راشد عزیز
۔18 ویں ایشین گیمز میں کانسی کے ساڑھے تین میڈلز جیت کر پاکستان 34 ویں پوزیشن حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ معاوضہ کی عدم ادائیگی پر ہڑتال کرنے والی ہماری قومی ہاکی ٹیم چوتھی پوزیشن لے کر اولمپکس مقابلوں سے آئوٹ ہوگئی اور اب اُسے دنیا کے اس سب سے بڑے میلے میں شرکت کے لیے پہلے کوالیفائی کرنا پڑے گا۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ اس ذلت آمیز اور شرم ناک صورتِ حال پر پاکستان اسپورٹس بورڈ، پاکستان اولمپکس کمیٹی اور پاکستان ہاکی فیڈریشن کے ذمے داروں کو نہ کوئی دکھ ہے اور نہ احساسِ ندامت… اور قابلِ مذمت بات یہ ہے کہ برسہا برس سے اداروں پر مسلط یہ ذمے داران ساری تباہی کا ذمے دار صرف اور صرف کھلاڑیوں کو قرار دے رہے ہیں اور خوف زدہ ہیں کہ نئی حکومت آنے کے بعد ان کے اللّے تللّے نہ ختم ہوجائیں۔
ایشین گیمز میں اپنے کھلاڑیوں کی کارکردگی دیکھنے کے بعد ہر محب وطن شخص دُکھی ہے اور سوچ رہا ہے کہ ہم بحیثیت قوم ابھی اور کتنا اور گریں گے! زندگی کے کسی اور شعبے میں تو ہم نے کچھ کرکے دکھایا نہیں، کچھ کھیل ایسے تھے جن کے حوالے سے دنیا میں ہماری کوئی شناخت تھی، لیکن کرپشن، خودغرضی اور ذاتی مفاد نے ہمیں ایسا جکڑا کہ اس شعبے میں بھی ہم آسمان سے زمین پر آگئے۔
اگر ایشین گیمز کے اختتام پرمیڈلز کی تعداد کا جائزہ لیں تو پتا چلتا ہے کہ کئی ایسے ممالک جن کی آبادی ہمارے کسی ایک شہر سے بھی کم ہے، وہ ہم سے کہیں آگے ہیں۔ ہمارے کھلاڑیوں نے کانسی کے ساڑھے تین تمغے جیتے ہیں جن میں کبڈی ٹیم کو ملنے والا آدھا تمغا بھی شامل ہے، جب کہ بحرین نے 12 گولڈ میڈل، قطر نے 6 گولڈ میڈل، متحدہ عرب امارات اور کویت نے 3،3 گولڈ میڈل جیتے۔ ہمارے سب سے بڑے حریف بھارت نے 15 گولڈ، 21 سلور اور 30 برانز میڈل جیت کر ہمارا منہ چڑایا۔ ہاکی کے کھیل میں جس میں ہم بارہا اولمپک، عالمی کپ، چیمپئنز ٹرافی اور ایشیا کپ وغیرہ کے چیمپئن رہ چکے ہیں، بڑی مشکل سے چوتھی پوزیشن حاصل کرسکے، اور اس طرح اولمپکس گیمز براہِ راست کھیلنے کا موقع بھی ہاتھ سے جاتا رہا، لیکن اس ساری تباہی پر نہ کوئی احتجاج ہوا نہ کسی کے خلاف کوئی کارروائی… کیونکہ بحیثیت قوم ہم اتنے بے حس ہوچکے ہیں کہ اب کسی بات پر کوئی دکھ نہیں ہوتا۔
ایک ایسے ملک میں جہاں آبادی کی اکثریت پینے کے صاف پانی سے محروم ہے، بچوں کو بنیادی تعلیم فراہم نہیں کی جاتی، لوگوں کو علاج معالجہ کی سہولتیں حاصل نہیں، اسی غریب قوم کے کروڑوں اربوں روپے برباد کرنے کے بعد ہمارے قومی ادارے اپنے ملک کے لیے کیا نام کما رہے ہیں، یہ ہر کھیل اور ہر ٹورنامنٹ میں شرکت کے بعد عیاں ہوجاتا ہے۔
