شریکِ مطالعہ

605

نعیم الرحمن
’’زندگی خوب صورت ہے‘‘ کے نام سے تنویر رؤف کی آپ بیتی حال ہی میں شائع ہوئی ہے۔ یہ ایک استادکی داستانِ زیست ہے جو تیس سال تک درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ رہیں۔ انہوں نے ماما پارسی اور ہمدرد جیسی شہرکی بہترین درس گاہوں میں بحیثیت استاد ذمے داریاں نبھائیں۔ ان کا قلم وکتاب سے رشتہ بھی خاصا پرانا ہے۔ ریڈیو سے بھی وابستہ رہیں۔ مختلف اخبارات وجرائد کے لیے بھی لکھا۔ تحریر کے شعبے میں ان کا اصل میدان ترجمہ ہے۔ انہوں نے اردو کے ممتاز شعرا کے منتخب کلام کا کمال مہارت سے انگریزی میں ترجمہ کیا۔ اردو شاعری کا ترجمہ آسان نہیں ہوتا۔ تاہم ’’ریفلیکشنز‘‘ کے زیر عنوان تنویر رؤف کے ترجمے کی علمی و ادبی حلقوں میں کافی پذیرائی کی گئی۔ اس کے علاوہ انہوں نے نسیم انجم کے ناول ’’نرک‘‘، شمیم منظرکے ناول ’’زوال کے بعد‘‘، اور زاہد یعقوب عامر کی کتاب ’’ایم ایم عالم‘‘ کو بھی انگلش کے قالب میں ڈھالا۔
رواں پبلشر نے ’’زندگی خوب صورت ہے‘‘ کو اپنے اشاعتی پروگرام کے آغاز کے لیے منتخب کیا۔ 224 صفحات اور چار رنگین تصاویر سے مزین صفحات کی کتاب کی قیمت 500 روپے ہے۔ کتاب اچھی شائع ہوئی ہے، لیکن اس میں پروف کی خاصی غلطیاں موجود ہیں۔ اس جانب توجہ کی ضرورت ہے۔
تنویر رؤف کی طرزِ تحریر میں شگفتگی کی زیریں لہر شروع سے آخر تک برقرار ہے۔ وہ اپنا اور اپنے اہلِِ خانہ کا بھی ذکر استہزائیہ انداز میں کرنے سے نہیں جھجکتیں۔ ان کا یہ دل چسپ اسلوب کتاب سے قاری کی دل چسپی قائم رکھتا ہے۔ ’’تعارف صاحبِ کتاب کا‘‘ کے نام سے دیباچہ کا یہ اقتباس ملاحظہ کریں: ’’آئیے ہم آپ سے اپنا تعارف کرواتے ہیں۔ ہم ایک سانولی مگر مناسب شکل و صورت کی موٹی سی خاتون ہیں۔ یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ جہاں جہاں دنیا بھر میں سانولا رنگ پایا جاتا ہے، وہ سب ہمیں اپنا سمجھتے ہیں اور ہمیں بھی وہ اپنے ہی اپنے لگتے ہیں۔ سانولے رنگ میں نمک اور کشش بہت ہوتی ہے، تو ہم بھی کسی سے کم نہیں۔ تعلیم بہت واجبی سی ہے، بس کے جی سے یونیورسٹی تک کا سفر کیا، لہٰذا تھوڑی بہت اردو انگریزی سے شناسائی ہوگئی۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ خاتون نے اپنا نام تو بتایا نہیں، توآپ سے کیا چھپانا۔ پیدائش کے وقت سنا ہے کہ آنکھیں نیلی تھیں تو نیلم نام رکھا گیا، پھر لاہور میں امی کی دوست نے اپنے نام نذیر کے وزن پر تنویر رکھ دیا تو سیدہ تنویر خاتون نام مستقل بنیادوں پر قلم بند ہوگیا، مگر جو پکارا گیا وہ تھا انو۔ بابوجی پکارتے تھے بھیے، بھائی پکارتے تھے انی، سہیلیاں تنو بلاتیں، شوہر تنی کہتے، ساس سسر دلہن، باقی کسی کی بھابھی، چاچی، تائی، آنٹی اورآفس میں مسز رؤف۔ بیٹا جو ساتھ رہتا ہے وہ آنٹی کہتا ہے، نادیہ میری چھوٹی بیٹی ہے وہ خالہ بلاتی ہے، داماد میڈم کہتے ہیں اور میری بہو مجھے دادی کہتی ہے۔ بڑا بیٹا بلال اور سعدیہ امی کہتے ہیں۔ ایک دوست مجھے دوست کہہ کر بلاتی ہے، ایک سوئٹ ہارٹ کہتی ہے، ایک بہت پیاری خاتون ہیں وہ تیس سال سے فیصلہ نہیں کرپائیں کہ باجی کہیں یا آنٹی؟ اس لیے وہ آنٹی اور باجی کو ملا کر کچھ ایسا کہتی ہیں جو آج تک سمجھ میں نہیں آیا۔ ماں جی، بے بے، بی جان، مدر جیسے القاب سے بھی پکاری جاتی ہوں۔ ہمارے طور طریقے کبھی بیگمات والے نہیں رہے، اس لیے فوج کے اردلی نے ہمیشہ سر کہہ کر پکارا۔ چھوٹا بھتیجا ہمیں نو نوجی جی کہتا ہے اور بھتیجی صبا ہمیں اماں مائی کہتی ہے۔ نواسی میری مجھے نانو کہہ کر بلاتی ہے۔ ایک دوست نے تو حد ہی کردی، وہ ہمیں لائف سیونگ ڈرگ کہتی رہی ہے۔ اب آپ بتائیں تو سہی آخر ہمارا نام ہے کیا؟‘‘
یہ منفرد اور انوکھا تعارف اور تنویر رؤف کا دلچسپ اسلوب قارئین کو کتاب پڑھنے پر مجبورکردیتا ہے۔ ان کا طرز تحریرسادہ اور دلنشین ہے۔ آپ بیتی میں کوئی واضح تسلسل نہیں ہے۔ کئی واقعات بات سے بات نکلنے پر آگے پیچھے ہوتے رہتے ہیں، لیکن ناگوار نہیں گزرتے۔ تنویر کا خود اپنے بارے میں کہنا ہے کہ وہ بے حد سہل پسند، لاپروا اور بے نیاز ہیں۔ گھر کے کاموں سے انہیں کوئی دل چسپی نہیں رہی۔ مزاج میں نفاست اور صفائی پسندی ہے مگرخود نہیں کرنا، دوسروں سے کروانا ہے۔ اللہ شکرخورے کو شکر دیتا ہے کے مصداق تنویر رؤف کو بھی اللہ نے زندگی بھر ایسے مواقع دیے کہ وہ اس بے نیازی کے باوجود اچھی زندگی بسرکرنے میں کامیاب ہوئیں۔ شوہر بھی ایسا ملا جس نے ان کا بہت زیادہ خیال رکھا۔ والد متحدہ ہندوستان میں ریلوے کے اسٹیشن ماسٹر تھے۔ قیام پاکستان سے قبل ہی ان کا ٹرانسفر لالہ موسیٰ میں ہوا۔ وہیں تنویر رؤف دنیا میں تشریف لائیں۔ بچپن لالہ موسیٰ ہی میں گزرا۔ بڑی بہن حمیدہ خاتون کا انتقال اور تدفین بھی وہیں ہوئی۔
