حضرت امام حسین ؓ کا مشن

1297

تسنیم صدیقی
سیدنا امام حسینؓ کی شہادت مں امتِ مسلمہ کے لیے جو عظیم الشان پیغام پوشیدہ ہے وہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنے دور کے ایک غیر شرعی اور جبر کے ذریعے مسلط کردہ نظام کو تسلیم کرنے سے انکار کردیا تھا۔ انہوں نے ایک ایسے شخص کی بیعت کو مسترد کردیا تھا جو دراصل اپنے عہدے اور منصب کا اہل نہیں تھا اور نہ ہی اسے مسلمانوں کی شوریٰ کی تائید حاصل تھی۔ سیدنا امام حسینؓ نے مطالبہ کیا تھا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے بعد خلفائے راشدین نے جس شرعی طریقۂ کار کے مطابق مسلمانوں کی امامت کی ذمے داریاں سنبھالی تھیں اُس طریقۂ کار کو جاری رہنا چاہیے، اور حکومت اسی کے مطابق چلنی چاہیے۔
انہوں نے اس خرابی کو شروع ہی میں سمجھ لیا تھا کہ مسلمانوںکی اجتماعی گاڑی کا رُخ موڑا جارہا ہے، جس کا انجام تباہی کے سوا کچھ نہیں ہے۔
انہوں نے جب دیکھا کہ مسلمانوں کی اجتماعیت، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قائم کردہ ریاست اور حکومت کو اس کی روح اور مزاج سے دور کیا جارہا ہے تو وہ پوری قوت کے ساتھ اس کے مقابلے کے لیے سینہ سپر ہوگئے۔ آپؓ نے اس راہ میں لڑنے کو فرض جانا اور نہ صرف خود بلکہ اپنے بیوی بچوں کو بھی اس راہ میں بخوشی پیش کردیا۔
سوال یہ ہے کہ سیدنا امام حسینؓ نے کس خطرے کے پیش نظر اپنا سب کچھ دائو پر لگایا اور گھر بار چھوڑ کر کشمکش کے میدان میں نکل کھڑے ہوئے تھے؟
کیا لوگوں نے اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ماننا چھوڑ دیا تھا، یا اپنا دین بدل لیا تھا؟ کیا عدالتوں نے قرآن و سنت کے خلاف فیصلے کرنے شروع کردیے تھے؟ یا مسئلہ یزید کی ذاتی زندگی کی خرابی تھی؟
یقینا ایسا نہیں تھا بلکہ دراصل جس خرابی کا آغاز ہورہا تھا وہ اسلامی ریاست کے دستور، مزاج اور مقصد کی تبدیلی تھی۔ خدا کی زمین پر خدا کے بندوں پر خدا کی بادشاہی کے بجائے ایک شخص کی موروثی بادشاہت کا آغاز ہورہا تھا جس نے سیدنا امام حسینؓ کو مضطرب اور بے چین کردیا تھا۔
یزید کی بادشاہی دراصل روح و مزاج، مقصد اور نظریے کے علاوہ اسلامی دستور کے چند بڑے اور نہایت اہم اصولوں کی تبدیلی کا سبب بن رہی تھی، مثلاً:
-1 اسلامی دستور کہتا ہے کہ خلیفۂ وقت کا انتخاب آزادانہ ہوگا اور کوئی شخص اپنی مرضی اور جدوجہد سے یا زبردستی خلیفہ نہیں بن سکتا، نہ کہیں آمر کو یہ حق دیا جاسکتا ہے کہ خود کو مسلمانوں پر مسلط کردے۔
-2 حکومت مشاورت سے کی جانی چاہیے، کسی فرد کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ امورِ مملکت میں لوگوں پر اپنی مرضی اور زبردستی چلائے۔
-3 اسلامی دستور کا بنیادی تقاضا ہے کہ ہر شخص کو اظہارِ رائے کی آزادی ہونی چاہیے۔ وہ حکمران پر تنقید کر سکتا ہے، اُس سے جواب طلبی ہر شہری کا حق ہے، حکمران خدا کے ساتھ بندوں کو بھی جواب دہ ہوتا ہے۔
