ظہیر خان
عنوان سے تو ایسا لگ رہا ہے جیسے کسی سیاسی پارٹی کے رہنما نے وزارت کا لالچ دے کر مجھے اپنے جال میں پھانس لیا ہو یا پھر کسی خوبرو حسینہ نے اپنی دل فریب ادائوں کے حصار میں مجھ جیسے سیدھے سادے انسان کو گرفتار کرلیا ہو… مگر ایسا کچھ نہیں ہے… ایسی اپنی قسمت کہاں… دراصل یہ ایک حادثہ تھا جسے ہم خوفناک تو نہیں مگر تھوڑی دیر کے لیے دردناک ضرور کہہ سکتے ہیں… اب پتا نہیں یہ حادثہ تھا یا سانحہ یا شاید پھر درمیان کی کوئی چیز رہی ہو‘ بہرحال جو کچھ بھی تھا وہ میرے لیے اذیت کے لمحات تھے۔ نہ جانے وہ کو ن سی بری ساعت تھی یا پھر کسی رقیبِ روسیاہ کی بددعا تھی جو رنگ لائی اور میں آدھا گھنٹے تک ایک ناگہانی مصیبت میں گرفتار رہا۔
پچھلے دنوں میرے اپنے ہی ادارے میں‘ جہاں میں برسرِکار ہوں‘ یہ واقعہ پیش آیا جس کے لیے میں ابھی تک فیصلہ نہیں کرسکا کہ یہ حادثہ تھا یا سانحہ؟ اب آپ میری یہ دردناک روداد سنیں اور خود ہی فیصلہ کرلیں۔
میرا آفس بلڈنگ کی آٹھویں منزل پر واقع ہے۔ آنے جانے کے لیے لفٹ بھی دستیاب ہے۔ شام پانچ بجے چھٹی ہوجاتی ہے اور سارا آفس خالی ہو جاتا ہے۔ گرائونڈ فلور پر رات کی شفٹ کے کچھ مزدور اور چوکیدار ہوتے ہیں۔ میں مصروف تھا لہٰذا عصر کی نماز سے فارغ ہوکر بڑے اطمینان سے گنگناتا ہوا چھ بجے اپنے آفس سے نکلا (یہ گنگنانا کس بات کا پیش خیمہ تھا یہ بعد میں معلوم ہوا) لفٹ کی خدمات حاصل کیں اور لفٹ میں داخل ہوکر گرائونڈ فلور کا بٹن دبا دیا۔ لفٹ اپنی تمام منزلیں طے کرتی ہوئی پہلی منزل ساتھ خیریت کے عبور کرچکی تھی۔ ابھی گرائونڈ فلور پہنچنے میں کچھ لمحات باقی تھے کہ اچانک لفٹ ایک جھٹکے کے ساتھ رک گئی… اﷲخیر کرے… اب کیا ہوگا؟ سب تو جاچکے ہیں، کمپنی کا بجلی والا بھی اس وقت نہیں ہوگا۔ اللہ رحم فرمائے… ذہن میں طرح طرح کے برے خیالات آنے لگے… تو کیا آج کی رات اس لفٹ میں… نہیں نہیں اﷲ نہ کرے ایسا ہو۔ جلدی جلدی دعائیں جو یاد تھیں سب پڑھ ڈالیں، باہر والوں سے کوئی رابطہ بھی نہیں ہوسکتا تھا۔ محرم کی آٹھویں تاریخ تھی، صبح سے موبائل سروس بند تھی۔ اللہ میاں اب کیا ہوگا…؟ کسے آواز دوں… کیا کروں…؟ کوئی ترکیب ذہن میں نہیں آرہی تھی۔ آج ہی محرم کی آٹھویں تاریخ بھی ہونی تھی… آج ہی موبائل سروس بھی بند ہونی تھی اور آج ہی یہ مصیبت کی گھڑی بھی آنی تھی۔ آج سے ایک ہفتہ قبل کینٹین میں کھانے کے دوران یہی ناہنجار موضوعِ گفتگو تھی۔ ایک صاحب نے اپنا خیال ظاہر کیا‘ جس میں طنز کا پہلو زیادہ اور خیال کا پہلو کم تھا‘ کہنے لگے ’’لفٹ کیا ہے کھٹارا ہے ایسے جھٹکے لے کر چلتی ہے جیسے گدھا گاڑی۔‘‘ ایک مولانا ٹائپ کے بزرگ نما بڑے صاحب فرمانے لگے ’’بھئی میں نے تو استخارہ کیا مگر مجھے کوئی خوش کن جواب نہ مل سکا لہٰذا میں تو سیڑھیوں سے چڑھ کر آتا ہوں۔‘‘ میرے دل میں خیال آیا کہ کاش میں نے بھی استخارہ کرلیا ہوتا تو شاید آج……
