باہمی مشاورت

1350

افروز عنایت
غزوہ خندق سے پہلے آپؐ نے حسب معمول صحابہ اجمعینؓ سے مشورہ کیا کہ غزوہ کے لیے کیا حکمت عملی اپنائی جائے، آخر کار حضرت سلمان فارسیؓ کی رائے کو مقدم جانا گیا اور اس طرح مدینہ کے اطراف خندق کھودی گئی اس حکمت عملی کے مثبت نتائج سامنے آئے۔ جس سے ہر مسلمان واقف ہے۔
……
آپؐ کا یہ طریقہ کار تھا کہ کسی بھی اہم موقع پر صحابہ کرام کے ساتھ مشاورت کرتے اور اس کے بعد جو بہتر فیصلہ ہوتا اللہ کے حکم سے اس پر عمل پیرا ہوتے۔ ایک دوسرے سے مشورہ کرنے سے بہتر فیصلے کے نتیجے پر پہنچا جاسکتا ہے یہ سنت طریقہ ہے۔ اسلام نے ایوان سیاست، کاروبار زندگی اور نظام خلافت کی بنیاد شورائیت پر رکھی ہے۔ اسی لیے عالم اسلام میں بھی زندگی کے ہر معاملے میں باہمی مشورے اور تبادلۂ خیال کی تلقین فرمائی گئی تاکہ مسائل کو باآسانی حل کیا جاسکے۔
اللہ تبارک تعالیٰ نے قرآن میں اپنے ایسے مشاورت کرنے والے بندوں کو پسند فرمایا ہے۔
اس سلسلے میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
’’اور ان کا ہر کام باہمی مشورے سے ہوتا ہے۔‘‘
اللہ نے اپنے رسولؐ کو بھی اپنے ساتھیوں سے مشورہ کرنے کو فرمایا کہ ’’اور ان سے (اہم) معاملات میں مشورہ کیجئے، پھر جب آپ پختہ ارادہ کرلیں تو اللہ ہی پر بھروسہ کریں۔‘‘
مشاورت کے لیے ضروری ہے کہ اہم معاملات اور مسائل کے لیے مشاورت ہو اور مجلس شوریٰ اہل علم، دانا اور تجربہ کار افراد پر مشتمل ہو۔ اور اللہ پر توکل کرکے عمل پیرا ہوں۔ معمولی معمولی باتوں اور مسائل پر ہر ایرے، غیرے اور لاتعلق لوگوں سے مشاورت کرنے سے معاملے سلجھنے کے بجائے الجھ جاتے ہیں۔
……
دین اسلام نے ہمیں ان ہی باتوں کا حکم فرمایا ہے جس میں انسانیت کی فلاح و بہبود ہو اور آپؐ کا ہر قول و عمل دین اسلام کے مطابق تھا جس پر عمل کرکے ہم دنیا و آخرت کی بھلائی حاصل کرسکتے ہیں میں آس پاس نظر دوڑاتی ہوں تو وہ لوگ آسودہ اور فلاح میں نظر آتے ہیں جو اپنی زندگی سنت نبوی کے مطابق گزارنے کی کوشش کرتے ہیں ہوسکتا ہے کہ سنت نبوی پر عمل کرنے میں انہیں شروع میں تھوڑی دقت کا سامنا کرنا پڑے لیکن اس کے مثبت نتائج یقینی ہیں جس کی ہر مسلمان تائید کرتا ہے۔
بڑے اداروں اور سیاسی میدان میں تو چھوڑیں اگر باہمی مشاورت کو گھروں میں بھی استعمال کیا جائے تو مثبت نتائج سامنے آتے ہیں۔ ذیل میں، میں کچھ حقیقی مثالیں آپ کے سامنے رکھوں گی جس سے واضح ہے کہ باہمی مشاورت کے دنیاوی فائدے کیا ہیں۔
……
میں نے اپنے بابا کی زندگی میں دوسری اخلاقی خوبیوں کے علاوہ مشاورت کی عادت بھی دیکھی ہر مسئلے کے لیے اپنی بیوی (اماں) اور بچوں سے مشاورت کرتے چاہے مکان کی خریداری ہو، بچوں کی شادی بیاہ کا مسئلہ ہو یا چھوٹی موٹی گھر میں تقریب کا اہتمام کرنا ہو بابا کی اس عادت کی وجہ سے تمام امور خیر و عافیت سے انجام پاتے اس کے علاوہ گھر کا ہر فرد اپنے آپ کو گھر کا ایک اہم فرد تصور کرتا اور سب میں خود اعتمادی پیدا ہوتی، اس طرح ماحول پرسکون رہتا۔
……
