یکساں نظامِ تعلیم

958

ابن نیاز
آج کی ایک خبر کے مطابق حکومت نے مدارس اور اسکولوں میں یکساں نصابِ تعلیم کی منظوری دی ہے۔ خوش آئند بات ہے لیکن اگر اس کی تفصیل بھی اخبارات میں دی جاتی تو عوام کے لیے جن کی رسائی متعلقہ کاغذات تک مشکل بلکہ ناممکن ہوتی ہے ، آسانی ہو جاتی۔ وہ بھی تجزیہ کر سکتے کہ واقعی مناسب نظام وضع کیا گیا ہے یا صرف مدارس کو جدید کرنے کی خاطر ان کا نصاب اسکولوں کے برابر کیا گیا ہے۔ خیر جو بھی ہوا، چند دن میں سب کچھ واضح ہو جائے گا ۔ اسی یکساں نظامِ تعلیم کو سامنے رکھتے ہوئے چند باتیں عرض کرنا چاہوں گا۔
سب سے پہلے تو یہ کہ پورے ملک میں نظام تعلیم ایک جیسا نافذ کیا جانا چاہیے۔ اس کے لیے ملک کے بہترین ادیبوں کی خدمات حاصل کی جائیں، خاص طور پر وہ ادیب، جن کا تعلق کسی نہ کسی حد تک تعلیم کے شعبے سے بھی ہو۔ اور وہ بچوں، بڑوں کی نفسیات سے واقف ہوں، ساتھ میں اسلامی تاریخ کا بھی وسیع علم ہو ، اور پاکستان کی تاریخ و تحریک سے بھی کما حقہ واقفیت ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ کچھ پاکستان سے مخلص شعرأ کی خدمات بھی حاصل کی جائیں خوبصورت اور جدید شاعری ہمارے نصابِ تعلیم کے لیے ہدیہ کریں۔وہ شاعری جو ہمارے جوانوں میں اقبال کے شعر کو واضح کریں۔

سبق پھر پڑھ صداقت کا، عدالت کا ، شجاعت
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا

تاریخ گواہ ہے کہ دنیا میں جتنی بھی تحریکیں چلیں، یا انقلابات آئے ان کا ہر اول دستہ طالب علم ہوتے تھے۔ وہ طالب علم جو اقبال کا شاہین تھے یا قائد کے پیرو کار اور ان سے بڑھ کر دین اسلام کے پیرو کار اور حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے جری سپاہی یا حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے عدل کے گواہ اور دل میں بسانے والے۔ دنیا کا ہر انقلاب ان طلبا کے عزمِ جواں، اور جذبہ قربانی کا کرشمہ ہے نہ صرف یہ بلکہ ان کا ولولہ تازہ اورگرم خون بڑے بڑے عالموں ، سیاست دانوں اور باعمل فلسفیوں کو بھی میدانِ عمل میں لے آیا۔ اور حرّیت و فکر کا ٹھاٹھیں مارتاسمندر یوں امڈ آیا کہ منزلِ مراد ،ان کے قدموں کو بوسہ دینے پر مجبور ہوگئی۔ چشم فلک گواہ ہے کہ تحریکِ پاکستان کا ہراوہ دستہ صداقت ، عدالت اور شجاعت کے لباس سے مزیّن طلباء ہی تھے۔ جنہوں نے اپنی قربانیاں پیش کرکے خود کو قوم کا راہنما ثابت کیا اور بتادیا کہ

