اسداللہ ابراہیم
عالمی طاغوت کا ہر ایجنڈا دراصل اللہ رب العالمین کے دیے ہوئے عالمی قوانین کے ضد میں ترتیب دیا جاتا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ پہلے اللہ سبحانہ تعالیٰ کے دیے گئے ان قانونی نکات کو سامنے رکھ لیں جس کے مقابلے میں عالمی طاغوت کا مرکزی ایجنڈا ترتیب پایا ہے۔
اے محمدؐ ! ان سے کہو کہ آئو میں تمہیں بتائوں کہ تمہارے رب نے تم پر کیا پابندیاں عائد کی ہیں۔(1) یہ کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو،(2) اور والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو،(3) اور اپنی اولاد کو مْفلسی کے ڈر سے قتل نہ کرو، ہم تمہیں بھی رزق دیتے ہیں اور ان کو بھی دیں گے۔(4) اور بے حیائی کی باتوں کے قریب بھی نہ جاوخواہ وہ کْھلی ہوں یا چھپی‘(5) اور کسی جان کو جسے اللہ نے محترم ٹھیرایا ہے ہلاک نہ کرو مگر حق کے ساتھ۔یہ باتیں ہیں جن کی ہدایت اس نے تمہیں کی ہے، شاید کہ تم سمجھ بوجھ سے کام لو‘‘۔(الانعام۔151)
’’شیطان تمہیں مفلسی سے ڈراتا ہے اور شرمناک طرزِ عمل اختیار کرنے کی ترغیب دیتا ہے ، مگر اللہ تمہیں اپنی بخشش اور فضل کی اْمید دلاتا ہے‘‘(البقرۃ268)اللہ رب العالمین نے درج بالا آیات میں انسانوں کو بڑیواضح اندازمیں جوحکم دیا ہے ان میں پہلا نکتہ یہ ہے کہ ’’اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو‘‘۔ آج شیطان کے حواری طاغوتی قوتیں زمیں پر خدا بن بیٹھے ہیں اورانسانوں نے مجموعی طور پر نیتاً نہ سہی عملاً انہیں رب مان کران کے آگے سر تسلیم خم کیا ہے۔ اس شرک جلی کے نتیجے میں ان زمینی خداؤں نے وہ سب کروایا جو بعد کے نکات میں اللہ رب العالمین نے انسانوں کو ہدایت فرمائی تھیں۔ والدین کے ساتھ حسن سلوک یہ ہوا کہ وہ اولڈ ہاؤس کے حق دار ٹھہرے یہاں تک کہ مسلم معاشرے میں بھی اب وہ بوجھ بنتے جارہے ہیں۔ مفلسی کے ڈر سے منصوبہ بہبود آبادی کے نام پرقتلِ اولاد کے ساتھ ساتھ جنسی لذتوں کی تکمیل کے لیے فحاشی کا بے انتہا فروغ اور انسانی جانوں کو ناحق قتل کرنے کے لیے گزشتہ دو سو سال میں مسلسل اعلانیہ و غیر اعلانیہ جنگوں کے ذریعے کروڑوں انسانوں کا قتلِ ناحق شامل ہے۔
مفلسی سے ڈرانے کے منظم منصوبے کا آغاز سترہویں صدی میں فرانس کے وزیر مالیات ’’جین بیپٹسٹ کالبرٹ‘‘ نے رکھی۔ اس فلسفے کو اٹھارہویں صدی میں پہلے ’میرابیو‘ اور پھر ’آدم اسمتھ ‘ نے اس کے اصول و ضوابط مرتب کرکے اسے باضابطہ شکل دی۔ اس کے بعد ’مالتھس‘ نے یہ تصور پیش کیا کہ انسانی آبادی قدرتی وسائل کے مقابلے میں کہیں تیز رفتاری سے بڑھ رہی ہے اور یہ سلسلہ جاری رہا تو آئندہ پچیس سال میں خوراک کے ذرائع کم پڑ جائیں گے اور انسان بھوک سے مرنے لگے گا۔ اس لیے زندہ انسانوں کو بچانے کے لیے شرح پیدائش کو کنٹرول کیا جائے۔ پچیس سال گزرے اڑھائی سو سال ہوگئے، لوگ بھوک سے تو نہ مرے البتہ کرپشن اورجنگوں کے ذریعے انسانوں کو مسلسل مارا جارہا ہے اور ہماری حکومتیں ’’منصوبہ بہبود آبادی‘‘ کے نام پر عوام کو بے وقوف بنارہی ہیں اور کرپشن کے ذریعے مال بنا رہی ہیں۔
