ایک قاری نے سوال کیا کہ سماجی میڈیا پر آپ پاکستانی سیاست سے متعلق ایشوز کو ہی کیوں موضوع بناتے ہیں؟ میں نے سمجھایا کہ میرا موضوع تو صرف سماجی میڈیا پر زیادہ زیر بحث (وائرل، ٹرینڈ) رہنے والے ایشوز ہوتے ہیں، اب عوام اگر سیاسی موضوعات میں دلچسپی لیتے ہیں یا سیاسی جماعتوں کے ونگ اس حد تک قابض ہیں کہ وہ اپنی موجودگی برقرار رکھنے کی تگ و دو اس انداز سے کرتے ہیں کہ وہی موضوع بنے رہتے ہیں تو بھلا میں کیسے اُن کی مقبولیت کو نظرانداز کرسکتا ہوں! رپورٹر کا تو کام ہی رپورٹ کرنا ہے۔ خیر، اُن کا کہنا یہ تھا کہ دیگر موضوعات پر بھی مواد کی معلومات ڈالی جائے۔ لیکن آپ ہی بتائیں کہ اس ہفتے سماجی میڈیا کا سب سے مقبول موضوع ’’55 روپے فی کلومیٹر‘‘ تھا تو اسے کیسے پس ِ پشت ڈالا جائے! ایشین گیمز 2018ء میں پاکستانی ہاکی ٹیم کی سیمی فائنل میں جاپان سے شکست پر احساس ہی نہیں ہوا، بلکہ سیمی فائنل تک پہنچنا بھی یاد نہیں رہا تو میں کیا کہہ سکتا ہوں! یہ بھی سماجی میڈیا کا کمال ہے کہ وزیراعظم کا چند کلومیٹر کا سفر زیادہ زیر بحث ہے، دوسری جانب قوم کے اربوں روپے پھونکنے کے بعد چارسو کھلاڑیوں کا لاؤ لشکر لے کر اولمپکس کے بعد دنیا کے سب سے بڑے کھیلوںکے مقابلے ایشین گیمز 2018ء میں بدترین کارکردگی پر سب خاموش ہیں۔ کون پوچھے گا کہ اتنے بڑے ایونٹ میں چار سو کھلاڑی لے جاکر صرف تین تمغوںکے ساتھ شرمناک واپسی کا ذمے دار کون ہے؟ قومی کھیل ہاکی کے مقابلوں میں جاپان سے سیمی فائنل میں ایک صفر سے شکست کے بعد بھی سماجی میڈیا پر ہمیں 55 روپے فی کلومیٹر چلنے والا ہیلی کاپٹر ہی زیادہ شور مچاتا نظر آیا۔
اصل میں بات یہ بھی ہے کہ بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی! اقتدار کے مزے لوٹنا اب اتنا بھی آسان نہیں رہا۔ شاید خوش قسمت تھیں ماضی کی وہ حکومتیں جنہیں تھری جی، فور جی، اسمارٹ فون، سماجی میڈیا کا دور نصیب نہیںہوا۔ الیکشن سے قبل تک تو یہ منظرنامہ تھا کہ تحریک انصاف مسلم لیگ (ن) کے پیچھے ہاتھ دھوکر پڑی ہوئی تھی، دیگر جماعتوں کا اس کارِ خیر میں حصہ قابلِ ذکر نہیں تھا۔ الیکشن کے بعد بننے والی نئی حکومت کو اب اپنا دفاع کرنا ہے، جبکہ مقابلے پر ساری جماعتیں ہی کھڑی نظر آرہی ہیں۔ پھر جانے انجانے میں یہ بھی جان لیں کہ تیز ترین میڈیا کے دور میں منہ سے نکلے الفاظ کے اب ہوا میں تحلیل ہوجانے کا دور بھی گزر گیا ہے۔ اب سب ریکارڈ ہوجاتا ہے، لائیو نشر ہوجاتا ہے۔ بڑے کیمروں سے لے کر موبائل کیمروں تک آپ ہر جانب سے گھرے ہوئے ہیں۔ کوئی چینل یا اخبار سنسر بھی کرے تو ہم نے دیکھا ہے کہ سماجی میڈیا اُسے نشر کرنے پر مجبور کردیتا ہے۔
