قاضی مظہر الدین طارق
ریچرڈ اے لووِط رپورٹ کرتے ہیں :
ناسا نے ایک خلائی جہاز(OSIRIS-REx) کو ایک سیّارچے ’بَیننو‘(Bennu)کی طرف روانہ کیا ہے تاکہ اُس کی مٹّی کا نمونہ حاصل کیا جا سکے۔
’بَیننو‘ آدھا کلو میٹر کاایک چھوٹا سا اَیسٹرائیڈ ہے، جو سیدھا زمین کی طرف آرہا ہے،مگر یہ بائیسویں صدی کے اَواخر میں ہمارے سر پر پہنچے گا۔
ناسا کے سائنسدان رپورٹ کرتے ہیں:
کہ اِس جہازنے ’بَیننو‘کی طرف دو برس کاسفر کرکے اُس کی پہلی جھلک انسان کو دکھائی ہے۔
یہ نَنّھا سا سیّارچہ،جس کا انسان کو ابھی دورہ کرنا باقی ہے،اِس وقت آسمان میں روشنی کے ایک نکتے کے سوا کچھ نہیں،اَیریزونا یونیورسٹی کے دانتے لوریٹا، جو اس مشن کے کرتا دھرتا ہیں کہتے ہیں کہ:’’میری ٹیم کے لئے روشنی کا یہ نکتے کا دیدار بھی ایک بڑا جذباتی لمحہ ہے‘‘۔
وہ پھر کہتے ہیں:’’میرے پاس وہ الفاظ نہیںجن سے میں بیان کر سکتا کہ میری ٹیم کے لئے یہ لمحہ کتناجذباتی اور اہم ہے،ٹیم سالہا سال سے اس منصوبے پر کام کر رہی تھی،یہ لمحہ ایک عظیم تجربے کا آغاز ہے، بجا طور پر ٹیم نے اس مرحلے پر اطمنان کا سانس لیا‘‘۔
دانتے وضاحت کر رہے تھے:’’اس میں کئی خوش خبریاں بھی ہیں؛ایک تو یہ سیّارچہ ہم کو وہیں نظر آیا، جہاں ہمارا گمان تھا ،دوسرا یہ جہاز اسی کی طرف جارہا ہے۔‘‘
اُن کے ایک اور ساتھی بشار رزق کا کہنا ہے:’’جیسے یہ ایک مقرر ملاقات ہے،جہاں ہم تاخیر کر سکتے ہیں ،نہ تقدیم!‘‘
اس جہازنے، ۸؍ستمبر ۲۰۱۶ء کو اُڑان بھری تھی،یہ اس سال کے آخر تک ’بَیننو‘ سے ملاقات کرے گا،مہینوں محتاط مطالعہ کرنے کے بعد پانچ سیکنڈ کے لئے سیّارچے سے مَس کرکے اس کی مٹّی کا دو کلو وزنی حصہ اس سے چھین کر لے اُڑے گا ۔ پانچ برس کے بعد اس کو ۲۰۲۳ء میں زمین پر پہنچا دے گا۔
بہر حال اب سے چند ماہ تک یہ جہاز کئی تجربات اورتحقیقات کرے گا،ایک کام یہ بھی کرے گا کہ انجن چلا کر اپنی رفتار کو پانچ سو کلومیٹر فی سیکینڈ سے پانچ کلومیٹر فی سیکنڈ تک کم کرے گا۔
’’خلائی جہازدوسرا کام یہ کرے گا ،کہ وہ اس آدھے کلومیٹر سیّارچے کی طرف آڑا ترچھا؛ہفتہ میں دو سے چار مرتبہ ، سات کلومیٹر تک قریب جا کر،اِس کی سطح کے نشیب و فراز کاتفصیلی نقشہ بنائے گا اور مقناطیسی میدان کو بھی منضبط(رِکارڈ)کرے گا۔‘‘اس جہاز کے فلائیٹ مینیجر مائیکل موریویہ تفصیل بتا رہے تھے۔وہ کہہ رہے تھے:
’’ ہم دودن میں ایک مرتبہ اس سیّارچے کے قریب سے گزریں گے۔‘‘
آخرش ، خلائی جہاز(OSIRIS-REx) کو اس سیّاچے کے مدار میں داخل ہونا ہوگا… اگرچہ یہ کام ہوگابہت ہی مشکل ،مائیکل نے کہا:
’’اس لئے کہ سیّارچہ ’بَیننو‘ بہت چھوٹا اورکمیّت بھی بہت کم ہے ،پھرتوقعہ ہے کہ اس کی کششِ ثقل بھی بہت کم ہوگی۔‘‘
مائیکل موریو کا کہنا ہے:’’کم حجم اور کمیّت کی وجہ سے، اس کے مدار میں کسی جہاز کو داخل کرنا، ایک بالکل ہی نیا تجربہ ہوگا جس کاانسان کو اب تک کوئی تجربہ نہیں۔‘‘
سینڈے’ فری اُنڈ‘ نے اس کی تائید کرتے ہوئے کہتے ہیں:
’’اب تک اتنے چھوٹے سیّارچے کے اتنی قریب سے کبھی کاروائی نہیں کی گئی تھی،اس کے لئے نہایت باریک بین حساب کتاب سے کامل درستگی کے ساتھ اقدامات کی ضرورت ہے۔‘‘
اب اس دوران جیسے جیسے جہاز سیّارچے کے قریب ہوتا جائے گا اور اُس کی تصویر واضح ہوتی جائے گی جہاز اپنے کیمروں کو کام میں لاتے ہوئے کسی خطرے پربھی نظر رکھے گا،تاکہ کوئی شہابی ٹکڑا یا گرد خود اُسے نقصان نہ پہنچا دے۔