دل چسپ بات یہ ہے کہ مصنفہ کے مطابق ان کے والدین میں شاید کبھی محبت کا کوئی رشتہ نہیں رہا۔ پھر بھی سات بھائی اور سات بہنیں پیدا ہوگئیں۔ تاہم زندہ صرف تنویررؤف، بڑی بہن اور ان سے بیس برس بڑے بھائی سید مظہر علی ہی رہے۔ بہن حمیدہ بھی جوانی میں وفات پا گئیں۔ 1953ء میں والد ریٹائر ہوگئے اور بھائی ائر فورس ٹریننگ کے لیے رسالپور چلے گئے۔ بہن کے انتقال کے بعد والدہ کا نچلا دھڑ بے جان ہوگیا۔ 1969ء میں والدہ طویل بیماری کے بعد انتقال کرگئیں۔
کتاب کا ایک باب ’’میری زندگی کے خوبصورت کردار‘‘ بھی ہے، جس میں تانگے والا بابا، انڈے والا بابا، ڈیری ملک والا بابا جیسے چند عام انسانوں کے مختصر اور دل چسپ خاکے بلکہ یادیں ہیں۔ انہی میں ایک ادے مائی کے بارے میں لکھتی ہیں: ’’مردان میں مجھے قرآن کی سورتیں زبانی یاد کرانے ایک پٹھان بزرگ خاتون آتی تھیں۔ بوٹا سا قد، کمر جھکی ہوئی، ہاتھ میں سہارے کے لیے لکڑی اور کالی مخمل کا لمبا سا چوغا پہنے اور سفید براق بال کالے اسکارف سے ڈھانپے وہ مسکراتی ہوئی آتی تھیں۔ ان کو دیکھ کر ہی تعظیم کرنے کو جی چاہتا تھا۔ اردو نہیں جانتی تھیں، وہ استاد کا ایک بھرپور پُروقار مجسمہ تھیں، بقول ادے ان کا کوئی نہیں تھا، بس وہ سارا دن اسی طرح قرآن کی تعلیم دے کر اپنا گزارا کرتی تھیں۔‘‘
انہی لوگوں میں ایک گل شیرخان بھی تھے جو قومی اسکواش چیمپئن جان شیرخان، محب اللہ خان اور اطلس خان کے بھائی تھے۔ یہ خاندان تنویر رؤف کے سرونٹ کوارٹر میں رہتا تھا۔ ان کی بہن سبز پری، تنویرکی ہم عمر ملازمہ اور سہیلی تھی۔ گل شیر ان کے گھرکے کام کرتا تھا۔ بہت محنتی انسان تھا۔ اس تحریر سے علم ہوتا ہے کہ عالمی شہرت یافتہ جان شیر خان اور ان کے بھائیوں نے کس مقام سے کہاں تک ترقی کی اور دنیا بھر سے اپنے کھیل کا لوہا منوایا۔ آج ایک دنیا جان شیرخان، محب اللہ اور اطلس خان سے واقف ہے۔ انہوں نے پاکستان کا سبز ہلالی پرچم دنیا کے کونے کونے میں لہرایا اور وطن کا نام روشن کیا۔ آج بھی جان شیر خان اور جہانگیر خان پاکستان اسکواش کی پہچان ہیں۔ نواکلی کے چھوٹے سے گاؤں کے یہ عظیم کھلاڑی اس مقام تک پہنچیں گے، اُس وقت کوئی تصور بھی نہیں کرسکتا تھا۔