انڈونیشیا کے شہر جکارتا میں ہونے والے ان ایشین گیمز میں بیرونی امداد سے چلنے والے اس غریب ملک کے 358 کھلاڑیوں اور آفیشلز پر مشتمل ایک بڑے دستے نے شرکت کی۔ یہ دستہ ایشین گیمز میں شرکت کرنے والا ملکی تاریخ کا سب سے بڑا دستہ تھا۔ ان میں من پسند آفیشلز اور پسندیدہ کھلاڑیوں کی تفریح اور سیر و سیاحت کے لیے قومی خزانے سے پاکستان اسپورٹس بورڈ کو کروڑوں روپے کی امداد دی گئی۔ کروڑوں کی ایسی رقوم کا نہ تو پہلے کبھی کوئی حساب لیا گیا ہے اور نہ آئندہ ممکن ہے، لیکن اتنے بڑے خرچے کے بعد اگر ہمارے قومی کھلاڑی دو، تین گولڈ میڈلز اور اتنی ہی تعداد میں سلور اور برانز میڈلز جیت کر لے آتے تو بھی شاید کچھ صبر آجاتا، مگر یہ بھی نہ ہوا۔
دنیا بھر میں مختلف کھیلوں کی سرپرستی اور نگراں ایسوسی ایشنز اور ادارے ملک میں کھیلوں کے فروغ، ملک کے کونے کونے سے باصلاحیت کھلاڑیوں کی تلاش، پھر ان کی تربیت اور کوچنگ کرکے ان کی صلاحیتوں کو نکھارنے، ملکی اور غیر ملکی سطح پر ٹورنامنٹس کے انعقاد اور ان میں اپنے کھلاڑیوں کی شرکت یقینی بنانے، کھلاڑیوں کی فلاح و بہبود اور ان کے مستقبل کو محفوظ بنانے کے لیے ہوتے ہیں، اور ان اداروں کے عہدیدار بڑی بڑی تنخواہیں اور مراعات وصول کرنے کے بجائے اعزازی طور پر اپنے ملک کے لیے خدمات انجام دیتے ہیں، لیکن ہمارے ملک میں یہ تمام ادارے اور تنظیمیں کھلاڑیوں کی گرومنگ اور فلاح و بہبود کے بجائے ان عہدیداروں کی لوٹ مار اور کرپشن کا ذریعہ ہوتی ہیں، جو ایک بار مسلط ہوجائیں تو پھر ان کی زندگی میں تو ان سے جان چھڑانی مشکل ہوجاتی ہے، وہ آخری دم تک لوٹ مار کرتے رہتے ہیں اور نہ خود کوئی کام کرتے ہیں نہ ہی کسی اور کو کرنے دیتے ہیں۔ ان کا تمام تر زور اس بات پر ہوتا ہے کہ پاکستانی کھلاڑی غیر ملکی مقابلوں میں زیادہ سے زیادہ حصہ لیں، اور ان کی کمائی کے زیادہ سے زیادہ مواقع پیدا ہوں۔
اگر جائزہ لیا جائے تو پاکستان شاید دنیا کا واحد ملک ہوگا جہاں وقت کے ساتھ ساتھ کھیل کے میدانوں، اسٹیڈیمز اور دیگر سہولتوں میں کمی، اور آرگنائزر کی مراعات اور عیش و عشرت میں اضافہ ہوتا گیا۔ پہلے جب کرکٹ بورڈ صفِ اوّل کے اسٹار کرکٹرز پیدا کررہا تھا کرکٹ بورڈ کے چیئرمین، سیکریٹری اور بورڈ کے ارکان اعزازی خدمات انجام دیتے تھے، اور ایک آفس سیکریٹری ہوا کرتا تھا۔ اب بورڈ کے نومنتخب چیئرمین احسان مانی نے انکشاف کیا ہے کہ کرکٹ بورڈ میں 900 سے زائد افراد ملازم ہیں اور ان میں ایک بڑی تعداد اُن لوگوں کی بھی ہے جو لاکھوں میں تنخواہیں وصول کررہے ہیں۔
