دجّال

875

سیدہ عنبرین عالم
ساری رات گزر چکی تھی، عبداللہ کو اس کے بابا نہیں ملے۔ جگہ جگہ پڑی ہوئی لاشوں میں بھی وہ بابا کو ڈھونڈ چکا تھا۔ وہ کھانا لانے نکلے تھے اور اب عبداللہ بغیر کھانے کے گھر نہیں لوٹنا چاہتا تھا۔ دو دن جاری رہنے والی امریکی شیلنگ نے علاقے کو کھنڈر بنادیا تھا، خاندان میں چھوٹے بچے بہت ہونے کی وجہ سے وہ لوگ اب تک شام سے نقل مکانی نہیں کرسکے تھے، اور اب بابا ہی کھو گئے تھے۔
فوجی طرز کی ایک گاڑی اچانک عبداللہ کے آگے آکر رکی، دو فوجی باہر نکلے اور اسے تھپڑ مارتے ہوئے گاڑی میں بٹھا کر لے گئے، وہ کسی انجان زبان میں اور مسلسل عبداللہ کی طرف دیکھ دیکھ کر بات کررہے تھے، ساتھ ساتھ مارتے بھی جارہے تھے۔ ایک بڑی سی بلڈنگ کے سامنے اترے اور پھر عبداللہ کو مارنے لگے۔ اب عبداللہ کی سمجھ میں آیا کہ وہ اس سے کچھ پوچھ رہے ہیں اور جواب نہ ملنے پر مار رہے ہیں۔ عبداللہ انہیں کیسے سمجھاتا کہ اسے سوال ہی سمجھ نہیں آرہا! پھر اس کے سر پر ایسی شدید چوٹ لگی کہ وہ بے ہوش ہی ہوگیا۔
ہوش میں آیا تو ایک اندھیرے سے کمرے میں تھا۔ سامنے ابلے ہوئے چاول، دہی اور پانی کا ایک جگ رکھا تھا۔ گرمی حد درجے کی تھی اور کمرے میں بجلی کا کوئی انتظام نہیں تھا۔ ایک بڑے میاں البتہ کونے میں بیٹھے چاول کھا رہے تھے۔ عبداللہ کو اتنی بھوک لگ رہی تھی کہ وہ کچھ سوچے سمجھے بغیر بس کھانے لگا۔ سب کھا کر بھی اس کا پیٹ نہیں بھرا تھا، اس نے سوچا مجھے کچھ اہم سمجھا جارہا ہے، مجھ سے سوال کیے جارہے ہیں، پھر چھوڑ دیں گے۔ دو مہینے گزر گئے، اُس کے پاس پھر کوئی نہیں آیا، اور وہ قید ہی رہا۔
اس کے ساتھ کمرے میں جو بڑے میاں تھے، وہ عربی ہی بولتے تھے۔ وہ کوئی سائنس دان تھے اور انہیں شام کے لیے کیمیائی ہتھیار بنانے کے جرم میں گرفتار کیا گیا تھا۔ وہ آٹھ مہینے سے قید تھے اور اب بہت کمزور ہوچکے تھے۔ دن میں صرف ایک بار کھانا دیا جاتا تھا اور ایک جگ پانی۔ کھانے اور پانی کی شدید کمی نے عبداللہ اور پروفیسر عبدالغنی کو ناتواں کردیا تھا۔
’’سر! یہ اللہ میاں کیا کررہا ہے آج کل؟ کافر ہی کامیاب ہیں صرف‘‘۔ عبداللہ نے پوچھا۔
پروفیسر نے ٹھنڈی آہ بھری ’’پتا نہیں کیا کررہا ہے اللہ میاں، سارے کام آج کل شیطان ہی کررہا ہے، اسی کی حکومت ہے، شیطانی لوگ ہی خوش ہیں، مگر ایک وقت آئے گا کہ شیطان کا راج ختم ہوگا، پھر ہم حکومت کریں گے اور شیطانی کارکن روئیں گے۔‘‘ انہوں نے جواب دیا۔
’’پروفیسر میں چاہتا ہوں کہ اس دنیا میں وہ شخص نہ رہے، جو ساری منصوبہ بندی کررہا ہے، جو دنیا کے تمام فیصلے کرتا ہے، سب اس کی مرضی سے ہوتا ہے‘‘۔ عبداللہ نے سوچتے ہوئے کہا۔