نئی حکومت کی تشکیل کے ساتھ پہلے ہی ہفتے میں جو کچھ ہوا، وہ خود اُن کے لیے بھی سخت ہزیمت و پسپائی سے کم نہیں تھا۔ تھپڑ کی گونج ابھی کم نہیں ہوئی تھی کہ 55 روپے کلومیٹر کی گونج نے سب کو پیچھے چھوڑ دیا۔ اہم بات یہ ہے کہ اپنے پارٹی سربراہ اور ملک کے وزیراعظم کے ہیلی کاپٹر سفر کا اتنے بھونڈے انداز میں وفاقی وزیر اطلاعات جیسے معتبر اور قریبی شخص کی زبانی دفاع کرنا حکومت کو ہر جانب سے بہت بھاری پڑ گیا۔ سوشل میڈیا پر اتنا شور برپا ہوا کہ الیکٹرانک میڈیا نے بھی ریٹنگ کی خاطر اس موضوع پر خوب شور مچایا۔ وہ نجی چینل بھی ریٹنگ کی خاطر تنقید پر مجبور نظر آئے جو پی ٹی وی سے بھی زیادہ حکومتی وفاداری کا ثبوت دے رہے ہوتے تھے، مگر یہ تنقید بھی انہوں نے سوشل میڈیا کے تبصروں کی آڑ لے کر ہی کی۔ وزیراعظم پاکستان کے لیے ہیلی کاپٹر کی سواری، وہ بھی اندرون اسلام آباد (دفتر سے گھر یعنی بنی گالہ) بظاہر تو کوئی اہم اور قابلِ ذکر بات نہیں تھی، مگر اس سواری کے تمام تر ششکے اور مزے سماجی میڈیا پر زبردست لطیفہ بازی، میم، طنز و تشنیع اور نت نئے کری ایٹو جملوں کی صورت پوری دنیا میں پاکستانیوں نے دل بھر کر، لیے۔ ٹوئٹر پر مختلف ہیش ٹیگز جو اس ضمن میں استعمال ہوئے اُن میں ’’جعلی تبدیلی، نیا پاکستان، پرواز ہے جنون‘‘ بھی شامل تھے۔ جبکہ پوسٹوں میں سے چند پیش ہیں:
’’پی ٹی آئی کراچی بازی لے گئی، کراچی میں55 روپے کلومیٹر کے حساب سے ہیلی کاپٹر سروس کا آغاز۔ بکنگ کے لیے فواد چودھری۔ شکریہ پی ٹی آئی‘‘۔
’’کراچی چڑیا گھر میں ہاتھی کی سواری سو روپے فی چکر، اسلام آباد میں ہیلی کاپٹر کی سواری 55 روپے کلومیٹر۔‘‘
ایک میم میں ہیلی کاپٹر کو پیٹرول پمپ پر کھڑا دکھایا گیا اور اوپر یہ کیپشن تھا ’’55 روپے کا پیٹرول ڈال دے‘‘۔ ایک اور میم میں وزیر اطلاعات اور وزیراعظم کو آپس میں بات کرتے ہوئے دکھایا گیا جس کے ساتھ یہ کیپشن تھا ’’آپ کہیں تو یہ بول دوں کہ… ہیلی کاپٹر پیٹرول والا نہیں… چار جنگ والا تھا؟‘‘
’’ناسا کے سائنس دان تین دن سے بے ہوش ہیں، جب سے اُنہیں پتا چلا ہے کہ پاکستان نے 55 روپے فی کلومیٹر سفر کرنے والا ہیلی کاپٹر دریافت کرلیا۔‘‘
’’ابھی تو گرمیاں ہیں، سردیوں میں جب ہیلی کاپٹر کا پنکھا بند کرکے چلائیں گے تو خرچہ اور بھی کم ہوگا۔ فواد شغلی‘‘
معروف اینکر رضوان رضی نے ٹوئٹ میں سوال کیا کہ ’’اگر ضروری اونچائی پر جانے کے بعد ہیلی کاپٹر کا پنکھا بند کردیں تو کیا ایوریج 55 روپے فی کلومیٹر سے نیچے آسکتا ہے؟‘‘
ارشاد بھٹی نے سوال اٹھایا کہ ’’30سال شریف اور زرداری باتھ روم جانے کے لیے بھی ہیلی کاپٹر استعمال کرتے رہے، بیرونِ ملک دوروں پہ جانے کے لیے2،2 جہاز لے کے جاتے تھے، ان کا کھانا بھی ہیلی کاپٹر میں آتا تھا، 80،80 گاڑیوں کا پروٹوکول، سینکڑوں پولیس افسران ان کی ڈیوٹی پر ہوتے، پوچھنا یہ تھا کہ اس وقت میڈیا کے دوست اور عوام کہاں تھے؟ اس بیانیے کی آڑ میں ٹی وی چینلز کے اینکرز و صحافی حضرات کو رگیدا جاتا رہا۔‘‘ زاہد علی خان اس صورت حال میں دفاعی بیانیے کے ساتھ لکھتے ہیں کہ ’’ہیلی کاپٹر کے فی میل خرچے کا حساب لگانے والی قوم اُس وقت کہاں تھی جب قوم پر 94 ارب ڈالر کا بیرونی اور 28 ہزار ارب روپے کا اندرونی قرضہ چڑھ گیا تھا؟ کاش انہیں خوراک پوری ملی ہوتی تو یہ چھوٹے رہ جانے والے دماغوں کے بچے اسے روک سکتے۔ خیر کوئی مسئلہ نہیں، مدینے کی ریاست بنے ابھی گیارہ دن ہوئے ہیں، ان کے دماغ بھی اب پرورش پانے لگے ہیں۔ اب ان شاء اللہ پاکستان ترقی کرے گا۔‘‘
