئے اور اس کائنات سے ہمارا کیا رشتہ ہے۔
مگرصدافسوس کہ امّتِ مسلمہ ہی اس کام سے غافل ہے!!!
٭…٭…٭

حصہ