ڈاکٹر پرویز محمود(شہید) ، ایک ستارہ، اک استعارہ

909

نون الف
نہ تو کوئی تا قیامت جینے کے لیے دنیا میں آیا نہ ہی کسی کو اپنی موت آنے کا کچھ پتہ ہے، کون؟ کب؟ کس لمحے جیتی جاگتی دنیا سے منہ موڑ لے، کسی کو بھی نہیں معلوم:
آگاہ اپنی موت سے کوئی بشر نہیں
یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے کوئی بھی ذی ہوش انکار نہیں کرسکتا ۔جانے والے چلے جاتے ہیں، مگر اپنے پیچھے انگنت یادوں کے انمٹ نقوش راہ کے مسافروں کی رہنمائی کے لیے چھوڑ جاتے ہیں ۔نہ جانے میں نے آج تک کیوں اور کس لیے اپنے پیارے ڈاکٹر پرویز محمود بھائی کا نمبر اپنے موبائل فون سے ڈیلیٹ نہیں کیا؟اس کی کوئی خاص توجیہہ بھی میرے پاس نہیں!
کچھ معاملات بس ہوجاتے ہیں ایسے ہی یہ معاملہ بھی ہے، بس میرا دل ہی نہیں کرتا کہ میں ڈاکٹر صاحب کا نمبر اپنے فون سے نکالوں ۔
ان سے میری رفاقت کا سلسلہ کوئی تیس پینتیس سال کا ہے، جو موت اور شہادت ہوجانے سے ختم تو نہیں ہوجاتا!
مجھے اب بھی وہی ناظم آباد وہی عباسی شہید ہسپتال اور خلافت چوک یاد ہے ۔ کہ جہاں ہم کچھ دوست رات گئے بیٹھے ہوتے ۔ ڈاکٹر پرویز اس وقت بھی جب وہ سندھ میڈیکل کالج میں پڑھ رہے تھے بہت متاثر کن فرد لگے تھے اور اس دور کے بعد حیران کن حد تک دل کو بھانے لگے ۔ اس کی شاید ایک وجہ تو ان کی بہادری تھی، مگر اس سے بھی زیادہ بڑی وجہ ان کی سادہ مزاجی اور لوگوں کے کام آنے کا جذبہ تھا ۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ایک وقت اس شہر نا پرساں میں ایسا بھی تھا کہ جب آئے دن کی ہڑتالوں نے کراچی میں معمولات زندگی کو بری طرح متاثر کیا ہوا تھا ہمارے کسی تحریکی دوست کا فون آیا کہ ایک نہایت غریب خاتون کے شوہر کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے اور وہ عباسی ہسپتال میں داخل ہے، جس کے آپریشن کے لیے فوری طور پر کچھ ہزار روپوں کی ضرورت ہے، آپریشن بھی رات ہی کو ہونا ہے،ہسپتال والے کسی دوسرے ہسپتال شفٹ کر رہے ہیں ۔ اب کیا کیا جائے کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا ۔ چنانچہ رات ہی ڈاکٹر صاحب کو فون کیا مسئلہ سامنے رکھا ۔ حسب توقع جواب آیا ۔۔۔۔‘‘ حضرت ۔۔۔ مسئلہ ہی نہیں ان سے کہہ دیں کہ میں احمد میڈیکل اسٹور پر بیٹھا ہوں بھیج دیں ۔ آپریشن بھی ہوجائے گا اور پیسوں کا بھی کچھ کرلیں گے دو دن بعد معلوم ہوا کہ آپریشن بھی ہوگیا اور پیسوں کا مسئلہ بھی ڈاکٹر صاحب نے حل کروادیا ۔
پھر ایک ایسا وقت بھی آیا جب فرشتہ صفت ڈاکٹر پرویز محمود نے اپنے وقت کے جابر اور فرعو ن نما بھیڑیے کو آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر چیلنج کیا اور ببانگ دہل اعلان کیا کہ زندگی اور موت کا فیصلہ لندن میں نہیں آسمانوں میں ہوتا ہے ۔
