ڈاکٹر نثار احمد نثار
نیاز مندانِ کراچی کے زیر اہتمام شاہد الیاس شامی کے ناول ’’ادھورا وعدہ‘‘ کی دوسری تعارفی تقریب و مشاعرہ سندباد ریسٹورینٹ گلشن اقبال کراچی میں منعقد ہوئی۔ پروگرام کے پہلے دور میں ’’ادھورا وعدہ‘‘ پر گفتگو کی گئی اور دوسرے دور میں مشاعرہ ترتیب دیا گیا۔ تعارفی تقریب کی صدارت فراست رضوی نے کی۔ زیب اذکار مہمان خصوصی‘ احمد سعید خان مہمان اعزازی تھے۔ ڈاکٹر نزہت عباسی نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ مقررین میں ڈاکٹر ساجدہ سلطانہ‘ شاہد ستی ایڈووکیٹ شامل تھے۔ تلاوت کلام پاک و نعت شریف طاہر سلطانی نے پیش کی۔ رونق حیات نے خطبۂ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ نیاز مندان کراچی نظر انداز قلم کاروں کے مسائل حل کرنے کے لیے کوشاں ہے ہم نے اس سلسلے میں اکادمی ادبیات پاکستان کے ڈائریکٹر سے اسلام آباد میں ملاقات کی ہے اور انہیں میمورینڈم پیش کیا ہے تاکہ ہمارے معاملات پر حکومتی اقدامات عمل میں آئیں۔ حکومت نے قلم کاروں کی فلاح و بہبود اور زبان و ادب کی ترقی کے لیے جو فنڈز مختص کیے ہیں ہم ان کا صحیح استعمال چاہتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ تمام ادیبوں اور شاعروں کو چاہیے کہ وہ نیاز مندان کراچی کے ہاتھ مضبوط کریں تاکہ ہم بہتر طریقے سے ان کے حقوق کے حصول کے لیے کام کر سکیں۔ صاحبِ صدر فراست رضوی نے کہا کہ ناول اور طویل نظم اپنے دور کے مسائل کو پیش کرنے کا مؤثر پلیٹ فارم ہے ادھورا وعدہ سماجی ناول ہے اس میں ہمارے عہد کا اجتماعی شعور نمایاں ہے اس ناول میں الیاس شامی نے فلسفانہ اندازِفکر اختیار کرتے ہوئے معاشرتی خرابیوں پر قلم اٹھایا ہے۔ یہ ناول دو حصوں پر مشتمل ہے پہلا حصہ پاکستان سے متعلق ہے جب کہ دوسرے حصے میں ترکی کا تذکرہ ہے۔ انہوں نے دونوں ممالک کے معاشرتی اقدار کا احاطہ کیا ہے۔ انہوںنے لکھا ہے کہ ہمارا معاشرہ اس وقت کس نہج پر جارہا ہے اور کس طرح اس کی اصلاح ہو سکتی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ الیاس شامی کے ناول کا مرکزی کردار ’’شانی‘‘ ہے جس نے ایک لڑکی سے وعدہ کیا ہے کہ وہ پاکستان جا کر شادی کریں گے جب وہ ترکی سے پاکستان آنے کے لیے جہاز میں سوار ہوتے ہیں تو جہاز راستے میں کریش ہو جاتا ہے اس طرح ان دونوں کی شادی نہیں ہو پاتی یعنی وعدہ ادھورا ہی رہ جاتا ہے۔ ناول کے اس انجام کے تناظر میں ناول کا نام منتخب کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر ساجدہ سلطانہ نے کہا کہ الیاس شامی کا ناول ایک لڑکے کے گرد گھومتا ہے جس نے معاشرتی ظلم و تشدد کا مقابلہ کیا۔ اس کی آنکھوں میں سنہرے خواب تھے جو مکمل نہیں ہوسکے۔ شکیل ستی ایڈووکیٹ نے کہا کہ الیاس شامی کا ناول پڑھ کر محسوس ہورہا ہے کہ یہ کسی آدمی کی بائیو گرافی ہے جس کو ناول کا نام دے دیا گیا ہے۔ 240 صفحات کے ناول کا اختتام اچھا ہے پورا ناول Present Tense میں لکھا گیا ہے یہ بڑی خوش آئند بات ہے کہ اس ناول کا انگریزی اور ترکی زبان میں ترجمہ ہو رہا ہے۔ احمد سعید خان نے کہا کہ ناول میں زمینی حقائق بیان کیے گئے ہیں انہوں نے کرداروں کے ساتھ انصاف کیا ہے۔ ڈاکٹر نزہت عباسی نے کہا کہ ادھورا وعدہ ایسا ناول ہے جو ہماری عصری زندگی سے تعلق رکھتا ہے اس کا بنیادی تھیم مسئلہ جبر و قدر ہے یعنی انسان خواب دیکھتا ہے اور اپنی خواہشات کا اظہار کرتا ہے لیکن تقدیر کے فیصلے کے سامنے بے بس ہے ناول کا موضوع ہمارے معاشرے سے تعلق رکھتا ہے۔ واقعات و کرداروں کا پھیلائو نہیں ہے بلکہ ناول منطقی ربط و تسلسل سے آگے بڑھتا ہے۔ ناول کا انجام المیہ انداز پر ہوا ہے۔ زیب اذکار نے کہا کہ الیاس شامی کا ناول دل چسپ پیرائے میں لکھا گیا ہے ان کے الفاظ سادہ اور خوب صورت ہیں اس ناول میں معاشرتی بے حسی بیان کی گئی ہے اس میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ہر خواب کی تعبیر نہیں ملتی۔ انسان جو چاہتا ہے وہ حاصل نہیں کرسکتا کیونکہ اللہ تعالیٰ کی مرضی کے بغیر ایک پتا بھی نہیں ہل سکتا اللہ کے فیصلے اٹل ہوتے ہیں۔ پروگرام کے دوسرے دور میں محسن اعظم ملیح آبادی کی صدارت میں مشاعرہ ہوا۔ جاذب قریشی مہمان خصوصی‘ آصف رضا اور فیاض علی مہمانانِ توقیری تھے جب کہ ڈاکٹر لبنیٰ عکس مہمان اعزازی تھیں۔ کشور عدیل جعفری نے نظامت کی اس موقع پر صاحبِ صدر ‘ مہمان خصوصی‘ مہمانان توقیری‘ مہمانان اعزازی اور ناظم مشاعرہ کے علاوہ فراست رضوی‘ رونق حیات‘ نسیم نازش‘ ظفر محمد خان ظفر‘ سید علی اوسط جعفری‘ حجاب عباسی‘ ڈاکٹر شوکت اللہ جوہر‘ احمد سعید خان‘ سعدالدین سعد‘ سحر تاب رومانی‘ ضیا شہزاد‘ حامد علی سید‘ ریحانہ احسان‘ اسد قریشی‘ محمد رفیق مغل تنویر سخن‘ عینا میر‘ سیما ناز‘ ساجدہ سلطانہ‘ مہر جمالی‘ شاہدہ عروج‘ الحاج یوسف اسماعیل‘ نشاط غوری‘ قیصر رانا خالد‘ امۃ الحئی وفا‘ شہناز رضوی‘ نعیم انصاری اور شاعر حسین شامل نے اپنا اپنا کلام پیش کیا۔
ادب زندگی کا ترجمان ہوتا ہے‘ سرور جاوید
معروف صحافی‘ نقاد‘ ماہر تعلیم اور ممتاز شاعر سرور جاوید نے کہا کہ ادب ہمارے معاشرے کی ضرورت ہے‘ اس سے دوری کے باعث معاشرہ انتشار کا شکار ہو جاتا ہے‘ منفی رویے پروان چڑھتے ہیں‘ دہشت گردی کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ ہم ادب سے دور ہوتے جارہے ہیں‘ ادب زندگی کا ترجمان ہوتا ہے۔ بعض دانشوروں کے نزدیک صحافت بھی زندگی کی ترجمانی کرتی ہے‘ صحافت جو کچھ دیکھتی ہے وہ لکھ دیتی ہے لیکن ادب یہ بھی بتاتا ہے کہ اس وقت معاشرے میں کیا ہو رہا ہے اور کیا ہونا چاہیے یعنی ادب معاشرتی صورت حال کا تجزیہ پیش کرتا ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے آزاد خیال ادبی فورم کے مذاکرے اور مشاعرے میں کیا۔ انہوں نے ’’ادب کیا ہے؟‘‘ کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ادب قاری کے اندر یہ شعور پیدا کرتا ہے کہ وہ زندگی کے مسائل کو سمجھ سکے اور ازخود یہ فیصلہ کرے کہ اب اسے کیا کرنا ہے باالفاظ دیگر ادب ذہن کے بند دروازے کھولتا ہے۔ مختلف قسم کی تحریکیں یا انقلاب ادب پر اثر انداز ہوتے ہیں جسے ترقی پسند تحریک نے ادب کو نئے نئے موضوعات دیے اس نے بتایا کہ ہمیں مظلوموں کی حمایت کرنی ہے‘ ظلم کے خلاف آواز بلند کرنی ہے۔ ترقی پسند تحریک کے لوگوں کے ذہنوں کو تبدیل کیا یعنی Status-Co کے خلاف سوچ بیدار کی جب اسٹیبلشمنٹ نے یہ دیکھا کہ لوگوں کے ذہن تبدیل ہو رہے ہیں‘ وہ اچھے برے میں تمیز کرنے کے قابل ہو رہے ہیں‘ وہ سیاسی‘ سماجی معاملات میں بھی تبدیلی چاہتے ہیں‘ بدلتا ہوا منظر نامہ اسٹیبلشمنٹ کو منظور نہیں تھا لہٰذا ترقی پسند تحریک کی مخالفت میں ’’روشن خیال‘‘ تحریک‘ جدیدیت اور مابعد جدیدیت کو رواج دینے کی کوششیں کی گئیں۔ ایک سوال کے جواب میں سرور جاوید نے کہا کہ ادب کا کام زندگی سے آگاہی دینا ہے‘ زندگی کو گہری اور گیرائی سے پیش کرنے کا نام ادب ہے۔ زندگی کی تفہیم کرنا بھی ادب کی ذمے داری ہے چاہے یہ تفہیم نثر کی صورت میں ہو یا نظم کی شکل میں۔ جو تحریر آپ کے ذہن و دل پر اثر کرے وہ ادب ہے‘ ادب وہ ہے جو آپ کے اندر کوئی ذہنی تبدیلی پیدا کرے۔ شاعری‘ افسانہ‘ ناول‘ انشائیہ‘ سفر نامہ اصنافِ ادب میں شمار ہوتے ہیں۔ سفر نامہ اس وقت ادب کا حصہ بنتا ہے جب وہ کسی علاقے کی سماجیات پر بحث کرے صرف معلومات میں اضافے کا باعث بننا کافی نہیں ہوتا۔ آزاد خیال ادبی فورم کے مذاکرے اور مشاعری کی صدارت پروفیسر علی اوسط جعفری نے کی جب کہ نصیر سومرو‘ جمیل ادیب سید‘ مجید رحمانی‘ احمد سعید فیض آبادی اور حامد علی سید نے مذاکرے میں حصہ لیا۔ صاحبِ صدر نے بحث سمیٹتے ہوئے اپنے خطاب میں کہا کہ ادب ہمیں یہ بتاتا ہے کہ معاشرتی استحصال کیسے ختم کیا جائے‘ ادب معاشرے کا آئینہ دار ہوتا ہے اگر ہم انسانی زندگی سے ادب کو نکال دیں تو لوگوں میں فہم و فکر اور شعور کم ہونے لگتا ہے‘ ان پر جمود طاری ہو جاتا ہے۔ اس پروگرام کے دوسرے میں حصے میں پروفیسر علی اوسط جعفری‘ سرور جاوید‘ احمد سعید فیض آبادی‘ راقم الحروف ڈاکٹر نثار‘ جمیل ادیب سید‘ حامد علی سید‘ سلمان ثروت‘ نصیر سومرو‘ عارف شیخ‘ الحاج یوسف اسماعیل‘ صدیق راز‘ آزاد حسین آزاد‘ عمر برناوی‘ شاہ زیب خان‘ سیف ریاض اور اختر رضا نے اپنا اپنا کلام پیش کیا۔
شعری مجموعہ شمع محبت کی تعارفی تقریب
گزشتہ اتوار آرٹس کونسل آف پاکستان کراچی کی لائبریری کمیٹی کے زیر اہتمام ادبی تنظیم بارگاہِ ادب کے تعاون سے برطانیہ میں مقیم پاکستانی نژاد شاعرہ شمع چوہدری کے چوتھے شعری مجموعہ ’’شمع محبت‘‘ کی تعارفی تقریب منعقد کی گئی جس کے فوراً بعد شعری نشست بھی ہوئی۔ دونوں حصوں کی صدرت پروفیسر جاذب قریشی نے کی۔ مہمان خصوصی شاہین نیازی تھے۔ عظمیٰ جون مہمان اعزازی تھے نظامت کے فرائض بالترتیب راشد نور اور سلیم فوز نے انجام دیے۔ تعارفی تقریب کے مقررین میں نسیم نازش‘ ملک عدیل‘ مہر گل‘ شاہدہ کنول شامل تھے۔ صاحب صدر نے اپنے خطاب میں کہا کہ شمع چوہدری کی شاعری کلاسیکی اور تہذیبی رقص ہے جو محبتوں کی درمیان اپنا اظہار کر رہی ہے جس میں شمع چوہدری کے خواب و خواہش اس کے دکھ‘ اس کی شکشتگی‘ اس کی سارے تجربے رقص میں ہیں اس شاعری کو پڑھنے والے حیرت میں ہیں کہ موجودہ تیز رفتار خود غرض لمحوں کے درمیان عہد گزشتہ کا یہ بے لوث اور پرسکون تماشا اتنے تسلسل کے ساتھ کیسے تخلیق ہو رہا ہے اور لوگ اس تماشے کی پسندیدگی میں گم ہوتے جارہے ہیں۔ شمع چوہدری نے اپنے جسم و جاں کے حوالے سے جو تجربات لکھے ہیں اگرچہ وہ ادھورے ہیں لیکن ان میں سچائی اور سادگی ہے وہ قارئین کو متاثر کرنے کا ہنر جانتی ہیں۔ وہ پہلے لمحے سے آخری ساعت تک گردشِ چاک کی تمثیل بنی ہوئی ہیں اس تناظر میں ان کی نظمیں نسائی ادب ی آئینہ دار ہونے کے ساتھ ساتھ آفاقیت لیے ہوئے ہیں۔ شاہین نیازی نے کہا کہ شمع چودھری کے اشعار میں سادگی‘ شاعرانہ حسن کے علاوہ لفظیات کا عمدہ استعمال نظر آتا ہے ان کی شاعری میں غم و یاسیت نہیں بلکہ محبت کا اظہار ہے انہوں نے برطانیہ کے معاشرے کے بجائے پاکستانی کلچر کو نظم کیا ہے اور عورت کی افادیت و اہمیت پر سیر حاصل بحث کی ہے۔ نسیم نازش نے کہا کہ شمع چودھری منکسر المزاج اور سچی شاعرہ ہیں۔ ان کی تین شعری مجموعے حدیثِ دل‘ ملائم دل اور شمع وفا شائع ہوچکے ہیں۔ آج ان کے چوتھے مجموعہ کلام ’’شمع محبت‘‘ کی تعارفی تقریب ہے اس کتاب میں 69 نظمیں ہیں جن میں 33 پابند نظمیں اور 36 نثری نظمیں ہیں۔ ان کی شاعری محبت کے جذبات سے لبریز ہے‘ ان کے یہاں سماجی شعور اور مثبت روّیوں کا اظہار ہے۔ ملک عدیل مہر گل نے کہا کہ شمع چودھری کی شاعری نہایت پُر تاثیر اور انسان دوست جذبات کی عکاس ہے‘ ان کی سماجی خدمات بھی قائل ستائش ہیں۔ شاہدہ کنول نے کہا کہ شمع چودھری نے دیارِ غیر میں رہتے ہوئے مشینی زندگی اختیار کرنے کے باوصف بھی ادب کی آبیاری کی ہے جو کہ کسی جہاد سے کم نہیں ان کی نظموں میں جدید مضامین ہیں جوقاری کو قرأت پر مائل کرتے ہیں۔ سلیم فوز نے خطبۂ استقبالیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ان کی ادبی تنظیم بارگاہِ ادب شاہ فیصل کالونی کی ادبی تنظیموں مین اہمیت کی حامل ہے ہم اپنے پلیٹ فارم سے اردو زبان و ادب کی ترویج و ترقی میں مصروف عمل ہیں۔ اس موقع پر ڈاکٹر اوج کمال نے مہمانوں کی خدمت میں یادگاری شیلڈ پیش کیں۔ شمع چودھری نے اپنی غزلیں اور نظمیں سنا کر خوب داد سمیٹی۔ اس پروگرام کے دوسرے دور میں مشاعرہ ہوا جس میں صاحبِ صدر پروفیسر جاذب قریشی‘ مہمان خصوصی ظہورالاسلام جاوید‘ مہمان اعزازی عظمی جون‘ ناظمین مشاعرہ راشد نور‘ سلیم فوز کے علاوہ نسیم نازش‘ فیروز خسرو‘ انور انصاری‘ فیاض علی‘ احمد سعید خان‘ رشید خان رشید‘ صفدر علی انشاء‘ خالدہ عظمیٰ‘ ریحانہ احسان‘ سحر تاب رومانی‘ بشیر نازش‘ زرین مسعود‘ شمع چودھری‘ شائستہ مفتی‘ یاسر سعید صدیقی‘ ہما اعظمی‘ تنویر سخن‘ شاہدہ کنول‘ ملک عدیل مہر گل‘ عاشق شوکی‘ علی کوثر اور دیگر نے اپنا اپنا کلام نذر سامعین کیا۔ یہ ایک کامیاب تقریب تھی جس کا سہرا آرٹس کونسل اور سلیم فوز کو جاتا ہے جنہوں نے شاندار انتظامات کیے۔