شریک مطالعہ

1530

نعیم الرحمن
ڈاکٹر امجد طفیل اور ریاظ احمد کی زیر ادارت ادبی جریدے ’’استعارہ‘‘ کا تیسرا شمارہ شائع ہوگیا ہے۔ استعارہ نے اپنی ابتدائی تین اشاعتوں میں ہی باقاعدگی کی عمدہ مثال قائم کی ہے جو عموماً ادبی رسائل میں ناپید ہے۔ 288 صفحات کے معیاری جریدے کی قیمت 400روپے ہے۔ الحمد پبلشرکی معاونت سے پرچہ صوری اور معنوی حُسن سے بھی آراستہ ہے۔
استعارہ کے اداریے میں پرچے کے مشمولات سے تعارف ایک اچھا سلسلہ ہے جس سے قاری کوابتدا ہی میں علم ہوجاتا ہے کہ موجودہ شمارے میں اس کی دل چسپی کے کیا کیا سامان شامل ہیں۔ لکھتے ہیں: ’’استعارہ کا تیسرا شمارہ اس یقین کے ساتھ آپ کی خدمت میں پیش کیا جا رہا ہے کہ گزشتہ دو شماروں کی مانند یہ بھی قارئین کو پسند آئے گا۔ اس شمارے میں ہم نے مستنصر حسین تارڑ سے جو طویل انٹرویوکیا ہے وہ بعض حوالوں سے خود مستنصر حسین تارڑ کی زندگی کے نئے پہلوؤں کو قارئین کے سامنے لائے گا۔ بعض ادبی معاملات پر اُن کا بے لاگ تبصرہ ہمیں حیران اور سوچنے پر مائل کرے گا۔ اس انٹرویو میں محمد عاصم بٹ بھی ہمارے ساتھ شریک تھے۔‘‘
کسی ایک ادیب یا شاعر سے انٹرویو ’’استعارہ‘‘ کا اختصاص ہے۔ اِس بار مستنصر حسین تارڑ کا طویل انٹرویو خاصے کی چیز ہے۔ جیسا کہ اداریے میں بھی ذکر ہے کہ اس انٹرویو میں مصنف کی ذات اور نظریات کے حوالے سے نئی اور بحث طلب گفتگو کی گئی ہے۔ تارڑ صاحب لاہور کی نئی تعمیرات وغیرہ کے بارے میں اظہارِ خیال کرتے ہیں:
’’مختصر بات کرتا ہوں، یہ جو درمیان میں اسٹرکچر کھڑا کردیا ہے میں اسے دیوارِ برلن کہتا ہوں، دیوارِِ برلن ہمیشہ دشمن بناتا ہے۔ ان کو اس سرزمین سے کوئی الفت نہیں ہے۔ اس دیوار نے لاہور کو دو حصوں میں بانٹ دیا ہے۔ میں صبح گھر سے نکلتا ہوں تو مجھے نہیں پتا چلتا کہ نہر کب گزر گئی، مزنگ کب آگیا، اچھرہ کب گزرا۔ ایک بہت بڑا ملبے کا ڈھیر جو سیمنٹ کا ہے اس نے مجھے ڈھانپ رکھا ہوتا ہے اور اس میں مَیں جارہا ہوتا ہوں۔ منظر تو ہے ہی نہیں، منظر تو بلاک کردیا ہے، یہ ایک بہت بڑا کرائم ہے اور میں آج پیش گوئی کرتا ہوں کہ ابھی نہیں کوئی پندرہ بیس برس بعد کچھ لوگ آئیں گے وہ اس کو مسمار کردیں گے، جیسے دیوارِ برلن مسمارکی گئی تھی۔‘‘
’’نیا قلم‘‘ کے زیر عنوان اس شمارے میں نوجوان تخلیق کار فیاض منیر کو جگہ دی گئی ہے۔ فیاض منیر اپنے ہم عصر لکھنے والوں میں ایک منفرد آواز ہے، اور اُس کی تخلیقات اردو شاعری میں نئے امکانات کی جانب اشارہ کرتی ہیں۔
