نیپال کلچر: دوستیاں نبھاتی حکومت پر سماجی میڈیا کے تبصرے

1446

گذشتہ ہفتے اچانک ہی تمام تر سماجی میڈیا پلیٹ فارمز پر نیپال سے متعلق پوسٹیں، میمز، دھڑا دھڑ پھیلناشروع ہو گئی تھیں۔کسی کو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا، بھیڑ چال کے چکر میں لوگ شیئر بھی کر رہے تھے ، کمنٹس میں پوچھ رہے تھے کہ آخر کیا ہوا ہے نیپال کو۔گوگل ٹرینڈ سرچ اینالسس رپورٹ کے مطابق 9تا15ستمبر کے درمیان لفظ نیپال کی پاکستان میں تلاش کا پیمانہ عمومی رحجان سے زیادہ رہا۔مگر اہم بات یہ ہے کہ’’ گوگل بابا ‘‘بھی اس پہیلی کا جواب آسانی سے نہیں دے پائے۔ محرم الحرام کی آمد کے موقع پر مختلف مجالس کے ویڈیو کلپس کی شیئرنگ ایک عمومی رحجان بن چکاہے ، انہی کلپس میں علامہ ضمیر اختر نقوی کے کلپس ہر سال کسی نئے شوشے کی وجہ سے خاصی شہرت پاتے ہیں ۔ پچھلے سال ’ذوالجناح ۔پاکستان‘کا کلپ خاصا وائرل ہواتھا، امسال دو کلپ نے سماجی میڈیا پر خاصی توجہ سمیٹی ، جن کی وجہ سے اُن کے نام کے ساتھ ’النیپالی ‘ اور ’ لڈن جعفری امروہی‘ بھی لگا دیا گیا۔جس طرح سے ،جس بھرے مجمع میں وہ حضرت عباس ؓ کے فضائل و کرامات بیان کرتے ہیںاور لوگ عقیدت و محبت سے سرشار ہو کر اُن کے بیان پر سبحان اللہ ،ماشاء اللہ،و دیگر نعرے لگاتے ہیں اُس سے تو یہی لگتا ہے کہ عقائد و ایمانیات کے ضمن میں پیش آنے والے معاملات اصولاً و عملاًتو انسانی عقل سے باہر ہی ہوتے ہیں ،مگر بقول علامہ ضمیر صاحب ایسی معلومات گوگل پر بھی نہیں ہوتی اس کے لیے مطالعہ کرنا ہوگا۔ان دو واقعات میں جو انہوں نے نیپال کے کسی جنگل میں مُردوں کے حضرت عباس ؓ کے لمس سے زندہ ہو جانے کے حوالے سے بیان کیا ،بعد ازاں جس کا کوئی عملی مظاہرہ یا کوئی ایسے شواہد عوام کے سامنے نہیں آئے تو سماجی میڈیا پر دھڑا دھڑ پوسٹوں میں لوگوں کو زندہ کیا جانے لگا۔ایسی پوسٹوں سے لوگ محظوظ ہوتے رہے کہ، ’صبح کا مرا شام کو گھر لوٹ آئے تو سمجھو نیپال گیا ہوا تھا۔‘ موت اور زندگی کے حوالے سے ایک شعر کی پیروڈی یوں ترتیب دی گئی کہ

کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جاؤں گا
میں تو نیپال کے جنگلوں میں اتر جاؤںگا

