آتے ہیں شاد سے یہ مضامین خیال میں

496

ڈاکٹر باقر رضا
اس سنجیدہ اور تحقیقی مقالے کا عنوان ہے ’’آتے ہیں شاد سے یہ مضامین خیال میں‘‘ ابتدا ہی میں عرض کردوں کہ اس مقالے کا دورانیہ سوا سترا منٹ اور پونے ستر ملی سیکنڈ ہے۔ پڑھنے میں طوالت کی ذمے داری سراسر تالیاں بجانے اور کسی فقرے، جملے یا پیراگراف کو دوبارہ پڑھنے کی فرمائش کرنے والے سامعین پر ہوگی۔ مزید یہ کہ اس مضمون میں لفظ شاد اور شاد کے تمام مفروضات و متفرقات، سابقوں اور لاحقوں سے مراد صرف اور صرف مرزا اشرف علی بیگ عرف اشرف شاد صاحب ہیں۔ کوئی اور اس میں اپنے آپ کو شامل سمجھے گا تو نقصان کا ذمے دار وہ خود ہوگا۔ صاحبِ مضمون اور موضوعِ مضمون دونوں بری الذمہ سمجھے جائیںگے۔
چونکہ یہ ایک تحقیقی مقالہ ہے لہٰذا سب سے پہلے تو ہم نے یہ تحقیق کی کہ ستر برس کا ہوجانے کا اعلان کرنے کے لیے ستر برس کی عمر کے علاوہ کیا درکار ہے۔ کئی ایک معمر بزرگوں سے دریافت کیا اور ان میں ایسی بزرگ خواتین بھی شامل ہیں جو ہمارے بچپن میں ستر برس کی عمر کو پہنچنے والی تھیں۔ تاہم بہ وجوہ اب تک نہیں پہنچ سکیں۔ ایک تو اتنی عاقلہ ہیں کہ اپنا شناختی کارڈ ہمیشہ ساتھ رکھتی ہیں کہ سند ہے اور بہ وقتِ ضرورت خاص طور پر جب کوئی ان کو آنٹی کہتا ہے تو کام آتا ہے۔ یہ الگ بات کہ شناختی کارڈ 1971 کے الیکشن میں ووٹ ڈالنے کے لیے بنوایا گیا تھا اور تاریخ پیدائش یا عمر کے خانے میں اس وقت بتیس سال عمر درج کی گئی تھی۔ تب سے ان کی عمر وہیں ٹھیرگئی ہے۔ اب آپ سرکاری دستاویزات کو جھٹلا تو نہیں سکتے ہیں۔
خواتین میں ملکۂ برطانیہ ہی ایسی ہمت مردانہ رکھتی ہیں کہ انہوں نے نہ صرف اپنے ستر برس پورے ہونے کا اقرار کیا بلکہ اس کا جشن بھی منایا۔ یہ الگ بات کہ پرنس فلپ اس حق گوئی و بے باکی سے دور ہی رہے۔ مرد حضرات گو اپنی عمر نہیں چھپاتے ہیں۔ تاہم سترویں سالگرہ منانے سے پرہیز کرتے ہیں۔ آج کل کے دور میں تو ویسے ہی عمر کے اس حصے میں سالگرہ منانے یا نہ منانے کے شرعی مسائل بھی سر اٹھانے لگے ہیں۔ تاہم ایک بزرگوار جن کو اعتراف تھا کہ وہ ستر برس کے ہوچکے ہیں۔ ان سے ہم نے سترویں سالگرہ منانے کا پوچھا تو نہایت سنجیدگی و متانت سے گویا ہوئے کہ اس کام کے لیے شوقِ فضول و جرأتِ رِندانہ چاہیے۔
شوقِ فضول اور جرأتِ رِندانہ سے اشرف شاد صاحب کی پوری زندگی عبارت ہے اور عمر کے ساتھ ان دونوں صلاحیتوں یں روز افزوں اضافہ ہورہاہے۔ مشہور انگریز فلاسفر سی این ایم جوڈ نے کہا تھا کہ “Men are like wine – some turn to vinegar, but the best improve with age.”
