خواجہ رضی حیدر
بانیٔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح پاکستان میں اُردو کو بحیثیت قومی زبان رائج کرنا چاہتے تھے۔ یہ بات تاریخی طور پر ثابت ہے، کیوں کہ تحریکِ پاکستان کے دوران بھی اور قیامِ پاکستان کے بعد بھی انہوں نے اُردو کے قومی زبان کی حیثیت سے نفاذ پر ہمیشہ زور دیا تھا۔ یہ موضوع اپنے اندر تاریخی طور پر بڑی وسعت رکھتا ہے اور اس بات کا متقاضی ہے کہ نہ صرف ہندوستان کے تاریخی پس منظر میں بحیثیت زبان اُردو کا جائزہ لیا جائے بلکہ یہ دیکھا جائے کہ اُردو دشمنی نے کس طرح متحدہ ہندوستان کے مسلمانوں کی ایک علیٰحدہ مسلم ریاست کے قیام کے لیے ذہن سازی کی۔ اُردو زبان کی اہمیت کیا ہے اور اس زبان کا قومی زبان کے طور پر نفاذ کیوں ضروری ہے۔ اس سوال کا جواب ہمیں بانیٔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح ہی کی ایک تقریر کے اقتباس سے ملتا ہے جس میں انہوں نے فرمایا تھا کہ ’’کوئی بھی قوم ایک قومی زبان کے بغیر ملکی سالمیت اور فکری یکجہتی تک رسائی حاصل نہیں کرسکتی۔‘‘
زبان کسی قوم کے افتخار کا نشان ہوتی ہے۔ زبان صرف اظہار کا ذریعہ نہیں بلکہ کسی قوم کی تہذیبی شناخت اور اس کے تشخص کی ترجمان ہوتی ہے۔ کسی بھی قوم کی زبان کا علمی و ادبی سرمایہ اس قوم کی ثقافتی، تہذیبی اور ملی اُمنگوں اور کامیابیوں کا عکاس ہوتا ہے۔ اس لیے قومی زبان سے انحراف اور گریز کسی صورت میں بھی جائز نہیں ہے۔ قومی زبان قومی شعور اور فکر و تخیل کی امین ہوتی ہے اور کوئی قوم اپنے آبا و اجداد کی روشنیٔ طبع سے صرفِ نظر کرکے خود آگاہی کا مرحلہ طے نہیں کرسکتی۔ اُردو صرف تاریخی سرمایہ نہیں بلکہ ایک جدید ترین ترقی یافتہ زبان ہے۔ اس میں لچک اور وسعت موجود ہے۔ گزشتہ چار سوسال میں اس زبان نے مقامی اور بدیسی زبانوں کے لفظ اپنے معنوں، مزاج اور لہجے میں ڈھال کر قبول اور اپنے اندر ضم کیے ہیں، گویا یہ زبان کائنات کی طرح مسلسل پھیلائو کی طرف گامزن ہے۔ اس میں جدید علوم و فنون کے مکمل ابلاغ کی پوری صلاحیت موجود ہے۔ اس لیے اُردو کو بحیثیت قومی زبان کے قبول کرنا ہماری قومی ضرورت ہے۔ آزاد اور خودمختار قوموں کا یہ شیوہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی قومی زبان کے فروغ کے لیے مسلسل جدوجہد کرتی رہتی ہیں۔
زبان اظہار کا سب سے اعلیٰ اور مؤثر ذریعہ ہوتی ہے۔ اس لیے اس کی تراش خراش کے ساتھ ہی ساتھ اسے قومی وجود کا حصہ بنانے کے لیے حالات سازگار کیے جاتے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے کے بعد اس حوالے سے کوئی مسلسل اور مربوط جدوجہد نہیں کی گئی جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ زبان اپنے فطری تقاضوں کے مطابق لسانی اور اظہاری سطح پر ترقی کرتی رہی لیکن ہمیشہ سرکاری سرپرستی سے محروم رہی، جس کے نتیجے میں یہ سوال پیدا ہوتا رہا کہ پاکستان کی قومی زبان کو قومی سطح پر کب نافذ کیا جائے گا اور دیگر ترقی یافتہ ممالک کی طرح ہم بھی کب تک یہ دعویٰ کرسکیں گے کہ ہماری بھی ایک قومی زبان ہے۔ یہ بھی ایک واضح حقیقت ہے کہ پاکستان کی عوامی زبان اُردو ہے اور وہی زبان قومی زبان کے رتبہ پر فائز ہوسکتی ہے جو عوامی زبان ہو۔ یہ بھی ایک اہم بات ہے کہ قیامِ پاکستان سے قبل بھی اور بعد میں بھی جو علمی و ادبی تخلیقات قومی سطح پر مقبول و متعارف ہوئی ہیں وہ نہ صرف اُردو میں ہیں بلکہ ان کے بیشتر تخلیق کار وہ افراد ہیں جن کی مادری زبان اُردو نہیں ہے۔ اس کے بعد بھی اُردو کو ایک مخصوص طبقہ کی زبان قرار دینا یا ایک مخصوص طبقہ کا اس زبان پر اپنی اجارہ داری کا اعلان خام خیالی نہیں تو اور کیا ہے۔ اُردو پاکستان کے اتحاد، سالمیت اور یکجہتی کی ضمانت ہے اور قومی تشخص کے احیاء کے لیے بحیثیت قومی زبان اُردو کا عملی نفاذ بہت ضروری ہے۔ کیوں کہ یہ زبان ہماری ملّی تاریخ کی ایک قابلِ فخر میراث ہے۔
بانیٔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی یہ خواہش نہیں بلکہ فیصلہ تھا کہ پاکستان کی قومی زبان اُردو ہوگی۔ قائداعظم محمد علی جناح کن منزلوں سے گزر کر اس فیصلے تک پہنچے تھے اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم قائداعظم کی سیاسی زندگی کے مختلف ادوار کا ایک سرسری جائزہ لیں۔ لیکن اس مرحلے پر میں ایک تاریخی حقیقت واضح کرتا چلوں کہ 1857 کے انقلاب کے بعد ہندوئوں اور انگریزوں میں فکری اور سیاسی گٹھ جوڑ ہوگیا تھا اور دونوں قوتیں اُردو زبان کو اس لیے ناپسند کرتی تھیں کہ اس کا رسم الخط عربی اور فارسی سے ملتا جلتا تھا اور یہ دونوں زبانیں اسلامی ثقافت کی نمائندہ ترین زبانیں تھیں۔ خصوصاً ہندو تو مغلیہ سلطنت کے زوال کے بعد ایسی تمام اقدار و علامات کو ختم کردینا چاہتے تھے جو اُن کو دورِ غلامی کی یاد دلاتی ہوں یا اسلام کی نمائندہ ہوں اور اُردو بھی ان کے نزدیک ایک ایسی ہی علامت تھی۔ بہرحال قائداعظم محمد علی جناح کی سیاسی زندگی کو ہم چار ادوار میں تقسیم کرسکتے ہیں۔ پہلا دَور ولادت، حصولِ تعلیم اور مستقبل کی تلاش سے متعلق ہے۔ دوسرا دَور جو 1896 سے شروع ہوتا ہے پیشہ ورانہ جدوجہد پر مبنی ہے۔ یہ دَور 1906 میں اس وقت ختم ہوتا ہے جب وہ انڈین نیشنل کانگریس میں شمولیت اختیار کرتے ہیں اور دس سال کے مختصر عرصہ میں ’’ہندو مسلم اتحاد کے سفیر‘‘ کی حیثیت میں ہندوستان کے طول و عرض میں معروف ہوجاتے ہیں۔ اسی دَور میں انہوں نے آل انڈیا مسلم لیگ کی رکنیت قبول کی جو اس دَور میں خالصتاً مسلمانوں کی نمائندہ جماعت تھی۔ 