مجھے میری ایک دوست نے بتایا کہ میری بیٹی کی شادی تھی نکاح کے موقع پر میں نے لڑکے والوں سے پوچھا کہ آپ کی طرف سے کتنے مہمان تشریف لائیں گے تاکہ ہم انتظامات کریں، صاحب خانہ نے (دولہا کے والد) فوراً کہا ہماری طرف سے صرف 50 لوگ ہوں گے، دلہن والوں کے بار بار پوچھنے پر بھی ان کا جواب یہی تھا۔ میری دوست نے اپنے میاں اور بچوں سے مشورہ کیا کہ یہ تو ناممکن لگ رہا ہے کہ مہمان اتنے کم ہوں کہیں ہمیں شرمندگی نہ اٹھانی پڑے۔ اس موقع پر دونوں بڑے بیٹوں نے مشورہ دیا کہ 100 مہمانوں کا مزید کھانے کا انتظامات کرلیتے ہیں اگر بچ گیا تو غریب آبادی میں پہنچا دیں گے، اللہ کو دلہن والوں کی عزت رکھنی تھی دلہا والوں کی طرف سے 200 مہمان آگئے۔ دلہا کے والد محترم نے کہا مجھے تو معلوم ہی نہیں تھا کہ میرے بچوں نے اپنے کتنے کتنے دوستوں کو مدعو کیا ہے۔ (یعنی بچوں کے ساتھ بغیر مشورے کے انہوں نے تعداد بتا دی تھی) دوسری طرف دلہن والوں کے گھر میں ایک دوسرے کے ساتھ مشاورت کی بدولت اللہ نے عزت رکھ دی اور صحیح انتظامات ہوگئے۔
……
اس قسم کے واقعات اکثر دعوتوں اور تقریبات کے دوران نظر آتے ہیں۔ ایک خاتون نے بتایا کہ ہمارے گھر میں ہر کام بغیر مشورے سے انجام پاتا ہے جس کے نتیجے میں افراتفری کا سماں نظر آتا ہے مثلاً دیور کی شادی میں 200 لوگوں کا کھانا بچ گیا اس کھانے کو ضائع کردیا گیا، گھر میں کسی کو معلوم ہی نہ تھا کہ خاص طور پر بہوئوں کو کہ تقریب کس نوعیت کی ہے اور کتنے لوگوں کو مدعو کیا گیا اور کیا انتظامات کیے گئے ہیں۔ اگر افراد خانہ سے صلح و مشاورت ہوتی تو یقیناً نہ کھانا اتنا بچتا نہ ہی ضائع ہوتا کیونکہ یقیناً اس کھانے کا مثبت انتظام کا مشورہ دیتے اگر تمام صورت حال سے ہمیں باخبر رکھا جاتا اور مشورہ کیا جاتا۔
……
درج بالا مثال سے واضح ہے کہ مشاورت کی کمی کی وجہ سے ماحول میں کشیدگی اور بدامنی کا خدشہ بھی بڑھ جاتا ہے۔ ضروری نہیں کہ ہر ایک کے مشورے پر عمل کیا جائے بلکہ باہمی مشاورت کے بعد جو بہتر مشورہ نظر آئے اسے تسلیم کیا جائے (غور و غوض کے بعد) پھر اپنے رب پر بھروسہ کرکے عمل کریں یہ نہ کہ دل میں خدشات و وسوسے جنم لیتے رہیں اور ٹال مٹول سے کام لیا جائے کہ وقت ہی نکل جائے۔ ایک صاحبہ نے بتایا کہ میری بھانجی کے لیے ایک معقول رشتہ آیا لڑکے والے سال تک انتظار کرتے رہے کہ آپ کی کیا رائے ہے آپ گھر والوں سے مشورہ کرکے ہمیں ’’ہاں یا نا‘‘میں جواب دیں لیکن وہ کسی فیصلے پر نہ پہنچ پائے آخر لڑکے والوں نے کہیں اور بات طے کردی۔ اس کے بعد وہ پچھتانے لگے، مشاورت کے لیے اہل علم اور مخلص دانا سے رجوع کرنا مفید ہے۔ ایرے غیرے و نادان لوگ اپنے غلط مشوروں کی بدولت سامنے والے کو انجانے میں نقصان بھی پہنچا دیتے ہیں۔ ایک خاتون اپنی بیٹوں سے مشوروں کے مطابق عمل کرتی تھی۔ ان مشوروں پر عمل کرنے سے شوہر کے ساتھ تعلقات میں اس قدر کشیدگی پیدا ہوگئی کہ طلاق تک نوبت پہنچ گئی اس موقع پر ایک مخلص دوست نے انھیں مشورہ دیا کہ جو چیز تمہارے شوہر کو ناپسند ہے اس سے پرہیز کرو اور اپنی دانشمندی اور سمجھ بوجھ استعمال کرو اس طرح دوست کے مثبت مشورے سے یہ ڈوبتی کشتی کنارے لگی آج دونوں میاں بیوی ایک خوشگوار زندگی گزار رہے ہیں۔ اب وہ اس حقیقت سے بھی واقف ہوچکی ہیں کہ ہر بندہ ضروری نہیں کہ وہ صحیح مشورہ دے۔ چاہے وہ ماں بہنیں ہی کیوں نہ ہوں۔ اسی لیے مشاورت کے لیے یہ بھی دھیان رکھیں کہ دانا و مخلص بندے سے مشاورت کی جائے اور تسلی کے بعد فیصلے پر اللہ پر بھروسہ کرکے عمل کیا جائے۔
رب العزت ہمیں سنت نبوی کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے۔

حصہ