اسی طرح ان کے دوسرے کلپ میں علامہ صاحب نے امروہہ کے کسی لڈن جعفری نامی شخص کے زندہ ہو جانے کے واقعے کو بیان کیا ، چونکہ دونوں میں مردہ ہونے کے بعد زندہ ہوجانے کا ذکر تھا اس لیے دونوں کلپس کا جوڑ سوشل میڈیا پرخوب شور مچاتا نظر آیا ۔عمومی پریکٹس کے مطابق بات کچھ دن میں دب گئی ، پھر بھارتی فوجی جرنیل کی جانب سے پاکستان کو دی گئی دھمکی کے جواب میں بھی نیپال کا ذکر شرو ع ہو گیا۔بھارتی فوجی جرنیل اور مودی کی تصویر کیساتھ یہ سرگوشی کرتا ایک میم پر یہ تبصرہ خاصا مقبول رہا ۔’سر آپ کے کہنے پر پاکستان کو دھمکا تو دیا ہے پر ڈر بہت لگ رہا ہے اس لئے جنگ نیپال میں رکھ لیں شام میں زندہ تو ہو جائیں گے۔‘اسی طرح سابق وزیر اعلیٰ سندھ کے نام سے بھی ایک میم چلا جس میںیہ پیغام دیا گیا کہ’میں نیپال کے فوجی جنرل کو بتا دینا چاہتا ہوں کے ہم بھنگ پی کر نہیں سوئے تم ہمارا بھٹو مار کر دِکھا دو میں مان جاؤں گا۔سائیں قائم علی شاہ‘۔اسی طرح اُس مثال کو موجودہ ھالات سے مطابقت دیتے ہوئے یہ بھی کہا گیا کہ’’نواز شریف کے کیسز بھی لگتا ہے نیپال میں چل رہے ہیں۔۔۔روز ایک کیس زندہ ہو جاتا ہے۔‘‘
ایشیا کرکٹ کپ 2018میں پاکستانی کرکٹ ٹیم کی کار کردگی پر بھی بہت شور مچا ، اُس پر بھی لوگوں کو نیپال یاد آگیا۔’’ سرفراز بھائی ری فریش ہونے کے لیے نیپال روانہ۔‘‘پاکستانی کرکٹ ٹیم کی مجموعی کار کردگی جس میںبھارت سے مستقل شکست پھر خصوصاً بنگلہ دیش سے شکست کو بھی اس انداز سے عوام نے تسلیم کیاکہ ’’ بنگلہ دیش کی ٹیم ہماری محسن ہے جس نے ہمیںانڈیا کے ہاتھو ں میچ میں شکست سے بچا لیا۔‘‘مزید یہ کہ ،’’ یا اللہ پاکستانی ٹیم کے لیے جو کچھ بھی پڑھا تھا اُس کا ثواب دادا دادی کی روح کو پہنچا دے ۔آمین۔‘‘’’کوئی طریقہ بتاؤ کسی طرح پاکستان کرکٹ ٹیم کی کارکردگی کے پیچھے یہودی سازش ثابت کر دیں باقی کام اس ملک کے با شندے خود کر لیں گے۔‘‘ حکومتی توجہ کو مرکوز کرنے کے لیے عوام نے یوںبھی بھڑاس نکالی کہ ’’80 کاروں اور 8 بھینسوں کے بعد… 11 کھلاڑی نیلام کیے جائیں گے۔اس سے تین ہزار ارب GB ڈیٹا اور 20 ہزار میگا واٹ سالانہ بجلی کی بچت ہو گی جو قوم کرکٹ میچ دیکھنے میں خرچ کرتی ہے۔‘‘پاکستانی ٹیم کی نمائندگی کرتے ہوئے یہ بیان بھی منسوب کیا گیا کہ ’’اگلا ایشیا کپ ہم سوڈان، نیپال، بھوٹان اور مالدیپ کے ساتھ کھیلیں گے ورنہ ایشیا کپ کی بھی ” پین دی سری”- کپتان سرفراز۔‘‘پاکستان میں آن لائن ٹیکسی سروس کی جانب سے جب پاکستانی کرکٹ ٹیم کے کپتان سرفراز کو اُن کا کیپٹن بننے کی آفر کی گئی تو اُن پر اُلٹا عوامی عتاب نازل ہوا ، عوام نے دل کھول کر اُن کی ٹیکسی سروس کی خرابیوںکو آڑے ہاتھوںلیا۔
