بلال شیخ
بد قسمت کو کسی بابا مشورہ نے بتایا کہ فلاں پہاڑ کی چوٹی پر کامیابی نے اپنا ڈیرہ ڈالا ہوا ہے کہتے ہے جو اس سے ملتا ہے اس کی زندگی بدل جاتی ہے۔ بدقسمت نے سنا تو ٹھان لی کہ میں تو ادھر پہنچ کر رہوں گا بابا مشورہ نے کہا ’’راستہ کوئی آسان نہیں جو بھی اس رستے سے گزرتا ہے سہی سلامت نہیں رہتا کئی تو جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تو کچھ ناکام واپس آ گے کچھ نہ مل سکا ان کو ’’مگر بد قسمت نے جانے کی تیاری کر لی تھی اور اپنے آپ کو اس مشکل سفر کے لیے تیار کر لیا۔ آج سے پہلے اس نے کبھی ایسے سفر کے بارے میں نہیں سوچا تھا مگر وہ اپنے حالات سے تنگ تھا اور وہ اس وقت کو بدلنا چاہتا تھا۔ اس نے امیدوں کو بیگ میں ڈالا، ہاتھ میں بہادری کا ڈنڈا پکڑا اور سفر کے لیے روانہ ہو گیا۔
بد قسمت نے پہاڑ پر چڑھنا شروع کر دیا اس کو بابا مشورہ کی بات یاد تھی مگر وہ اس دفعہ ارادہ کر چکا تھا۔ وہ کچھ تھوڑا سا ہی پہاڑ پر چڑھا تھا کہ پست حوصلہ کر دینے والے گیدڑوں نے اس پر حملہ کر دیا۔ وہ گھبرا گیا گیدڑ اس کو دیکھ کر چیخ رہے تھے جب بھی وہ ان گیدڑوں کو ہاتھ میں پکڑے ڈنڈے سے انہیں ڈراتا تو وہ ڈر جاتے مگر پھر وہ اس کے قریب آ جاتے پہلے تو وہ گھبرایا مگر پھر اس نے دیکھا حوصلہ شکن گیدڑ ڈرپوک ہیں۔ یہ حملہ نہیں کرتے یہ بس چیخ رہے ہیں۔ بس اس نے بہادری کا ڈنڈا گھومایا اور گیدڑ بھاگتے گے اور وہ آگے نکلتا گیا۔ بدقسمت نے سمجھا شاید رستہ آسان ہو گیا ہے مگر وہ غلط تھا۔ آگے چڑھائی چڑھنا مشکل ہوتا جا رہا تھا۔ وہ کچھ دیر کے لیے بیٹھا ہی تھا کہ حسدی کتے بھونکتے ہوئے اس کے قریب آ گئے وہ حیران ہو گیا۔ سوالیہ نظروں سے ان کی طرف دیکھ رہا تھا وہ تعداد میں 3تھے۔ ان کتوں نے اس کو تینوں طرف سے گھیر لیا تھا کچھ دیر کے لیے اس کو لگا اب وہ نہیں بچے گا۔ ایک حسدی کتے نے بھونکتے ہوئے اس پر حملہ کر دیا۔ اس نے بہادری کا ڈنڈا مارا تو اس کتے کے منہ پر لگا اور وہ زخمی ہو گیا دوسرے حسدی کتے نے پیچھے سے حملہ کر دیا اور تیسرے نے بھی حملہ کر دیا وہ حسدی کتوں کے دانتوں کا شکار بنا ہوا تھا کہ پیچھے سے کسی نے چاقوں کا حملہ کر دیا جو کہ ایک لکڑی کے ڈنڈے کے اوپر لگا ہوا تھا۔ وہ ایک کتے کو لگا اور وہ زخمی ہو کر بھاگ گیا بدقسمت بھی کھڑا ہوا اس نے بھی ڈنڈا گھمایا اور اس طرح دونوں حسدی کتے بھاگ گے۔
بدقسمت نے اس کو دیکھا جو اس کی مدد کے لیے آیا تھا اس کا جسم فولادی تھا اور چہرہ بڑا خوشگوار لگ رہا تھا۔ بدقسمت نے اس سے پوچھا ’’کون ہو تم؟‘‘ اس نے جواب دیا ’’میں ہمت ہو میں ادھر ہی ہوتا ہوں تم جیسے اکثر اس رستے سے گزرتے ہیں میں ان کی حفاظت کرتا ہوں تم کامیابی سے ملنے جا رہے ہو نا آگے بڑھو اوپر چڑھتے جائو ابھی کافی رستہ پڑا ہوا ہے گھبرانا نہیں آ گے میری طرح اور بھی ہوں گے جو تمہیں اوپر جانے تک حفاظت کریں گے چلو جلدی کرو بد قسمت نے اس کی بات سنی تو آ گے بڑھ دیا۔