تنویر کی ایک دوست شیریں اصغر بھی تھیں، جو ائرچیف مارشل اصغر خان کی بیٹی تھی۔ لکھتی ہیںکہ آج کل تو معلوم نہیں کہاں ہے مگر اُس وقت سادگی کا یہ عالم کہ نہ اُس کو یہ احساس کہ وہ ائرچیف کی بیٹی ہے، نہ مجھے احساسِِ کمتری تھا کہ چارپائی پر بغیر دری چادر کے اسے بٹھایا ہوا تھا، وہیں سنیچرکو فلم دیکھنے کا پروگرام بن گیا، ائرفورس کے سنیما میں نہ غیر اخلاقی فلمیں لگتی تھیں، نہ کوئی اور خوف تھا، گھر سے بھی صرف اسی سنیما جانے کی اجازت تھی۔ سنیچر کا دن آیا تو میں نے سبز پری کو ساتھ لیا اور تانگے پر نرجس گردیزی کے گھر گئی کہ اس کو بھی ساتھ لے کر سنیما جائیں گے، شیریں اپنی گاڑی پر آجائے گی۔ سبز پری میری ہم عمر ملازمہ اور سہیلی تھی، نرجس گردیزی کے والد بھی ائرفورس میں گروپ کیپٹن تھے، وہ سبز پری کے ساتھ جانے پر راضی نہ تھی، لیکن نرجس کی امی کو جب اس کے ان خیالات کا پتا چلا تو وہ بہت برہم ہوئیں کہ دوست امیر غریب نہیں ہوتا، صرف دوست اور قابلِ عزت ہوتا ہے۔‘‘
اس اقتباس سے قاری کو یہ علم ہوتا ہے کہ کبھی ہمارے وطن میں بھی بڑے بڑے عہدوں پر ایسے باکردار اور سادہ انسان فائز تھے جو عام لوگوں کی طرح زندگی گزارتے تھے۔ ائرچیف مارشل کے گھر والے عام لوگوں میں گھل مل کر رہتے، اور اگر کسی بچے میں ایسا کوئی خیال جنم بھی لیتا تو اسے سمجھایا جاتا تھا۔ اور اسی طرح ان بچوں کی کردارسازی کی جاتی تھی۔
اسی باب میں شیریں اصغر کی والدہ اور ائرمارشل اصغر خان کی اہلیہ کا ذکرکرتے ہوئے مصنفہ نے تحریرکیا ہے کہ ’’ہمارے بنگلے کے سڑک پار نواب صاحب کا بنگلہ تھا۔ ان کے یہاں بھی ہمارا آنا جانا تھا۔ ایک دفعہ ان کے گھر محفل ِ میلاد تھی، ہم بچے بھی گئے اور کمرے کے بالکل آخری حصے میں بیٹھے کہ جب دل چاہے گا اٹھ کر چلے جائیں گے، بس شیرینی لینے کا شوق تھا۔ بچوں کو ویسے بھی پیچھے ہی جگہ ملتی ہے۔ محفل شروع ہوچکی تھی، کچھ دیر بعد سفید سوتی ساڑھی میں ملبوس بیگم اصغر آئیں اور خاموشی سے ہمارے پاس ہی بیٹھ گئیں۔ وہاں مہمان خواتین کی جوتیاں بھی تھیں، مگر بغیر کسی نخوت یا جزبز کیے، وہ آرام سے بیٹھ گئیں۔ جب میزبان کو اطلاع ہوئی تو وہ فوراً آئیں، بیگم اصغرسے آگے بیٹھنے کے لیے اصرار کیا۔ مگر اس نیک خصلت اور اعلیٰ کردار کی حامل خاتون نے شائستگی سے منع کردیا، کیوں کہ وہ دیر سے آنے پر محفل کو ڈسٹرب نہیں کرنا چاہتی تھیں۔‘‘
اسی طرح ائرمارشل نور خان کی بیٹی فائقہ نور، تنویرکی اچھی دوست تھیں۔ بیگم نورخان چوں کہ نواب بہاول پور خاندان سے تھیں اس لیے فائقہ میں بھی نوابیت اس کے اطوار سے جھلکتی تھی، حالانکہ وہ کسی سے بدتمیزی کرتی تھی نہ بدکلامی۔ زندگی پُرسکون تھی اور آج کل کی اونچ نیچ سے بالاتر۔