مرد شراب کی طرح ہوتے ہیں جو وقت کے ہاتھوں سرکہ نہیں بنتے وہ کہنہ ہوکر اور قیمتی ہوجاتے ہیں۔
بہ ہزار تحقیق یہی معلوم ہوا کہ عہد شباب کے آغاز ہی میں شاد صاحب شاعری کی زلفوں کے اسیر ہوئے اور بائیں بازو کی سیاست سے وابستہ ہوئے جو اس زمانے کے عشاق کا عمومی طریقۂ واردات تھا۔ تب سے اب تک نہ تو شاعری سے کنارہ کش ہوئے ہیں اور نہ ہی ترقی پسندی سے منہ موڑا ہے۔ پھر کوچۂ صحافت کا رخ کیا۔ لیجیے شاعری، ترقی پسندی اور صحافت گویا معاملہ اب سہ آتشہ ہوگیا۔
کیوں نہ فردوس کو دوزخ میں ملالیں یا رب
سیر کے واسطے تھوڑی سی فضا اور سہی
Dorothy Thompson ڈورو تھامسن جن کو امریکی صحافت کی خاتونِ اول سمجھا جاتا ہے۔ فرماتی ہیں:
“Age is not measured by years. Nature does not equally distribute energy. Some people are born old and tired while others are going strong at seventy”
’’عمر کا تعین برسوں سے نہیں ہوتا ہے، فطرت نے سب کو یکساں توانائی عطا نہیں کی ہے۔ کچھ پیدائشی بوڑھے ہوتے ہیں اور کچھ ستر برس کی عمر میں بھی تازہ دم ہوتے ہیں۔‘‘ یہ بات شاد صاحب پر صادق آتی ہے۔ میں نے بہ غرضِ تحقیق ان کی قدیم تصاویر سے استفادہ کیا۔ بھوئوں،پلکوں اور مونچھوں کے بال جتنے پہلے تھے اتنے ہی اب بھی ہیں۔ ماتھا البتہ فارغ البالی کے اظہار کو ذرا کشادہ ہوگیا ہے۔ جیسے پہلے آنکھوں اور چہرے سے شوخی ٹپکتی تھی ویسے ہی اب بھی ہے۔ بہادر شاہ ظفر اسی بات کو یوں کہتے ہیں:
شمشیر برہنہ بات غضب، لہجے کی چمک پھر ویسی ہے
افکار کی گرمی کیا کہنے، گفتار دھنک پھر ویسی ہے
یہ حسنِ خداداد یا تو ہم نے ان کی جان سے دور الزبتھ ٹیلر، انگرڈ برگ مین، جینا لولو برجیڈایا اپنی میڈم نور جہاں جیسی نازنینوں میں دیکھا یا اشرف شاد صاحب میں پایا۔ انشا اﷲ خان انشا کا شعر ہے:
گر نازنیں کہے سے بْرا مانتے ہو تم
میری طرف تو دیکھئے میں نازنیں سہی
ایسا ہرگز نہیں ہے کہ شاد صاحب اپنے وجہیہ و شکیل ہونے سے بے خبر ہیں۔ انہوں نے اپنی جبری جلاوطنی کا بڑا عرصہ نیو یارک میں بسر کیا ہے۔ جب آپ ان سے یہ پوچھیںگے کہ یہ وہاں کس جگہ رہتے تھے تو یہ تو نہ بتائیںگے کہ کہاں قیام تھا البتہ یہ بتادیںگے کہ جب رات کو کام سے واپسی پر ٹرین سے اترتے تھے تو اس اسٹیشن پر اترنے والے یہ واحد گورے ہوتے تھے۔
بات ہورہی تھی شاد صاحب کی صحافتی زندگی کی، جو ابتدا سے ہی انقلابی رہی ہے، سرخ پرچم ہاتھ میں لیے پاک سرزمین شاد باد گاتے اور پاک سرزمین کے فوجی آمروں سے ٹکراتے شاد صاحب پر جلد ہی وہ وقت بھی آگیاکہ قید یا بے وطنی میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا اور شاد باد منزلِ مراد پڑھتے شاد صاحب دنیا میں جائے امان ڈھونڈھنے نکل کھڑے ہوئے۔ یہ الگ بات کہ پاکستان ان کے دل سے نہیں نکلا۔ بہ قول مولانا روم:
سفر کردم بہ ہر شہری دو یدم
چو شہر عشق من شہری ندیدم
ندانستم زِاول قدر آن شہر
زنا دانی بسی غربت کشیدم
’’ہر شہر میں سفر کیا پر شہر عشق سا شہر نہ دیکھا۔ مری نادانی کہ میں نے اسی شہر کی قدر نہ جانی اور عمر غربت میں بسر کی‘‘۔ شاد صاحب کا شہر عشق پاکستان ہے۔ جب موقع ملے پاکستان کا پھیرا لگا آتے ہیں کہ ٹک دیکھ لیا دل شاد کیا والی کیفیت ہے۔ آنول نال ان کی وہیں گڑی ہے بے وطن، وزیراعظم، صدر محترم اور زیر تحریر ناول جج صاحب وہیں کے پس منظر میں لکھے ہیں۔ دل وہیں پڑا رہتا ہے جسمانی طور پر آسٹریلیا میں مقیم ہیں۔
کعبہ سے ان بتوں کو بھی نسبت ہے دور کی
واں کے نہیں پر واں کے نکالے ہوئے تو ہیں
میں نے جان بوجھ کر بے وطنی لکھا تھا، نجانے کیوں مجھے خود ساختہ جلاوطنی کی اصطلاح درست نہیں لگتی ہے۔ مشفق خواجہ المعروف بہ خامہ بگوش نے اس کو فہمیدہ ریاض، احمد فراز اور فیض صاحب کے لیے بہ طور طعنہ استعمال کیا تھا۔ اپنا وطن کوئی خوشی خوشی تھوڑی چھوڑتا ہے۔ یہ مسلط کردہ جلاوطنی ہے۔ اسی کے دکھ سے وہی واقف ہے جس نے یہ کڑوا زہر پیا ہے۔ شاد صاحب کا شعر ہے: (جاری ہے)
دل میں بسا ہے شاد وہی شہر اب تلک
جس شہر میں رہا ہے سخنور لہو میں تر
در اصل مسلسل جبر اور گھٹن کے ماحول نے ہمارے ملک کے اوسط درجے کے لکھنے والوں کے اذہان پر نہایت ناگوار اثرات مرتب کیے ہیں۔ آپ کو ایسے کئی کالم نویس مل جائیںگے جو یہ دعویٰ کریں کہ فیض صاحب کو اگر اسیر نہ کیا جاتا تو ان کی شاعری کو جلا نہ ملتی، اسی طرح سے بہت سے ایسے لوگ بھی ہوںگے جو اشرف شاد صاحب کی بے وطنی کو ان کی تخلیقی کامیابی کا باعث قرار دیںگے جبر، گھٹن اور آمریت ذہنوں پر نہایت برے اثرات مرتب کرتی ہے۔
وہ شوقِ فضول و جرأتِ رِندانہ کی بات بیچ میں رہ گئی۔ ایک شوق فضول شاد صاحب کا یہ بھی ہے کہ جہاں جاتے ہیں مشاعرے منعقد کراتے ہیں اور ان میں مشہور شعرا کو بلواتے ہیں۔ یہ بڑا جان جوکھم کا کام ہے۔ ویسے تو شاعر کبھی کسی کو درست مشورہ نہیں دیتے اور دے بھی نہیں سکتے کہ چیل کے گھونسلے میں ماس کہاں، پھر بھی فراز صاحب نے شاد صاحب کو ایک نہایت صائب مشورہ دیا تھا کہ شعرا کو بلانا اور ان کی آئو بھگت کرنا ہاتھی پالنے کے برابر ہے۔ شاد صاحب کہ خود بھی شاعر ہیں نے کسی شاعر کے دیے گئے واحد درست مشورے کی قدر نہ کی۔ یہ جہاں بھی گئے مشاعرے کرواتے اور شعرا کو بلواتے رہے اور ہاتھی بلکہ مست و مدہوش ہاتھی پالتے رہے۔ آشفتہ حال، پراگندہ خیال، بے چین روح اور ژولیدہ موشعرا کو بلوانا اور پھر مشاعرے کے دوران ان کو کرسیٔ صدارت پر متمکن رکھنا اور باری آنے پر انہی کا کلام ان سے بہ حسن و خوبی پڑھوالینا، یہ شیکسپیئر کی زبان میں Herculean task ہے اور اسی بات کو میر صاحب یوں کہتے ہیں ’’جو کام ہوا ان سے وہ رستم سے نہ ہوگا ‘‘
(جاری ہے)

حصہ