جبکہ ’’تازہ کار اور پختہ کار‘‘ کے عنوان سے اِس مرتبہ معروف شاعر عباس تابش کی دس غزلیں درج ہیں۔ عباس تابش ہمارے دور کے اہم شاعر ہیں۔ حال ہی میں ان کی کلیات بھی شائع ہوئی ہے۔ ان کا یہ شعر تو ضرب المثل بن گیا ہے :
ایک مدت سے مری ماں نہیں سوئی تابش
میں نے اک بار کہا تھا مجھے ڈر لگتا ہے
عباس تابش کی غزلوں سے چند خوبصورت اشعار پیش ہیں:
ایک محبت اور وہ بھی ناکام محبت
لیکن اس سے کام چلایا جا سکتا ہے
مجھ گمنام سے پوچھتے ہیں فرہاد و مجنوں
عشق میں کتنا نام کمایا جا سکتا ہے
٭
کسی سے کہہ نہیں دینا کہ عشق ہو گیا ہے
یہ لفظ معنی نہیں اعتبار مانگتے ہیں
افسانوں کا حصہ اس مرتبہ 55 صفحات پر مشتمل ہے جس میں دس تخلیقات شامل کی گئی ہیں، جن میں مستند افسانہ نگار رشید امجد کا ’’بے نام رشتہ‘‘، محمد حامد سراج کا ’’بوڑھا اخبار‘‘ اور طاہر اسلم گورا کا افسانہ ’’خوابوں کا شہر‘‘ بہت عمدہ اور دل میں گھر کرنے والے افسانے ہیں۔ محمد حامد سراج کے افسانوں کا تازہ مجموعہ ’’برادہ‘‘ اور ان کی تالیف کردہ کتاب ’’مشاہیر علم و دانش کی آپ بیتیاں‘‘ حال ہی میں شائع ہوئی ہیں اور قارئین کی بھرپور داد حاصل کررہی ہیں۔ محمد جاوید انور بھی ادب کی دنیا میں تیزی سے ابھرنے والا نام ہے۔ ان کا افسانہ ’’نیرنگی‘‘ بھی موضوع اور ٹریٹ مین کے اعتبار سے بہت اچھا افسانہ ہے۔ سینئر ادیبوں کے دوش بہ دوش نووارد افسانہ نگاروں کو بھی پرچے میں جگہ دی گئی ہے جن میں راشد جاوید احمد ’’صرف ایک زمین‘‘ لے کر آئے ہیں۔ ناصر رانا ’’سفید بلی‘‘، حسنین جمیل ’’گرجا، مسجد اور کوٹھا‘‘ کے ساتھ شامل ہیں۔ محمد عباس کا افسانہ ’’واپسی‘‘، احمد سلیم سلیمی کا ’’بڑھاپے کا کرب‘‘، اور عبیرہ احمد کا ’’آخر عمر کا ہے ذکر‘‘ اچھی ابتدائی کاوشیں ہیں اور ان میں اسپارک محسوس ہوتا ہے۔
’’عالمی ادب سے‘‘ کے عنوان سے حمید رازی نے ترکی کے مشہور ناول نگار ایلف شفق کی تحریر ’’کالا دودھ‘‘ پر بہت اچھا تعارفی مضمون لکھا ہے۔ ایلف شفق کے ناول ’’ناموس‘‘ اور ’’چالیس چراغ عشق کے‘‘ کے نام سے اردو میں ترجمہ ہوئے ہیں۔ وہ عالمی شہرت یافتہ ناول نگار ہیں۔ ڈاکٹر مظہر علی طلعت نے پروفیسر شنکر رامن کے فرانسیسی فلسفی دریدا پر کیے کام کا بہت عمدہ ترجمہ کیا ہے۔ محمد حمید شاہد کا مضمون ’’تنقیدی تھیوری، اطلاقی جہت‘‘ بھی عمدہ تحریر ہے۔ یہ دو فکر انگیز مضمون ہمیں مزید غور و فکر کی دعوت دیتے ہیں۔