1916 سے 1922 تک وہ ہر سطح پر سیاسی جدوجہد کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں لیکن “Non-cooperation Movement” کے دوران موہن داس کرم چند گاندھی کی سیاسی روش سے اختلاف کرتے ہوئے خود کو سمیٹ لیتے ہیں۔ 1923 سے 1933 تک وہ ایک مرتبہ پھر ہندو مسلم اتحاد کے ذریعہ ہندوستان کی آزادی کے لیے جدوجہد کرتے ہیں اور آل انڈیا مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے اپنی جدوجہد کو جاری رکھتے ہوئے ہندوستان کے آئینی مسئلہ کا حل تلاش کرنے کی میں منعقد ہونے والی گول میز کانفرنسوں میں شرکت کے لیے لندن روانہ ہوجاتے ہیں اور جلد ہی مسلم مطالبات کی جانب سے انڈین نیشنل کانگریس کے مندوبین کی مخاصمانہ روش کو دیکھتے ہوئے لندن میں مستقل سکونت کا فیصلہ کرتے ہیں۔ میں ان تمام ادوار کو قائداعظم کی سیاسی شخصیت کا ایک ایسا تشکیلی دور قرار دیتا ہوں جو ان کو ایک بڑے مقصد کی طرف لے جارہا تھا۔ اور یہ بڑا مقصد تھا مسلمانانِ ہند کے ملی شعور کو بیدار کرکے ان کو برِّصغیر میں ایک علیٰحدہ مسلم وطن کے قیام کے لیے آمادہ و تیار کرنا۔
قائداعظم اپنی خود عائد کردہ جلاوطنی ترک کرکے 1934 میں لندن سے ہندوستان واپس آتے ہیں اور ازسرنو آل انڈیا مسلم لیگ کی صدارت قبول کرکے اس سیاسی جدوجہد کا آغاز کرتے ہیں جس کے نتیجے میں وہ نہ صرف مسلمانانِ ہند کے قائداعظم کے منصب پر فائز ہوئے بلکہ یہ جدوجہد مارچ 1940 میں قراردادِ پاکستان کی منظوری اور اگست 1947 میں قیامِ پاکستان پر منتج ہوئی۔ پاکستان کے پہلے گورنر جنرل کی حیثیت سے قائداعظم نے ایک سال اور 27 دن خدمات انجام دیں۔ اس دورانیہ میں انہوں نے پاکستان کے استحکام اور سلامتی کے حوالے سے دُوررَس فیصلے کیے۔ تحریکِ پاکستان کے دورن آل انڈیا مسلم لیگ نے ان کی قیادت میں عوام سے جو وعدے کیے تھے ان کو پورا کرنے کی طرف اپنی توجہ صرف کردی۔
اُصولی طور پر ہندو مسلم اختلافات کا آغاز ہی زبان کے مسئلہ پر ہوا۔ 1867 میں جب ہندوئوں نے شمال مغربی صوبے (یوپی) میں اُردو کے بجائے ہندی کو دوسری سرکاری زبان تسلیم کرانے کے لیے زور باندھا تو سب سے پہلے سرسیّد احمد خان نے بنارس کے برطانوی کمشنر مسٹر شیکسپیئر سے اس خیال کا اظہار کیا کہ ’’اب برِّصغیر میں ہندو اور مسلمانوں کا بطور ایک قوم کے ساتھ رہنا ناگزیر ہے۔‘‘ سرسیّد کے اسی خیال نے دو قومی نظریے کی بنیاد ڈالی۔ اُردو زبان کے خلاف ہندوئوں اور انگریزوں کے گٹھ جوڑ کے نتیجے میں یوپی کے سرکاری دفاتر اور عدالتوں میں اُردو زبان اور فارسی رسم الخط کے بجائے ہندی زبان اور دیونا گری رسم الخط رائج کرنے کے بارے میں اپریل 1900 میں یوپی کے گورنر سر انٹونی میکڈانلڈ نے ایک قرارداد کو منظور کرکے ہندی زبان اور دیوناگری رسم الخط کو استعمال کرنے کی اجازت دے دی۔ گورنر کا یہ فیصلہ مسلمانوں کے لیے ناقابلِ برداشت تھا لہٰذا سرسیّد کے ساتھی نواب محسن الملک نے ’’اُردو ڈیفنس کونسل‘‘ قائم کرکے گورنر کے فیصلے کے خلاف احتجاج کیا۔ اس احتجاج کے نتیجے میں 1901 میں مسلمانوں کی اوّلین سیاسی جماعت ’’محمڈن پولیٹیکل آرگنائزیشن‘‘ کا قیام عمل میں اایا۔ یہ جماعت 1906 میں مسلمانوں کی باقاعدہ سیاسی جماعت آل انڈیا مسلم لیگ کے قیام تک کام کرتی رہی۔ اس منظرنامے سے صاف ظاہر ہے کہ دیگر سیاسی و اقتصادی حق تلفیوں کے علاوہ اُردو کے دفاع کی جدوجہد نے بھی برِّصغیر کے مسلمانوں کے اندر سیاسی شعور کو بیدار کیا۔ آل انڈیا مسلم لیگ نے بھی اُردو زبان کے دفاع اور فروغ کے لیے اپنے اجلاسوں میں قرار دادیں منظور کیں۔ قائداعظم محمد علی جناح کی مادری زبان اگرچہ اُردو نہیں تھی لیکن برِّصغیر کے مسلمانوں کی تاریخ کے تناظر میں وہ اُردو کی اہمیت اور ضرورت سے پوری طرح واقف تھے، لہٰذا وہ اپنی آخری سانس تک اُردو زبان کے دفاع اور نفاذ کے لیے کوشاں رہے۔
اپنی زندگی کے آخری دَور میں یعنی 1934 سے 1948 تک وہ مسلسل اُردو کی وکالت کرتے رہے۔ 1940 میں قراردادِ پاکستان کی منظوری کے بعد انہوں نے واضح طور پر اعلان کیا کہ ’’پاکستان کی قومی زبان اُردو ہوگی کیوں کہ اُردو ہی برِّصغیر کی واحد زبان ہے جس میں نہ صرف مذہب ثقافت اور ادب کے حوالے سے مسلمانانِ برِّصغیر کا عظیم علمی سرمایہ محفوظ ہے بلکہ یہ رابطہ کی زبان بھی ہے، اس لیے ضروری ہوگا کہ اسے پاکستان کی قومی زبان کی حیثیت دی جائے۔‘‘
قائداعظم کی مادری زبان گجراتی تھی جب کہ انگریزی زبان انہوں نے حصولِ تعلیم کے دوران سیکھی تھی اور پھر انگریزی ان کی شخصیت میں اس قدر رچ بس گئی کہ وہ گجراتی کو تقریباً بھول گئے۔ ہم کو تاریخ میں کوئی ایسی مثال میسر نہیں کہ قائداعظم نے کبھی گجراتی میں گفتگو یا تقریر کی ہو لیکن ان کی نجی اور سیاسی زندگی میں متعدد ایسے مواقع موجود ہیں جب انہوں نے اُردو میں اپنا مافی الضمیر بیان کرنے کی کوشش کی جو بہرحال ان کی مادری زبان نہیں تھی۔
بحوالۂ تاریخ قائداعظم محمد علی جناح نے 19 اپریل 1935 کو ایک اخباری بیان میں کہا کہ ’’اگر ہم اُردو زبان کے تحفظ کے لیے سینہ سپر نہیں ہوں گے تو ہندی کو بطور قومی زبان ہم پر مسلّط کردیا جائے گا۔‘‘ اسی بیان میں انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’’کانگریس کے جھوٹے پروپیگنڈے کے ازالے کے لیے ہم کو انگریزی اور اُردو میں مسلم اخبارات جاری کرنا ہوں گے کیوں کہ اس طرح ہم مسلمانوں کو بروقت سیاسی، اقتصادی اور سماجی تبدیلیوں سے باخبر رکھ سکیں گے۔‘‘
جاری ہے