تحریک انصاف کے رہنما جہانگیرخان ترین کی نا اہلی کے فیصلے کے خلاف اپیل سپریم کورٹ سے بھی مسترد ہو گئی جس نے اُن پرسے صداقت و امانت کا بچاکھچا حصہ بھی اکھاڑ پھینکا۔اُنکی نا اہلی کے پہلے فیصلے کے بعد تحریک انصاف کے چیئرمین اور موجودہ وزیر اعظم پاکستان نے ایک ٹی وی شو میں بہت واضح الفاظ میں کہا تھا کہ اگر جہانگیر ترین سپریم کورٹ سے بھی نا اہل ثابت ہو گئے تو وہ اُنہیں پارٹی سے نکال دیں گے۔اُن کے مذکورہ شو کی گفتگو کا یہ کلپ خاصا وائرل رہا۔ مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کی سماجی میڈیا کی ٹیمیں اور اُن کے حامیان نے دل کھول کر اپنی بھڑاس نکالی۔ میاں نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن صفدر کی رہائی کے فیصلے کی آڑ میں عدالتوں پر لعن طعن کرتے ہوئے اپنے لیڈر کا دفاع کیا جاتا رہا۔ اس دوران اگر کسی بے باک صحافی نے کوئی ٹوئیٹ یا پوسٹ ڈالی تو اُس کے پیچھے بھی ہاتھ دھو کر اُس کو لفافہ صحافی ثابت کرنے کی کوشش کی گئی۔اتفاق ایسا ہوا کہ یہ فیصلہ جب ہوا تو ساتھ ہی ایک شور یہ بھی برپا ہوا کہ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں جس کا ایک کورم اور مخصوص شرکاء ہوتے ہیںاُس اجلاس میں ایک نا اہل شخص جو کہ حکومتی جماعت میںبھی عہدہ نہ رکھتا ہو اُسے اجلاس میں شریک کروایا گیا۔اس پر ’’غیر ملکی وزیر کے بعد نئے پاکستا ن کی فخریہ پیشکش ، سپریم کورٹ سے تاحیات نا اہل شخص کی کابینہ کے اجلاس میں شرکت۔‘‘اس سے چند روز قبل ہی وزیر اعظم پاکستان کے قریبی دوست زلفی بخاری کو جو کہ خود وزیر اعظم پاکستان کی زبانی برطانوی شہری تھے ،اُنہیں وفاقی وزیر مملکت (برائے بیرون ملک پاکستانی )کا درجہ دے دیا گیا تھا ۔اس مدعے پر بھی سماجی میڈیا پرخوب شور مچا کیونکہ حامد میر کے ایک انٹرویو میں خود عمران خان صاحب ایسی باتیں کر چکے تھے جس کے بعد اس فیصلے کی کوئی تُک نہیں بنتی تھی ماسوائے دوستی نبھانے کے ۔
اس حوالے سے دوستیاں نبھانے پر مبنی گانوں کے کلپس بھی بہت وائرل رہے جن میں وزیر اعظم پاکستان کے ہم نوا اور دوستو ں، رشتہ داروں کو حکومتی عہدوں کی تفصیلات بھی جاری ہوتی رہیں۔اسی طرح ’’تیرا چور مردہ باد میرا چور زندہ باد ‘‘ کے مصداق جہانگیر خان ترین کے حق میں اُن کے اور تحریک انصاف کے حامیان کی فوج معصومیت کا رونا روتے ہوئے میدان میں اتری رہی۔ دوسری جانب یہ سوال بھی اٹھایا جاتا رہا کہ سپریم کورٹ سے ثابت چور جہانگیر ترین کے بیرون ملک اثاثوںکو کب پاکستان لایا جائے گا؟‘‘یہ بھی ہواکہ جہانگیر ترین اور میاں نواز شریف کا موازنہ کیا جاتا رہا اپنے اپنے حساب سے لوگ اپنے لیڈر کو معصوم گردانتے رہے۔اسی طرح چینی کی قیمتوں میں اضافے کو بھی جہانگیرترین کو نوازنے کا عمل گردانا جاتا رہا۔مزے دار بات تو یہ ہوئی کہ جو لوگ فیصلے سے قبل جہانگیر ترین کے حق میں فیصلہ آنے کا عندیہ دے رہے تھے اور مختلف انداز سے یہ باور کروا رہے تھے کہ ڈیل ہو چکی ہے اُن کو خوب آڑے ہاتھوں لیا گیا۔
