ریان احمد
ماسٹراصغر علی اپنے اسکول کے اچھے اساتذہ میں شمار کیے جاتے تھے وہ اپنی کلاس کے بچوں پر خصوصی توجہ دیتے اوراسے اپنا فرض سمجھتے اور فرض ہی نہیں بلکہ بچوں کی تعلیم و تربیت کے کام کو عبادت سمجھ کر کرتے تھے ان کا اسکول سرکاری ہونے کے باوجود گرد و نواح کے پرائیوٹ اسکولز کے مقابلے میں بھی نمایاں مقام رکھتا اور اچھے نتائج دیتا ہے اس کا سہرا ہیڈ ماسٹر صاحب کے سر تھا جنہوں نے مثالی نظم و ضبط قائم کیا ہوا تھا تمام اساتذہ کو انہوں نے ان کی صلاحیت اور علمیت کے لحاظ سے ذمہ داریاں دی ہوئی تھی ماسٹر اصغر علی نویں جماعت کے کلاس ٹیچر تھے وہ اپنی کلاس کے بچوں کو تعلیمی سال کے آغاز سے ہی اس انداز میں تیاری کراتے اور پڑھنے میں ایسی رغبت دلاتے کہ بچے اچھے نمبر حاصل کرتے دسویں جماعت کو ہیڈ ماسٹر صاحب خود دیکھتے اس طرح میٹرک کے امتحانات میں اسکول کا رزلٹ اچھا رہتا اور دیگر اسکولز کے مقابلے میں بہتر اسکول قرار جاتا۔ ماسٹر اصغر علی کا بیٹا جب نویں جماعت میں پہنچا ابتدا میں تو اس نے تعلیم پر توجہ دی پھر اس کی طبیعت پڑھائی سے بے زار ہونے لگی وہ کھیل کود میں زیادہ دلچسپی لینے لگا ماسٹر صاحب اپنے بیٹے کی توجہ پڑھائی کی طرف دلاتے۔ پیار محبت کے ساتھ سختی کا رویہ بھی اختیار کیا لیکن امجد ٹس سے مس نہ ہوا اس نے اپنی روش نہ بدلی نویں جماعت کے ششماہی امتحانات ہوئے تو امجد کئی مضامین میں فیل تھا۔ جب رزلٹ ہیڈ ماسٹر کے سامنے آیا تو انہوں نے ماسٹراصغر علی اور امجد علی کو اپنے کمرے میں بلایا رزلٹ ان کے سامنے رکھتے ہوئے امجد سے مخاطب ہوئے میاں یہ کیا ہے امجد خاموش رہا اس کے چہرے سے شرمندگی نمایاں تھی ماسٹراصغر علی نے کہا کہ میں نے بارہا امجد کی توجہ پڑھائی کی طرف دلائی پیار محبت کے ساتھ سختی کا رویہ بھی اختیار کیا مگر امجد نے توجہ نہ دی اور آج رزلٹ سامنے ہے مجھے افسوس ہے کہ تمام تر توجہ کے باوجود امجد کو پڑھائی کی طرف مائل نہ ہو سکا۔ ہیڈ ماسٹر صاحب نے امجد کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کی آج کی ناکامی میں سراسر آپ کا قصور ہے آپ کے والد جو کلاس ٹیچر ہیں اور ایک بہترین استاد ہیں تمام طالب علم ان سے فیض حاصل کرتے ہیں مگر آپ اس سے محروم رہے اسی کو کہتے ہیں چراغ تلے اندھیرا۔ آپ کے والد کی وجہ سے ہر طرف روشنی پھیل رہی ہے۔ دیگر طلبہ فیض ہو رہے ہیں لیکن آپ محروم ہیں۔