موجودہ دورمیں اب منصوبہ بہبود آبادی کی اصطلاح کی جگہ آپ ماحولیات کی بہتری کے سلوگن زیادہ سن رہے ہوں گے۔ منصوبہ بہبود آبادی کی اصطلاح پرانی ہو چکی تھی اور اس پر مسلم دنیا میں بالخصوص مزاحمت پائی جاتی تھی اس لیے اب اس کا نام ’’ماحولیات کی بہتری کے لیے اقدامات‘‘ رکھا گیا ہے، لیکن بوتل نئی ہے شراب پرانی۔ ماحولیات کی بہتری سے متعلق ہر سال عالمی کانفرنس منعقد کی جاتی ہے جس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس کانفرنس میں تمام ملکوں کے سربراہان لازمی شریک ہوتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے سالانہ اجلاس میں اپنے حریف ممالک کے نمائندے ایک دوسرے پرحرف زنی کرتے ہوئے نظرآئیں گے لیکن اس اجلاس میں سب سیر و شکر نظرآئیں گے۔
اس منصوبے کا اصل روح رواں اور عالمی تھنک ٹینک کی حیثیت سے ’’کلب آف روم‘‘‘ نامی ادارہ ہے جس کا قیام اپریل1986ء میں لایا گیا تھا۔ اس ادارے کا مقصد عالمی حالات اور ان کے مسائل کے حوالے سے تحقیقات کرکے عالمی قیادت کو رہنمائی فراہم کرنا ہے تاکہ ان مسائل سے بہتر طور پرنمٹا جا سکے۔ اس ضمن میں سب سے پہلی تھیوری ’’لمٹس ٹو گروتھ‘‘ کے عنوان سے 1972 میں کتاب شائع ہوئی جسے پہلی بار انٹرنیشنل اسٹوڈنٹس کمیٹی کے سالانہ سمپوزیم میں پیش کیا گیا۔ انٹرنیشنل اسٹوڈنٹس کمیٹی کوئی عام طالب علموں کی تنظیم نہیں ہے بلکہ یہ وہ لوگ ہیں جو موجودہ اور آنے والے وقتوں میں دنیا کے معاملات کے فیصلے کرنے والے ہیں‘ جن کا مرکز یونیورسٹی آف سینٹ گیلن سوٹزرلینڈ ہے۔ اس کتاب میں یہ نظریہ پیش کیا گیا ہے کہ زمین کی حد مقرر ہے جس میں اضافہ نہیں ہونا اس لیے اس کے وسائل بھی محدود ہیں۔اگر بنی نوع انسان کو اس زمین پر تا دیر آباد رہنا ہے تو اپنی آبادی کو کنٹرول کرنا ہوگا تاکہ انسان خوش حال زندگی گزار سکے۔ یہ در اصل ’’مالتھزین تھیوری آف پاپولیشن‘‘ کا نیا چربہ ہے جسے نئی تحقیق کا نام دیا گیا۔ اس کتاب کے بعد درجنوں کتابیں شائع ہوئی ہیں لیکن سب کا اساس اسی پہلی کتاب پر ہے۔ اس تھیوری میں آبادی کو کنٹرول کرنے کے علاوہ ماحولیات کو بہتر بنانے کے لیے مختلف اقسام کی پولوشن کو کنٹرول کرنے کی بھی بات کی گئی ہے۔ اس پولوشن کا سب سے بڑا ذمے دار وہ عام انسان ہے جو ان کے مطابق معاشرے کے لیے غیر منفعت بخش ہے اور اس کی حیثیت کوڑے کرکٹ جیسی ہے۔ اس لیے اس زمین کو جنتِ نظیر بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ماحول خراب کرنے والے انسانوں کو بتدریج ختم کردیا جائے۔ اس طرح انسان کو ہی انسانیت کا دشمن قرار دیا گیا ہے۔ ماحولیات کو بہتر بنانے کے حوالے سے تجاویز و اقدامات اہم اور قابل توجہ ہیں لیکن یہ منفی رُخ اس وقت اختیار کرلیتا ہے جب اس کا تانا بانا انسانی آبادی کو کنٹرول کرنے پر جا کر رکتا ہے۔ دنیا کی آبادی کو کنٹرول کرنے کے لیے امریکی ریاست مشی گن کے شہر ڈیٹرائٹ پر عملی تجربہ کیا جاچکا ہے۔ یہ شہرامریکا کی مشہور کمپنی ’’جنرل موٹرز‘‘ کا مرکز رہا ہے جہاں 1950 میں آبادی تقریباً بیس لاکھ تھی جو کم ہوکر 2013 صرف سات لاکھ رہ گئی ہے اور اسی سال یہاں کے میئر نے شہر کی معیشت کو دیوالیہ قرار دیا ہے جوکہ امریکی تاریخ کا ایک بڑا دیوالیہ ہے۔ اس کی تفصیل جاننے میں جن کودل چسپی ہو وہ اس عنوان سے انٹرنیٹ پر دیکھ سکتے ہیں۔ اس ادارے نے ماحولیات، انسان اور وسائل کا جو موضوع چھیڑ رکھا ہے اس میں پانی کی کمیابی کا ذکر بھی بڑی شدومد کے ساتھ کیا جا رہا ہے ا ور مستقبل میں پانی کی بنیاد پرجنگ کے امکانات کو نمایاں کر کے ذہن سازی کی جارہی ہے۔1991 میں اس ادارے کے تحت شائع ہونے والی رپورٹ، ’’The First Global Revolution ‘‘ کو اکیسویں صدی کے عالمی نظام کے لیے بلیو پرنٹ کی حیثیت دی گئی ہے۔ اس رپورٹ میں مسائل اور حل کے دو عنوانات کے تحت عالمی معاشی ترقی،نئی ٹیکنالوجی، ذرائع ابلاغ، عالمی تحفظ برائے خوراک، پانی کی دستیابی، ماحولیات، توانائی، اشیاء‘ بڑھتی ہوئی آبادی، نظام تعلیم، مذہب و اقدار کے علاوہ حکومتیں اور ان کی استعداد کار جیسے اہم موضوعات شامل ہیں۔ ایک اور اہم رپورٹ2012 میں شائع ہوئی جس میں آئندہ چالیس سال کی پیش بندی کی گئی ہے جس کا عنوان ہی ’’ 2052‘‘ہے۔
انسان کو نہیں معلوم کہ اگلے لمحہ میں اس کے ساتھ کیا ہوگا اس کے باوجود وہ مستقبل کے منصوبے بناتا ہے اور جن کے پاس منصوبے نہیں ہوتے وہ پیش گوئیوں کا سہارا لیتے ہیں۔یہودی2016ء کے سپر مون کو اپنے لیے عروج و ترقی کا پیغام سمجھ رہے ہیں تو عیسائی و مسلم مفکر یندجال ، مہدی، مسیح موعود اور تیسری عالمی یا آخری جنگ جسے ملحم الکبریٰ کی پیش گوئیاں کر رہے ہیں۔ جب کہ عالمی طاغوت جو اس باب میں موضوع بحث ہیں اور جن کے ہاتھ میں زمانے کے معاملات ہیں، آئندہ چالیس و پچاس سال کا منصوبہ بنائے بیٹھے ہیں۔ آئے دیکھتے ہیں کہ یہ آئندہ دنیا کو کس طرح دیکھنا چاہتے ہیں۔
-1 سب سے پہلے انسانی آبادی کا ذکر کرتے ہیں جس کے متعلق کلب آف روم کافی حساس ہے اور ماحولیات کے عنوان سے وہ انسانی آبادی کو کنٹرول کرنا چاہتا ہے جس کا اظہار اپنی رپورٹ’2052‘ میں کیا ہے۔ اس کلب کے تعارف میں اس بات کا ذکر ہوچکا ہے کہ ان کے فلسفے کے مطابق زمینی وسائل محدود ہیں اور انسانیت کی فلاح اسی میں ہے کہ ان کی آبادی اتنی محدود ہوکہ وہ زمین کے وسائل سے خوش گوار اور طویل آرام دہ زندگی گزار سکیں۔ اس مطلوبہ ماحول کے حصول میں انسانوں کا ہی گروہ رکاوٹ ہے جسے ختم کرنا ضروری ہے۔ اس کے لیے اب تک شرح پیدائش میں کمی کے لیے مہم چلائی گئی ہے اور لوگوں کو قتل کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر مسلسل جنگیں بھی ہوتی رہی ہیں۔ اس کے باوجود موجودہ شرح پیدائش کے حساب سے دنیا کی آبادی جو اس وقت 7.5 ارب ہے سے بڑھ کر 2030ء تک 8.5 ارب اور 2050ء 9.7 ا رب ہوجائے گی۔اس لیے اس آبادی کو مزید کنٹرول کرنے کی ضرورت ہے اور 2040ء تک اسے کم کرکے 8.1 ارب اور اس کے بعد مزید کنٹرول کرکے صرف 7 ارب تک محدود رکھنا ہے۔