چڑھائی اور مشکل ہو گئی رستے میں بڑے بڑے پتھر پڑے تھے جن کو دیکھ کر خوف آتا تھا کہ کہی اوپر ہی نہ گر جائیں۔ ابھی حسدی کتوں سے جان بچی تھی کہ کہی سے پتھر اس کے اوپر گرنے لگ گئے اس نے اوپر منہ کیا تو تنقیدی بندر اس کے اوپر چھوٹے چھوٹے پتھر پھینک رہے تھے جو کہ بہت زور سے لگتے تھے اور اس کا جسم زخمی ہو رہا تھا اور وہ پریشانی سے کبھی ادھر بھاگے کبھی ادھر بھاگے اس کو کچھ سمجھ نہ آیا وہ کیا کرے پھر اس نے سوچا ان سارے بندروں سے میں نہیں لڑ سکتا اور اب واپس گیا تو مایوسی کے ساتھ زندگی گزارنی پڑے گی تو اس نے اوپر چڑھنے کی رفتار تیز کر دی اور وہ چڑھتا گیا حتی کہ سارے بندر پیچھے رہ گے اور اس کے اوپر پتھر برسنا بند ہو گئے مگر اس کا جسم کافی زخمی ہو گیا تھا۔ اس کو کافی تکلیف ہو رہی تھی اور وہ اسی تکلیف کے ساتھ چل رہا تھا آگے گیا تو ایک بہت بڑا پتھر نظر آیا جس کے اوپر حوصلہ مند بیٹھا عبادت کر رہا تھا بدقسمت نے سوچا شاید یہی کامیابی ہے۔ اس نے پوچھا ’’تم کامیابی ہو؟‘‘
’’نہیں میں حوصلہ ہوں کامیابی کافی بلندی پر ہوتی ہے تم چڑھو اوپر تھوڑا ہی رستہ رہ گیا ہے۔ تم کافی تھک گے ہو‘‘ حوصلہ مند نے کہا۔ ’’ہاں بس ہو گئی میری‘‘ بدقسمت نے کہا۔
’’نہیں آگے بڑھو تمہارے حالات بدل جائیں گے بس تھوڑا سا دور ہی تو جانا ہے‘‘ بدقسمت نے سنا اور اس کو جوش آیا اور وہ چل دیا حوصلہ مند کی بات سے اس کو لگا بس تھوڑا سا ہی ہو گا مگر ابھی تھکانے کے لیے آگے نا امید بھیڑیا بیٹھا تھا جب بدقسمت نے دیکھا تو وہ ڈر گیا۔ وہ دیکھنے میں بہت بھیانک لگ رہا تھا اور پچھلے جتنے مسائل آئے تھے ان میں سب سے زیادہ مشکل لگ رہا تھا۔ نا امید بھیڑیے نے دیکھا تو وہ چوکنا ہوگیا اور اس پر حملہ کرنے کے لیے تیار تھا۔ بدقسمت نے سمجھا بھیڑیا بھوکا ہے تو اس نے بیگ میں سے کافی ساری امیدیں نکال کر اس کے سامنے پھینک دی۔ جس کو وہ کھانے لگ گیا اور اس طرح جو مسئلہ سب سے بڑا لگ رہا تھا وہ سب سے آسان ہو گیا اور بدقسمت پہاڑ کی بلندی پر چڑھنے لگ گیا آخر اس کو وہ جگہ مل گئی جہاں بابا مشورہ نے کہا تھا کامیابی نے اپنا ڈیرہ ڈالا ہوا ہے۔
جب بدقسمت اوپر پہنچا تو کامیابی بیٹھا کچھ لکھ رہا تھا اس کے چہرے پر بڑا سکون تھا اس کا چہرہ پرونق تھا کامیابی نے لکھتے لکھتے کہا ’’آجاوں تمہارا ہی انتظار تھا‘‘ بدقسمت بڑا حیران ہوا۔ ’’بتاو کیا چاہیے کیا لینے آئے ہو‘‘ کامیابی نے پوچھا۔
’’میں بدقسمت ہوں میرے حالات بہت خراب ہیں۔ میں کچھ بھی نہیں ہوں میں بے کار ہوں ناکام ہوں سب کے لیے فضول ہوں سب میرا مذاق اڑاتے ہیں میرا ہر لمحہ زوال ہے آپ کے پاس حالات کی بہتری کے لیے آیا ہوں کوئی طریقہ ہی بتا دیں‘‘ بدقسمت نے کہا۔ کامیابی نے ہاتھ میں پکڑا ہوا کاغذ بدقسمت کو دیا اور کہا۔
’’یہ لو تمہاری سند اب تم ناکام نہیں رہو گے بے کار نہیں رہو گے اب تمہارے حالات بہترین ہو جائیں گے اب تم دنیا کے لیے مثال بن جائو گے اب تمہارا ہر لمحہ عروج ہو گا‘‘ بدقسمت نے سند پکڑی تو اس میں لکھا تھا۔ ’’شکرگزاروں کو اپنا ساتھی بنا لو اور مغروروں سے دور رہو‘‘ بدقسمت نے سند جیب میں ڈالی اور شکریہ کہہ کر واپس جانے لگا تو پیچھے سے آواز آئی ’’اب سے تمہارا نام خوش قسمت ہو گا اور یاد رہے جو اوپر آنے کا راستہ ہے وہی نیچے جانے کا راستہ بھی ہے مگر تم سب کے لیے رہنما بن جائو گے۔‘‘ خوش قسمت اب سب کچھ سمجھ گیا تھا اور نیچے جانے کے لیے تیار تھا۔