مسئلہ کشمیر اور پاکستان

519

نسرین لئیق
بھارت کا مسلسل یہ راگ الاپنا کہ کشمیر اس کا اٹوٹ انگ ہے، تاریخی حقائق کا منہ چڑانے کے مترادف ہے۔ بھارت نے کشمیر پر حملہ کرکے اس کے ایک حصے پر قبضہ کرلیا تھا جب کہ اُس وقت نوزائیدہ پاکستان سنبھل بھی نہ پایا تھا۔ کشمیری بھارت کے ساتھ رہنا نہیں چاہتے تھے، انہوں نے اس کے خلاف جہاد شروع کردیا جو تاحال جاری ہے اور کشمیر کی آزادی تک ان شاء اللہ جاری رہے گا۔
کشمیر کا مسئلہ تقسیمِ برصغیر کا نامکمل ایجنڈا ہے، کیوں کہ مسلمانوں کے اکثریتی علاقوں کو پاکستان میںشامل ہونا تھا اور کشمیر میں بھی مسلمان 90 فیصد کی اکثریت میں تھے۔ تقسیمِِ برصغیر کے وقت کشمیریوںکو اُن کے بنیادی حق ’’حقِ خودارادیت‘‘ سے محروم رکھا گیا جس کے لیے اقوام متحدہ میں دو قراردادیں بھی منظور کی گئیں، ایک 13 اگست 1948ء کو، اور دوسری 5 جنوری 1949ء کو، جس میں ان کو حقِ خودارادیت دیا گیا ہے۔
کشمیری عوام کی آزادی کی پہلی جدوجہد 1846ء میں شروع ہوئی جب انگریزوں نے اسے ذاتی جائداد کی طرح 75 لاکھ نانک شاہی کے عوض مہاراجا گلابِ سنگھ کے ہاتھوں فروخت کردیا جس کا کشمیر سے کوئی تعلق اور واسطہ نہیں تھا۔ اُس وقت بھی آزادی کے متوالوں نے اپنے جسم کی زندہ کھالیں کھنچوا دیں مگر غلامی کو قبول نہ کیا۔
جدوجہدِ آزادیٔ کشمیر کا دوسرا دور 13 جولائی 1931ء کو شروع ہوا جب ڈوگرہ حکمرانوں نے مسلمانوں کی آزادی پر حملہ کیا تھا۔ اس جدوجہد میں 22 مسلمان شہید ہوئے جن کے خون نے تحریک کو نیا موڑ دیا۔ جدوجہد آزادی کا تیسرا دور 3 جون 1947ء کو شروع ہوا جب وائسرائے ہند نے مبہم اور غیر واضح فیصلہ کرکے مسئلہ کشمیر کو حل کیے بغیر ہندوستان سے یونہی چلے جانے کا فیصلہ کیا تاکہ دونوں ملک (ہندوستان اور پاکستان) اس پر لڑ لڑ کر اپنی توانائیاں ضائع کرتے رہیں۔ اُس وقت کشمیر میں 90 فیصد مسلمان آباد تھے۔ 19 جولائی 1947ء کو کشمیر کی واحد نمائندہ جماعت آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کے پلیٹ فام سے قراردادِ الحاق پاس کرکے تحریکِ آزادی کو الحاقِ پاکستان سے مشروط کردیا گیا اور مہاراجا ہری سنگھ کو مجبور کیا گیا کہ وہ عوام کو اعتماد میں لیے بغیر کوئی فیصلہ نہیں کرسکتا۔
بھارتی حکمرانوں نے جن سنگھی تنظیم کے دہشت گردوں کو ریاست میں بھیج کر قتل و غارت گری کا بازار گرم کیا، جس کے جواب میں مسلمانوں کو بھی مجبوراً ہتھیار اٹھانا پڑے جس کے نتیجے میں شمالی علاقہ جات سمیت 32 ہزار مربع میل کا علاقہ مجاہدینِ کشمیر نے آزاد کرا لیا۔