-4 اسلامی دستور کے مطابق سرکاری خزانہ عام لوگوں کی امانت ہے، کسی حکمران کو اس سے عیاشیوں کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔
-5 اس دستور کے مطابق قانون ہی دراصل حکمران ہو اور عدالتیں آزاد ہوں۔ انہیں کوئی ایڈوائس نہیں دی جاسکتی، کوئی بڑے سے بڑا شخص بھی عدلیہ کے فیصلوں پر اثرانداز نہیں ہوسکتا۔
6۔ تمام شہری حقوق سب کے لیے برابر ہیں، اس میں کوئی چھوٹا بڑا نہیں ہے۔
یہ وہ اصول ہیں جن کی بنیاد پر پورے نظامِ اسلامی اور دستور کی عمارت قائم ہے۔ یزید کی حکومت دراصل ان اصولوں اور ضابطوں کے انہدام کی عملی شکل تھی، جس کے خلاف سیدنا امام حسینؓ نے پوری قوت سے آواز اٹھائی۔ نہ صرف آواز اٹھائی بلکہ یزید کے خلاف گھر بار چھوڑ کر نکل کھڑے ہوئے اور اس نظامِ عدل کی خاطر جان قربان کردی۔ مسلمانوں نے آج اس مقصد کو بھلا دیا ہے اور رسومات کو اہمیت دی جارہی ہے۔ آیئے دیکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشورہ کے دس دنوں کے بارے میں کیا فرمایا ہے۔
حدیث صحیح مسلم: حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ فرض نماز کے بعد کون سی نماز سب سے افصل ہے؟ اور رمضان کے بعد کس ماہ کے روزے سب سے افضل ہیں؟ آپؐ نے فرمایا: فرض نماز کے بعد سب سے افصل نماز ’’تہجد‘‘ ہے، اور ماہِ رمضان کے بعد سب سے افضل روزے اللہ کے مہینے محرم کے ہیں۔‘‘
یہ اسلامی کلینڈر کا پہلا مہینہ ہے، اس میں نئے سال کے شروع ہونے کی عالم اسلام میں خوشی منائی جاتی ہے، نوافل پڑھے جاتے ہیں، غریبوں کو کھانا کھلایا جاتا ہے، دوستوں کو مبارک باد دی جاتی ہے، گھروں میں اچھے کھانے پکائے جاتے ہیں۔
لیکن برصغیر میں اس ماہ کے شروع ہوتے ہی غم زدہ ماحول ہوجاتا ہے، کالے کپڑے پہن کر سوگ مناتے ہیں۔ بہت سے لوگ ایسے ہیں جو دس دن تک گھر میں کھانا نہیں پکاتے، لوگوں کے گھروں سے جو آتا ہے وہ کھاتے ہیں۔ سارا دن مجلسوں میں گزارتے ہیں۔ اور بہت سے لوگ اس دن کو چھٹی کے طور پر مناتے ہیں، سارا دن سوتے ہیں یا ٹی وی دیکھتے ہیں۔
آیئے دیکھتے ہیں 10 محرم کو عاشورہ کیوں کہتے ہیں:
صحیح مسلم: اس دن اللہ تعالیٰ نے دس انبیائے کرام کو کرامات سے نوازا تھا:
(1) حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ قبول ہوئی تھی۔
-2 حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی اس دن جودی پہاڑ پر ٹھیری تھی۔
(3) حضرت یونس علیہ السلام نے اس دن مچھلی کے پیٹ سے نجات پائی۔
(4) حضرت ایوب علیہ السلام نے اس دن بیماری سے شفا پائی۔
(5) حضرت یوسف علیہ السلام کو اس دن کنویں سے نکالا گیا۔
(6) حضرت ابراہیم علیہ السلام اس دن پیدا ہوئے۔
(7) حضرت یعقوب علیہ السلام کی بینائی لوٹ آئی۔
(8) حضرت موسیٰ علیہ السلام کو اس دن اللہ نے کامیاب کیا۔ ان کے لیے دریا چیرا، فرعون اور اس کے لشکر کو غرق کردیا۔
(9) حضرت عیسیٰ علیہ السلام اس دن پیدا ہوئے اور اسی دن رات کو انہیں آسمان پر اٹھا لیا گیا۔