آج کل یہ جہاز سیّارچے سے بیس لاکھ کلومیٹر دور ہے۔ سیّاروں کی سائنسدان دانتے لوریٹا نے بتایا:
’’اب تک تو کوئی خطرہ نظر نہیں آیا۔‘‘
جب یہ جہاز OSIRIS-REx) (سیّارچے’ بَننو‘ کے قریب پہنچے گا تو اس کے کئی احداف ہونگے۔
پہلا سادہ سا حدف تواس کے بارے میں جاننے کا ہے،اور کیوںکہ اس بات کا ایک کے مقابلے ستائیس سو؍ کا احتمال ہے کہ وہ بائیسویں صدی کے آخر میںکہیں زمین سے ٹکرائے گا ۔
’’بَننو بڑا خطرناک سیّارچہ ہے۔‘‘دانتے لوریٹّہ کہ رہی ہیں:’’ہماری خاص توجہ اس بات پر ہے کہ یہ سورج کی روشنی جذب کرکے واپس سُرخ اِنفرا گرمی، جٹ کی طرح خارج کرتا ہے ،جو اس کا مدار تبدیل کرنے کی صلاحیّت رکھتا ہے۔اب معلوم یہ کرنا ہے کہ مدار کی یہ تبدیلی ہم کو بچانے کا اِمکان بڑھائے گی یا کم کرے گی؟‘‘
’’مگر بَننو سائنسی طور پر بھی بہت اہم اوردلچسپ ہے، خیال ہے کہ یہ نظامِ شمسی کے ساتھ پیدا ہوا،‘‘لورٹّہ کہہ رہی تھیں:
’’اور اس کے مادّوں کامطالعہ و تجزیہ کر نے سے ہم انسان کو یہ علم ہو سکے گا کہ،حیات کا خام مال خاص کر پانی اور کاربن کو سموئے ہوئے سالمے(مالیکیولز)زمین پرکیسے نازل ہوئے؟‘‘
’’ایک اِمکان اورہے بَننو اور اس جیسے سیّارچے آگے سیّاروں پر جانے آنے کے لئے اسٹیشن کا کام دیں گے!‘‘دانتے نے کہا:
’’پورا اِمکان ہے کہ ان کے اندر جو معدنیات ہیں،اس میں پانی بھی ہو۔ اس سے ہائیڈروجن اور آکسیجن نکالی جائے جو بہترین راکٹ ایندھن ہے،اورجس کو اسٹور کیا جا سکے گا،پھر یہ محفوظ ایندھن سیّاروں پر آ جانے کے لئے استعمال ہو سکے گا۔‘‘
’’جبکہ آنے والے چند ماہ،خلائی خبریںبڑی سنسنی خیز،جذباتی اور دلچسپی کے حامل ہوںگیں!‘‘لوری غَلازے، ناسا کی قائم مقام ڈائیریکٹر کہہ رہی تھیں: ’’جہاز’اُسیریس‘ کے ’بَیننو‘ کے قریب پہنچ کر نئے نئے انکشافات کرے گا۔
جس کے علاوہ، ۲۶؍نومبر کو مریخ پر ایک اورجہاز اُترے گا ،اور مریخ کے بارے میں جانے کیا کیانئی مصدقہ معلومات اورنئی تصاویر بھیجے گا۔
۳۱؍دسمبر کو خود جہاز’اُسیریس‘سیّارچے’ بَننو‘ کے مدار میں داخل ہوگاا ور اُس کا مکمل نقشہ بنانا شروع کرے گا۔
جس کے چند ہی گھنٹے بعدیکم؍جنوری۲۰۱۹ء کوایک اور خلائی جہاز،’الٹیما تھول‘ کے پاس سے گزرے گا،’الٹیما تھول‘انسان کا بعید ترین حدف ہے۔‘‘
’الٹیما تھول‘،ایک ایسا خلائی جسم ہے جو نظامِ شمسی کے آخری حصہ ’کیپلر پٹّی‘ میں ہے ،یہ آخری بونے سیّارے ’پلوٹو‘ سے بھی ایک ارب میل دور ہے۔ یہ ہبل دوربین کے ذریعہ ۲۰۱۴میں دریافت ہوا تھا۔
’’وہ دن بڑا ولولہ خیز دن ہوگا،‘‘غَلازے کہہ رہی تھیں: ’’مجھے امید ہے کہ ان انکشافات کو جاننے کے لئے اس دن لوگ ساری رات جاگیں گے۔‘‘
اللہ ربّ العزّت نے جو کام مسلمانوں کے سپرد کیا تھا ہم اس سے مکمل غفلت کا شکار ہیں،کوئی بھی مسلم ملک ایسا نہیں جوعمیق تحقیقی کام کر رہا ہو۔اس ٹیم میں صرف ایک نام عربی نظر آیا،مگرجس کے بارے میںیہ نہیں پتا کہ مسلمان بھی ہے؟
بہرحال یہ تاریخ کے اُتار چڑھاؤہیں؛علم کبھی یونانیوں کے ہاتھ میں تھا،مسلمانوں کے ہاتھ آیا،پھر اب مغرب کے ہاتھ میں ہے ۔ کہتے ہیں کہ علم اللہ کا ہے، مسلمانوں کی میراث ہے ۔ ان شاء اللہ! یہ ہماری میراث ہے ، بشرطہ کہ ہم علمی تحقیقات میں لگ جائیں!