اُم محمد عبداللہ
جارج کا دفتر شہر کے مضافات میں واقع ایک خوبصورت عمارت کے دفتر میں تھا۔ چاروں جانب لگے بڑے بڑے شیشوں سے باہر کا خوش نما منظر بہت صاف نظر آتا تھا۔ سال بھر کام کے دوران بدلتے موسم کھڑکی سے دیکھنا اس کا پسندیدہ مشغلہ تھا۔ خاص طور پر جب خزاں کا موسم شروع ہوتا تو تمام درخت بڑی تیزی سے زرد پتوں کی چادر اوڑھ لیتے، یہ منظر بہت دل نشیں ہوتا۔ مگر جلد ہی یہ پتے سوکھ کر درختوں سے جھڑ جاتے، بادل گہرے ہو جاتے، روشنی غائب ہو جاتی اور سرد ہوائیں چلنا شروع ہو جاتیں۔ پرمژدگی اور افسردگی کا ماحول بن جاتا۔ اس ماحول میں دہری کمر والی پچھتر سالہ بڑھیا ایک چھوٹے سے کتے کو ٹہلاتی ہوئی گزرتی تو ماحول سے نظریں ہٹا کر وہ ایک گہری نگاہ اس بڑھیا پر ڈالتا۔ برسوں پہلے کا منظر اس کی نگاہوں میں گھوم جاتا۔
جب یہ بڑھیا ایک جوان اور پُرکشش عورت تھی۔ اسی عمارت کے اسی آفس میں ایک پیسہ بنانے والی مشین کی مانند سارا دن مصروف رہنے والی یہ عورت جب نگاہ اٹھا کر کھڑکی سے باہر دیکھتی تو ہاں عین اسی جگہ جہاں وہ آج خود کھڑی تھی، جارج کھڑا ہوتا۔ چھوٹے سے کتے کی رسی ایک ہاتھ میں پکڑے وہ ماں کی فطری محبت سے تہی دامن تھا اور ماں اپنی فطری ممتا دبائے پیسے کی محبت میں بے کل تھی۔کچھ روز پہلے کی بات ہوتی تو جارج بڑھیا ماں پر ایک گہری نگاہ ڈال کر ہٹا چکا ہوتا مگر اب نگاہ ہی نہیں زوایۂ نگاہ تبدیل ہو چکا تھا۔ وہ ٹکٹکی باندھے بڑھیا کے ناتواں وجود کو سڑک پر گھسٹتا دیکھ رہا تھا۔ ایک آنسو آنکھ سے بہہ نکلا تھا۔ ہاں چند روز پہلے جب اسلامک سینٹر جا کر ایک مسلم اسکالر کے سامنے اس نے اسلام قبول کیا تھا تو ان اسکالر نے اس کو بتایا تھا۔
’’بیٹے! حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات ہمیں بتاتی ہیں کہ اللہ رب العالمین کے بعد ہم پر سب سے بڑھ کر حق ہماری ماں کا ہے‘‘۔ سامنے میز پر حدیث کی کتاب کھلی پڑی تھی، جارج پڑھ رہا تھا۔ حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنھما فرماتی ہیں کہ ’’جس زمانے میں قریش اور مسلمانوں میں معاہدہ تھا، میری مشرک ماں میرے پاس آئی۔ میں نے حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے دریافت کیا کہ میری ماں آئی ہے اور وہ اسلام سے رغبت نہیں رکھتی۔ کیا میں اس سے حُسن سلوک کر سکتی ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں، اس سے حسن سلوک کرو‘‘۔ (متفق علیہ)