مضامین میں اردوکے دو بڑے نقاد شمس الرحمن فاروقی اور شمیم حنفی شریک ِ محفل ہیں۔ شمیم حنفی کے خاکوں کا دوسرا مجموعہ بھی شائع ہوا ہے۔ افسانہ نگار، شاعر، دانش ور اور ادبی جریدے ’’مکالمہ‘‘ کے مدیر مبین مرزا نے ہمارے عہد میں انسانی صورتِ حال کی عمدہ عکاسی اپنے مضمون ’’عہدِ جدید اور انسانی احساس کی صورت گری‘‘ میں کی ہے۔ افسانہ نگار نجم الدین احمد نے ’’جہانِ گم گشتہ کی کہانیاں‘‘ اور فیصل شہزاد نے ’’پھر وہی دن کا اجالا۔ تجزیاتی مطالعہ‘‘ میں معاصر فکشن کو اپنا موضوع بنایا ہے۔
استعارہ کے تازہ شمارے میں ڈاکٹر امجد پرویز نے ناہید نیازی کی گائیکی پر بہترین مضمون پیش کیا ہے۔ ڈاکٹر امجد پرویز نے اپنی دو بہترین کتب ’’میلوڈی میکرز‘‘ اور ’’میلوڈی سنگرز‘‘ میں برصغیر کے نامور موسیقاروں اور گلوکاروں سے قارئین کو کیا خوب متعارف کرایا ہے۔ ڈاکٹر امجد پرویز خود بھی اچھے گلوکار ہیں، اس لیے وہ موسیقی پر بہت عمدہ مضامین لکھ رہے ہیں اور اس نظرانداز شعبے سے وہ اردو ادب کا دامن مالامال کررہے ہیں۔
محمد عاصم بٹ دورِ حاضر کے اہم ناول نگار ہیں۔ انہوں نے کافکا کی تحریروں کے بہت عمدہ تراجم کیے ہیں۔ ان کے دو ناول ’’دائرہ‘‘ اور ’’ناتمام‘‘ شائع ہوچکے ہیں، جبکہ تیسرا ناول ’’بھید‘‘ اشاعت کا منتظر ہے۔ اس ناول کا ایک باب ’’مٹھوایلن‘‘ بھی اس شمارے میں شامل ہے۔ محمد عامر رانا کا پہلا ناول ’’سائے‘‘ کچھ عرصہ قبل شائع ہوا تھا۔ ان کے دوسرے ناول ’’بستی میر جان‘‘ کا پہلا باب استعارہ کے پہلے شمارے کا حصہ بنا تھا۔ اِس مرتبہ ناول کا دوسرا باب شامل کیا گیا ہے۔
اپنے سفر نامے میں حمید رازی نے ’’ہیروشیما‘‘ کی سیر کروائی ہے۔ اُن کا اندازِ تحریر سفرنامے کو دل چسپ بنا رہا ہے۔ مشہور ادیب اور مزاح نگار اشفاق احمد ورک نے محمد منشا یاد کا خاکہ پیش کیا ہے۔ اشفاق ورک کی تحریر میں شگفتگی کی لہر خاکے کو دل چسپ بناکر پیش کرتی ہے۔ شاعری کے حصے میں پندرہ شعرا کی اٹھائیس غزلیں اور نو شعرا کی پندرہ نظمیں شامل ہیں۔
کئی عمدہ اشعارغزلوں میں شامل ہیں۔ نظموں میں فہیم شناس کاظمی کی نظم ’’جرنیلی سڑک‘‘ میں، جو لاہور سے دہلی کے ایک سفرکو شعری روپ میں بیان کیا گیا ہے، اس میں سفرنامے کا لطف موجود ہے۔
مجموعی طور پر استعارہ کا تیسرا شمارہ بہتری کی جانب گامزن نظر آتا ہے جس میں نثر اور نظم کی عمدہ تخلیقات شامل ہیں، جس کے لیے مدیرانِ کرام ڈاکٹر امجد طفیل اور ریاظ احمد مبارک باد کے حق دارہیں۔
