ارم فاطمہ
آپ نے اپنی زندگی میں بہت کم لوگ ایسے دیکھے ہوں گے جو اپنے خوابوں کے ساتھ آنکھوں میں دوسروں کے خواب لے کر جیتے ہیں۔ آج کل کے معاشرے میں جہاں ہر شخص خودغرضی کی چادر اوڑھے زندگی کی شاہراہ پر سر جھکائے چل رہا ہے، صرف اپنے خوابوں کی تکمیل کے لیے جی رہا ہے ، ایک ایسے انسان کا ہونا جو دوسروں کے احساسات سے باخبر ہوکر ان کی خواہشوں کو لے کر چل رہا ہو، ان کے لیے کوششیں کررہا ہو یقینا ایک مثال ہے۔
ایسے انسان کا تعارف دینے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ شاید اس طرح کی بہترین مثال پیش کرنے سے ہم زندگی کا ایک سبق سیکھ سکیں۔ دوسرے کے لیے ایثار کر سکیں۔نام اس لیے نہیں لکھوں گی کیوں کہ وہ ایک حکومتی ادارے میں اہم عہدے پر اپنے فرائض بہ خوبی انجام دے رہے ہیں۔ ہم سبھی یہ بات جانتے ہیں اگر نیکیوں کا دکھاوا کیا جائے تو ان کی جزا نہیں ملتی۔ اہم سرکاری ادارے میں ، فائلوں میں سر جھکائے، اہم فیصلے کرتے ہوئے ، اور یہ سوچتے ہوئے کہ کسی بھی انسان کا کوئی کام نہ رکے، سب کی آسانی کے لیے جو کچھ بھی ممکن ہو کر سکوں تو کروں۔ ان کے لیے رہنمائی کروں تاکہ انہیں کسی بھی قسم کی مشکل کا سامنا نہ ہو، یہ ایک مثال ہی تو ہے۔
آپ اور میں اور ہم میں سے اکثر اس بات سے بخوبی واقف ہیں ، جن کا بھی کسی حکومتی ادارے میں کسی کام سے جانا ہو وہاں انسانوں کے ساتھ کیسا سلوک کیا جاتا ہے۔ ایک میز سے دوسری میز ، ایک کمرے سے دوسرے کمرے اور پھر شاید ڈھکے چھپے الفاظ میں نذرانے وصول کیے جاتے ہیں۔ ایسے میں سائل اور ضرورت مند کہاں جائیں؟کلرک سے لے کر بڑے آفسر تک رسائی تک فائل ہاتھ میں پکڑے چکر لگاتے عمریں گزر جاتی ہیںپرکام نہیں ہوتے۔ ایسے میں اس انسان کی پریشانی کا اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ اس کے دل پر کیا گزرتی ہوگی اگر ان جیسے حساس دل رکھنے والے انسان ایسے دفاتر میں عام لوگوں کے لیے رہنما بن جائیں اور مسائل حل کرنے میں مددگار بن جائیں تو شاید ہر کسی کی مشکل آسان ہوجائے۔
ہر انسان کے دل میں ہزاروں خواہشیں ہوتی ہیں مگر ان کی اپنی زندگی سے قطع نظر صرف ’’ایک خواہش ‘‘ہے ان کے دل میں کہ’’ اللہ مجھے ایسی توفیق دے۔ مجھے ہمت اور حوصلہ دے کہ جتنا ممکن ہوسکے میں وسیلہ بنوں ، ہر کسی کی مشکلات کو ختم کرسکوں ، کسی کی مدد کرنے والا اور سبھی کی صحیح رہنمائی کرنے والا انسان بنوں۔شاید ایسے ہی کسی دل سے نکلی دعا میری بھی زندگی کی مشکلوں کو آسان کردے ‘‘ایسے مثالی انسانوں سے ہی معاشرہ زندہ ہے ، زندگی چل رہی ہے۔
یہ تحریر ہر انسان کے لیے آئینہ ہے جس میں وہ کوشش کرے تو اپنی بہتر شکل دیکھ سکتا ہے اگر وہ سمجھے۔ میری بھی ایک خواہش ہے اور دعا ہے’’ خدا ہر درد مند دل میں ایسا جذبہ پیدا کردے جو خود غرضی سے پاک اور دوسروں کی زندگی سنوارنے کے جذبے سے بھرپور ہو۔ قربانی کا جذبہ ہو، ایثار اور احساس کا جذبہ ہو‘‘۔شاید یہ قوم اسی صفت کو لے کر ایک بہترین قوم بن سکے۔ ایک بہترین معاشرہ تشکیل پاسکے۔ ایک نئی زندگی وجود میں آئے۔ اس دنیا کے کینوس پر نئے رنگ بکھر جائیں جس میں سبھی رنگ احساس کے ہوںجن میں کوئی انسان تنہا نہ ہو۔
حاصل … لا حاصل
صبغہ احمد
ڈوبتے چڑھتے سورج کی کیفیات کو محسوسات میں لائے بغیر مزدور پیشہ افراد اپنے کام میں مصروف نظر آتے ہیں۔ان کے لیے موسموں کا تغیر و تبدل کوئی معنی نہیں رکھتا۔ وہ دلی احساسات کو رد کیے محوِ روزگار ہیں۔ یہی ایک دھن ہے جو ان کے اعصاب کو مضبوط سے مضبوط تر بناتی چلی جاتی ہے۔ ان کے لیے زندگی بس اتنی سی ہی ہے۔ وہ دو وقت کی روٹی کو اپنا مقدر جانتے ہوئے بنا چوں چراں کیے اسی پر اکتفا کرتے ہیں۔ غالباً انہوں نے زندگی میں خواہشات پالنا سیکھا ہی نہیں، یا پھر وہ اس کی ضرورت محسوس ہی نہیں کرتے۔ تاہم چند ایک ایسے بھی ہیں جو خواہشات کو نگاہ کا مرکز بنائے چپکے چپکے ذہن کے پردے پر لاتے ہیں، پھر یک دم اس خیال کو جھٹک دیتے ہیں۔
یقیناً اپنی کم مائیگی کا احساس ان کے دلوں میں کوند جاتا ہوگا پھر وہ اس خیال کو پسِ پشت ڈال دیتے ہیں۔ اس لیے نہیں کہ وہ ان خواہشات کو حاصل نہیں کر سکتے بلکہ اس لیے کہ ان گراں قدر خوابوں کا بوجھ اپنی پلکوں پر سجا کر وہ اپنی راتیں تنگ نہیں کرنا چاہتے۔ سو وہ ٹوٹتے بکھرتے خوابوں کی کرچیاں زمین بوس کر دیتے ہیں اور پھر ایک نئی صبح اپنی سفیدی بکھیرتی ہے۔ سورج اپنی کرنوں کی دھاک بٹھائے ہر سو اجالے کا باعث بن جاتا ہے اور زمین پر جیتے جاگتے انسان پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے پھر سے حاصل و لاحاصل کی ایک نئی راہ پر چل نکلتے ہیں۔