دل کی دنیا زیر و زبر ہو رہی تھی۔ وہ دفتر کی سیڑھیاں پھلانگتا نیچے اتر آیا تھا۔ ’’مام! اس کے اپنے ہی کانوں کو یہ آواز بڑی نامانوس لگی تھی۔ اجنبی آواز پر بڑھیا کیا لبیک کہتی وہ تو حسرت و یاس کی تصویر بنی اولڈ ہاؤس کی جانب گھسٹ رہی تھی۔ جارج کو لمحہ بھر کے لیے بڑھیا سے کراہت سی محسوس ہوئی۔ اسی لمحے سرد ہوا کا اک جھونکا اس کے کانوں میں سرگوشی کر گیا۔ ’’جنت ماں کے قدموں تلے ہے۔‘‘ وہ تیزی سے آگے بڑھا۔ مام آپ اولڈ ہاوس نہیں میرے ساتھ میرے گھر چلیں گی۔ بڑھیا پر تو خوشی اور حیرتوں کے پہاڑ گر چکے تھے۔‘‘ جارج دن رات اس کی خدمت میں مصروف تھا۔ کبھی پائوں دباتا تو کبھی سر‘ کبھی دوا دیتا تو کبھی اپنے ہاتھ سے کھانا کھلاتا‘ کبھی اپنے ساتھ گھمانے لے جاتا۔ بیٹے کے دین کے قبول کرنے کا اعجاز تھا کہ اولڈ ہاؤس میں سسکتی بڑھیا قیمتی اثاثہ بن چکی تھی۔ وہ حیران ہو کر پوچھتی کس نے تمہارے دل میں میری محبت ڈالی، کس نے تمہیں میری قدرومنزلت سے آگاہ کیا؟ کس نے سمجھایا کہ میرا مقام اولڈ ہاؤس کا نہیں تمہارے ادب و احترام کا حقدار ہے۔ وہ مسکرا دیتا۔
’’مام! ہے اک رہنمائے کامل، جس کی پیروی انسان کو شرف انسانیت بخشتی ہے‘ جو حقوق دینے میں، فرائض بجا لانے میں تعصب پسند نہیں۔ جو فرماتا ہے ماں مشرک بھی ہو تو لائق صد احترام ہے مگر ظلم ہے مام دنیا کے سب سے بڑے غیر متعصب رہنما کو ہمارا معاشرہ تعصب کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ اس پر کیچڑ اچھالنے کی کوشش کرتا اور اس کے پیروکاروں کے دل دکھاتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ ہماری تہذیب ریت کے زروں کی مانند ہے یہ جتنا بھی اونچا اڑ لے، رہے گی بے قیمت جبکہ رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم کا وضع کردہ تمدن وہ نایاب ہیرا ہے جو سدا اپنی چمک دمک دکھاتا رہے گا۔ اسی تمدن نے مجھے تمہارا ادب و احترام اور محبت دی مام۔ وہ سن رہی تھی سکتے کے عالم میں۔ کیا میرے پاس اس دین کو قبول کر لینے کی کوئی گنجائش باقی ہے؟ آخری لمحوں پر آئے اس کے لرزتے کانپتے وجود نے خوش بخت بیٹے سے سوال کیا۔ ہاں مام ہے زندگی کی آخری سانس تک گنجائش باقی ہے۔ وہ کلمہ توحید پڑھ رہی تھی، زندگی میں پہلی اور آخری بار۔ وہ ظلمتوں سے روشنیوں کا سفر طے کر چکی تھی۔‘‘
’’مام! تمہاری طرح ہماری قوم کا ہر غیر متعصب فرد تاریکیوں سے روشنیوں کی جانب سفر کرے گا۔ اندھیروں سے اجالوں کا سفر، جہالت سے آگہی کا سفر۔ ہماری دلیل اور منطق سے ہار جانے والی قوم اب ام جمیل اور ابو جہل کی سی گھٹیا ذہنیت لے کر میدان میں اتری ہے۔ وہ آوازیں کستے تھے یہ ناپاک مقابلے کرتے ہیں۔ حاصل ان کو بھی کچھ نہ ہوا لاحاصل ان کی بھی سب کاوشیں ہوںگی۔ ہاں اتنا ضرور ہوا وہ اپنی قوم میں سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ جیسے گوہر نایاب دامن مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم میں ڈال گئے۔ ہاں اب بھی تمہاری ان گھٹیا حرکتوں کے نتیجے میں کچھ قیمتی موتی چھن کر دین مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی کر لیں گے۔ ان شاء اللہ ضرور۔