مریم شہزاد
’’ہمیں کھو کر بہت پچھتائو گے، جب ہم نہیں ہوں گے
بھری دنیا کو ویراں پائو گے، جب ہم نہیں ہوں گے
ہمیں اپنا نہیں جانِ تمنا غم تمہارا ہے
کہ تم کس پر ستم فرمائو گے، جب ہم نہیں ہوں گے‘‘
ارسہ کام کے ساتھ ساتھ اپنا پسندیدہ گانا نہ صرف سن رہی تھی بلکہ ساتھ ساتھ گنگنا بھی رہی تھی۔ ’’رونا لیلیٰ‘‘ کا گانا تھا، مگر آج تو شاید کم لوگ ہی ان سے واقف ہوں گے، مگر اس نے نہ جانے کیسے اور کہاں یہ گانا سن لیا اور اپنے موبائل میں Save کرلیا، اور اکثر و بیشتر وہ اس گانے کو سنتی اور شاید اپنے آپ کو یقین دلاتی کہ یقینا اس کا مجازی خدا شہروز اس کے بغیر نہیں رہے گا، جتنا وہ اس کو چاہتی ہے اتنا ہی شہروز بھی اس کو چاہتا ہے۔ پرانے گانے اس کو بہت پسند آتے تھے خصوصاً ’’روٹھے ہو تم، تم کو کیسے منائوں…‘‘ لگتا تھا کہ اصل زندگی سے میچ کرتے ہیں۔
جب سے اس کی شادی ہوئی تھی، شہروز سے اس کی محبت بڑھتی جارہی تھی۔ اس کے تین بچے ہوچکے تھے، مگر وہ اب بھی اس کے دفتر سے آنے سے پہلے شروع دن کی طرح ہی تیار ہوتی اور اچھا سا پرفیوم بھی ضرور لگاتی تھی، اور بقول شہروز اسے دیکھتے ہی اس کی ساری تھکن اتر جاتی ہے۔
گھر کا ماحول ارسہ کی عقل مندی کہہ لیں یا نظرانداز کرنے کی عادت کہہ لیں، اس کی سمجھ داری کے سبب بہت خوش گوار تھا۔ نوک جھونک، روٹھنا منانا یہ سب چلتا ہی رہتا تھا۔ جب کبھی شہروز ناراض ہوجاتا یا کوئی اَن بن ہوجاتی تو وہ منانے میں پہل کرلیتی، اور کبھی خود ناراضی کا اظہار وہ کردے تو ایسا تو شاید اُس کے یا اُس کے شوہر کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا۔ بس اس کو یہی خیال آتا کہ ’’تم کس پر ستم فرمائو گے جب ہم نہیں ہوں گے‘‘ اور ہلکی سی مسکراہٹ اس کی نم آنکھوں کے ساتھ ہونٹوں پر آجاتی۔
آج اچانک ہی سیما اس سے ملنے آگئی، تو بہت ساری باتوں کے بعد آخر اُس کی برداشت سے باہر ہوگیا، بولی ’’یہ تم اتنی مطمئن اور خوش باش ہی رہتی ہو یا صرف شو آف کررہی ہو؟‘‘
’’تمہیں کیا لگ رہا ہے؟‘‘ ارسہ نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
’’شو آف لگ تو نہیں رہا، مگر یقین بھی نہیں آرہا کہ کیسی عورت ہو تم! میں کب سے بک بک کیے جارہی ہوں کہ خاور ایسے ہیں، خاور ویسے ہیں، اور ایک تم ہو کہ ایک لفظ شہروز بھائی کے خلاف نہیں بولتیں! مانا کہ بہت اچھے ہوں گے مگر کوئی بھی بندہ اور خاص کر شوہر، پرفیکٹ ہو ہی نہیں سکتا۔‘‘ سیما نے کہا۔
