ذرا سوچیے

621

زاہد عباس
کچھ صدمے اور غم ایسے ہوتے ہیں جو دنوں اور برسوں پر مشتمل نہیں بلکہ تاعمر اور تاقیامت رہتے ہیں۔ اس کی مثال آج بھی ہمارے درمیان موجود ہے۔ آپ واقعہ کربلا کو دیکھ لیجیے، امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے خاندان پر کس قدر ظلم ڈھایا گیا۔ امام حسینؓ سمیت خاندان کے لوگوں کی شہادت کوئی عام و معمولی واقعہ نہیں۔ اہلِ بیت ہونے کی وجہ سے آپؓ کی شخصیت معمولی نہیں، اس لیے آپؓ کے ساتھ کیے جانے والے ظلم و ستم کو کبھی بھلایا نہیں جاسکتا، یہی وجہ ہے کہ مسلمان ہر سال ماہِ محرم آتے ہی یزید سے نفرت اور اہلِ بیت سے محبت کا اظہار کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ محرم الحرام کے آغاز سے ہی نہ صرف عوامی سطح پر بلکہ سرکاری سطح پر بھی پروگرامات کے انعقاد سمیت سیکورٹی کے اعلیٰ انتظامات کو حتمی شکل دینے کے لیے اجلاس منعقد کیے جانے لگتے ہیں۔ رواں سال بھی کچھ اسی طرح کے انتظامات کیے گئے تھے، 8 محرم سے سارے ہی شہر میں سیکورٹی ہائی الرٹ کردی گئی تھی، اور لوگوں کو اپنے دفاتر جانے کے لیے اپنی گاڑیوں کو شہر کی مرکزی شاہراہوں سے دور پارک کرنے کی ہدایت جاری کردی گئی تھی۔ 8محرم کو مجھے بھی کچھ ایسی ہی صورت حال کا سامنا کرنا پڑا۔ خیر، امن و امان کی صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے حکومت کی جانب سے کیے جانے والے اقدامات پر اختلاف کرنے کے بجائے اداروں سے تعاون کرنا شہریوں کی اہم ذمہ داریوں میں شامل ہوتا ہے، میں بھی 8محرم کو انہی ہدایات پر عمل کرتا ہوا اپنے دفتر سے لکی اسٹار کی جانب چل پڑا جہاں محرم کی مناسبت سے عوام کے لیے پانی پلانے کا اہتمام کیا گیا تھا۔ سڑک کے دونوں جانب لگی پانی کی یہ درجنوں سبیلیں میرے لیے حیرت کا باعث نہ تھیں۔ میں آگے بڑھتا جارہا تھا کہ یک دم میری نگاہ سامنے بنی اُس سبیل پر پڑی جہاں دودھ سے بھری بوتلیں بانٹی جارہی تھیں۔ سخت گرمی میں بھلا کون اس نعمت سے محروم رہ سکتا تھا! لہٰذا میں بھی ان لوگوں کے ساتھ جاکھڑا ہوا جو مجھ سے پہلے سے ہی ٹھنڈی ٹھار بوتلوں کے حصول کی جنگ میں مصروف تھے۔ سبیل کے اندر کھڑے افراد بڑی تیزی سے نذرِ حسین لوگوں میں تقسیم کررہے تھے، اس لیے میں نے بھی حاصل کردہ دودھ کی بوتل پی کر نہ صرف اپنی پیاس بجھائی بلکہ خالص معیاری اور غذائیت سے بھرپور دودھ نے خاصی حد تک میری توانائی بھی بحال کردی۔ ابھی میری طبیعت میں کچھ تشنگی سی باقی تھی لیکن یہاں کون سا مسئلہ تھا! دو قدم آگے بنی سبیل سے مشروبِ مشرق سے بھرے دو کلڑ پی کر میں تروتازہ ہوگیا۔ اب مجھے پانی کی کوئی طلب نہ تھی۔ ابھی چند قدم ہی بڑھا تھا کہ ایک نوجوان پانی سے بھرا گلاس اٹھائے میرے سامنے آکھڑا ہوا۔ اس کے ہاتھ میں گلاس دیکھ کر میرے پاس اسے شکریہ کے ساتھ انکار کردینے کے سوا کچھ نہ تھا، پَر یہاں میری چلنے والی نہ تھی، منع کرنے کے باوجود وہ کہنے لگا ’’جناب یہ عام پانی نہیں بلکہ نواسہؓ رسولؐ کے نام سے منسوب سبیل کا الائچی والا پانی ہے، چاہے تبرک کے طور پر ہی دو گھونٹ پی لیجیے آپ کی مہربانی ہوگی۔ اس لڑکے کے لہجے کی نرمی اور عشقِ حسینؓ کا تقاضا یہی تھا جو میں نے کرڈالا، یعنی پیٹ میں گنجائش نہ ہونے کے باوجود مزید ایک گلاس اور پانی پی لیا۔ اب میری منزل پان کی وہ دکان تھی جہاں میری بائیک کھڑی تھی۔ میں اب سڑک کے کنارے بنی سبیلوں سے نظریں چراتا گزرنے لگا۔ پان کی دکان پر پہنچتے ہی ایک عدد پان کھایا اور بائیک پر کک مارتے ہی گھر کی جانب چل پڑا۔ ذہن میں تھا کہ میرا ضرورت سے زیادہ پانی پینا ضرور رنگ دکھائے گا، سو وہی ہوا۔ سفر کے دوران سڑک کے دونوں جانب میری نگاہیں مسلسل کسی عمارت، اسپتال یا پیٹرول پمپ کی تلاش میں رہیں۔ ضرورت سے زیادہ پانی نے کام دکھانا شروع کردیا تھا، میں فوری طور پر بیت الخلاء پہنچنا چاہتا تھا۔ اس دوران متعدد مساجد کا سروے کرلیا، ہر مسجد کے مرکزی دروازے پر پڑا تالا دیکھ کر میری کیفیت مزید خراب ہوتی جا رہی تھی، میں اپنے راستے میں آنے والے ہر پیٹرول پمپ سمیت تمام ہی سرکاری عمارتوں کے درشن کرتا رہا لیکن ہر جگہ ناکامی ہی ملی۔ کوئی عمارت، کوئی اسپتال اور کوئی پیٹرول پمپ ایسا نہ تھا جہاں میری بگڑتی حالت کا علاج یعنی بیت الخلاء دستیاب ہوتا۔ اب اس مصیبت سے نجات کا ایک ہی راستہ تھا، یعنی جلد سے جلد گھر پہنچنا… سو انتہائی تیز رفتاری سے میں اپنے گھر آن پہنچا۔ یوں گھر پہنچ کر ہی طبیعت بحال ہوسکی۔
نواسہؓ رسولؐ کی یاد میں عوام کے لیے پینے کے صاف پانی کا بندوبست کرنا نیک عمل ہے، دنیا میں کوئی بھی شخص اس عمل کی مخالفت نہیں کرسکتا، لیکن اس کے برعکس چند برس قبل اسی شہر کی ایک سڑک پر میرے ساتھ جو کچھ ہوا، اس کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ مجھے یاد ہے گرمیوں کی وہ دوپہر جب شدید پیاس نے برا حال کردیا تھا، اور گرمی کی شدت کی وجہ سے میرا بلڈ پریشر لو ہوتا جارہا تھا۔ اتنے میں نگاہ سامنے دکان میں رکھے پانی کے کولر پر پڑی، میں فوراً کولر کے پاس جا پہنچا۔ ابھی کولر پر رکھے گلاس کو اٹھا بھی نہ پایا تھا کہ کاؤنٹر پر بیٹھے شخص نے مجھ سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا ’’یہ کولر ہم اپنے کاریگروں کے لیے بھر کر رکھتے ہیں، اگر ہر آنے جانے والا شخص یہاں سے پانی پیے گا تو ہمارا کیا بنے گا! جاؤ بھائی کہیں اور جاکر پانی پیو۔‘‘
میں پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ محرم میں بنائی جانے والی سبیلیں اچھا عمل ہے لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا انسان کو پیاس صرف ماہِ محرم میں وہ بھی صرف ایک عشرے کے لیے ہی لگا کرتی ہے؟ اورکیا اسی ماہ اہلِ بیت سے محبت اور عقیدت کا اظہار کیا جائے گا؟ باقی سال کے تین سو پچپن دن یہ سنت کہاں کھو جاتی ہے؟ سب سے بڑھ کر تو یہ کہ عشرہ محرم ہمیں حق گوئی، ظلم کے سامنے نہ جھکنے اور دینِ حق کی خاطر اپنی جان تک نچھاور کرنے کا درس دیتا ہے، جسے فقط پانی تک ہی محدود کردیا گیا ہے، باقی معاملات میں ہماری محبت اور ایمان کو کس کسوٹی پر پرکھا جائے! بات سیدھی سی ہے کہ ہم جس کام کے پیچھے لگتے ہیں، اسے کیے چلے جاتے ہیں۔ جبکہ صحیح عقیدت و محبت کا واحد طریقہ یہ ہے کہ خدا اور اس کے رسولؐ کے بتائے ہوئے راستے پر چل کر عوامی خدمت اور انسانی ہمدردی کے نام پر کیے جانے والے کام مستقل بنیادوں پر کیے جائیں تبھی اہلِ بیت سے محبت کے اظہار کو عملی جامہ پہنایا جاسکتا ہے۔
اب آجائیے میرے ساتھ پیش آنے والے واقعے کی جانب، یعنی سرکاری بیت الخلاء جیسے اہم مسئلے کی طرف۔ ساری دنیا میں عوام کی بنیادی سہولتوں پر خاص توجہ دی جاتی ہے، لیکن بدقسمتی سے ہمارے ملک کے حکمران عوام کی بہتری کے منصوبوں پر عمل کرنے کے بجائے پہلے سے موجود سہولیات بھی عوام سے چھین لینے پر تلے ہوئے ہیں۔ ایک زمانہ تھا جب کراچی کے ہر مرکزی بس اسٹاپ، ریلوے اسٹیشن، اسپتال سمیت تفریحی مقامات تک میں سرکار کی جانب سے بنائے جانے والے پبلک باتھ رومز موجود ہوا کرتے تھے جہاں باقاعدہ سرکاری عملہ تعینات ہوتا تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ باتھ رومز حکومتی عدم توجہی کے باعث ناپید ہوتے چلے گئے۔ مجھے یہ بھی یاد ہے کہ اسی شہر کی مرکزی مارکیٹوں میں لوگوں کی سہولت کے لیے بیت الخلاء موجود تھے جنہیں لینڈ مافیا نے فروخت کرڈالا۔ آج وہاں مکانات تعمیر کردیئے گئے ہیں۔