یہ تھا اس دور کا ماحول اور بڑے عہدوں پر فائز افراد اور ان کے اہلِ خانہ کی طرزِ زندگی۔ یہی اس کتاب کا سب سے بڑا اور اہم سبق ہے۔ تنویر رؤف کی یادداشت بھی اکثر مقامات پر ان کا ساتھ چھوڑ دیتی ہے، جس سے بعض واقعات عجیب ہوجاتے ہیں۔ لکھتی ہیں کہ ’’غالباً 1960ء کا زمانہ تھا، ہم لوگ پشاور چھاؤنی کے علاقے میں رہتے تھے جہاں زیادہ تر فوجی اور ان کی فیملیز رہائش پذیر تھیں۔ ائرفورس چیف بھی ہمارے گھرکے قریب رہتے تھے۔ یعنی وہ بہت محفوظ علاقہ تھا۔ میرے بھائی سید مظہر علی پاکستان ائرفورس میں فلائٹ لیفٹیننٹ تھے، وہ اچھا اور بہت پُرسکون زمانہ تھا۔ افسر بھی سائیکل پر جایا کرتے تھے، کیوں کہ تنخواہیں اتنی نہیں ہوتی تھیں۔ ہاں البتہ وقار، رعب اور دبدبہ بہت ہوتا تھا۔ بھائی بھی دوسرے افسروں کی طرح سائیکل پر ہی آفس جاتے تھے۔ ایک دن بھائی دفتر سے گھر آئے تو سائیکل نظر نہیں آئی، پوچھا تو بتایا کہ آفس سے چوری ہوگئی۔ وقت گزرتا گیا، ہم سب بچے سے بڑے ہوگئے، بھائی کی اور میری شادی بھی ہوگئی۔ کوئی بیس سال بعد ایک دن آفس کا ایک آدمی وہی سائیکل گھر لے آیا اور یہ مژدہ سنایا کہ چوری شدہ سائیکل مل گئی۔ اچھی حالت میں تھی، لگتا تھا کہ کسی نے اس کوگھر میں دلہن یا مہمان کی طرح بہت حفاظت اور عزت سے رکھا تھا، ورنہ بیس سال تک استعمال میں رہتی توکچھ نہ کچھ تو خراب ہوتی۔ بھائی کے بچے اتنے بڑے نہیں تھے کہ وہ اتنی بڑی اور مضبوط سائیکل چلاتے۔ لہٰذا گھر کے ملازم اکبر بھائی کو دے دی گئی۔ انہیں بھی سائیکل چلانی نہیں آتی تھی مگر وہ اسے پاکر بہت خوش ہوئے اور کتے کی طرح زنجیر سے باندھ کر رکھتے اور بازار پیدل اپنے ساتھ لے جاتے۔‘‘
فوجی ایریا سے سائیکل کی چوری تو ممکن ہے لیکن بیس سال بعد اس کا یوں ملنا کہ بہترین حالت میں ہو، ایسا تو استعمال نہ کرنے پر بھی ممکن نہیں ہے۔ فوجی ایریا سے چوری کا خطرہ مول لینے والا اسے استعمال نہیں بھی کرے تو بیچ دے گا۔ پھر تنویر کہتی ہیں کہ بھائی کے بچے اتنے چھوٹے تھے کہ بڑی سائیکل نہیں چلا سکتے تھے۔ کتاب کے مطابق چوری کے بیس سال بعد 1980ء میں بھتیجا کم ازکم پندرہ سال کا ہوگا اور اس عمرکا بچہ سائیکل بہ خوبی چلا سکتا ہے۔ یہ سارا واقعہ اور ایسے کئی اور واقعات درست نہیں ہیں۔
مارچ 1984ء میں تنویر صاحبہ کے رفیقِ حیات رؤف صاحب انتقال کرگئے، جس کے بعد انہوں نے جدوجہد سے بھرپور زندگی بسرکی۔ لیکن بھائی اور دیگر احباب انہیں بہت اچھے ملے جنہوں نے ہمیشہ ان کا ساتھ دیا۔ مصنفہ نے سب کا ذکر بہت پیار اور احترام سے کرکے حق ادا کردیا۔