(10) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مغفرت کا اعلان اسی دن کیا گیا۔
(11) حضرت سلیمان علیہ السلام کو اس دن حکومت دی گئی تھی۔
عاشورہ کا دن زمانۂ جاہلیت میں بھی قریشِ مکہ کے نزدیک محترم اور مقدس تھا۔ قریش اس دن خانہ کعبہ پر غلاف چڑھاتے اور روزہ رکھا کرتے تھے۔ مدینہ کے یہودی بھی عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے۔
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ طیبہ آئے تو آپؐ نے عاشورہ کا روزہ رکھنے کا حکم دیا۔ شروع میں عاشورہ کا روزہ واجب تھا، بعد میں جب رمضان کے روزوں کی فرضیت کا حکم ہوا تو عاشورہ کے روزے کی فرضیت منسوخ ہوگئی۔ اب اس دن کے روزے ہم سنت کی حیثیت سے رکھتے ہیں۔
آپؐ نے فرمایا: ’’اب جس کا چاہے روزہ رکھے، جس دن کا جی چاہے نہ رکھے۔‘‘ (صحیح بخاری)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے 10 محرم کا جو روزہ رکھا اس میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی موافقت کے علاوہ یہ بات بھی تھی کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت میں اُن ایام کی تعظیم ہے جن پر اللہ تعالیٰ نے رسولوں کو غلبہ عطا فرمایا ہے، اس وجہ سے آپؐ نے دس محرم کے روزے کو مستحسن قرار دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’مجھے امید ہے کہ یوم عاشورہ کا روزہ رکھنے سے اللہ تعالیٰ ایک سال پہلے کے گناہ معاف فرما دے گا۔‘‘
یہود سے مشابہت کی وجہ سے کیونکہ یہود و نصاریٰ اِس دن کو بڑے دن کی حیثیت سے مناتے ہیں، یہ ان کا قومی و مذہبی شعار ہے، صحابہ کرامؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا تو آپؐ نے ارشاد فرمایا: ’’ان شاء اللہ جب اگلا سال آئے گا تو ہم نو اور دس کا بھی روزہ رکھیں گے۔‘‘
عبداللہؓ بن عباسؓ فرماتے ہیں: لیکن اگلے سال محرم آنے سے قبل ہی آپؐ کا وصال ہوگیا لیکن امت کو رہنمائی مل گئی کہ یوں مسلمانوں اور یہود و نصاریٰ کے طرزِعمل میں فرق ہوجائے گا۔
عاشورہ کے دن روزے، نماز کے علاوہ نیک کام کرنے چاہئیں، نفل نمازوں کا اہتمام کریں، اللہ پاک سے اپنے مسائل کے حل کے لیے دعائیں مانگیں۔ قرآن کو ترجمہ و تفسیر سے پڑھیں تاکہ معلوم ہو سکے کہ ربِ کائنات کا ہمارے لیے کیا پیغام ہے۔
سنی سنائی باتوں پر نہ چلیں۔ قرآن اور حدیث دلیل ہیں، بس وہی ہماری رہنمائی کریں گے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’میں تمہارے لیے دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں قرآن اور سنت۔ جب تک ان پر چلتے رہو گے سیدھے راستے پر رہو گے۔‘‘
’’اللہ کی رسّی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقے میں نہ پڑو۔‘‘ (القرآن)
’’اے نبیؐ بشارت دے دو عاجزانہ روش اختیار کرنے والوں کو، جن کا حال یہ ہے کہ اللہ کا ذکر سنتے ہیں تو ان کے دل کانپ جاتے ہیں۔‘‘ (سورۃ الحج 34۔35)

حصہ