-2 بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ توانائی کا استعمال بھی بڑھے گا جس کی وجہ سے درجہ حرارت میں تیزی سے اضافہ ہوگا جس کے باعث برفانی علاقوں اور گلیشیئر میں کمی ہوگی اور سطح سمندر بلند ہوگا۔ گرمی میں اضافے کی وجہ سے کئی ممالک خشک سالی اور غذائی قلت کا شکار ہوں گے جنہیں غذائی اجناس دوسرے ملکوں سے مسلسل درآمد کرنا پڑے گا۔ غذائی قلت اور بڑھتی ہوئی گرمی کی وجہ سے طوفانوں کی آمد کا سلسلہ بھی بڑھے گا جس سے انسانی ہلاکتیں بڑھیں گی۔
-3 توانائی کی موجودہ ضرورت کا 87 فی صد انحصار تیل‘ گیس اور کوئلے پر ہے جس کی طلب میں50 فی صد اضافہ ہو گا اس لیے پیٹرول کی قیمت میں اضافہ ہوگا جس سے غذائی اجناس بھی مہنگے ہوں گے اس لیے توانائی کے متبادل ذرائع کو بھی استعمال میں لایا جائے گا جس میں نامیاتی ایندھن بھی شامل ہے اور اس کی کارکردگی کو بہتر کیا جائے گا۔
-4 جدید ٹیکنالوجی کے استعمال میں اضافہ ہوگا اور اس کی جدت میں بھی اضافہ ہوگا۔ فیکٹری سے لے کر میدان جنگ تک ’آٹو میشن ‘میں اضافہ ہوگا اور آٹو میٹک روبوٹک مشینوں کا استعمال بڑھے گا۔
-5 آٹو مشین سسٹم کی وجہ سے افرادی قوت کے استعمال میں مزید کمی ہوگی اور عام مزدوروں کی بہ نسبت تربیت یافتہ افراد ہی کار آمد ہوں گے جن کی عمر15 تا 65 سال ہوں گی۔
-6 جدید مشینوں اور تربیت یافتہ افراد کی وجہ سے پیداواری صلاحیت میں اضافہ ہوگا اس کے باوجود مجموعی خام ملکی پیداوار(GDP) کو 2.2 فی صد تک محدود رکھا جائے گا۔ جسے کنٹرول کرنے کے لیے 2008 سے مندی لائی جاچکی ہے لیکن اسے ایڈجسٹ کرنے کے لیے 2020 تک تھوڑی تیزی لائی جائے گی۔ البتہ اس کمی کا ذمے دار موسمی تغیرات اور بڑھتی ہوئی طبقاتی کشمکش کے نتیجے میں ہونے والی خانہ جنگیوں کو ٹھہرایا جائے گا اور ان سب کے نتیجے میں مہنگائی میں اضافہ ہوگا۔
-7 معیشت کو مخصوص سطح پر کنٹرول کرنے سے سرمایہ دارانہ نظام بھی کنٹرول ہوگا جس کی بنیاد سرمایہ سے نفع کی شرح کے بجائے سماجی ضرورت ہوگی۔ سرمایہ کاری کی موجودہ شرح عالمی جی۔ڈی۔پی کا 25 فی صد ہے اسے بڑھا کر 30 فی صد تک رکھنے کی تجویز ہے۔ ان چیزوں کو کنٹرول کرنے کے لیے ریاست کا عمل دخل افراد کی زندگی میں بہت بڑھ جائے گا جس سے شخصی آزادی متاثر ہوگی جسے ’’کنٹرولڈ جمہوریت‘‘ کے ذریعے قابو میں رکھا جائے گا۔
-8 چوں کہ کنٹرولڈ معاشرہ ہوگا اس لیے اس میں کارآمد لوگوں کی شرح آمدنی بہتر ہوگی۔ خاص کر ان ملکوں کے شہریوں کی جنہیں آئندہ پچاس سال میں چین کے ساتھ مل کر نظام چلانا ہے۔