’’ایسا بھلا کون شخص ہوگا! ہم سب ہر کام اپنی مرضی سے کرتے ہیں‘‘۔ پروفیسر بولے۔
’’نہیں سر! بیت المقدس میں امریکی سفارت خانہ بنانے کی بات ہالی ووڈ فلموں میں کئی بار کی گئی اور پھر ایسا ہوگیا، Cartoons Simpsons میں آج سے 15 سال پہلے ٹرمپ کو شکل اور نام کے ساتھ امریکا کا صدر دکھایا گیا تھا اور 15 سال بعد وہی امریکا کا صدر بن جاتا ہے، یہ سب اتفاق نہیں، منصوبہ بندی ہے‘‘۔ عبداللہ نے جواب دیا۔
’’ہاں اکثر ہالی ووڈ کی فلموں میں جو دکھایا جاتا ہے اور انگریزی ناولوں میں جو لکھا جاتا ہے، وہ حرف بحرف چند سال بعد حقیقی زندگی میں پورا ہوجاتا ہے‘‘۔ پروفیسر نے تصدیق کی۔
’’تو پھر یہ سب اتفاقی تو نہیں ہے، بلکہ باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت ہورہا ہے، اور وہ فلموں اور ناولوں کے ذریعے اپنی منصوبہ بندی سے آگاہ بھی کردیتے ہیں، مگر ہم کو پھر بھی ہوش نہیں آتا‘‘۔ عبداللہ انتہائی جذباتی آواز میں بولا۔
’’لیکن یہ کون ہے جس کے منصوبے اس قدر جان دار اور کامیاب ہیں؟ اور وہ اتنا نڈر ہے کہ اپنے ارادے فلموں کے ذریعے ظاہر کرتا ہے، پھر کارروائی کرتا ہے‘‘۔ پروفیسر سوچ میں پڑ گئے۔
’’سب جنگیں بھی انہوں نے پہلے ہی سے سوچی ہوئی ہیں، جیسے ان کے دجال کی آمد سے پہلے گریٹر اسرائیل کا قیام ضروری ہے تو انہوں نے کچھ ڈھکا چھپا نہیں رکھا، گریٹر اسرائیل کے نہ صرف نقشے شائع کیے بلکہ ان علاقوں کی فتوحات کے لیے کھلم کھلا اقدامات بھی کیے۔ وہ جو کوئی بھی ہے، ایک ہے اور یہودی ہے‘‘۔ عبداللہ نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
’’مگر اسے پہلے سے ہر بات کا اندازہ کیسے ہوجاتا ہے؟ اور کوئی حادثہ یا کوئی انہونی اس کے منصوبوں پر کوئی اثر نہیں ڈالتی! جو وہ چاہتا ہے وہی ہوتا چلا جاتا ہے۔ جس ملک میں جس کی حکومت چاہتا ہے وہی آتی ہے، اور سارے کام اُس سمت میں چلتے ہیں جس میں یہودیوں کی سراسر بھلائی اور مسلمانوں کی تباہی ہو‘‘۔ پروفیسر بولے۔
’’اصل میں وہ ایک بہت زیرک شخص ہے، اس کے پاس شیطانی قوت ہے‘‘۔ عبداللہ نے کہا۔
’’شیطانی قوت سے تمہاری کیا مراد ہے؟’’ پروفیسر نے حیرانی سے پوچھا۔
’’سر! جب روم کی فتح ہونے والی تھی تو اللہ نے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بتا دیا تھا۔ غیب کی ہر خبر تو نہیں، مگر جو کچھ اللہ ضروری سمجھتا وہ غیب کی خبریں نہ صرف پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بلکہ برگزیدہ صحابہؓ کو بھی بتادیتا تھا، اور وقتاً فوقتاً غیبی امداد کا سلسلہ بھی جاری رہتا تھا، اور ان چیزوں سے مومنوں کی دھاک دشمنوں پر قائم تھی‘‘۔ عبداللہ نے کہا۔
