گوہر نایاب کا انوکھا لاڈلا

534

صائمہ اشرف
یونیورسٹی میں میرا داخلہ ہوئے ابھی چند دن ہی ہوئے تھے۔ کینٹین کی طرف سے اندرآتے ہوئیسیڑھیوں پر مجھے رکنا پڑا کیونکہ وہیل چیئر کے لیے ریمپ نہیں تھی۔ نیء جگہ، نیا ماحول، نئے لوگ۔۔۔۔۔ابھی اسی شش و پنج میں میں تھی کہآس پاس سے گذرتے لڑکوں میں سے کسی سے مدد لی جائے۔ اتنے میں پارکنگ ایریا میں ایک گاڑیآ کر رکی اور ایک ہسنتا مسکراتا ہوا شخص باہر نکلا اور کیمپس کے اندر جانے کی بجائے میرے پاسآ کر رکا اور بولا “آپ کو کویء مسئلہ تو نہیں؟”۔ میں تو جیسے پھٹ پڑی۔ ریمپ نہ ہونے کی وجہ سے اتنے دن سے جن جن مسائل کا سامنا تھا سارے سارے ایک کر کر گنوا دئے۔ لفٹ نہ ہونے سے جو دشواریاں تھیں وہ بھی ایک ہی سانس میں داغ دیں۔ وہ شخص بڑے تحمل اور شائستگی کے ساتھ سنتا رہا اور پھر بولا “آپ مجھے ایک ہفتے کا وقت دے سکتی ہیں؟” میں نے اثبات میں سر ہلایا تو وہ کیمپس کے اندر چلے گئے۔ اور ایک ہفتے کے اندر اندر جہاں ریمپ نہیں تھے وہاں بنا دئے گئے اور لفٹ بھی لگ گیء۔ اور پھر تو اس شخص کا معمول ہو گیاآتے جاتے جہاں کہیں مجھے دیکھتا پاسآ کر حال پوچھتا اور مجھے میرے انوکھا لاڈلا ہونے کا احساس دلاتا۔
یہ احساس ہر گزرتے دن اور سیمسٹر کے ساتھ گہرا ہوتا چلا گیا۔ بڑا ہی عجیب شخص تھا۔ اس سے روشنی پھوٹتی تھی۔ دھیمی دھیمی، صندلیں روشنی۔ وہ جہاں سے گزرتا تھا وہاں اسکی وہ صندلیں روشنی محسوس کی جا سکتی ہے اس کلچر کی صورت میں، جو یو ایم ٹی کے اندر داخل ہوتے ہیآپکو نظرآئے گا۔ گیٹ پر کھڑے محافظوں سے لے کر سب سے بڑے دفتر تک۔ ایک شفیق ماں کیآغوش جیسی یوایم ٹی کے اس مزاج کے پیچھے ایک شخص تھا، حسن صہیب مراد!
ایم بی اے کے دوران جہاں کہیں کویء مشکل پیشآیء، وہ سارے کام چھوڑ کرآگے بڑھا۔ معلوم نہیں ایسا کیا طلسم تھا کہ ہم اس کے جذبے اور جنون کو اپنے دل و نظر میں انڈیلنے لگے۔ اسکی مسکراتی ہوئی خاموشی اسکیآنکھوں کے خواب چپکے سے ہمیں دان کر گیء اور ہم اپنی اپنی راہ میں اس کے جذبے اور جنون کی انگلی تھامے اپنے اپنے حصے کی چھوٹی چھوٹی شمعیں جلانے میں مصروف ہیں۔ مجھے یہ اعتراف کرتے ہوئے فخر محسوس ہوتا ہے کہ میرے اندر کے چراغ یو ایم ٹی نے جلائے ہیں۔
ہاں، وہ بڑا ہی عجیب تھا۔
ہر ایونٹ میں، ہر موقع پر، ہر مشکل وقت میں وہ یوں ساتھ کھڑا ہوتا تھا جیسے وہ میرا سب سے زیادہ اپنا ہو۔ اور جب بھی ملتا، انوکھے لاڈلے کیس کو پہلے سے زیادہ اپنا لگتا۔
فلیٹیز ہوٹل کی وہ شام بڑی ہی خوبصورت تھی جب وہ ہمارے ساتھ وہاں موجود تھا۔ اپنے جلائے ہوئے چراغوں کی روشنی کو محسوس کرتا۔ ہم جیسے ننھے دیوں کی لو بڑھاتا وہ دھرے دھیرےآگے بڑھا اور ہم ایوارڈ لینے والوں کی قطار میںآیا تعارف اور ایوارڈ کے پس منظر کو جان کر ایک احساس تفاخر کے ساتھ وہ اپنی نشست پر جا بیٹھا۔ پھر جب ایوارڈ لینے کا وقتآیا تو ہال میں بیٹھے تالیاں بجاتے لوگوں میں وہ سب سے نمایاں تھا۔ اس لمحے کی اسکی مسکراہٹ اور فخر نے اگلے کئی زمانوں کو اجال دیا۔
یوایم ٹی کے ڈپارٹمنٹس ORIC اور ICP کے ساتھ کام کرتے ہوئے کئی بار میں نے ضرورت محسوس کی کہ اس شخص سے ملا جائے۔ ICP کے ساتھ کام کے سلسلے میں تو اس کے دفتر گئی بھی، لیکن معلوم ہوا کہ وہآج کل یو ایم ٹی نہیںآتا۔ سو اس کے گھرجانے کا منصوبہ ابھی بن ہی رہا تھا کہ وہ عجیب شخص اپنے عارضی گھر سے دائمی منزل میں شفٹ ہو گیا۔ ہاں لیکن اپنی صندلیں روشنی ادھر ہی چھوڑ گیا
آج صرف ابراہیم مراد یتیم نہیں ہوا، ہم سب یتیم ہو گئے ہیں۔

حصہ