-9 آئندہ پچاس سال کے لیے چین ہی دنیا کی قیادت کرئے گا جس کی پیداواری صلاحیت اوسطاً 3.5 تک برقرار رکھی جائے گی اور اس کے ساتھ برکس کے دیگر ممالک برازیل، بھارت اور سائوتھ افریقہ کا کردار اہم ہوگا جبکہ ان کے حواری ممالک میں انڈونیشیا، ویت نام، ترکی، ایران، سعودی عرب، تھائی لینڈ، یوکرائن، ارجنٹینا، وینزویلا اور میکسیکو شامل ہیں۔ ان ممالک کی آبادی2010 میں 2.4 ارب تھی جسے2050 تک 3 ارب تک محدود رکھنا ہے جس کی وجہ سے ان کی فی کس موجودہ آمدنی 6 ہزار ڈالر سے بڑھ کر 16 ہزار ڈالر ہوجائے گی۔ ان ممالک کی آبادی اور معیشت کو کنٹرول کرنے کے لیے بڑے پیمانے پر جنگوں کا سلسلہ رہے گا جس میں پاکستان کی مزید ’’خدمات‘‘ حاصل کی جائیںگی۔
-10 امریکا کا ’’عالمی پولیس مین‘‘ کا کردار ختم ہو رہا ہے اس لیے ان کی شرح نمو صرف اعشاریہ چھ فی صد رکھنے کی تجویز ہے جب کہ 2025 کے بعد سے ان کی شرح پیدائش میں دس فی صد سے کمی لائی جائے گی جس کی وجہ سے آئندہ پچاس سال میں اس کی آبادی موجودہ آبادی سے کہیں کم ہوگی۔
-11 یورپی ممالک کے لیے بھی آثار اچھے نہیں ہیں اور وہ معاشی ترقی کے اعتبار سے انیسویں صدی کے آخری دو دہائی کی سطح پر چلے جائیں گے جب کہ بقیہ186 عام ممالک جن کی2010ء میں اوسط آبادی 2.1 ارب تھی‘ اسے 3 ارب تک محدود رکھنے کی کوشش کی جائے گی جس کی وجہ سے یہاں کے لوگوں کی شرح آمدنی اوسطاً 4 ہزار ڈالر سے بڑھ کر 8 ہزار ڈالر ہوجائے گی۔
-12 زمین پر مکمل حکمرانی کے ساتھ ساتھ دوسرے سیاروں کے وسائل کو بھی استعمال کرنے کے لیے وہاں چھلانگیں لگائی جا رہی ہیں۔ لیکن یہ سوال بھی ہے کہ کیا ہم دنیا میں تنہا ہیں یا کسی اور سیارے پر ہمارے علاوہ کوئی اور مخلوق بھی ہے؟ اس جستجو میں رائے عامہ تیار کرنے کے لیے ایلینز کا کردار پیش کیا جا رہا ہے۔
-13 یہ تو تھی طاغوت کی وہ دنیا جس نے گیارہویں صدی کی پستی سے ابھرنے کی کوشش کی اور پھر یاجوج ماجوج کی سرپرستی میں مصریات کے چار نسلی فلسفہ کی بنیاد پر‘ جس میں یہود و نصاریٰ‘ ان کے ہم رکاب ہوئے‘ آج زمین کے مالک بن بیٹھے ہیں اور اس کے بعد بالائی دنیا کی تسخیر کا ارادہ رکھتے ہیں جس کے متعلق علامہ اقبال نے کہا تھا:
ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزر گاہوں کا
اپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا
اپنی حکمت کے خم و پیچ میں الجھا ایسا
آج تک فیصلہ نفع و ضرر کر نہ سکا
جس نے سورج کی شعاعوں کو گرفتار کیا
زندگی کی شب تاریک سحر کر نہ سکا
اور اللہ رب العالمین نے بھی سورۃ التین میں چار قدیم تہذیبوں کو دلیل بنا کر فرمایا ’’ہم نے انسان کو بہترین ساخت پر پیدا کیا، پھر اُسے اُلٹا پھیر کر ہم نے سب نیچوں سے نیچ کر دیا، سوائے اُن لوگوں کے جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے کہ ان کے لیے کبھی ختم نہ ہونے والا اجر ہے‘‘۔ اس کے مقابلے میں طاغوت کا تہذیبی فلسفہ مصریات ہے جس پر ان شاء اللہ پھر بات ہوگی۔