’’ارے… ارے نظر لگائو گی کیا؟‘‘ ارسہ ہنستے ہوئے بولی ’’یہ لو جوس پیو۔‘‘
’’میں کیا پوچھ رہی ہوں… کیا کوئی لڑائی وڑائی نہیں ہوتی؟ کوئی روٹھنا منانا نہیں ہے کیا؟‘‘ سیما کو تجسس ہوگیا تھا۔
’’کیوں نہیں ہوتا! ہم بھی انسان ہیں اور میاں بیوی بھی ہیں۔ چھوٹی موٹی ناراضیاں تو چلتی ہی رہتی ہیں، اور پھر بقول شاعر’’بڑا مزا ہے اُس ملن میں جو لڑائی کے بعد ہو‘‘۔ ارسہ نے کہا۔
’’مگر تم کو دیکھ کر ایسا تو نہیں لگ رہا، لگتا ہے بڑی آسان روٹین کی لائف ہے، تم اُدھر خوش ہم اِدھر مطمئن۔‘‘
سیما کی بات سن کر ارسہ نے کہا ’’ارے میری جان! زندگی آسان نہیں ہوتی، اسے آسان بنانا پڑتا ہے… کچھ برداشت کرکے، کچھ نظرانداز کرکے۔‘‘
’’کچھ برداشت کرکے، کچھ نظرانداز کرکے؟‘‘ سیما نے سوالیہ انداز میں کہا۔ ’’ارے بی بی کچھ نہیں بہت کچھ برداشت کرکے، بہت زیادہ نظرانداز کرکے کہو… مگر پھر بھی آسان تو نہیں ہوتا۔ شادی سے پہلے ماں باپ کے گھر بھائی بہن کی باتیں برداشت اور نظرانداز کرو، پھر شادی کے بعد میاں، ساس، سسر، نند سب کے موڈ اور مزاج دیکھتے رہو… یار! ہم بھی تو انسان ہیں، ہمارے جذبات نہیں ہیں کیا؟ کتنا نظرانداز کریں…؟‘‘ فرطِ جذبات سے اس کے آنسو نکل آئے اور اس نے اپنی بات ادھوری چھوڑ دی۔
’’بس بس… زیادہ جذباتی نہ ہو، یہ لو جوس پیو ٹھنڈا ٹھنڈا، میٹھا میٹھا، اور خود بھی میٹھی ہوجائو‘‘۔ ارسہ نے اس کو ہنساتے ہوئے کہا۔ ’’اب دیکھو ناں گھر والوں کی، اپنے مردوں کی… خواہ بھائی ہو، باپ ہو یا شوہر… باتیں مان کر ہی تو ہم عزت سے اپنی چار دیواری میں محفوظ زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کو عزت دیتے ہیں تو جواب میں ہمیں بھی عزت ملتی ہے‘‘۔ اور پھر شرارت سے کہا ’’وہ سر کے تاج، تو ہم بھی ملکہ بن کر رہتے ہیں، حکمرانی کرتے ہیں۔‘‘
’’ایک تو تم ناں! مجھے پتا تھا تم مجھے بہلا ہی لو گی۔ پتا ہے مجھے بھی سب، اور ان سب باتوں کو میں بھی دل سے مانتی ہوں، مگر کبھی کبھی یہ پاگل دل ہے ناں، اُوورلوڈ ہوجاتا ہے، دل چاہتا ہے سب تہس نہس کردوں، مگر ہمیشہ ہی تمہارے آگے دل ہلکا کردیتی ہوں اور سیٹ ہوجاتی ہوں، پھر سب کچھ اچھا لگنے لگتا ہے‘‘۔ سیما نے آنسو پونچھتے ہوئے کہا۔
