حسن صہیب مراد بھی چل بسے

480

رب نواز ملک منصوری
انا للہ وانا الیہ راجعون
ایک عہد تمام ہوا…ایک سحر طراز چراغ اور بجھا…ایک غروب نا آشنا آفتاب روپوش ہوا…ایک چہکتا ہوا بلبل خاموش ہوا…مرحوم اپنی ذات میں ایک مکمل انجمن…ایک نور افشاں دبستاں…ایک شرافت مآب مجسم تہذیب … جدت و روایت کا ایک متنفس مرقع…ایک متموج فیض رساں ادارہ اور جہد و ریاضت کا روشن و رخشاں استعارہ تھے.ان کی ناگہانی موت پر دلِ گداختہ رکھنے والے شاعرِ بے بدل اشرف جاوید نے اپنے محسوسات و جذبات کی پلکوں پر دمکنے والے آنسوؤں کو ان رقت خیر اشعار میں گوندھ کر ان کے چاہنے والوں کے جذبات کو زبان دینے کا اعزاز حاصل کیا:
تہذیب و آگہی کا فسانہ چلا گیا
جو بانٹتا تھا علم خزانہ چلا گیا
وہ اپنی ذات میں لیے پھرتا تھا اک جہان
وہ کیا گیا کہ ایک زمانہ چلا گیا
ڈاکٹر حسن صہیب مراد موحوم جہاں بیرونی یونیورسٹیوں سے اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے وہیں ان کے دل و دماغ میں اسلامی شعور اور دینی بصیرت رچی بسی تھی۔انہوں نے یونیورسٹی آف مینجمنٹ اینڈ اینڈ ٹیکنالوجی کے نام سے لاہور میں جو ادارے قائم کیے ، ایسے ادارے پہلے صرف امریکہ و یورپ کی یونیورسٹییوں میں پائے جاتے تھے۔ یہاں ہماری نئی نسل کے طلباء￿ و طالبات کو پوسٹ گریجویٹ کی سطح پر اعلیٰ درجے کی جدید فنی تعلیم سے روشناس کرایا گیا۔ وہ جدید تعلیم کے میدان میں ایک visionary تھے ان کا اصل کمال یہ بھی تھا کہ مینجمنٹ سے متعلقہ مختلف شعبہ جات میں اختصاص کی ڈگریوں کے ساتھ طلباء￿ کو اسلامی شعور سے آشنا کرنے کا اہتمام بھی کرتے۔انہوں نے اپنی یونیورسٹی کے زیراہتمام اعلیٰ درجے کے کئی سیمینار بھی منعقد کرائے جن میں بیرونی ممالک سے کئی ماہرین مدعو کرکے ان کی تازہ ترین تحقیقات سے آگہی حاصل کی گئی۔ انہیں پاکستان اور عالم اسلام کے نکتہ نظر سے بھی آگاہ کیا۔ تہذیبوں کی کشمکش کے اس دور میں حسن صہیب مراد اپنے والد اور مولانا مودودی کے فکر انگیز خیالات کی روشنی میں اسلام اور مسلمانوں کی تہذیب کے اعلیٰ مقاصد کو آگے بڑھانے کے لیے بہت فکرمند رہتے تھے۔ ڈاکٹر صاحب کے والد مرحوم خرم جاہ مراد بیسویں صدی میں قرون اولیٰ کا ایک جیتا جاگتا ، اجلا اور زرتاب ورق تھے۔ سچ تو یہ ہے کہ وہ شہ کار فکرِ سید تھے۔ وہ ایک بے مثال باپ کے عدیم النظیر بیٹے تھے۔ مرحوم کے والد خرم مراد کا شمار جو اگرچہ پیشے کے اعتبار سے انجینئرتھے بلند پایہ اسلامی دانشوروں میں ہوتا تھا اور وہ کئی کتابوں کے مصنف تھے۔ مفکر اسلام مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی نے ہمارے عہد میں قرآن و سنت کے مستحکم دلائل کی بنیاد پر جس جدید علم کلام کو فروغ دیا اور اپنی کتابوں کے ذریعے اس کے نور بصیرت کو عام کیاخرم مراد اس کی ایک روشن کرن تھے۔ کی اچانک موت سے ملک و قوم ایک بہت بڑے ماہر تعلیم سے محروم ہو گئے۔ ہم توقع رکھتے ہیں کہ ان کے علمی اور خاندانی ورثاء￿ ان کے جاری کردہ منصوبوں کو آگے بڑھانے اور پایہ تکمیل تک پہنچانے میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کریں گے کیونکہ یہی حسن صہیب مراد کی روح کو خراج تحسین پیش کرنے کا بہترین طریقہ ہو گا۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت کرے اور ان کے ورثاء کو صبرجمیل عنایت فرمائے۔آمین
خدا بخشے بہت سی خوبیاں تھیں مرنے والے میں

حصہ