ہمارا خون بھی شامل ہے تزئین گلستان میں
ہمیں بھی یاد کر لینا چمن میں جب بہار آئے

بات ہو رہی تھی نظامِ تعلیم کی تو لازم ہے کہ یہ نصاب صرف سرکاری تعلیمی اداروں میں ہی نافذ نہ ہو بلکہ ساتھ میں جتنے پرائیویٹ تعلیمی ادارے ہیں ان کو بھی یہ نظامِ تعلیم دیا جائے۔ دونوں سسٹم میں بنیادی فرق تو تعلیم دینے کا طریقہ کار ہے۔ جس کی بنا پر پرائیویٹ تعلیمی ادارے صرف جیبیں اور اکائونٹ بھرنے کے کارخانے بن چکے ہیں۔کہیں ہزاروں میں ایک آدھ تعلیمی ادارہ چاہے اسکول ہو، کالج یا یونیورسٹی، تعلیم و تربیت کی طرف زیادہ توجہ دیتی ہے لیکن زیادہ تر صرف جیبیں بھر رہے ہیں کبھی ایک بہانے سے، کبھی دوسرے بہانے سے۔ جب سب اداروں میں تعلیم نصاب یکساں ہو گا، تو پھر والدین کے لیے بھی آسانی ہو جائے گی کہ وہ کسی بھی تعلیمی ادارے میں اپنے بچوں کو داخل کرا دیں۔ ان کے لیے یہ مسئلہ نہیں ہو گا کہ کون سا ادارہ بہتر ہے اور کون سا بہترین۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ وہ طریقہ تعلیم کو ضرور دیکھیں گے بجائے نصاب کے۔
اس طرح سرکاری اداروں پر بھی حکومت کی طرف سے جو دبائو ہوتا ہے کہ اس سال میں کم از کم اتنے بچے سکول میں داخل ہونے چاہیں، وہ دبائو بھی بہت حد تک کم ہو جائے گا۔پرائیویٹ تعلیمی ادارے یہ کر سکتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ ایک آدھ مضمون کا اضافہ کر دیں جو وہ اپنی مرضی سے پڑھا سکیں ساتھ میں غیر نصابی سرگرمیاں (جن میں والدین کی جیب پر ڈاکہ نہ ہو، بلکہ وہ طلبا میں مثبت رجحان پیدا کریں) بھی جاری رکھیں، تو شاید کوئی پرائیویٹ تعلیمی ادارہ اس بنیاد پر بند نہ کرنا پڑے البتہ یہ ضرور ہو گا کہ یکساں نصاب سے ٹیوشن سینٹرز کو تالے لگ سکتے ہیں کیوں کہ پھر سکول اور کالجوں میں ہی ہر مضمون کو توجہ سے پڑھایا جائے گا۔ صرف اس خوف سے کہ اگر یہاں اچھا نہ پڑھایا گیا تو بچہ سکول چھوڑ کر کسی بھی دوسرے اسکول میں جا سکتا ہے۔
جس طرح خبر ہے کہ مدارس اور اسکولوں کا نصاب ایک جیسا کیا جائے گا، تو یہ ممکن نہیںکیوںکہ مدارس کا بنیادی مقصد دین کی تعلیم دینا ہے۔ ہاں یہ ضرور ممکن ہے کہ کچھ مضامین وہاں اضافی کر دیے جائیں جن میں کمپیوٹر، معاشیات، ریاضی، اور سائنسی مضامین کا تعارف شامل ہواور ان کے لیے بھی ایک لیول مقرر کیا جائے کہ اتنے سال پڑھیں گے تو ہشتم، یا دہم کے برابر ہو گا۔ اس طرح مدارس کے طلبأبھی جب چاہیں گے کسی بھی شعبے میں اعلیٰ تعلیم حاصل کر سکیں گے اور ان کے لیے کوٹہ نہیں بلکہ عمومی میرٹ میں ان کو شامل رکھا جائے۔تب ہی یکساں نظامِ تعلیم کا کچھ فائدہ ہو گا۔
پورے ملک میں یکساں نصاب کے نفاذ کے ساتھ ساتھ صوبوں کو یہ اختیار دیا جائے کہ وہ اپنی اپنی ثقافت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ایک آدھ مضمون ہر کلاس میں اضافی رکھیں جس کی وجہ سے طلبااپنے صوبہ کی ثقافت سے متعارف ہوں اور وہ دور نہ جائیں۔ساتھ ساتھ یہ بھی ہو کہ ایک مضمون زبان کے حوالے سے بھی ہو جس میں پاکستان کی ہر زبان کا تعارف ہو اور ایک ایک صفحہ اس زبان سے متعلق ہو، چاہے وہ نثر ہو یا شاعری، کچھ نہ کچھ ہو۔ اس سے ہر طالب علم اس زبان سے متعلق بنیادی باتیں سیکھ سکے گا پھر کم از کم لسانی عصبیت کا خاتمہ ہونا بہت حد تک ممکن ہے۔ کوئی کسی کوئی یہ نہیں کہہ سکے گا کہ وہ پٹھا ن ہے ، اور وہ پنجابی ہے ، وہ بلوچی۔ صوبائی عصبیت کو بھی روکا جا سکے گا۔
اس کے ساتھ ساتھ اگرطلبا کا ایک کوٹہ مقرر کیا جائے کہ وہ کسی بھی دوسرے صوبے کے کسی تعلیمی ادارے میں آسانی سے مائگریشن کرواکے داخلہ لے سکے تو بہت اچھا ہو گا۔ اسکولوں کو پابند کیا جائے کہ وہ طلبا کی ایک خاص تعداد اپنی ایک کلاس میں رکھیں گے۔ یہاں دیکھا گیا ہے کہ پرائیویٹ اسکولوں و کالجوں میں ایک ایک کلاس میں ساٹھ ستر اسی بچے بیٹھے ہوتے ہیں ۔ ٹیچر سب بچوں کو کتنی توجہ دے سکے گا؟ کچھ بچے شرارت کریں گے، تو ٹیچر کس کس کو روکے گا؟ اور بھی بہت سے مسائل ہوتے ہیں، جیسے ہوم ورک چیک کرنا، ڈسپلن برقرار رکھنا وغیرہ، جو کہ بچوں کی اتنی زیادہ تعداد میں ہونے کی وجہ سے آسان نہیں ہوتا۔ وقت کا ضیاع سب سے زیادہ ہوتا ہے۔حکومت نے ایک اچھا قدم اٹھایا ہے، امید ہے کہ اس پر دل سے اور لگن سے کام کیا جائے گا اور پاکستان کے بچوں اور جوانوں کو مستقبل کا اچھا معمار بنانے میں اہم کردار ادا کیا جائے گا۔

حصہ