گو کہ ایک چینل نے ایوی ایشن کے کسی ماہر کے ذریعے اس رقم کو قریب قریب درست کرنے کی کوشش کی، کیونکہ بنیادی طور پر پائلٹ اور دیگر اخراجات تو فکس ہی ہیں، صرف فیول ہی خرچ ہوتا ہے، اس لیے دس منٹ مسافت کا تخمینہ زمینی کلومیٹر کے مطابق ایسا ہی بنایا گیا۔ پنجاب کے وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان نے بھی ایک چینل پر یہی سمجھانے کی کوشش کی، مگر جس طرح اینکر اُن کی بات سن کر مسلسل مسکراتی رہی، اُس نے سارا تاثر زائل کرڈالا۔ پھر اگلے دن وزیر اطلاعات نے جب یہ بتایاکہ یہ ’’55 روپے والی معلومات انہوں نے گوگل سے معلوم کی تھیں،آپ بھی دیکھ سکتے ہیں‘‘ اس پر اور شور مچ گیا، مسلم لیگ (ن) کے رہنما احسن اقبال نے اس جواب پر ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا کہ ’’آج پتا چلا کہ نئے پاکستان میں حکومت گوگل کرکے چلتی ہے‘‘۔
یہ تو سب سے وائرل موضوع رہا، جبکہ اسی پائپ لائن کے کچھ اور موضوعات بھی زیربحث رہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی رہنما اور کراچی کی معروف کاروباری شخصیت جناب عمران اسماعیل نے سندھ کے گورنر کی حیثیت سے اپنے عہدے کا حلف اٹھایا۔ اس کے ساتھ ہی سماجی میڈیا پر اُن کے الیکشن کمیشن میں جمع شدہ گوشوارے کی ایک کاپی وائرل ہوئی جس میں اُن کی تعلیمی قابلیت بارہویںجماعت پاس ہونے تک ظاہر کی گئی تھی۔ چونکہ صوبے کا گورنر صوبے کی تمام جامعات کا چانسلر بھی ہوتا ہے اس لیے اُن کی کم تعلیمی صلاحیت پر تنقید کی گئی۔ جواب میں تحریک انصاف نے ماضی میں میٹرک پاس تعلیمی قابلیت والے صدرِ پاکستان آصف علی زرداری کی مثال دے کر بات کو ختم کرنے کی کوشش کی، تاہم یہ جواب بھی ہلکا تھا اور حلق سے نہیں اترا، کیونکہ عوام نے اتنی بڑی تبدیلی (میٹرک پاس صدر سے انٹر پاس گورنر) کے نام پر ووٹ نہیں دیا تھا۔ بات یہیں ختم نہیں ہوئی، بھارت کے ساتھ وزارتِ خارجہ کی گفتگو والا معاملہ اور پھر امریکہ کی جانب سے وزیراعظم پاکستان اور امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ مائک پومپیوکے ساتھ ہونے والی ٹیلی فونک گفتگو کا ٹرانسکرپٹ جاری کردیا گیا، جس کے نتیجے میں پاکستانی حکومت کا پیش کردہ مؤقف غلط ثابت ہوا۔ یہ بھی اتنا موضوع نہیں بنا، کیونکہ شاید یہ سفارتی معاملہ لوگوں کی سمجھ میں نہیں آیا۔ اسی طرح پنجاب کے وزیراعلیٰ کا نجی جہاز میں اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ سفر بھی تنقید کا موضوع بنا۔ پھر ہسپتال میں بچی کی موت بوجہ وزیراعلیٰ پروٹوکول نے بھی خوب درگت بنائی جس کے بارے میں بعد میں مختلف وضاحتیں آئیں کہ موت کی وجہ کچھ اور تھی۔ خاتونِ اوّل کے سابق شوہر کو پولیس ناکے پر روکنے والے پولیس افسر رضوان کے خلاف کارروائی بھی سماجی میڈیا پر خوب پسینے چھڑانے کا سبب بنی۔ اُن کا ٹرانسفر نوٹیفکیشن جس طرح وائرل ہوا اُس پر تبصرے و تبّرے ایسے ایسے تھے کہ اللہ معاف کرے، پھر بات عدالت عظمیٰ تک جا پہنچی۔ پنجاب کے وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان بھی شاید میڈیا پر آنے کے لیے بے تاب تھے کہ زبان پر قابو نہ رکھ سکے اور پھر معافیوں تک بات پہنچی۔ اتنے شور میں وفاقی وزیر ریلوے اگر پیچھے رہ جاتے تو اچھا نہیں ہوتا، اُن کی ایک اجلاس کی کارروائی اور ایک افسر کی طویل رخصت کا نوٹیفکیشن بھی تبصروں کے لیے کافی تھا مگر پروٹوکول کی ایک اور ویڈیو نے مزید چار چاند لگا دیئے۔ یوں کہیے کہ یہ پورا ہفتہ حکومت کے لیے سماجی میڈیا پر شہرت و بدنامی دونوں حوالوں سے ٹف ٹائم دیتا رہا۔
اسی دوران ہالینڈ میں اسلام دشمن ملعون گیرٹ ولڈرز کی جانب سے اعلان کردہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گستاخانہ خاکوں کے آن لائن مقابلے کے خلاف دنیائے اسلام میں صرف پاکستان میں شدید احتجاج کی صدائیں بلند ہوئیں۔ دینی جماعتوںکے علاوہ حکومت نے بھی اس میں بھرپور کردار ادا کیا۔ برطانیہ اور جرمنی میں پاکستانی مسلمانوں نے بھی اس حوالے سے بھرپور احتجاج ریکارڈ کرایا تھا۔ تحریک لبیک کی جانب سے لاہور تا اسلام آباد مارچ بھی کیا گیا، جس میں اُن کا دوٹوک مؤقف تھا کہ ہالینڈ کا سفارت خانہ بند کرکے اپنا سفیر بھی واپس بلائیں اور اُن کے سفیر کو بھی واپس بھیجیں، پھر بھی ہالینڈ باز نہ آئے تو اُس کے خلاف اعلانِ جنگ کیا جائے۔ حکومت بالخصوص وزیراعظم پاکستان نے بھی او آئی سی کو خط سمیت احتجاج ریکارڈ کرانے کے دیگر تمام سفارتی طریقے استعمال کیے۔ الحمدللہ جمعرات اور جمعہ کی درمیانی شب ایک عالمی نیوز ایجنسی کی جانب سے اطلاع آئی کہ پاکستان کے بھرپور احتجاج کی وجہ سے ملعون گیرٹ ولڈرز نے اس مقابلے کو ختم کرنے کا اعلان کردیا۔ اُسے اپنی زندگی کے لیے بھی شدید خطرات کا اندازہ ہوچکا تھا، ہالینڈ کے وزیراعظم نے بھی اپنے آپ کو سرکاری سطح پر اس مقابلے سے لاتعلق کرنے کا اعلان کردیا تھا۔ ہالینڈ میں ایک پاکستانی جنید لطیف کو بھی ملعون کے قتل کی مبینہ منصوبہ بندی کے الزام میںگرفتار کیا گیا۔ ٹوئٹر پر Our Prophet Our Honour Prophet Muhammad کا ٹرینڈ(پاکستان ریجن میں)مستقل ٹوئٹر پر شامل رہا۔اس سے قبل اس مقابلے کے خلاف Dutch MFA (ہالینڈ کی وزارت خارجہ کو متوجہ کرنے کے لیے)
MuslimUmmah,#blasphemouscartooncontest,#WeCondemnBlasphemy,#MuhammadtheMerciful,
سمیت کئی ٹرینڈ باقاعدگی سے ہفتہ بھر ٹوئٹر ٹرینڈ لسٹ میں آتے رہے۔ تحریک انصاف نے سماجی میڈیا پر اس کا پورا کریڈٹ بڑی سفارتی کامیابی کی صورت میں سمیٹنے کی کوشش جاری رکھی۔ وزیراعظم عمران خان کا اس موضوع پر جاری کردہ ویڈیو میسج بھی خاصا وائرل رہا۔
بہرحال ہمارے ایک دوست کہتے ہیںکہ یہ سب دھندا ہے، سرمایہ دارانہ نظام تمام تر قوت کے ساتھ اپنی جڑیں اتنی مضبوطی سے پوری دنیا پر گاڑ چکا ہے کہ اب سب کچھ، اور سب کے پیچھے دھندا ہی ہے۔ ہالینڈ کی بہت بڑی معیشت ہے، ڈچ ایسٹ انڈیا کمپنی سے لے کر آج کے شیل، یونی لیور سب کچھ ہمارے اطراف ہمارا ہی خون چوس رہے ہیں۔ ان کو معاشی طور پر پچھاڑنے کے لیے جامع حکمت عملی کی ضرورت ہے جس کے لیے اتحاد ناگزیر ہے۔