’’ہاں یہ تو صالحین کی بات ہوگئی، تم تو شیطانی قوت کا ذکر کررہے تھے‘‘۔ پروفیسر بولے۔
’’سر! جیسے انتہائی نیک بندوں کے ساتھ اللہ دیتا ہے، اسی طرح انتہائی خبیث لوگوں کا ساتھ شیطان دیتا ہے، یہ برابر مقابلے کی جنگ ہے۔ شیطان کے ماننے والے شیطان سے اس قدر نزدیکی تعلق رکھتے ہیں کہ شیطان ان کی ہر طرح سے رہنمائی اور مدد کرتا ہے، اور وہ پہلے سے موجود معلومات اور شیطانی علوم کے ذریعے انتہائی کامیاب منصوبہ بندی کرتے ہیں۔ غم یہ ہے کہ کوئی مسلمان اس قدر نیک نہیں ہے کہ اللہ سے اسی ٹکر کی رہنمائی اور مدد حاصل کرے اور یہودیوں کے مقابلے کی منصوبہ بندی، رہنمائی اور قیادت کرسکے۔ شاید حضرت مہدی یا حضرت عیسیٰؑ یہ خلا پُر کرسکیں‘‘۔ عبداللہ نے جواب دیا۔
’’شیطان اللہ سے زیادہ کامیابی سے اپنے پیروکاروں کی مدد کیسے کرسکتا ہے؟‘‘ پروفیسر نے پوچھا۔
’’اس میں اللہ کی کمزوری نہیں ہے، اللہ کے ماننے والوں کی کمزوری ہے۔ انہوں نے اللہ سے اتنا مضبوط تعلق رکھا ہی نہیں کہ ان کی ویسے مدد کی جائے جیسے بدر کے313 مومنین کی کی گئی۔ جس دن ہماری روحیں ویسی پاک ہوئیں یقین کیجیے فرشتے بھی اتریں گے، سلطنتیں بھی فتح ہوں گی اور سب یہودی بھی بے گھر اور ذلیل ہوں گے‘‘۔ عبداللہ نے کہا۔
’’پھر یہ شیطانی شخص تو جلد ہی دجال کو لانے اور بڑی جنگ کرانے میں کامیاب ہوجائے گا، مسلمانوں کو تو صفحۂ ہستی سے مٹادیا جائے گا‘‘۔ پروفیسر نے کہا۔
’’ہاں تقریباً سب مسلمان ریاستیں ان کے مکمل کنٹرول میں ہیں، ایک بے چارے کشمیری اور فلسطینی مزاحمت کررہے ہیں، عرب تو قوموں میں بٹے ہوئے ہیں‘‘۔ عبداللہ نے کہا۔
’’پھر اس ایک شخص کو ڈھونڈ کر ٹھکانے لگا دینے میں کوئی حرج نہیں‘‘۔ پروفیسر نے کہا۔
’’یہ کوئی عام شخص نہیں ہے، آپ اس کی پالیسیوں کا تسلسل دیکھیے، آپ کو مدینے کی یہودی آبادی سے لے کر آج تک کے یہودیوں کی حکمت عملی میں ایک خاص ربط نظر آئے گا، کہیں بھی چودہ سو سالہ منصوبے میں جھول نہیں ہے، ان 14 سو سال میں انہوں نے انتہائی کامیابی سے دنیا پر مکمل کنٹرول حاصل کرلیا ہے، کہیں تاریخ میں ایک دو بار ان پر مصیبت بھی آئی تو یہ دوباہ مل کر اٹھ کھڑے ہوئے‘‘۔ عبداللہ نے تجزیہ کیا۔