کراچی جب امن کے لیے ترستا تھا، دعائیں بھی زیر لب مانگی جاتی تھیں کہ کہیں دیواریں نہ سن لیں، اس جبر اور گھٹن میں ڈاکٹر پرویز محمود نے کراچی کے امن کی نوید سناتے ہوئے کہا تھا کہ‘‘ میں بتاتا ہوں کہ زندگی اور موت میں کیا فرق ہے؟ زمینی خداؤں اور ظالموں کے سامنے آزادی اور وقار سے جینے کا نام زندگی ہے ۔ اور زمینی خداؤں کے سامنے بے بسی اور مظلومیت کے ساتھ قسمت میں لکھی سانسوں کا پورا کرنا عمر ہے‘‘
لیاقت آباد ٹاون کی نظامت وہ بھی ایک ایسے دور میں جہاں دیواروں پر موت کے پروانے لکھے جاتے ہوں کہ‘‘ جو قائد کا غدار ہے، وہ موت کا حقدار ہے‘‘ ایسے کڑے وقت میں کہ جب پہلوان کا پتہ بھی پانی ہوجاتا تھا، شہر میں اگر کوئی پورے قد کاٹھ اور امن کے نظریئے کے ساتھ موجود تھی تو وہ جماعت اسلامی ہی تھی اور جماعت اسلامی کیا تھی وہ نعمت اللہ خان بابائے کراچی اور کراچی کے بیٹے پرویز محمود کی صورت میں مظلوموں کے ساتھ کھڑی تھی ۔
مجھے اچھی طرح یاد ہے وہ وقت بھی کہ جب لانڈھی، کورنگی، اورنگی، بلدیہ ٹاون اور خود لالوکھیت میں کارکنان جماعت اسلامی پر شدید ترین آزمائش کا سامنا تھا اس وقت ڈاکٹر پرویز محمود ایک مسیحا کو صورت میں داد رسی کے لیے پہنچتے تھے ۔
حوصلہ دیتے، ظالم کے ظلم کے آگے ڈٹ جانے والے، بہادری اور حوصلے کااستعارہ، تحریک کے ماتھے کا تارا ڈاکٹر پرویز محمود کارکن کے ساتھ ہر نازک وقت میں موجود ہوتااپنی شہا دت سے ایک ماہ پہلے ایک نشست میں ہمارے دوست ڈاکٹر عبدا لمختار صاحب اپنا کلام سنا ر ہے تھے۔ اور ان کے کلام پر سب سے زیادہ داد دینے والے ڈاکٹر پرویز محمود ہی تھے ۔ اس شعری نشست سے واپسی پر جب رات خاصی بیت چکی تھی مجھے ایک جمیعت کے بچے نے بتایا کہ جب ڈاکٹر پرویز محمود اپنی گاڑی میں بیٹھنے لگے تو انہوں نے مجھے دیکھا اور پوچھا آپ کہاں جائیں گے، کس طرح جائیں گے؟ انہوں نے بتایا کہ میرے پاس موٹر سائکل نہیں ہے پیدل ہی چلا جاؤں گا ۔ ڈاکٹر صاحب نے ان کو اپنی کار میں بٹھا یا اور گھر تک چھو ڑنے گئے ۔
شہادت کی آرزو دل میں لیکر روز صبح گھر سے نکلنے والے ڈاکٹر پرویز محمود کی شہادت سے پانچ دن قبل ہمارے دوست نے ایک نشست اپنے گھر پر رکھی ۔ کچھ سوال جواب اور دیگر حوالوں سے گفتگو رہی اس میں ایک بات یہ بھی آئی کہ آپ کی زندگی کو خطرہ ہے ۔ لندن والے فرعون نے آپ کو کھلی دھمکی دی ہے آپ احتیاط کیا کریں ۔۔ جواب میں زور دار قہقہہ ۔۔ اور پھر بولے ” وہ مرد نہیں جو ڈر جائے حالات کے خونی منظر سے ”
یہ تھی میری ڈاکٹر صاحب سے ان کی زندگی میں آخری ملاقات ۔۔۔ مجھ سے کہتے تھے تم کہاں شاعری وائری میں پڑ گئے ۔۔۔ نکلو باہر ورنہ ٹھنڈے ہوجاؤ گے!! یہ ان کا محبت بھرا انداز تھا ۔اب تو بس ایک قطعہ ہی میرے پاس ہے ان کے لیے کہ:

پتا اب اس کا بدل گیا ہے
وہ جسم و جاں سے نکل گیا ہے
کوئی جو پوچھے کہاں ملے گا
کہو کہ جنت محل گیا ہے

اللہ ڈاکٹر پرویز محمود کو جنت کے باغوں میں اسی طرح وجاہت کے ساتھ سیر کرا رہا ہوگا جس وجاہت ڈاکٹر صاحب نے دنیا میں وقت گزارا ۔ سینہ تان کر، سر اٹھا کر اور آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ۔

حصہ