غزالہ ارشد
آج ندا کے ساتھ میرا شام باہر گزارنے کا پروگرام تھا۔ خاصی دیر گاڑی میں اس کا انتظار کرتی رہی، بالآخر گاڑی بند کی اور اس کے کلینک میں داخل ہوگئی۔ ابھی مریضوں کا سلسلہ جاری تھا اور وہ بڑے انہماک سے ان سے نپٹ رہی تھی۔ میری جانب دیکھ کر مسکرائی اور اپنے پاس پڑی ہوئی کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ ندا ایک نفسیاتی فلاحی ادارے کے تحت بطور ڈاکٹر یہاں تعینات تھی۔ میں بھی دلچسپی سے آنے جانے والے مریضوں کی باتیں سننے لگی۔ ایک نوجوان لڑکا آکر بیٹھا۔ ’’ہاں بھئی اب تمہارے ساتھ کیا مسئلہ ہے؟‘‘ اندازِ گفتگو سے لگتا تھا کہ وہ اکثر آتا رہتا ہے۔
’’وہی پرانی بات ہے ڈاکٹر صاحبہ، میں کام کرتے کرتے گر جاتا ہوں۔‘‘
’’کیوں کیا ہوجاتا ہے…؟‘‘ ندا نے اس کا پرو فائل کھولتے ہوئے کہا۔
’’کچھ بھی نہیں، میں جب روٹی کھا لیتا ہوں تو گر جاتا ہوں، اب میں کبھی روٹی نہیں کھائوں گا۔‘‘
’’ارے بھئی ایسا نہ کرنا۔ روٹی کمانے کی خاطر ہی تو ہم سب نکلتے ہیں۔ یہ نہیں کھائیں گے تو کیسے زندہ رہیں گے…! چلو یہ دوائیں لکھ رہی ہوں وہ کھائو، پھر تم روٹی کھاکر کبھی نہیں گرو گے۔‘‘ ندا نے ہنستے ہوئے اس سے کہا۔
’’یہ دراصل مرگی (Epilesy) کا مریض ہے، ذہنی صحت بھی بری طرح متاثر ہوئی ہے، بس دوا کھالے تو کچھ وقت بہتر گزر جاتا ہے۔‘‘ ندا نے میری طرف متوجہ ہوتے ہوئے کہا۔
دوسری خاتون کمرے میں داخل ہوئی تو میں نے بغور اُس کا جائزہ لیا۔ غربت اور بے بسی تو حلیے سے نظر آرہی تھی مگر ذہنی طور پر چاق و چوبند تھی۔ ’’ہاں بھئی راحمہ! کیا حال ہے تمہارے بیٹے کا…؟‘‘ ندا نے اس کا پروفائل کمپیوٹر پر کھولنا شروع کیا۔
’’کیا بتائوں ڈاکٹر صاحبہ! وہ تو بے سدھ بستر پر پڑا رہتا ہے، اپنی جگہ سے ہل بھی نہیں سکتا۔ وہ تو اپنی ضرورت بھی نہیں بتا سکتا۔ کپڑوں میں ہی غلاظت کردیتا ہے، سارا دن کپڑوں کا ڈھیر لگ جاتا ہے۔ پیسے دے کر پانی خرید کر لاتی ہوں، پینے کے لیے ہی کافی نہیں ہوتا اب اس غلاظت دھونے کے لیے پانی کہاں سے لائوں! خود وہ ایک لقمہ بھی نہیں کھا سکتا۔ ہر چیز اسے خود کھلانی پڑتی ہے۔ رات بھر سوتا نہیں، سب کو پریشان رکھتا ہے۔‘‘
’’بی بی! اتنی مرتبہ بتایا ہے کہ تمہارا بچہ پیدائشی معذور ہے ، اسے ایدھی سینٹر والوں کے پاس چھوڑ آئو… وہ سنبھال لیں گے اور تمہاری بھی جان چھوٹ جائے گی۔‘‘
اس عورت نے ڈاکٹر صاحبہ کی بات سنی اَن سنی کردی اور دوبارہ بڑی امید سے ڈاکٹر کی طرف متوجہ ہوئی ’’ڈاکٹر صاحبہ! تم نے اتنی ڈاکٹری پڑھی ہے، کوئی تو ایسی دوا کے بارے میں پڑھا ہوگا جس سے میرا بچہ چلنا شروع کردے۔ کوئی تو گولی ایسی ہوگی جس سے اس کا دماغ چل پڑے، رات کو اس کو سکون کی نیند آنے لگے، وہ اپنی حاجتوں کے بارے میں بتانے لگے۔‘‘ اس نے بڑی امید سے ڈاکٹر کی طرف دیکھا۔
’’بی بی! تم میری باتوں پر غور کرو۔ اسے کسی ادارے میں جمع کرادو، وہ اس کا خیال رکھیں گے، اسے صاف ستھرا رکھیں گے۔ اسے بھی تکلیف نہیں ہوگی اور تم بھی آرام سے رہو گی۔‘‘ ڈاکٹر نے اپنی بات دہرائی۔