پبلک مقامات پر قائم بیت الخلاء تو ایک طرف، اگر خصوصی طور پر جائزہ لیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ صرف صوبہ سندھ کے 50 فیصد بوائز، جبکہ 47 فیصد گرلز اسکول بیت الخلاء جیسی سہولت سے محروم ہیں۔ اسی طرح لڑکوں کے 53 فیصد اور لڑکیوں کے54 فیصد اسکولوں میں پینے کا صاف پانی میسر نہیں۔
ماضی میں حکمرانوں نے عوامی مقامات پر بیت الخلاء کی تعمیر اور پینے کے صاف پانی کے لیے فلٹر پلانٹ لگانے کے سلسلے میں متعدد مرتبہ وعدے وعید کیے، اور کے ایم سی نے تو 200 مقامات پر سی پی ایل سی کے تعاون سے 800 بیت الخلاء تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ کے ایم سی نے تسلیم کیا تھا کہ بیچ ویو پارک، بوٹ بیسن پارک، جھیل پارک، برنس گارڈن پارک، سرسید پارک سمیت کئی مقامات پر عوامی بیت الخلاء موجود نہیں ہیں۔ کے ایم سی کی جانب سے ان مقامات پر عوام کے لیے اس سہولت کو یقینی بنانے کے دعوے کیے گئے تھے، پھرکیا ہوا کسی کو کوئی خبر نہیں۔کراچی کے رہنے والے اچھی طرح جانتے ہیں کہ بس اسٹاپ، شاپنگ سینٹر، اسپتالوں، پارکوں اور دیگر پبلک مقامات پر عوامی بیت الخلاء کی اشد ضرورت ہے۔ اگر کراچی کے صرف ضلع جنوبی کے تجارتی مراکز کو ہی دیکھا جائے تو کم وبیش یہاں 30لاکھ سے زائد لوگ روزانہ شہر کے مختلف حصوں سے اپنے دفاتر اور خریدو فروخت کے مراکز کی جانب آتے ہیں، اور آٹھ سے دس گھنٹے ان علاقوں میں گزارتے ہیں، ان میں سے پچاس فیصد سے زائد لوگ خریداری کے لیے آتے ہیں اور چند گھنٹے گزار کر واپس چلے جاتے ہیں، لیکن ان افراد کو اگر ایمرجنسی بنیادوں پر ٹوائلٹ کے استعمال کی ضرورت پیش آجائے تو انہیں بڑی پریشانی کا سامنا ہوتا ہے۔ صدر جیسے کاروباری مرکز میں بھی اس سہولت کا فقدان ہے، اگر کہیں یہ سہولت دستیاب بھی ہے تو صفائی ستھرائی نہ ہونے کی وجہ سے لوگ انہیں استعمال کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ صدر، برنس روڈ، کھارادر، میٹھادر،کلفٹن، طارق روڈ، شارع فیصل، ایم اے جناح روڈ، نشتر روڈ، شارع پاکستان، شیرشاہ سوری روڈ، راشد منہاس روڈ جیسی اہم شاہراہوں پر سفرکرنے والے ضعیف شہری، خواتین و بچے کرب میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ ان مقامات پر بیت الخلاء کی تعمیر انتہائی ضروری ہے، لیکن اس اہم مسئلے پرکسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ بین الاقوامی قوانین کے مطابق بھی شہریوں کے لیے بیت الخلاء اور پبلک مقامات پر پینے کے صاف پانی کا بندوبست کرنا شہری حکومتوں کی ذمے داری ہوتی ہے، اگر حکومت نیک نیتی سے اس مسئلے کو حل کرنا چاہیے تو یہ کام مختلف این جی اوز اور نجی تنظیموں کی مدد سے بھی کیا جاسکتا ہے۔ سب سے بڑھ کر نجی اداروں کو پابند کرنے سے بھی خاطر خواہ نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ لیکن بلدیہ کراچی اس بنیادی ذمے داری سے پہلوتہی کررہی ہے، حالانکہ اس مد میں سرکاری طور پر بھی بھاری رقوم مختص کی جاتی ہیں جن کا درست استعمال نہ کرکے حکمران بڑی کرپشن کرنے میں مصروف ہیں۔

حصہ