’’جی ہاں! دل تو ہلکا ہوجاتا ہے مگر غیبت جو ہوجاتی ہے ہم اُس کا نہیں سوچتے کہ اللہ کو کیا جواب دیں گے… کہ جی ہم کو دل ہلکا کرنا تھا ورنہ اللہ میاں آپ کو تو پتا ہے سب اچھا ہے۔‘‘ ارسہ نے کہا تو سیما ہنس پڑی اور بولی ’’یہ غیبت تھوڑی ہے، تم اپنی امی اور بہنوں سے دل کا حال کہہ لیتی ہوگی، میری تو کوئی بہن نہیں ناں، اور امی کا تو پتا ہے کچھ بتائو تو وہ فوراً دل پر لے لیتی ہیں، بتائو اب میں کیا کروں؟‘‘
’’بتائوں… کرو گی؟‘‘ ارسہ نے پوچھا۔
’’کیا بتائوں… مطلب؟‘‘ سیما نے کچھ نہ سمجھتے ہوئے پوچھا۔
ارسہ نے کہا ’’تم کو معلوم ہے میں کبھی امی اور بہنوں سے کچھ نہیں کہتی۔‘‘
’’پھر…؟‘‘ سیما نے پوچھا۔
’’میں پتا ہے کیا کرتی ہوں؟ میں سب کچھ ایک جگہ لکھ کر دل کی بھڑاس نکال لیتی ہوں۔‘‘ اس نے مزے سے بتایا۔
’’ہائے اللہ… اور کسی کے ہاتھ لگ گیا تو؟‘‘ سیما نے پریشانی سے پوچھا۔
’’لگ ہی نہیں سکتا‘‘۔ ارسہ نے یقین سے کہا۔ ’’میں یا تو بچوںکے وائٹ بورڈ پر لکھ کر مٹا دیتی ہوں، یا کاغذ پر لکھ کر پھاڑ دیتی ہوں، یا موبائل پر ٹائپ کیا اور Delete کردیا۔ دل بھی ہلکا اور غیبت جیسے گناہ سے بھی بچ جاتی ہوں۔‘‘
’’واہ کیا بات ہے جناب کی، کیا ہمیشہ سے ایسا ہی کرتی ہو؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’نہیں، پہلے تو ایک ڈائری بنائی ہوئی تھی، تم کو تو معلوم ہے شادی کے بعد شروع شروع میں کتنے مسئلے ہوتے ہیں، روز ہی رونا آرہا ہوتا ہے، تو میں ڈائری لکھ لیتی تھی۔ پھر بچے ہوگئے تو وقت ہی نہیں ملا… ڈائری کہیں رکھ کر بھول گئی، پھر لکھنا بھی کچھ کم ہوگیا، کیونکہ بچوں کے ساتھ وقت نہیں ملتا تھا۔ تب شاید کچھ کچھ اس گناہ کی مرتکب ہوجاتی تھی۔ پھر بچے تھوڑے بڑے ہوئے تو صفائی کے دوران یہ ڈائری ملی۔ اُف میں تو پڑھ کر خود ہی کانپ گئی کہ یہ میں نے کیا کیا خرافات لکھی ہیں شہروز کے بارے میں، ساس کے بارے میں! میں نے فوراً ڈائری جلا ڈالی اور اللہ کا شکر ادا کیا کہ ڈائری کسی کے ہاتھ نہیں لگی ورنہ تو سب کا دل مجھ سے خراب ہوجاتا۔ بس پھر میں نے اس طرح لکھ کر پھاڑنا شروع کردیا، یا نماز میں اللہ کے گوش گزار کردیا، کیوں کہ ہم عورتوں کا، بقول تمہارے، دل ہلکا کیے بغیر چارہ بھی تو نہیں ہے ناں۔‘‘
’’بہت اچھا… چلو اب میں بھی یہی کروں گی۔‘‘ سیما نے کہا اور چھیڑتے ہوئے بولی ’’مطلب، اب تمہارے یہاں آنے کی ضرورت بھی نہیں؟‘‘
’’اچھا…!!‘‘ ارسہ نے آنکھیں دکھائیں ’’اور بھی باتیں ہیں زمانے میں غیبت کے سوا… آتی جاتی رہیں گی آپ، سمجھیں…‘‘ اس نے رعب سے کہا۔
’’جو حکم ملکہ عالیہ…‘‘ سیما نے کہا اور دونوں سہیلیاں ہنس پڑیں۔