بھارتی حکمرانوں نے کشمیر کا علاقہ ہاتھ سے نکلتا دیکھ کر اقوام متحدہ کا دروازہ کھٹکھٹایا۔ پھر اقوام متحدہ کی مداخلت اور پاکستان کے کہنے پر مجاہدینِ کشمیر نے فائربندی کرکے طویل انتطار کیا، مگر اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل درآمد نہ ہونے اور بھارت کے حقِ خودارادیت کے وعدے سے منحرف ہونے پر ایک مرتبہ پھر کشمیریوں نے 1988ء میں مسلح جدوجہد کا آغاز کردیا جس میں اس کے ڈاکٹر، انجینئر اور نوجوان بھرپور حصہ لے رہے ہیں۔ یہ جدوجہدِ آزادی کا چوتھا دور ہے۔ اس میں ایک لاکھ سے زائد شہدائے کشمیر کی قبریں اس بات کی گواہی دیتی ہیں کہ یہ کوئی بیرونی مداخلت نہیں، خالصتاً کشمیریوں کی آزادی کی تحریک ہے۔
بانیِ پاکستان حضرت قائداعظم محمد علی جناح کا یہ کہنا کہ ’’کشمیر پاکستان کا شہہ رگ ہے‘‘ کوئی انتخابی نعرہ نہیں تھا، وہ پاکستان کو زندہ اور توانا رکھنے کا رہنما اصول دے گئے۔ کشمیر پر گفتگو کا بھارتی مطلب آزاد کشمیر زیربحث لانا ہے، یعنی پاکستان کے قبضے میں کشمیر متنازع مسئلہ ہے۔ مزید یہ کہ بھارت کا ہر واقعے اور سانحے کو اس سے جوڑنا اس مسئلے کو الجھائے رکھنا ہی تو ہے۔ حکمران عقل کے ناخن لیں، مسئلہ کشمیر کو بھارت کے اندر رونما ہونے والے واقعات سے جوڑنا، دہشت گردانہ کارروائیوں کی پخ لگا کر پیچھے ہٹنا، جامع یا مرکب مذاکرات کے ساتھ یکجا کرنا وغیرہ وغیرہ کی پخ لگانا اپنے مقصد کو کمزور کرنے کے سوا کچھ نہیں۔ جنگ اگر کسی مسئلے کا حل نہیں ہے تو جہاد کریں، کیونکہ مسلمان مذاکرات ہی کی بات کرتے ہیں، اگر اس سے مسئلہ حل نہ ہوتا ہو تو جنگ آخری آپشن ہے۔ اس مسئلے میں ضروری ہے کہ دونوں فریق زمینی حقائق کو سامنے رکھ کر بات چیت کریں۔ بھارت کی ہٹ دھرمی کہ ’’مقبوضہ کشمیر اٹوٹ انگ ہے، آزاد کشمیر پر بات ہوگی‘‘ زمینی حقائق کا منہ چڑانے اور غیر سنجیدگی کے سوا کچھ نہیں۔ پاکستان جب بھی اس مسئلے کو اٹھائے گا موجودہ بنیاد پرست مودی حکومت کہے گی ہم تو صرف آزاد کشمیر پر بات کریں گے۔ جب پاکستان بہت اصرار کرے گا تو بھارت کی جانب سے بڑے نخروں کے بعد احسان جتلانے کے انداز میں کہا جائے گا کہ چلو ہم مشرف کے فارمولے پر بات کرلیتے ہیں۔ جب کہ کشمیری عوام کی اکثریت مشرف فارمولے کو مسترد کرچکی ہے، کیوں کہ اس فارمولے کے تحت لائن آف کنٹرول کو مستقل سرحد تسلیم کرکے اقوام متحدہ کی قراردادوں اور پاکستان کے آئین کی دفعہ 257 کی نفی کی گئی ہے۔ اس فارمولے کے تحت ہندوستان کو کچھ نہیں دینا پڑے گا، وہ آزاد کشمیر سے دست بردار ہوکر ہم پر احسان جتائے گا لیکن پاکستان سب کچھ ہار دے گا۔
حکومت کو مشرف فارمولے پر اپنی پوزیشن واضح کرنا ہوگی، کیوں کہ بیک ڈور چینل میں یہ کہا جارہا ہے کہ اس فارمولے کو کشمیر امن فارمولے کا نام دے کر آگے بڑھایا جائے۔ مذاکرات کا مقصد تنازعات کا منصفانہ حل ہونا چاہیے۔ مذاکرات کے ذریعے کسی ناانصافی کو قبول کرنا پاکستان کے وجود کی نفی کرنا ہوگا۔

حصہ