بہت عرصے قبل کسی مولوی صاحب کی کتاب ’’قبر کے حالات‘‘ پڑھی تھی… بس نہ پوچھیے کتاب کیا یاد آئی سارا جسم پسینہ سے شرابور ہو گیا۔ مولوی صاحب شدت سے یاد آنے لگے… یا اللہ مولوی صاحب بہت نیک اور اچھے انسان تھے‘ انہوں نے مسلمانوں کی اصلاح کے لیے کتنی اچھی کتاب لکھ ڈالی ان کے صدقہ ہی میں کوئی وسیلہ پیدا کردے اور مجھے اس قید سے رہائی دلادے۔ اپنے سارے گناہ ذہن کے اسکرین پر دھڑا دھڑ آنے لگے۔ کہتے ہیں انسان جب کسی پریشانی کے عالم میں ہوتا ہے تو اسے اﷲ میاں بہت یاد آتے ہیں اور وہ دل سے دعا کرتا ہے بقول علامہ اقبال ’’دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے‘‘ اسی کیفیت میں تھا کہ اچانک ایک آواز نے مجھے چونکا دیا ’’اندر کون ہے‘‘ یہ آواز تھی اس چوکیدار کی‘ جو اس وقت میرے لیے مسیحا ثابت ہوا اور مسیحا کا صحیح مفہوم بھی آج سمجھ میں آگیا تھا ’’میں ہوں تنویر‘‘ میں نے چیخ کرکہا ’’آپ صاحب اندر پریشان نہ ہوں میں کچھ کرتاہوں‘‘ اور اس کے بعد اس کی کوئی آواز نہ آئی۔ کچھ دیر (کوئی پانچ منٹ) بعد کچھ آوازیں آنی شروع ہوئیں شاید لفٹ کے دروازے کے درمیان کا شیشہ کھولا جارہا تھا۔ شیشہ کھل گیا۔ جان میں جان آئی… شکر ہے کچھ صورتیں تو نظر آئیں۔ ایک مزدور نے مجھے پیچ کس دیا یہ کہتے ہوئے کہ ’’سر برابر میں ایک کھٹکا ہے اسے اس پیچ کس سے زور سے دبائیے دروازہ کھل جائے گا‘‘ پیچ کس تو ہاتھ میں لے لیا مگر وہ کھٹکا کہاں ہے…؟ گھبراہٹ اس قدر کہ کھٹکا نظرہی نہیں آرہا… بہرحال یہاں ہاتھ مارا وہاں ہاتھ مارا خدا خدا کرکے کھٹکا مل گیا… پوری طاقت سے اسے دبایا حالانکہ ہلکے سے بھی دبانے پر مسئلہ حل ہوجاتا۔ اللہ کا شکر اداکیا کہ لفٹ کا دروازہ کھل گیا۔ اب صورتِ حال یہ تھی کہ میں گرائونڈ فلور سے تقریباً چار فٹ اوپر تھا اور ہمارے سامنے فقط دو فٹ کی جگہ تھی جس کے ذریعہ ہم لیٹ کر باہر آسکتے تھے۔ ایک مزدور نے کہا ’’سر پہلے آپ اپنا پیر باہر نکالیں اور میری پیٹھ پر ٹکا لیں‘‘میں نے کہا ’’صرف تم ہاتھوں کا سہارا دو میں چھلانگ لگاتا ہوں‘‘ اور میں نے کسی طرح چھلانگ لگادی اور لفٹ سے باہر آگیا ’’کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے‘‘یا یہ کہہ لوں ’’گیٹ کھل گیا خدا خدا کرکے۔‘‘
ابھی میں ہال ہی میں تھا کہ ایک نوجوان تیزی سے یہ کہتے ہوئے آیا کہ ’’سنا ہے کوئی لفٹ میں پھنس گیا ہے‘‘ اور میں نے بڑی انکساری سے جواب دیا ’’بھیا! میں پھنس گیا تھا۔‘‘