تنویررؤف نے ’’بڑے انسان‘‘ کے عنوان سے چند اہم شخصیات کا ذکر کیا ہے۔ شہید بے نظیر بھٹو کے بارے میں لکھتی ہیں: ’’محترمہ بے نظیر کی طرزِ زندگی سے یا ان کی سیاست سے مجھے ذرا بھی دل چسپی نہیں، اس لیے اس پر کوئی بات نہیں کروں گی، جب وہ پرائم منسٹر تھیں تو حکیم سعید شہید کی دعوت پر ہمدرد پبلک اسکول آئیں، ہیلی کاپٹر سے ہمارے اسکول کے احاطے میں ہی اتریں۔ بے شمار گل دستے ان کو پیش کیے گئے۔ میرے ہاتھ میں گلاب کا ایک پھول تھا جو میں نے اُن کو ہیلی کاپٹر سے اترنے کے بعد پیش کیا۔ خاصی دیر تک پکڑے رہنے کی وجہ سے اس کی ڈنڈی تھوڑی سے ٹوٹ گئی تھی، مگر بے نظیر نے پوری تقریب کے دوران وہ پھول اپنے ہاتھ میں رکھا اور جاتے جاتے بھی وہ اُن کے ہاتھ میں تھا۔ میں نے ان سے کہا ’’میڈم پرائم منسٹر آپ بہت خوب صورت ہیں‘‘ تو بہت خندہ پیشانی سے مجھے مسکرا کر دیکھتے ہوئے شکریہ ادا کیا۔ اس مختصر ملاقات نے میرے دل پر ان کی اعلیٰ ظرفی کے انمٹ نشان چھوڑے۔‘‘
اسی طرح نیپال کے سابق وزیراعظم سے ملاقات کا احوال کچھ یوں بیان کرتی ہیں: ’’سارک ٹیچرزکانفرنس میں پاکستان کی نمائندگی میں نے کی۔ وزیراعظم موہن ادھیکاری نے ہم سب ٹیچرز کو اپنے ہاں چائے پر مدعو کیا۔ بہت وسیع وعریض لان میں انتظام تھا۔ آگے پیچھے کوئی اسلحہ بردار باڈی گارڈز نہیں تھے اور بہت عمدہ انتظام تھا۔ چائے کے لیے قطار میں وزیراعظم بھی ہمارے ساتھ تھے۔ میزبان ہر شخص کی پلیٹ میں نفاست سے وہاں موجود چیزیں ڈالتے جارہے تھے اور بغیر تکلف کے سب کھا رہے تھے۔ اچانک لائٹ چلی گئی۔ کوئی بھگدڑ نہیں، وزیراعظم کے گارڈز اِدھر اُدھر نہیں بھاگے، ایک گارڈ بھاگ کر ایمرجنسی لائٹ لے آیا۔ میری خواہش پر اسی کی روشنی میں وزیراعظم نے میری ڈائری پر آٹوگراف دیے۔ میں نے اُن سے کہا ’’آپ اتنی سادہ طبیعت کے ہیں، لگتا ہی نہیں کہ اپنے ملک کے وزیراعظم ہیں۔‘‘ مسکرا کر بولے’’میں بھی ایک عام انسان ہوں۔‘‘
اسی طرح کے بے شمار واقعات نے کتاب کی دل چسپی میں اضافہ کیا ہے۔ کئی سبق آموز اور دل چسپ قصے معلومات افزا ہی نہیں، اخلاق کی اعلیٰ مثال بھی پیش کرتے ہیں۔ ایک استاد کی داستانِ زیست دل چسپ ہی نہیں بلکہ قارئین کو اخلاقیات کا درس بھی دیتی ہے، جو ایک استاد کا حقیقی منصب ہے۔

حصہ