باحوصلہ باہمت لوگ

946

افروز عنایت
اللہ کے کسی بھی بندے کو ظاہری حالت کی وجہ سے کمتر نہ جانیں۔ نہ جانے اللہ رب العزت نے اُس کے اندر کتنی صلاحیتیں اور کتنی خوبیاں پوشیدہ رکھی ہوں جو کہ وقت آنے پر یا واسطہ پڑنے پر نظر آتی ہیں، کیونکہ رب کریم اپنے بندوں کو مایوس نہیں کرتا۔
چند سال پہلے ایک جاننے والے اپنی دو سالہ بیٹی کو لے کر آئے جسے دیکھ کر سخت افسوس ہوا۔ اس پیاری شکل و صورت کی بچی کے پیروں سے لے کر گھٹنوں تک صرف ٹانگیں کولہوں سے جڑی ہوئی تھیں۔ اب چند دن پہلے وہ تقریباً چار سال بعد بچی کو لے کر آئے، سبحان اللہ انتہائی ذہین یہ بچی اس چھوٹی عمر میں سات پارے حفظ کرچکی ہے اور بہترین تلاوتِ قرآن کرتی ہے، جبکہ جسمانی نقص مزید واضح ہوگیا تھا۔
٭…٭…٭
دو بہن بھائی جو پیدائشی طور پر نابینا ہیں انتہائی تعلیم یافتہ گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں۔ اللہ نے انہیں بہت سی خوبیوں سے نوازا ہے۔ اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے دونوں درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ دونوں نہ صرف اپنے اپنے کالجوں میں، بلکہ باہر بھی مختلف سرگرمیوں میں حصہ لیتے ہیں۔ بہن فرح اچھی نعت خواں بھی ہیں، جب ایک نجی محفل میں انہوں نے ’’مدینے کا سفر ہے اور میں ہوں نم دیدہ نم دیدہ‘‘ اپنی پُرسوز آواز میں سنائی تو حاضرینِ محفل پر ایک سماں بندھ گیا۔ اسی طرح اُن کے بڑے بھائی اچھے مقرر اور بلائنڈ ایسوسی ایشن کے سرگرم رکن ہیں، وہ اپنی اس ایسوسی ایشن میں فلاحی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں۔
دونوں بھائی بہن اپنی اپنی فیملی کے ساتھ خوشگوار اور پُرسکون زندگی گزار رہے ہیں۔ دونوں اپنے اپنے بیٹوں کو اعلیٰ تعلیم دلوانے کے خواہاں ہیں۔ اللہ انہیں اپنے مقصد میں کامیاب کرے۔ بے شک رب العزت کی دی ہوئی ہر نعمت انمول اور بے مثال ہے، اس کی قدر وہی جانے جس میں کسی ایک نعمت کی بھی کمی ہو، خصوصاً بینائی کی۔ لیکن اللہ کے مضبوط، صبرو شکر کرنے والے اور باحوصلہ بندے اس نقص کو زندگی کا روگ بناکر نا کارہ و مایوس زندگی نہیں گزارتے بلکہ رب کریم کی دی ہوئی دوسری نعمتوں کو اجاگر کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور دنیا میں عزت اور وقار سے جیتے ہیں۔ ایسے باہمت و باحوصلہ لوگوں کی عزت کرنی چاہیے اور دوسروں کو ان سے جینے کا سلیقہ سیکھنا چاہیے۔
میرے رب نے تمام بندوں کو بے حساب نعمتوں سے نوازا ہے، بعض بندے کسی ایک نعمت کی کمی پر واویلا مچاتے ہیں، یا زندگی سے مایوس ہوجاتے ہیں یا دوسروں کی طرف رحم طلب نگاہوں سے دیکھتے ہیں جو کہ غلط روش ہے۔ جو انسان اپنی کمزوریوں کی وجہ سے جتنا دل برداشتہ اور مایوس ہوجاتا ہے وہ دنیا کے سامنے سر اٹھا کر جی نہیں پاتا، اور لوگ اُسے مزید کمزور کردیتے ہیں۔ اللہ کے ایسے بہت سے بندے ہمیں اپنے چاروں طرف نظر آتے ہیں جو مالی مسائل، پریشانیوں اور مختلف جسمانی عارضوں کی وجہ سے سخت مشکلات اور تکلیف میں مبتلا ہوتے ہیں لیکن دنیا والوں کے سامنے ان کمزوریوں کی نمائش سے گریزاں ہوتے ہیں۔ ایسے موقعوں پر وہ اپنی دوسری نعمتوں کو جو اللہ کی طرف سے انہیں میسر ہوتی ہیں، بروئے کار لاکر معاشرے میں عزت و وقار سے جیتے ہیں… اور رب العزت ایسے ہی حیا والے غیرت مند بندوں کو نوازتا اور ان کی مشکلات کو دور کرتا ہے۔ میں اپنے آس پاس نظر دوڑاتی ہوں تو ایسے کئی بندے نظر آتے ہیں جو وقار سے جی رہے ہیں، جبکہ وہ اندر سے کئی مشکلات کا شکار ہوتے ہیں۔
