اپنے ہم سفر کی راہوں میں پھول کھلائیں

532

افروز عنایت
پچھلے ہفتے کا میرا کالم ’’کر بھلا، ہو بھلا‘‘ پڑھ کر میری بیٹی نے مجھ سے کہا کہ ایک دوسرے کو آسانیاں فراہم کرنے کے لیے آپ نے میاں بیوی کا حوالہ نہیں دیا، جبکہ میاں بیوی پر ایک دوسرے کو آسانیاں فراہم کرنا اور ایک دوسرے سے تعاون کرنا لازم و ملزوم ہے۔
…٭…٭…
جی ہاں یہ بات سو فیصد درست ہے۔ میاں بیوی ایک دوسرے کا لباس اور گاڑی کے دو پہیوں کی مانند ہیں۔ ان کا ایک دوسرے سے مکمل تعاون اور ایک دوسرے کا بھلا سوچنا اور بھلائی کرنا بے حد ضروری امر ہے۔ ان دونوں کا ایک دوسرے کی راہوں میں آسانیاں بکھیرنا پھول بکھیرنے سے بھی افضل ہے۔ اس خوبی اور تعاون سے نہ صرف ان کا بندھن مضبوط و پائیدار ہوجاتا ہے بلکہ ان کی ازدواجی زندگی پُرسکون اور آرام دہ گزرتی ہے۔ جہاں اس چیز اور اس خوبی کی کمی پائی جاتی ہے وہاں بگاڑ، بے چینی، تکرار کا اندیشہ بڑھ جاتا ہے اور دلوں میں محبت اجاگر نہیں ہوپاتی۔ میری درج ذیل تحریر معاشرے میں چاروں طرف نظر آنے والے واقعات سے اخذ ہے جو اس خوبی کی کمی و بیشی کی وجہ سے وقوع پذیر ہوتے ہیں۔
…٭…٭…
سبین ایک پڑھی لکھی سلیقہ شعار لڑکی تھی۔ یہ سلیقہ ہی تھا کہ شادی کے بعد فہیم کی معمولی سی آمدنی میں بھی کفایت شعاری سے خوشگوار زندگی گزار رہی تھی۔ عمیر (بیٹے) کی پیدائش کے بعد اخراجات بڑھنے کی وجہ سے فہیم کو اوور ٹائم کرنا پڑا۔ سبین کو اس بات کا احساس تھا کہ میرا شوہر میرے بیٹے کی وجہ سے سخت محنت کررہا ہے، لہٰذا وہ پہلے سے بھی زیادہ فہیم کے آرام کا خیال رکھنے لگی۔ نہ صرف گھر کے تمام کام بلکہ باہر کے کام بھی خوش اسلوبی سے انجام دینے لگی۔ فہیم گھر آتا گرچہ تھکا ہارا ہوتا، لیکن گھر کا سکون اور آرام اس کو تازہ دم کردیتا۔ نہ صرف سبین شوہر کے آرام و سکون کا خیال رکھتی بلکہ بے جا اسراف سے گریز کرتی۔ اس بات کا کبھی شکوہ بھی زبان پر نہ لاتی۔
دوسرے بیٹے کی پیدائش اور پھر اس کی پڑھائی کا سلسلہ شروع ہوا تو مزید اخراجات کی وجہ سے نہ صرف فہیم کو زیادہ اوورٹائم کرنا پڑا بلکہ اس کی طبیعت میں چڑ چڑا پن واضح ہونے لگا، گرچہ سبین نے اسے گھر کی طرف سے بالکل پُرسکون رکھا تھا۔ اس موقع پر سبین نے دانش مندی کا ثبوت دیا اور شوہر کی آسانی اور تعاون کے لیے ملازمت کرنے کا فیصلہ کیا۔ جب فہیم کو اس فیصلے سے آگاہ کیا تو اس نے یہی خدشہ ظاہر کیا کہ گھر کے معاملات کون سنبھالے گا؟ سبین نے اسے تسلی دی کہ وہ حسن و خوبی سے پہلے کی طرح سارے امور انجام دے گی۔ گرچہ یہ اتنا آسان نہ تھا۔ شادی سے پہلے چند ماہ اس نے جس اسکول میں وقتی ملازمت کی تھی وہاں اسے ملازمت تو مل گئی لیکن ملازمت کے ساتھ ساتھ گھر کے تمام بکھیڑے سمیٹنے میں تمام دن گزر جاتا، لیکن وہ پہلے کی طرح فہیم کے آرام و سکون کا خیال رکھتی، جس کی وجہ سے اسے خود بالکل آرام نصیب نہ ہوتا، لیکن وہ لب پر شکایت نہ لاتی کہ نیا نیا معاملہ ہے آہستہ آہستہ عادی ہوتی جائے گی۔ دوسری طرف فہیم اپنی پرانی روش کے مطابق ہی وقت گزارتا۔ یا تو اسے سبین کی مصروفیات کا اندازہ نہ تھا، یا احساس ہی نہ تھا۔ ملازمت کو تقریباً ایک ماہ ہونے والا تھا، اس دوران ایک دن ایسا ہوا کہ ڈنر میں سبین گھر میں روٹی نہ بنا سکی، بازار سے نان منگوائے، جس پر فہیم بہت ناراض ہوا کیونکہ شادی کے بعد پہلی مرتبہ ایسا ہوا تھا۔
…٭…٭…
آج موسم تھوڑا ٹھنڈا تھا۔ فہیم نے نزلے بخار کی وجہ سے آفس سے چھٹی کا ارادہ کیا۔ رات کو 4:30 بجے اس کی آنکھ کھلی، سبین بستر پر نہ تھی۔ اس نے سوچا باتھ روم میں ہوگی، لیکن خاصی دیر ہوگئی۔ اس نے لائونج میں جھانکا، سبین نماز سے فارغ ہوکر جائے نماز تہ کررہی تھی۔ وہ واپس آکر لیٹ گیا۔ اب کچن سے کھٹ کھٹ کی آواز آرہی تھی۔ اسے نیند کا جھونکا آگیا۔ دوبارہ آنکھ کھلی تو سبین کو ابھی تک کچن میں مصروف پایا۔ وہ بھی آکر لائونج میں کرسی پر بیٹھ گیا۔ اس دوران سبین نے بچوں کو اٹھاکر اسکول کے لیے تیار کرلیا تھا، اب وہ انہیں ناشتا کروا رہی تھی۔ وہ مشین کی طرح اپنے کاموں میں مصروف تھی۔ ایک طرف بچوں کو ناشتا کروا رہی تھی دوسری طرف کچن میں فہیم کے لیے پراٹھے بھی بنا رہی تھی۔ اس نے جلدی جلدی فہیم کے آگے ناشتا لاکر رکھا۔ عموماً فہیم ناشتا کرنے کے لیے ہی کمرے سے باہر آتا تھا، ناشتا کرکے وہ آفس کی تیاری کرتا، جب تک سبین بچوں کے ساتھ نیچے اتر جاتی، بچوں کو وین میں بٹھاتی، اسی دوران اُس کی وین بھی آجاتی۔ آج فہیم کو پہلی مرتبہ سبین کی مصروفیات کو دیکھنے کا موقع ملا۔ اس نے نوٹ کیا کہ نہ وہ پوری طرح خود تیار ہوئی ہے اور نہ ہی اس نے ناشتا کیا۔ وہ اخبار پڑھتے کن انکھیوں سے اس کو دیکھ رہا تھا کہ سبین کی آواز فہیم کے کانوں سے ٹکرائی ’’یاد سے دوائی لے لیجیے گا، میں نے قہوہ بھی بنا کر رکھ دیا ہے، پی کر آرام کیجیے گا‘‘۔ وہ دروازے سے نکلتے نکلتے پلٹی اور پھر یاددہانی کرائی ’’دوائی ضرور لے لیجیے گا، میں نے نکال کر ٹیبل پر رکھ دی ہے‘‘۔ دوائی پی کر فہیم لمبی تان کر سوگیا۔ اس کی آنکھ دوپہر میں ہی جاکر کھلی وہ بھی برتنوں کی کھٹ پٹ کی آواز پر۔ کچن میں آیا تو سبین روٹیاں بنا رہی تھی، صبح کے برتن وغیرہ سمیٹ کر دھو چکی تھی۔ فہیم نے ایک نظر گھر پر ڈالی، اس کا مطلب ہے وہ خاصی دیر سے آئی تھی۔ گھڑی پر نظر ڈالی، دو بج رہے تھے۔ اس نے کہا ’’بچے ابھی نہیں آئے؟‘‘ آواز پر سبین پلٹی، دیکھ کر مسکرائی اور پوچھا ’’اب کیسی طبیعت ہے؟‘‘