…٭…
محمدآصف فرخی کے ادبی کتابی سلسلے ’’دنیا زاد‘‘ کا 46 واں شمارہ قدرے تاخیر سے اشاعت پذیر ہوا ہے۔ ’’دنیا زاد‘‘ کی اشاعت میں اب وقفے بڑھنے لگے ہیں۔ ان کے اشاعتی ادارے ’’شہرزاد‘‘ سے کتابوں کی اشاعت میں بھی کمی ہوئی ہے۔ اجمل کمال کے ’’آج‘‘ اور ’’دنیا زاد‘‘ سے دنیا بھر کے ادیبوں کی تخلیقات سے اردو ادب کا قاری متعارف ہوتا رہتا ہے، خصوصاً بھارت کی کتابوں کے حصول میں ناکامی کے پیشِ نظر پاکستانی قارئین کے لیے بھارتی کتب کی اشاعت کسی تحفے سے کم نہیں۔ آج سے تو سلسلہ جاری ہے لیکن دنیا زاد اور شہر زاد کی اشاعت میں تعطل سے کئی کتب جو اس ادارے سے متوقع تھیں، اب تک سامنے نہ آسکیں۔ انیس اشفاق کا پہلا ناول ’’دکھیارے‘‘ شہرزاد ہی سے شائع ہوا تھا۔ انیس اشفاق کے دو ناول ’’خواب سراب‘‘ اور ’’پری ناز اور پرندے‘‘ بھی شائع ہوئے ہیں جن کے پاکستانی قاری بے چینی سے منتظر ہیں۔
دنیا زاد کا تازہ شمارہ تاخیرسے آنے کے باوجود بھرپور ہے۔ 372 صفحات کے پرچے کی قیمت 500 روپے ہے۔ ہرشمارے کی طرح موجودہ شمارے کو ’’قافلۂ اعتبار‘‘ کا عنوان دیا گیا اور اسے حال ہی میں وفات پانے والے ساقی فاروقی، محمد عمر میمن اور مشتاق احمد یوسفی کے نام معنون کیا گیا ہے۔ حسبِ روایت ابتدائی محفل میں پرچے کے مشمولات سے قارئین کو متعارف کرایا گیا ہے۔
شمارے کا آغاز شبلی نعمانی کے اشعارکے انتخاب سے کیا گیا ہے جو ’’شعرالعجم‘‘ کے مصنف ہی نہیں بلکہ فارسی کے اچھے شاعر بھی تھے۔ شبلی کے علمی کام سے تو لوگ واقف ہیں۔ ان کی فارسی شاعری پر شمس الرحمن فاروقی نے تنقیدی مقالہ تحریر کرکے اس کی ادبی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔ ان اشعار کا ترجمہ نئی نظم کے اہم شاعر افضال احمد سید نے بہت خوب صورتی سے کیا ہے۔
انیس اشفاق نے دکھیارے کے بعد پچھلی صدی کے لکھنؤ کو ایک اور ناول ’’خواب سراب‘‘ میں بڑی کامیابی سے موضوع بنایا ہے۔ انیس اشفاق مضمون ’’اردو شاعری غالب کے بغیر‘‘ لے کر آئے ہیں۔ نوجوان ادیب تمثال مسعود نے اپنے والدکے توسط سے پس نوآبادیاتی مطالعات کے موضوع پر بہت اچھا مضمون لکھا ہے۔ معروف نقاد اور افسانہ نگار محمد حمید شاہد نے ’’پاکستان میں اردو ادب کے ستّر سال‘‘ پر مضمون پیش کیا ہے، جس کا آغاز چند منفرد ادیبوں کی نگارشات سے کیا گیا ہے۔