’’ڈاکٹر صاحبہ اتنا سا تھا میرا بچہ، پال پوس کر بڑا کیا، اب وہ بارہ سال کا ہوگیا ہے تو آپ کہتی ہیں کہ کسی ادارے کو دے دوں!‘‘ ماں نے آنکھوں میں آنسو بھرتے ہوئے کہا اور بغیر دوا لیے جانے کے لیے اٹھ کھڑی ہوئی۔ گویا اسے ڈاکٹر کا مشورہ سخت ناگوار گزرا تھا۔
وہ دروازے تک گئی اور پھر پلٹ کر واپس ڈاکٹر کے پاس لوٹ آئی ’’اچھا چلیں اگر چھوٹے بچے کے لیے کوئی دوا نہیں ہے تو بڑے بیٹے ہی کی دوا دے دیں۔‘‘
ڈاکٹر نے دوبارہ کمپیوٹر کھولا۔ عرفان کی ہسٹری پڑھی۔ ’’ہوں تو اب کیسی طبیعت ہے عرفان کی؟‘‘
’’بہت چیختا چلاّتا ہے، گھر والوں سے مار پیٹ کرتا ہے۔ اب تو وہ نشہ بھی کرنے لگا ہے۔ کوئی دوا دے دو کہ وہ ہیروئن کا نشہ کرنا چھوڑ دے… سب کے ساتھ پیار محبت سے رہنے لگے۔‘‘ ماں نے منت کے انداز میں کہا ’’جوان بچہ ہے، زبردستی روکا بھی نہیں جاتا۔‘‘ اس کے لہجے میں بے بسی تھی۔
’’نشے کا یہی علاج ہے کہ اسے نشے تک نہ جانے دو۔ باندھو اسے زنجیروں سے اور گھر میں رکھو۔‘‘ ڈاکٹر کے لہجے میں سختی تھی۔
’’وہ بہت بے چین ہوجاتا ہے ڈاکٹر صاحبہ۔ بہت شور مچاتا ہے، چھت پر چڑھ جاتا ہے، وہاں سے کودنے کی کوشش کرتا ہے۔‘‘ ماں نے بے بسی سے کہا۔
’’بی بی اُسے ایسے ادارے کو دے دو جو اس کو نشے کی لت سے نجات دلادے۔ وہ خود اسے سنبھالیں گے اور تمہاری جان آسان رہے گی۔‘‘
’’لو… ہر بار ایک ہی بات کہتی ہیں!‘‘ ماں غصے میں بپھر کر اپنی کرسی سے اٹھی۔ ’’دو ہی تو میرے بچے ہیں، وہ بھی کسی ادارے کو دے دوں…! رات کو اب بھی نہیں سوتی ہوں، تب بھی نہیں سو سکتی…‘‘ بھرائی ہوئی آواز سے اس نے ڈاکٹر کی تجویز کو رد کیا اور غصے سے اٹھ کر چل دی۔ دور تک میری نگاہیں اس کا تعاقب کرتی رہیں۔ ماں کا یہ روپ میں نے پہلی مرتبہ دیکھا تھا۔
طبِ نبویؐ
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’اللہ تعالیٰ نے کوئی بیماری ایسی نہیں اتاری جس کا علاج نہ اتارا ہو۔‘‘
مسنون علاج:
٭نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’بے شک تمام علاج جو تم کرتے ہو اُن میں بہترین علاج حجامہ ہے۔‘‘ (بخاری)
٭ دعائوں اور قرآن سے علاج، مثلاً سورۃ الفاتحہ اور بیماری کی مسنون دعائیں۔
٭ آپؐ احتیاطی تدابیر کے طور پر نصیحت فرماتے تھے کہ کم کھانا کھایا جائے، کہ پیٹ کا ایک حصہ کھانے کا، ایک حصہ پانی کا، اور ایک حصہ سانس کا۔
٭ حرام چیز سے علاج کرنے سے منع فرمایا۔
٭ آپؐ نے فرمایا ’’قرآن کریم اور شہد کے ذریعے شفا حاصل کرو۔‘‘
٭ مختلف مسنون غذائیں جن کی بہترین تاثیر ہے: کھجور، انجیر، تلبینہ (جوَ کا دلیہ)، شہد، دودھ، کلونجی، مہندی، زیتون کا تیل، جَو، لوکی، ثرید۔
بیمار کی عیادت کی سنتیں:
٭ کسی مریض کی عیادت کرتے تو یہ دعا کرتے لا باس طہور ان شاء اﷲ دایاں ہاتھ مریض پر پھیرکر یہ دعا کرتے اللّٰھم اذھِبِ البَاسَ رَبَّ النَاسِ و اَشفِ اَنتَ الشافِی لَا شِفَاء اَلّا شِفَائُک، شِفَائُک شِفائً لا یُغَاردِرُ سَقَمَا ۔
٭ بیمار کو زندگی اور صحت کے حوالے سے تسلی دینا۔
٭ بیمار کے سرہانے بیٹھنا۔
٭ بیمار کو اسلام کی دعوت دینا اگر وہ کافر ہو۔
٭ مریض کے پاس کم بیٹھنا اور جلدی اٹھنا۔
٭ مریض کے پاس شور شرابہ سے اجتناب۔
٭ اخلاصِ نیت سے عیادت کرنا۔
٭ بیمار کی خدمت اپنے ہاتھوں سے کرنا۔
٭ بیمار سے خوش گوار بات کرنا۔