اسی گھن گرج میں خاتون اول ( وزیر اعظم پاکستان کی اہلیہ ) بشریٰ بی بی کا پہلا ٹی وی انٹرویو نشر ہو گیا۔اس انٹرویو کی ریٹنگ الیکٹرانک میڈیا کے ساتھ سماجی میڈیا پر بھی غیر معمولی رہی ۔وزیر اعظم عمران خان کی موجودہ اہلیہ کے اعتبار سے بلا شبہ میری رائے میں بہت خوبصورت انٹرویو تھا ، بہت اچھے انداز سے سوالات کے جوابات دیئے گئے ،کسی بھی انٹرویو کے جو مقاصد ہوتے ہیں وہ پورے ہوتے دکھائی دیے ۔ویسے آپ کو معلوم ہوگاکہ عوام تو کسی کو نہیں بخشتے ، اس انٹرویو کے بعد عمران خان صاحب کی سابقہ اہلیہ ریحام خان کے تاثرات سے موازنہ شروع کر دیا گیا۔موجودہ خاتون اول نے جو خاکہ عمران خان صاحب کا بیان کیا ، ریحام خان نے بطور سابق اہلیہ اُس سے کہیں متضاد خاکہ کھینچا تھا۔اسی طرح اور بھی نکات پر اعتراضات آتے رہے ،ویسے ظاہری طور پریہ بات مجھے بھی بہت زیاد ہ عجیب ہی لگی کہ دوران انٹرویو محترمہ نے درود پاک کی اہمیت و افادیت کا ذکر کیا لیکن مجال ہے جو پورے پروگرام میں کئی مرتبہ نبی کریم ﷺ کا اسم مبارک زبان سے ادا کرنے کے باوجود ایک بار بھی اُس کے ساتھ درود پاک پڑھا ہو۔
ایک دوست نے دفاع کرتے ہوئے کہاکہ شاید دل میں پڑھا ہو، لیکن جب بات نبی کریم ﷺ کی شان ، اُن پر درود بھیجنے کی ہو رہی ہو ، اسلام کی شان و عظمت بیان کی جا رہی ہو ، وقت کی کوئی قید بھی نہ ہو تو آپ کیسے یہ بھول بار بار کر سکتے ہیں۔آپ کہتے ہوں کہ آپ درود پاک کا ہمیشہ ورد کرتے ہیں لیکن آپ کی زبان پر لفظ ’محمد‘ (برائے نبی ﷺ) آئے اور آپ کی زبان سے ﷺ بھی نہ جاری ہو تو ایسے میں ہر اُس سامع کو توضرور کانٹا چبھتا ہے جو اس بات کی اہمیت جانتا ہو۔اہم بات یہ کہ ندیم ملک جیسے اینکر نے ایک دفعہ نبی کریم پکارتے ہوئے ﷺ اپنی زبان سے ادا کر ڈالامگر محترمہ نہ جانے کیوں ٹی وی اسکرین کے سامنے ﷺ ادا کرنے سے کتراتی نظر آئیں ۔ہو سکتا ہے کہ کسی کے لیے یہ معمولی بات ہو لیکن دعوؤں کو دیکھتے ہوئے یہ عمل میچ نہیں کرتا خصوصاً جب تواتر سے ہوا ہو۔یہ بات بھی ٹھیک ہے کہ ہمیں ذاتی زندگی پر تبصرہ نہیں کرنا چاہیے لیکن مذکورہ انٹرویو پوری قوم کو گائڈ لائن دینے اور نیکی کی جانب ابھارنے کی خاطر کیا گیا تھا( بقول اینکر)اس لیے نمازیں، انفرادی عبادات ، پردے تک کو موضوع بنایاگیا۔

حصہ