الطاف حسن قریشی
ڈاکٹر حسن صہیب مراد، عمر میں مجھ سے کوئی اٹھائیس سال چھوٹے تھے، مگر کام اتنے بڑے بڑے کر گئے کہ صدیوں یاد رکھے جائیں گے۔ وہ 10ستمبر کو گلگت سے واپس آتے ہوئے ٹریفک حادثے میں اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے جس کا قرب حاصل کرنے کے لیے وہ دن کے جھمیلوں اور رات کی تنہائیوں میں پوری عمر کوشاں رہے۔ اُن کا تعلق متوسط اور ایک معزز گھرانے سے تھا اور اُن کی تربیت دینی گھرانے میں ہوئی تھی۔ اُن کے والد خرم مراد بھوپال میں پیدا ہوئے اور وہیں پلے بڑھے۔ نواب بھوپال شاہ جہاں بیگم کی شادی نواب صدیق حسن خاں سے ہوئی تھی۔ اُن کے پڑ پوتے سید ظہیرالحسن جماعت اسلامی بھوپال کے امیر تھے۔ اُن کی بیٹی خرم مراد کے عقد میں آئیں، اور یوں حسن صہیب کو ماں اور باپ دونوں کی طرف سے اچھی تربیت اور ایک بامقصد زندگی کا ماحول میسر آیا۔ خرم مراد کے ماموں جناب زاہد حسین اعلیٰ پائے کے ماہرِ معاشیات تھے اور قائداعظم نے اُنہیں اسٹیٹ بینک کا گورنر مقرر کیا تھا۔ پاکستان بننے کے بعد خرم مراد کراچی میں آباد ہوگئے۔ وہاں انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کی۔ ایک معروف انجینئرنگ کمپنی میں ملازمت مل گئی اور وہ اعلیٰ عہدے پر ڈھاکا تعینات کردیے گئے۔
میری اُن سے ملاقات ڈھاکا ہی میں 1964ء کے اوائل میں ہوئی تھی۔ وہ شہر کے امیر جماعت اسلامی تھے اور سیاسی اور علمی حلقوں میں حددرجہ مقبول تھے۔ مفکرِ اسلام سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی انقلاب آفریں تحریروں نے ہمیں ایک وحدت کی لڑی میں پرو دیا تھا جنہوں نے اسلام کو ایک مکمل ضابطۂ حیات اور تمدنی طاقت کے طور پر پیش کیا تھا۔ مسلم نوجوان جو الحاد اور اشتراکیت سے مسحور ہوکر اسلام کے مستقبل سے مایوس ہوتے جا رہے تھے، مولانا کے دل ودماغ کو مسخر کرنے والے لٹریچر نے اُن کے اندر اللہ تعالیٰ کے دین پر کامل یقین ازسرِنو پیدا کیا اور اس کی سربلندی کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا دینے کا ولولہ بیدار کیا۔ جناب خرم مراد نے بنگالی مسلمانوں میں اسلامی زندگی کے حقیقی مفہوم کو اس درجہ روشناس کیا کہ وہ بنگلہ قومیت کے بجائے پاکستانی قومیت کے جاں نثار ثابت ہوئے۔ خرم مراد ان جاں نثاروں کے ساتھ آخری وقت تک کھڑے رہے اور بھارت کے قیدی بنے۔ رہائی کے بعد کراچی آئے اور بعدازاں لاہور منتقل ہوگئے۔ اُنہوں نے سیّد ابوالاعلیٰ مودودیؒ کی دانش سے براہِ راست فیض پایا تھا جن کا انتقال 22 ستمبر 1979ء کو ہوا۔ ہم اپنے ربِ کریم سے اُن کے بلندیٔ درجات کی دعا کرتے ہیں اور اُمید رکھتے ہیں کہ اُن کی مجددانہ فکر پاکستان کے ساتھ ساتھ عالمِ اسلام کے حکمرانوں اور عوام کو جمہوری اور اسلامی قدروں کے احیا اور کلمۃ الحق کو سربلند رکھنے کی دعوت دیتی رہے گی۔
خرم مراد عارضۂ قلب میں اِس دنیائے فانی سے کوچ کر گئے، مگر اپنی اولاد کو اسلامی سانچے میں ڈھال گئے، جس نے دنیا کی معیاری یونیورسٹیوں سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور اسلام کے تقاضوں کے مطابق زندگی کا سفر جاری رکھا۔ حسن صہیب نے انجینئرنگ کے علاوہ امریکی یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کیا اور مختلف مراحل طے کرتے ہوئے لاہور آگئے جہاں اپنی عمر کے تیس برس کچھ اِس طرح بسر کیے کہ وہ آنے والی نسل کے لیے رول ماڈل بن گئے ہیں۔ کچھ کر گزرنے اور آگے ہی بڑھتے رہنے کی جو مثال اُنہوں نے قائم کی، وہ ہماری قوم کو کبھی مضمحل نہیں ہونے دے گی۔ اُن کی زندگی میں جو توازن پایا جاتا تھا اور اللہ تعالیٰ نے اُنہیں قلب و نظر کی جو وسعتیں عطا کی تھیں، اُن کی نظیر کم ہی ملتی ہے۔ وہ تحریکی مزاج کے آدمی تھے اور اسلامی جمعیت طلبہ اور جماعت اسلامی میں بہت سرگرم رہے۔ بعض اوقات دینی کاموں کے اندر بہت زیادہ منہمک رہنے والوں کے مزاج میں خشکی اور حد درجہ سنجیدگی آجاتی ہے، مگر حسن صہیب کی شخصیت میں بڑی شگفتگی اور شادابی تھی۔ اُن کے ہونٹوں پر ہر آن مسکراہٹ رقص کرتی رہتی۔ وہ ہر شخص سے نہایت خوش خلقی سے ملتے اور اسے خود اعتمادی کی دولت سے مالامال کردیتے۔ اُن کی وسعتِ قلبی کا عالم بھی یکسر منفرد تھا۔ اُن کی کوشش یہ تھی کہ معاشرے میں کشیدگی اور تنائو کم کیا جائے اور باہمی تعلقات کو فروغ دیا جائے۔ اِسی خیال کے تحت اُنہوں نے اپنی یونیورسٹی میں ’’ادبی بیٹھک‘‘ کا سلسلہ شروع کیا جس میں ہر طبقۂ فکر کے ادیبوں، دانش وروں اور صحافیوں کو دعوت دی جاتی اور آنے والے حضرات گھنٹوں ایک دوسرے سے باتیں کرتے اور اپنائیت کا لطف اُٹھاتے۔ لاہور میں یہ ناشتا بے حد مقبول ہوا۔ اِسی طرح اُنہوں نے کتابیں شائع کرنے کا پروگرام بنایا اور سب سے پہلے عبدالقادر جونیجو کا ناول شائع کیا جو اُن کے نظریات سے متصادم تھا۔
حسن صہیب نے 1990ء میں تعلیم کے شعبے میں آنے کا فیصلہ کیا اور ایک مکان کے دو کمروں میں انسٹی ٹیوٹ آف لیڈر شپ اینڈ مینجمنٹ کی بنیاد رکھی اور اسے شب و روز کی محنت سے ایک عظیم الشان یونیورسٹی بنانے میں کامیاب ہوئے، جس کا شمار عالمی معیار کی درس گاہ میں ہوتا ہے۔ ان کی یونیورسٹی میں کم وسائل کے حامل طلبہ کو بڑی تعداد میں وظائف دیے جاتے اور ادیبوں اور صحافیوں کی اولاد کے لیے خصوصی مراعات کا اہتمام کیا گیا تھا۔ حسن صہیب سے جب بھی ملاقات ہوتی، وہ قیادت کے فقدان کو پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ قرار دیتے اور تفصیل سے بیان کرتے کہ یونیورسٹی میں لیڈرشپ کی مینجمنٹ پر خاص توجہ دی جا رہی ہے۔ اُن کی رائے میں قیادت کا علم، تخلیقی ذہن اور اخلاقی طاقت کے ساتھ گہرا تعلق ہے۔ اُن کا تخلیقی ذہن نئے آفاق تلاش کرنے میں مسلسل سرگرداں رہا۔ وہ جمود کے سخت خلاف اور اجتہادی فکر کے زبردست حامی تھے۔ اُنہیں نئی نئی کتابیں پڑھنے کا بے حد شوق تھا جس سے اُن کا ذہن کھلا اور بہت زرخیز رہتا تھا۔ اُنہوں نے اپنے صاحبزادے ابراہیم حسن مراد کو قائدانہ کردار ادا کرنے کے لیے تیار کیا۔
اُن کی شخصیت کا یہ روشن پہلو خاص طور پر قابلِ ذکر ہے کہ اُنہوں نے اعلیٰ معیار کی یونیورسٹی بنائی، آئی ایل ایم ٹرسٹ کے زیرِانتظام کالجوں اور اسکولوں کا ایک مربوط سلسلہ قائم کیا اور ’’آفاق‘‘ کے نام سے اسلامی نصابِ تعلیم ترتیب دیا، وہ کئی سال یونیورسٹی کے ریکٹر رہے، مگر اپنی ذات کو دوسروں پر مسلط کیا نہ اپنا علمی رعب جمانے کی کوشش کی۔ وہ پیچھے رہ کر کام کرنے کے قائل تھے۔ ایک مرحلے پر اُنہوں نے فیصلہ کیا کہ مجھے اپنی زندگی ہی میں اپنا خلا پُرکرنے کا انتظام کرنا چاہیے، چنانچہ ریکٹر کے لیے اشتہار دیا گیا اور ڈاکٹر محمد اسلم اِس منصب کے لیے منتخب کرلیے گئے جنہیں حسن صہیب پہلے جانتے ہی نہ تھے۔
حسن صہیب کی عظمت کا راز اُن کے تعلق بالقرآن میں پنہاں تھا اورکثرتِ تلاوت سے اللہ کی آخری کتاب کے وہ آدھے حافظ بن گئے تھے۔ یونیورسٹی کی مسجد میں جمعہ کا خطبہ بھی دیتے اور نماز کی امامت بھی کرتے۔ حادثے کے بعد اُنہیں زندگی کے جو لمحات میسر آئے، اُن کے لبوں پر ذکرِ الٰہی جاری رہا۔ مجھے یقین ہے اللہ تعالیٰ اُنہیں جنت الفردوس میں جگہ دے گا۔