کرکٹ تو خیر ایک ایسا کھیل ہے جس میں پاکستان کا نام اب بین الاقوامی سطح پر بہت نمایاں ہے، لیکن اگر کوئی جاکر اسلام آباد میں پاکستان اسپورٹس کمپلیکس کا جائزہ لے تو آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جائیں گی۔ یہاں کی صورتِ حال بھی وزیراعظم ہائوس، ایوانِ صدر اور گورنر ہائوسز جیسی ہی ہے۔ کھلاڑیوں کے لیے سہولتیں ہوں یا نہ ہوں، افسران کے لیے بڑے بڑے عالی شان بنگلے تعمیر کرلیے گئے ہیں، جن میں ہر ضروری آسائش کی فراہمی کا خیال بھی رکھا گیا ہے۔
دیگر کھیلوں کا تو کوئی والی وارث نہیں اور عوام کو بھی زیادہ دل چسپی نہیں، لیکن ہاکی میں بدترین شکست کے بعد کچھ آوازیں سننے میں آرہی ہیں، لیکن کہانی یہ ہے کہ کچھ لوگ منتظمین کی طرف انگلی اٹھا رہے ہیں اور کچھ لوگ کھلاڑیوں کو برا بھلا کہہ رہے ہیں۔ قومی ٹیم کے منیجر حسن سردار نے تو یہ بیان دے کر اپنی جان چھڑا لی کہ سیمی فائنل میں جاپان کے خلاف شکست کی وجہ بھارتی ایمپائر کے جانب دارانہ فیصلے تھے۔ ہاکی فیڈریشن نے شکست کی تمام تر ذمے داری کھلاڑیوں پر عائد کرتے ہوئے بیان دیا کہ اس خراب کھیل کا کوئی جواز نہ تھا، پاکستان کے پاس فائنل جیتنے کا سنہری موقع تھا جو اس نے گنوا دیا، کھلاڑیوں میں جیت کا جذبہ دکھائی نہیں دیا۔ انہوں نے یہ بیان نہیں کیا کہ یہ جذبہ پیدا کرنا کس کی ذمے داری تھی؟ اور سب سے دل چسپ بات یہ ہوئی کہ کراچی پریس کلب میں پاکستان ہاکی فیڈریشن کے کچھ ہمدرد اور ہم خیال سابق ہاکی کھلاڑیوں نے نہ جانے کس کے کہنے پر ایک پریس کانفرنس کر ڈالی جس میں کہا گیا کہ اس تباہی کی تمام تر ذمے داری کھلاڑیوں پر عائد ہوتی ہے، ہاکی فیڈریشن کے ذمے دار تو بے چارے بالکل بے قصور ہیں، انہیں کچھ نہیںکہنا چاہیے۔ اس پریس کانفرنس میں، جس کے روح رواں اولمپئن ناصر علی تھے، دیگر کھلاڑیوں قمر ابراہیم، کامران اشرف، سمیر حسین، نعیم احمد، مبشر مختار، طارق میر، ملک خرم نے قومی ٹیم کے کھلاڑیوں کے احتساب کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ میدان میں کھلاڑی جاتے ہیں حکام نہیں، فیڈریشن پر تنقید بے جا ہے، کھلاڑیوں کا احتساب ہونا چاہیے ۔ اس پریس کانفرنس کا مقصد کیا تھا اس کا صرف اندازہ ہی لگایا جاسکتا ہے، لیکن اگر انہوں نے موجودہ فیڈریشن سے امیدیں وابستہ کی ہوئی ہیں تو یہ نقصان کا سودا ہوسکتا ہے، کیونکہ بہت ممکن ہے کہ نئی حکومت اس فیڈریشن ہی کو تبدیل کردے۔