’’یہ بات تو ہے، ان کے کاروبار چلتے رہتے ہیں، پورے امریکا کو انہوں نے کنٹرول کیا ہوا ہے۔ ان کی مرضی سے حکومتیں آتی اور جاتی ہیں اور ملکوں کی قسمتوں کے فیصلے ہوتے ہیں۔ ان کو عالمی برادری کہا جاتا ہے، یہ چاہیں تو سوڈان کو ٹکڑے ٹکڑے کردیں، اور نہ چاہیں تو کشمیری آزادی کو ترستے رہیں۔ یہ چاہیں تو افغانستان اور شام کو ملبے کا ڈھیر بنادیں، یہ نہ چاہیں تو میانمر کا ہاتھ نہ پکڑیں کہ روہنگیا مسلمانوں پر ظلم نہ کرو، دنیا کی 80 فیصد دولت انہی کے پاس ہے‘‘۔ پروفیسر نے بھی تائید کی۔
’’وہ شخص اپنا جانشین مقرر کرتا ہے، اس کی مکمل تربیت کرتا ہے، اور یہی وجہ ہے کہ یہودیوں کی پالیسیوں کا تسلسل نہیں ٹوٹتا۔ وہ اِس جمہوریت پر یقین نہیں رکھتا بلکہ یہودیوں کا پوشیدہ لیڈر بچپن سے ہی چنا جاتا ہے، اس کی ایسی تربیت ہوتی ہے کہ اس کا شیطان سے اس قدر گہرا تعلق ہو کہ وہ شیطان سے معلومات اور احکامات لے کر یہودی پالیسیوں کو جاری رکھ سکے۔ ایک طویل تربیت، مشقت اور علم کے بعد وہ یہودیوں کا پوشیدہ لیڈر بنتا ہے‘‘۔ عبداللہ نے جواب دیا۔
’’تم یہ سب کیسے جانتے ہو؟‘‘ پروفیسر نے مسکرا کر پوچھا۔
’’کیونکہ اگر اگلا پوشیدہ لیڈر غیر تربیت یافتہ ہو تو پالیسیوں کا تسلسل ٹوٹ جائے گا اور یہودیوں کے اندر پھوٹ نظر آئے گی۔ یہ دونوں کام نہیں ہورہے تو اس کا مطلب ہے کہ لیڈر تربیت یافتہ اور شیطانی قوتوں کا مالک ہے‘‘۔ عبداللہ نے کہا۔
’’یعنی کہ ایک پوشیدہ لیڈر، اپنا پورا علم اور صلاحیت منتقل کرکے اگلے پوشیدہ لیڈر کی تربیت کرتا ہے اور ریٹائر ہوجاتا ہے، پھر اگلا پوشیدہ لیڈر آگے انہی منصوبوں کو لے کر چلتا ہے اور ساتھ ساتھ اگلے پوشیدہ لیڈر کی تربیت بھی شروع کردیتا ہے‘‘۔ پروفیسر عبدالغنی نے خیال کا اظہار کیا۔
’’بالکل! یہ لیڈر سامنے نہیں آتا، یہ تمام یہودیوں کا مذہبی پیشوا ہے اور فرعونی علوم کا ماہر ہے، اس کے پاس کوئی دنیاوی عہدہ نہیں ہے، نہ یہ الیکشن لڑتا ہے، نہ اسے کوئی جانتا ہے، مگر بالواسطہ تمام دنیا پر اس کے منصوبے اور احکامات چل رہے ہیں، جو تسلسل یہودیوں کے منصوبوں میں نسل در نسل چلتا ہوا نظر آرہا ہے، وہ اسی وقت ممکن ہے کہ ایک بندہ ان تمام کو چلا رہا ہو۔ زیادہ لوگ ہوں گے تو کوئی تو اختلاف کرے گا، یہ میرا ذاتی تجزیہ ہے‘‘۔ عبداللہ نے بتایا۔
’’ان یہودیوں اور اس ایک شخص کا مقصد کیا ہے؟ مسلمانوں کا کیا قصور ہے؟‘‘ پروفیسر نے پوچھا۔
’’ان یہودیوں کو آج تک حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دشمنی ہے، کبھی کارٹون بناکر اپنے دل کی بھڑاس نکالتے ہیں، کبھی میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف کتابیں لکھتے ہیں، مگر ان کے دل کی آگ ٹھنڈی نہیں ہوتی، اب ان کو خطرہ ہے کہ وہ وقت آگیا ہے کہ میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی امت میں سے حضرت مہدی ظاہر ہونے والے ہیں، جو قیامت سے پہلے تمام دنیا پر اسلام کا مکمل نفاذ کریںگے اور حضرت عیسیٰؑ آکر یہودیوں اور دجال کا خاتمہ کریں گے، اور ان دونوں اللہ کے نمائندوں کا ساتھ امتِ محمدیہؐ کو دینا ہے۔ لہٰذا یہ امت کو اس قدر کمزور کردینا چاہتے ہیں کہ حضرت مہدی اور حضرت عیسیٰؑ کا ساتھ دینے والا کوئی نہ ہو‘‘۔ عبداللہ نے تفصیل بتائی۔
’’اللہ اپنے ولیوں کا ساتھ دیتا ہے، ایسی شیطانی چالوں سے کچھ نہیں ہوتا‘‘۔ پروفیسر نے کہا۔
’’درست فرمایا۔ ان کا دوسرا مقصد گریٹر اسرائیل کا قیام ہے، کیونکہ ان کا دجال آنے والا ہے، جسے یہ مسیح موعود (Promised Messiah) کہتے ہیں، ان کا عقیدہ ہے کہ اس کے آنے کے بعد یہودیوں کی تمام دنیا پر کھلے عام حکومت ہوگی جس میں غیر یہودی آبادی کی حیثیت جانوروں جیسی ہوگی، سارے حقوق اور اختیار صرف یہودیوں کے لیے ہوں گے۔ یہ دجال بھی آخری پوشیدہ لیڈر ہوگا، مگر یہ چھپ کر نہیں رہے گا، کھلے عام اپنی طاقت کا اظہار کرے گا اور کھلے عام یہودیوں کی حکومت قائم کرے گا۔ آج کل کی طرح یہودی پیچھے بیٹھ کر ڈوری نہیں ہلائیں گے بلکہ براہِ راست پوری دنیا پر حکومت کریں گے، دجال کا شیطان سے براہِ راست رابطہ ہے‘‘۔ عبداللہ نے معلومات دیں۔
پروفیسر نے سر ہلایا ’’بیٹا! اصل جنگ تو اللہ اور شیطان کے درمیان ہے، امتِ محمدیہؐ اللہ کی سپاہی ہے اور یہودی قوم شیطان کی سپاہی ہے، اور ان دونوں کے درمیان ایک آخری جنگ ہونی ہی ہے جسے Armageddon کہا جاتا ہے اور آخری فتح ہر صورت اللہ کی ہی ہونی ہے‘‘۔ وہ مسکرائے۔
’’سر! پہلے صرف یہودی ہی ان دجالی علوم کے تحت دنیا کو برباد کررہے تھے، مگر اب نئی نئی اصطلاحیں آگئی ہیں، Knights, neocons, zionists وغیرہ، اور کئی غیر یہودی افراد بھی اس Evil Nescus میں شامل ہیں یا دولت کی لالچ میں ان کے ساتھ کام کررہے ہیں‘‘۔ عبداللہ بولا۔
پروفیسر چپ بیٹھے رہے، پھر سر اٹھایا ’’حضرت مہدی اور حضرت عیسیٰ کب آئیں گے؟‘‘ انہوں نے پوچھا۔
’’جلد، بہت جلد! اللہ انہیں تیار کررہا ہے۔ اللہ، اللہ ہے اور سارے مظالم دیکھ رہا ہے، اسے ہر ناانصافی اور کفر کا معلوم ہے، جلد ہی اللہ کا کام نظر آنے لگے گا‘‘۔ عبداللہ نے کہا۔
اس کی آنکھوں میں امید کے بہت سے دیے تھے، مگر پروفیسر کی آنکھوں میں مایوسی تھی۔
’’آپ فکر نہ کریں پروفیسر صاحب! شیطان مخلوق ہے اور اللہ خالق۔ شیطان کی فتح وقتی ہے، آخری فتح اللہ تبارک وتعالیٰ کی ہی ہوگی۔ دجال ہارے گا اور میرے نبیؐ کا دین روزِِ قیامت سے پہلے ضرور نافذ ہوگا‘‘۔ عبداللہ نے کہا

حصہ