’’اللہ کا شکر ہے، کافی بہتر ہے، بہت دیر تک سویا ہوں‘‘۔ کھانا کھانے کے بعد بھی وہ مسلسل کاموں میں مصروف رہی، بمشکل آدھا ایک گھنٹہ وہ بستر پر آکر لیٹی۔ ابھی دن بھر کے باقی کام اس کی توجہ کے منتظر تھے۔ وہ باہر لائونج میں آگیا۔
اُف یہ عورت… مشین کی طرح سارا دن مختلف کاموں میں لگی رہتی ہے… بچوں کے، گھر کے اور خود اس کے تمام کام… اور پھر ملازمت۔ میں بھی کتنا بے حس بندہ ہوں، ایک مہینے سے وہ تکلیف میں ہے اور مجھے اس کا کچھ احساس نہیں۔ اگر وہ ملازمت نہ کرتی تو یقینا مجھے احمد صاحب کے تینوں بچوں کو ٹیوشن بھی پڑھانی پڑتی، تب جاکر گھر کے اخراجات پورے ہوپاتے۔ اس نے میری آسانی، میرے آرام کے لیے اپنا آرام ختم کردیا ہے۔ کم از کم میں کچھ کاموں میں اس کا ہاتھ بٹا کر، یا اپنے چند کام خود کرکے اسے آسانی فراہم کرسکتا ہوں۔ ایک نئے جذبے اور سوچ سے وہ اٹھا، الماری سے کل پہن کر جانے کے لیے کپڑے نکال کر استری کرنے لگا۔ اگلا دن سبین کے لیے نہ صرف ’’حیران کن‘‘ بلکہ ’’خوش کن‘‘ بھی تھا جس نے نہ صرف اس کی پورے مہینے کی تھکن کو دور کردیا، بلکہ اس کے دل میں اپنے شوہر کی قدر و منزلت بھی بڑھا دی۔
…٭…٭…
دینِ اسلام نے جس طرح اپنے آس پاس رہنے والوں کے ساتھ حُسنِ سلوک کی تاکید کی ہے، اسی طرح ازواج کے ساتھ بھی نرمی، حُسنِ اخلاق اور تعاون کی تعلیم دی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی (ازدواجی) ہمارے لیے مثال ہے۔ آپؐ اپنی ازواج مطہرات کا خیال رکھتے، ان کے ساتھ نرمی و محبت کا برتائو کرتے، گھر کے کاموں میں ہاتھ بٹاتے، اپنے کام اپنے ہاتھوں سے کرنا پسند فرماتے۔ مشکوٰۃ شریف کی حدیثِ مبارکہ ہے کہ آپؐ نے فرمایا ’’سب لوگوں سے اچھا وہ ہے جو اپنی بیوی کے ساتھ اچھا سلوک کرتا ہے، اور میں تم میں سے بڑھ کر اپنی بیوی کے ساتھ اچھا سلوک کرنے والا ہوں۔‘‘
ایک اور حدیث کا حصہ ہے کہ بیوی کو لونڈی، غلام کی طرح نہ سمجھو۔ ذلیل نہ کرو۔ (مشکوٰۃ شریف)
یہ سنتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ جو کام آسانی سے کیے جا سکیں اُن میں بیوی کی ضرور مدد کرنی چاہیے۔ اس طریقے سے آپس میں محبت بڑھتی ہے۔ اگر کاموں میں ہاتھ نہ بھی بٹا سکیں تو کم از کم اس کا احساس کرنے، یا تعریف میں ایک آدھ لفظ بولنے سے بیوی کو تقویت حاصل ہوتی ہے۔ اس کی زندگی آسان ہوجاتی ہے۔ جہاں ہم دوسروں کو آسانی دینے کے لیے کوشاں رہتے ہیں، وہاں بیوی کے ساتھ اُس کے فرائض کی ادائیگی میں تعاون کرنا بے حد ضروری امر ہے۔ اس طرح ایک خوبصورت گھر گرہستی جنم لیتی ہے۔
بے شک کسی نے سچ کہا ہے کہ ہم میں سے زندہ وہی رہے گا جو دلوں میں زندہ رہے گا… اور دلوں میں وہی زندہ رہتے ہیں جو خیرو آسانیاں بانٹتے ہیں۔

حصہ