ہجرتِ مدینہ کے موقع پر بے سرو سامانی کی حالت میں مسلمانانِ مکہ جب مدینہ میں داخل ہوئے تو مدینے کے مسلمانوں نے اُن کے لیے اپنے گھروں اور دلوں کے دروازے ’’وا‘‘ کردیے۔ تکلیفوں میں لٹے پٹے آئے مسلمانوں نے اللہ کے حکم سے کچھ عرصہ تو مدینے کے بھائیوں سے مدد لی، لیکن عزت و غیرت کا یہ تقاضا تھا کہ خود اپنا مقام بنائیں، لہٰذا انہوں نے جدوجہد شروع کردی اور مدینے کے مسلمانوں کا شکریہ ادا کیا کہ جنہوں نے اس مشکل گھڑی میں ان کا مکمل ساتھ دیا تھا، اور آپس میں ان کا بھائی چارہ ہمیشہ قائم رہا، اور مدینہ والوں کے دلوں میں ان کی عزت و وقار بھی قائم رہا۔
٭…٭…٭
ٹریفک سگنلز اور چوراہوں پر اکثر معمولی جسمانی نقص والے، لوگوں کے سامنے بھیک مانگتے نظر آتے ہیں جبکہ قوی اور توانا ہوتے ہیں اور کچھ نہ کچھ کام کرنے کے قابل ہوتے ہیں، لیکن لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلائے مانگتے رہتے ہیں۔ کچھ لوگ ترس کھا کر کچھ نہ کچھ ان کے ہاتھوں میں رکھ دیتے ہیں اور کچھ حقارت سے دھتکار دیتے ہیں۔
میں نے ایک بیوہ خاتون کو دیکھا جو زیادہ پڑھی لکھی نہیں ہے لیکن اسکول میں کینٹین چلا کر عزت سے کما رہی ہے۔ اور اپنی اس حق حلال کی کمائی میں سے اپنے بچوں کے تعلیمی اخراجات پورے کررہی ہے۔ لوگ اس کی عزت کرتے ہیں۔ وہ اور اس کے بچے دنیا کے سامنے سر اٹھا کر جی رہے ہیں۔ اس نے ایک مرتبہ کہا کہ میرے سسرالی رشتے دار ایسے ہیں کہ میں ان سے مالی مدد لے سکتی ہوں، لیکن اس طرح میں عزت سے جی نہ سکوں گی، نہ ہی میرے بچے جی پائیں گے، میں دنیا والوں کے سامنے کمزور پڑ گئی تو یہ دنیا مجھے مزید کمزور کردے گی۔
٭…٭…٭
میری والدہ ماجدہ زندگی کے آخری چھ سات سال جوڑوں کے سخت درد میں مبتلا رہیں، انہیں چلنے پھرنے میں سخت تکلیف کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ گھر میں ماشاء اللہ بہوئیں تھیں لیکن کچن میں بہوئوں کے ساتھ ضرور کھانے بنانے میں مدد دیتی تھی، سبزیاں کاٹ کر دیتیں، انہیں مختلف ڈشز بنانا سکھاتیں، اور کھانا بنانے میں ان کی رہنمائی کرتیں۔ ان کے اس طرزعمل سے بہوئیں بھی انہیں پسند کرتی تھیں اور آج بھی اس بات کی تعریف کرتی ہیں۔
٭…٭…٭
مندرجہ بالا مثالوں کے برعکس عمل کرنے والے کی مثال ایسی ہے جیسے ’’نہ گھر کا، نہ گھاٹ کا‘‘۔ ایک صاحب کو کسی وجہ سے اپنی نوکری سے ہاتھ دھونا پڑے۔ چھوٹا موٹا کام کرکے وقت گزارنے کی کوشش کی، بیماری کے سبب وہ کام بھی چھوڑ دیا، جبکہ وہ کام کرنے کے قابل ہیں۔ موجودہ صورتِ حال یہ ہے کہ نہ اپنے بہن بھائیوں کے دل میں اُن کے لیے عزت، اور نہ ہی سسرالیوں کے دل میں۔ بیوی کے بھائیوں نے یہ کہا کہ ہم بہن اور بھانجی کا خرچہ اٹھانے کے لیے تو تیار ہیں اور انہیں اپنے گھر میں رکھ سکتے ہیں لیکن بہنوئی کو نہیں۔ اب مجبوراً سسر صاحب اپنی پنشن سے ان تینوں کا خرچہ اٹھا رہے ہیں۔ شوہر کی اس کمزوری اور ہمت ہارنے کی وجہ سے انہیں کوئی اچھی نظر سے نہیں دیکھتا اور ان کی اکلوتی بچی بھی دل برداشتہ ہے۔
٭…٭…٭
اسی لیے عقل مندوں کا کہنا ہے کہ اگر معاشرے میں عزت و وقار سے جینا چاہتے ہیں تو ہمت اور حوصلے سے کام لیں، اپنی کمزوریوں اور خامیوں کی نہ تو تشہیر کریں، نہ ہار مانیں۔ یہی کامیابی اور کامرانی کی علامت ہے۔ باہمت، باحوصلہ، غیرت مند، باحیا لوگ گرتے بھی ہیں تو فوراً سنبھل جاتے ہیں۔ اس سے پہلے کہ دنیا والے انہیں روند کر آگے نکل جائیں، وہ اٹھ کر آگے بڑھنے کے لیے کمر کس لیتے ہیں۔
یہی کامیاب زندگی گزارنے کے اصول ہیں۔

حصہ