نرم لہجے کی شاعرہ زہرا نگاہ نے اپنا نیا مجموعۂ کلام ترتیب دے دیا ہے۔ اس مجموعے سے ان کی چند نئی نظمیں پرچے میں شامل ہیں۔ شاعرہ اور نثرنگار کشور ناہید نے بھی تواتر سے نئی نظمیں لکھی ہیں۔ ان میں سے چند نظموں کو بھی جگہ دی گئی ہے۔ ناول نگار اور افسانہ نگار ڈاکٹر حسن منظر کی چند نثری نظمیں اور ایک طویل نثر پارہ بھی شمارے کا حصہ ہیں۔ یہ نثر پارہ آگے بڑھ کر مختصر یا طویل قصے میں بھی بدل سکتا ہے جس کا مصنف نے عندیہ تو دیا ہے مگر واضح اشارہ نہیں دیا۔ مصنف اور شاعرہ فہمیدہ ریاض خرابی ٔ صحت کے باوجود دوستوفسکی کو پڑھتی رہیں اور اس حوالے سے قارئین سے باتیں بھی کرتی رہیں، اس احوال کو انہوں نے ’’بیماری کی تحریریں‘‘ کا نام دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ انہیں جلد صحت یابی عطا کرے تاکہ وہ ایسی مزید تحریریں قارئین کی ضیافتِ طبع کے لیے پیش کرتی رہیں۔
مسعود اشعرکے دو افسانے’’کیوں‘‘ اور ’’اللہ کا نام سچا‘‘ اس شمارے میں شامل ہیں۔ دونوں افسانے ان کے مخصوص اسلوب کے آئینہ دار ہیں۔ کہنہ مشق افسانہ نگار رضیہ فصیح احمد نے ’’دادی اماں کا دن‘‘ میں بدلتے رشتوں کو موضوع بنایا ہے۔ جیم عباسی نئے افسانہ نگار ہیں‘ اُن کے دوافسانے بہت عمدہ ہیں جو ایسی مزید تحریروں کا پیش خیمہ نظر آتے ہیں۔
2003ء کے نوبیل انعام یافتہ جنوبی افریقہ کے ناول نگار، افسانہ نویس، مضمون نگار، نقاد، ماہرِ لسانیات اور مترجم جے ایم کوئٹزی سے افسانہ نگار اورمترجم نجم الدین احمد نے متعارف کرایا ہے۔
شاعری میں فاطمہ حسن، شہلا نقوی، توصیف خواجہ، فیصل ریحان، ارفع اعزازی، علی سعید اور اُسامہ میرکی نظمیں، اور کاشف حسین غائر، کاشف مجید، سعید شارق کی غزلیں شامل ہیں۔
معروف ناول نگار سلمیٰ اعوان نے اسپین کے ’گارسیالورکا‘ کا خوب صورت تعارف پیش کیا ہے۔ سلمیٰ اعوان نے ’’ادب کی روشن قندیلیں‘‘ میں دنیا بھر کے معروف ادیبوں اور شاعروں کا تعارف کرایا ہے۔
مرحوم ساقی فاروقی کی یاد میں ناصر عباس نیر اور آصف فرخی کے مضامین بہت خوب ہیں۔ ’’محمد عمر میمن کے دو تراجم‘‘ کے عنوان سے نیر مسعود کی تحریر قندِ مکرر کے طور پر شامل ہے۔ محمد سلیم الرحمن اور محمد حمید شاہد نے بھی عمر میمن کے بارے میں مضامین لکھے ہیں۔ مشتاق احمد یوسفی کے بارے میں اسلم فرخی کا 2009ء کے دبئی میں جشنِ یوسفی کا خطبہ ’’خوشبوئے یوسفی‘‘ اور آصف فرخی کا مشتاق احمد یوسفی کا انٹرویو بھی اس شمارے کی اہم تحریروں میں ایک ہے۔ دنیازاد کا یہ شمارہ حسبِ سابق قارئین کی ضیافتِ طبع کے لیے بہترین ادبی گل دستہ ہے۔

حصہ