اچھے اخلاق

536

طیبہ شیخ
حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کی ترغیب دی کہ مسلمانوں کے اخلاق اعلیٰ اور اچھے ہوں۔ اس سلسلے میں آپؐ کا ارشادِ مبارک ہے: ’’جو قطع رحمی کرے اس سے صلہ رحمی کرو، جو محروم کرے اسے عطا کرو، جو ظلم کرے اسے معاف کردو۔‘‘(کنزالعمال، کتاب الاذکا، ج2، ص 135)
نفل پڑھنا آسان ہے، اس لیے کہ اس سے بھی نفس بسا اوقات موٹا ہونے لگتا ہے۔ فلاحی کام کرنا بھی آسان ہے اس لیے کہ اس میں بھی بسا اوقات نفس موٹا ہونے لگتا ہے، لیکن اللہ کے لیے کسی سے معذرت کرلینا، اللہ کے لیے کسی کے سامنے جھک جانا، اللہ کے لیے کسی ناراض کو راضی کرنا… اس سے نفس پر چوٹ لگتی ہے، اس لیے نفس کو یہ گوارا نہیں ہے۔ دل ہی دل میں کہتا ہے کہ اگر اس نے یوں کہا تو میں یوں کہوں گا۔ اس طرح ساری دین داری منٹوں کے اندر ختم ہوجاتی ہے۔
مومن کیسا ہوتا ہے؟
میرے عزیزو! یہ اخلاق ہی کی کمی ہے جس کی وجہ سے آج ہر جگہ اختلاف ہی اختلاف نظر آرہا ہے۔ معافی نہیں بلکہ ظلم ہے، درگزر نہیں بلکہ زیادتی ہے، حلم نہیں بلکہ طعن و تشنیع ہے، لعن طعن ہے۔
’’آپؐ نے ایک موقع پر فرمایا: ’’حقیقی مومن فحش گو، طعنے دینے اور بدگوئی کرنے والا نہیں ہوتا۔‘‘ (ترمذی، باب ماجا، فی اللعنۃ، ج 2، ص 18)
مومن کا کیا تعلق طعن سے؟ اس کا کیا تعلق طنز سے؟ اس کا کیا تعلق فحش گوئی سے؟ مومن تو خود کو ان چیزوں سے دور رکھتا ہے۔ اس لیے میرے عزیزو! نرمی اختیار کی جائے، اس لیے کہ جو شخص نرمی سے محروم ہوگیا وہ ساری بھلائیوں سے محروم ہوگیا۔ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ مبارک ہے: ’’جو نرمی سے محروم ہوگیا تو گویا وہ ساری خیروں سے محروم ہوگیا۔‘‘ (ابو دائو، باب فی الرفق، ج 2۔ ص 319)
اہلِ علم نے ایک عجیب بات لکھی ہے کہ اللہ نے زبان کے اندر ہڈی نہیں رکھی ہے تاکہ اس میں سختی نہ آجائے۔ اللہ پاک نے بغیر ہڈی کے زبان بنائی ہے کہ نرم اور میٹھے بولوں سے دل جیتے جاسکیں۔

حصہ