صائمہ عاصم
’’میری بہن! اللہ کے دین کے لیے اجتماعیت کے ساتھ جو اور جیسے بھی کام کرسکتی ہو، کرو… ضرور کرو۔ اس کام کو چھوڑنا نہیں، ذرا بھی پیچھے نہ ہٹنا، منع نہ کرنا… اصل کام ہی یہی ہے۔‘‘
یہ الفاظ میری مربی، میری دوست عارفہ باجی نے کچھ عرصہ پہلے کینسر کی بیماری سے لڑتے لڑتے جس لب و لہجے میں ادا کیے وہ کیفیت تو آپ کے سامنے نہیں رکھ سکتی، لیکن اس لہجے میں دین کی خدمت کے لیے چھپا شوق، حسرت، تڑپ اور بے چینی مجھے اِس وقت بھی محسوس ہورہی ہے۔ پوری زندگی اللہ کے دین کے غلبے کے لیے اپنا وقت، مال، زندگی غرض سب کچھ پیش کردینے کے بعد جب ایک متحرک فرد بستر پر لیٹتا ہے تو اسے آرام سے راحت نہیں ملتی بلکہ تکلیف ہوتی ہے۔ اسے تو اس راہ میں سرعت اور سبقت کی عادت ہوچکی ہوتی ہے جس کا اختتام رب کی رضا اور اس کی جنت ہے… اور جس کا انعام رب کا سلام اور اس کا دیدار ہے۔
اسامہ بھائی اور عارفہ باجی کی زندگی کی ترجیحات میں ہمیشہ تحریک اور تحریکی کام پہلے نمبر پہ جگہ لیتے، باقی ہر چیز بعد میں ہوتی۔ عارفہ باجی کی بیماری کے دوران پورے گھرانے کی انفرادی عبادات نماز، نفلی روزے، انفاق، اذکار، رات کی عبادات میں ایک ساتھ اللہ کے حضور گڑگڑانا جس میں بچے اور اسامہ بھائی سب شامل ہوتے تھے، اس انتہا پر تھیں کہ بعض اوقات ان کی پوری پوری رات اسی میں گزر جاتی۔
بیماری کی نوعیت، اس کے لیے تینوں بچوں کی ذہنی تیاری، آگے کے مراحل ان کے سامنے بار بار رکھنا عارفہ باجی کا مستقل کام تھا، جو ناز اور پیار میں پلے حسن اور فاطمہ کے رویوں میں بہ خوبی دیکھنے میں آیا۔ انہوں نے اپنی اولاد کو عارضی اور دائمی جدائی کا مطلب سمجھایا۔
یوں تو تمام بہن بھائیوں میں ماشاء اللہ بے پناہ محبت ہے لیکن تحریک سے وابستگی اور ہم مزاج ہونے کی وجہ سے بڑی بہن رابعہ عالم اور میرے شوہر عاصم قمر سے شدید محبت اور انڈر اسٹینڈنگ تھی۔ ندیمہ باجی اور ان میں اوپر تلے کی بہنوں کی طرح چھیڑ چھاڑ ہمارے گھر میں ایک خوشگوار فضا بنائے رکھتی۔ آخری دنوں میں سب سے بڑی بہن طاہرہ باجی سے خود کلمہ پڑھانے کو کہا اور یہ اعزاز انہی کے حصے میں آیا۔ بہنو! جس رب کے وحدہٗ لاشریک ہونے کی گواہی انسان ساری زندگی اپنے عمل سے دے گا، وقتِ آخر اس کا رب اسے تنہا نہیں چھوڑے گا۔ عارفہ باجی کلمہ پڑھتے ہوئے رخصت ہوئیں۔
کینسر، اور وہ بھی ایسا کہ جس پر کیمو بھی اثر نہیں کرتی، جس نے آہستہ آہستہ جسم کا ایک ایک خلیہ کھا لیا۔
میں نے جب بھی ان سے ان کی طبیعت کے بارے میں پوچھا کہ ’’عارفہ باجی طبیعت کیسی ہے؟’’ ان کی زبان سے صرف دو حرفی لفظ ہی سنے…
’’شکر الحمدللہ…‘‘
اللہ گواہ ہے تکلیف کی شدت میں بھی ان کے منہ سے اس جملے کے سوا کبھی کوئی جملہ نہ سنا۔
اپنی تحریکی دوستوں میں ان کی جان اٹکی رہتی تھی، وہ بھی سب سے ملنا اور گلے لگ کر اپنی ہر بات ان سے کہنا چاہتی تھیں۔ لیکن شاید کم لوگوں کو معلوم ہوگا کہ ان کا جسم انفیکشن فوراً کیچ کرتا تھا، ہلکے سے نزلے کھانسی میں مبتلا افراد کا بھی ان کے پاس جانا ان کی بیماری کی شدت کئی گنا بڑھا دیتا تھا… ایک طرف عزیز ساتھی ملنے کے لیے تڑپتے رہے اور دوسری طرف وہ خود… یہ معاملہ صرف تحریکی نہیں بلکہ گھر اور خاندان والوں کے ساتھ بھی رہا۔ وہ کیا کرتی تھیں؟ آیئے ایک نئی بات ان کے متعلق بتائوں آپ کو… وہ روز دو رکعت نمازِ حاجت پڑھ کر اپنے ان تمام پیاروں کے لیے اللہ سے دعا مانگتی تھیں جو ان کی صحت کے لیے دعا کرتے تھے۔
عارفہ باجی کی جمعیت کی دوستوں سے مل کر وہ قابلِ رشک تعلق اور محبت مجھے ہمیشہ گہرائی تک محسوس ہوتی ہے۔ کیسا پیارا ساتھ،کیسا پیارا تعلق رحماء بینھم کی تفسیر… بے غرض رشتے بے پناہ محبت کے ساتھ… اور اس کے ساتھ ساتھ اپنے رفیقِ سفر کی تحریکی ذمے داریوں میں صابرانہ رفاقت کا پورا پورا حق ادا کیا۔ کیسے ہی حالات ہوں، طبیعت اچھی نہ ہو، اسامہ بھائی کی شورائیں ہوں، کراچی کے نائب امیر کی ذمے داریاں ہوں، عارفہ باجی نے ہمیشہ بے پناہ ساتھ دیا۔ اپنے شوہر سے محبت تو سب کرتے ہیں لیکن اللہ کے دین کے غلبے کے لیے اپنی اہم ضرورتوں پر اس کام کو ترجیح دینا اللہ کی پارٹی والے ہی کرتے ہیں، اور اس بات کی گواہی اسامہ بھائی نے عارفہ باجی کو رخصت کرتے ہوئے اللہ کو گواہ بناکر بار بار دی کہ اللہ میں اپنی بیوی سے راضی ہوا، تُو بھی اس سے راضی رہنا۔ جنت الفردوس میں جگہ دینا،آمین۔ اپنے ہاتھوں قبر میں اتارا اور یوں ایک خوبصورت باب اور تحریک اسلامی کا روشن ستارہ ایک پیاری شخصیت اپنی بے مثال زندگی گزار کر بہترین جگہ پہنچ گئی۔ اللہ ان سے راضی ہوگا اور وہ اللہ سے راضی برضا ہوں گی،ان شاء اللہ۔