امجد عزیز چغتائی
دس سال کی عمر میں بچے کو بار بار نماز کی طرف متوجہ کرنا چاہیے اور نماز میں سستی پر دس سال کے بعد ہی مارنا چاہیے۔ اگر بچے کی صحیح تربیت کرنا مقصود ہو تو پھر والدین کو چاہیے کہ وہ بچے کے لیے عملی نمونہ بنیں۔
اس مرحلے میں (دس سال کی عمر کے بعد) والدین اور ہر اُس شخص کے لیے جو اپنے بچوں کی تربیت چاہتا ہے، لازمی ہوجاتا ہے کہ وہ بچے کو وتر، سنن اور جماعت کے احکامات سکھائیں۔ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت انس بن مالکؓ کو صغیر سنی میں ہی نماز استخارہ کی تعلیم دی تھی۔ اسی طرح اس مرحلے میں بالخصوص فجر اور عشاء کی نمازوں کا اہتمام ضروری ہے۔ پھر یہ بھی خیال رہے کہ ہر طرح کے حالات میں بچوں کو فرائض پر ہمیشگی اختیار کرنے کا عادی بنانا چاہیے، نہ کہ صرف امتحانات اور مشکل اوقات میں۔
نماز کی ترغیب دلانے کے طریقے:
٭ ماں اور باپ دونوں کے لیے ضروری ہے کہ اپنے بچے کی حسِ نماز کو بیدار رکھیں۔ مگر کس طرح؟
(الف): جب آپ کا بچہ عشا سے قبل آپ سے سونے کی اجازت مانگے تو اسے پیار سے کہنا چاہیے کہ بیٹا عشا کی نماز میں تھوڑا ہی وقت رہ گیا ہے، ہم اکٹھے نماز پڑھیں، پھر آپ سو جایئے گا۔
(ب): جب وہ آپ سے کسی محفل یا رشتے داروں سے ملنے کے لیے جانے کا کہے اور نمازِ مغرب کا وقت قریب ہو تو پھر اسے سنانا چاہیے کہ ’’ہم پہلے نمازِ مغرب ادا کریں گے، پھر نکلیں گے۔‘‘
(ج): نمازکی حس بیدار رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ وہ آپ سے بار بار نماز کا ذکر سنے، مثال کے طور پر آپ کہہ سکتے ہیں کہ فلاں سے نمازِ عصر میں ملیں گے، یا یہ کہ فلاں نمازِ مغرب کے بعد ہم سے ملنے کے لیے آئیں گے۔
٭ اسلام ورزش اور کھیل کی ترغیب دلاتا ہے کہ اس سے بدن توانا اور مضبوط ہوتا ہے۔ مومن قوی اچھا اور اللہ کو زیادہ محبوب ہوتا ہے، جس طرح حدیث مبارکہ میں ہے ’’المومن لقوی خیر من المومن الضعیف‘‘ لیکن اس حوالے سے آپ اپنے بچے کو تلقین کریں کہ وہ کھیل میں اتنا مشغول نہ ہو کہ نماز کی ادائیگی سے رہ جائے کہ یہ ایک اہم فریضہ ہے۔
٭ اگر دس سال کی عمر کے بعد وہ بیمار ہوجائے تو پھر اسے حسبِ استطاعت نماز کی ادائیگی کی ترغیب دلایئے، یہاں تک کہ اسے معلوم ہوجائے کہ اس کے لیے ترکِ صلوٰۃ کا کوئی عذر نہیں ہے، اگرچہ وہ بیمار ہی کیوں نہ ہو۔
٭ جب کبھی آپ سفر پر جائیں تو اپنے بچے کو نمازِ قصر اور جمع بین الصلاتین کے بارے میں ضرور بتایئے۔ اسے رخصتِ نماز کی نعمتِ الٰہی کا احساس دلائیں اور یہ کہ اسلام رحمت بھرا دین ہے۔
٭فرائض کی تعلیم کے بعد تدریجاً اسے نوافل کی تعلیم دیجیے۔
٭ اپنے بچے کو اس بات پر ابھاریئے کہ وہ اپنے دوستوں کو نماز کی طرف بلائے۔ اس میں کوئی حرج نہیں کہ وہ اس کے لیے ٹیلی فون پر بات کرے کہ نماز کے وقت ہم مسجد میں ملیں گے۔ اسی طرح اس کو یہ بتایا جائے کہ نماز میں سستی کرنے والے دوستوں کا مذاق اڑانے کے بجائے انہیں نماز کی طرف بلانا چاہیے۔
٭ خواتین کوشش کریں کہ ہر جمعہ کو اس کے سنن کی ادائیگی کے لیے اپنے شوہر کے ساتھ کچھ دیر بیٹھیں جیسے سورۃ کہف کی تلاوت، استغفار کی کثرت اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنا۔ اس سے بچے اچھے ماحول میں پرورش پائیں گے اور پھر آپ کے ساتھ شریک بھی ہوجائیں گے۔
٭ نمازِ عیدین اور نمازِ استقساء وغیرہ میں کوشش کریں کہ بچے کو اپنے ساتھ لے جائیں۔ اسی طرح نمازِ حاجت، استخارہ اور سجدۂ شکر میں بھی اس کو اپنے ساتھ رکھیں۔ اس سے اُس کے دل میں نماز کی محبت راسخ ہوجائے گی۔
٭ بچوں میں نماز کی اہمیت و محبت اجاگر کرنے کے لیے والدین کو ہر ممکن وسائل زیر استعمال لانے چاہئیں، مثلاً:
(الف): بچوں کے لیے ایسی کتابیں خریدیں جن میں باتصویر وضو اور نماز کی کیفیت بیان کی گئی ہو۔
(ب): ایسی ویڈیو اور آڈیو کیسٹیں خریدیں جن میں وضو اور نماز کی تعلیم دی گئی ہو۔
(ج): جب بچہ کچھ ریاضی جان لے اور ضرب کا پہاڑا پڑھنے لگے تو اس سے نماز کے لیے فائدہ اٹھائیں، مثال کے طور پر اس سے سوال کریں کہ ایک آدمی دو رکعتیں پڑھے، پھر ظہر کی چار رکعتیں پڑھے تو اس نے کتنی رکعتیں ادا کیں؟
جب وہ ذرا بڑا ہوجائے تو اس طرح کی مثالیں دی جائیں کہ ایک آدمی کے گھر اور مسجد کے درمیان 500 میٹر کا فاصلہ ہے اور وہ ایک قدم میں 40 سینٹی میٹر کا فاصلہ طے کرتا ہے تو وہ مسجد کی طرف آنے جانے میں کتنے قدم اٹھائے گا؟ پھر اللہ تعالیٰ ہر قدم کے بدلے میں اسے دس نیکیاں عطا کرے گا تو اسے کتنی نیکیاں حاصل ہوئیں؟
جس طرح ہم بچوں کے مستقبل کے بارے میں منصوبہ بندی کرتے ہیں اسی طرح بچوں کو نماز اور دیگر ارکانِ اسلام کا پابند بنانے کے لیے مل کر بیٹھیں اور غور و فکر کریں اور ایک دوسرے کو اپنے نئے طریقوں اور ترکیبوں سے آگاہ کریں تاکہ ہمارے بچے ہمارے لیے واقعی صدقۂ جاریہ بن سکیں۔