سیدہ عنبرین عالم
اکبر کے محلے میں پورا رمضان جماعت کی طرف سے ایک گھر میں درس ہوتا تھا۔ اکبر شروع سے ہی مذہبی ذہنیت کا تھا اور مذہبی محافل میں اسے بڑا لطف آتا تھا۔ اِس بار ایک بڑے ہی اچھے مولوی صاحب درس دے رہے تھے، جو بات کرتے دل میں اتر جاتی تھی، بہت ہی شفیق اور نرم خو انداز میں ہر پہلو سے بات کرتے تھے، آج کے درس میں وہ اللہ تعالیٰ کو محسوس کرنے کے طریقے سمجھا رہے تھے:
’’میرے بچو! سب سے پہلے یہ بات ذہن سے نکال دو کہ اگر اللہ نظر نہیں آرہا تو اللہ ہے ہی نہیں۔ اللہ ہے اور مستقل ٹکٹکی باندھ کر ہمیں دیکھ رہا ہے۔ ہمارا اٹھنا بیٹھنا، سونا جاگنا، کھانا پینا ہر چیز اللہ کی نگاہ میں ہے۔ ایک لمحے کے لیے بھی اس کی نظر ہم پر سے نہیں ہٹتی۔ پھر صرف خود ہی نہیں دیکھتا، مووی بناکر اپنے پاس رکھ لیتا ہے تاکہ قیامت کے روز ثبوت کے طور پر ہمیں دکھا سکے، اور اللہ خود ہی سب سے بڑا گواہ ہے جس کی نظر کے آگے ہم بچے سے بڑے ہوتے ہیں۔ وہ ہمارے ہر گناہ اور گناہ کی وجہ جانتا ہے، الٹی سیدھی تاویلیں دے کر ہم قیامت کے روز اپنے گناہ نہیں چھپا سکتے۔‘‘ مولوی صاحب نے فرمایا۔
اکبر تمام درس سن رہا تھا، مگر اس کے دماغ میں ایک ہی بات اٹک گئی تھی ’’اللہ دیکھ رہا ہے‘‘۔ وہ باقاعدہ ڈر سے کانپنے لگا، یہ احساس کہ اللہ دیکھ رہا ہے اُس کی جان نکالے ڈال رہا تھا۔ آخرکار وہ اپنے گھر پہنچا۔ امی کھانا تیار کرچکی تھیں، وہ ہاتھ دھوکر دستر خوان پر بیٹھا۔ ’’افوہ! امی آج پھر آلو بنا لیے، دنیا کے کسی شیف کو آلو کی اتنی ترکیبیں نہیں آتی ہوں گی جتنی آپ کو‘‘۔ اکبر نے چڑ کر کہا۔
’’بیٹا! ہر جمعہ کو گوشت پکاتی ہوں، اب روز تو گوشت نہیں بنا سکتی‘‘۔ امی شرمندہ سی ہوگئیں۔
’’اُف میرے تو خون میں اب صرف آلو اور دال گردش کررہے ہیں‘‘۔ اکبر کا غصہ کم ہی نہیں ہورہا تھا۔
’’بیٹا یہ اللہ کا رزق ہے، کسی کو تو یہ بھی نصیب نہیں، اللہ دیکھ رہا ہے‘‘۔ امی نے سمجھانے کی کوشش کی۔
’’ہائے…‘‘ اکبر کو پھر ایک دم یاد آگیا کہ اللہ دیکھ رہا ہے۔ ’’سوری امی! اچھی امی، میں یہی کھائوں گا۔ اللہ آپ کو سلامت رکھے۔ آپ پکا پکایا کھانا روز میرے آگے رکھتی ہیں‘‘۔ وہ گھبرایا ہوا بولا۔
امی نے جو یہ کایا پلٹ دیکھی تو حیران رہ گئیں۔ خوش تھیں کہ اکبر نے چپ چاپ کھانا کھا لیا۔ وہ پورے کھانے کے دوران اللہ کا شکر ادا کررہا تھا، کیونکہ اللہ دیکھ جو رہا تھا۔
اکبر کھانا کھاکر سونے کے لیے لیٹ گیا، مگر بار بار اوپر کی طرف دیکھ رہا تھا ’’یار یہ تو بڑی ہی مشکل ہے، کبھی کبھی تو اللہ کو چاہیے کہ نہ دیکھے۔ ہر وقت دیکھتا رہے تو میں موبائل پر آئٹم سونگز کیسے سنوں گا! گانے نہیں سنے تو نیند بھی نہیں آئے گی، کیا کروں؟‘‘ اکبر سوچنے لگا۔
’’ارے اگر اللہ دیکھ ہی رہا ہے تو تھوڑا اللہ کے نام ہی پڑھ لوں، خوش ہوجائے گا‘‘۔ اکبر کے ذہن میں اچانک خیال آیا۔ وہ یا الرحمن یا رحیم کا ورد کرنے لگا اور آخرکار نیند کی آغوش میں چلا گیا۔
شام میں اکبر باہر کھیلنے کے لیے گیا۔ ان کے محلے میں ایک لڑکا تھا جس کا نام شہروز تھا، وہی کرکٹ کا سارا سامان بلا، گیند، وکٹ وغیرہ لاتا تھا۔ ذرا بھی چیزیں خراب ہوتیں تو اس کے ابو پھر لا دیتے، لیکن اس کی ضد تھی کہ جب سب چیزیں میری ہیں تو پہلی بیٹنگ بھی ہمیشہ میری ہوگی، اور اس بات پر اکثر اکبر کا جھگڑا شہروز سے ہوجاتا تھا۔ اکبر نے کئی بار اپنے ابو سے کہا کہ مجھے بھی گیند بلا دلادیں، مگر ابو کا ہاتھ ہمیشہ تنگ ہی رہتا تھا۔ اکبر پہنچا تو نو دوست جمع ہوچکے تھے اور ہمیشہ کی طرح پہلی باری شہروز کی تھی، باقی باریوں کے لیے ٹاس جاری تھا۔ شہروز اچانک بولا ’’اکبر سب سے آخر میں آیا ہے تو اس کی باری سب سے آخری ہوگی۔‘‘
یہ سن کر اکبر کو غصہ آگیا ’’کیوں، ابھی تو ٹاس چل ہی رہا ہے، اتنی دیر تو نہیں ہوئی‘‘۔ وہ بولا۔
’’بھئی تم کھیلتے ہو تو آئوٹ ہی نہیں ہوتے، دوسروں کی باری نہیں آتی‘‘۔ شہروز نے برا سا منہ بناکر کہا۔ باقی لڑکے بھی شہروز کو تائیدی نظروں سے دیکھنے لگے۔
’’یہ کیا بات ہوئی! نہیں آئوٹ ہوتا تو آئوٹ کرو، یہی تو گیم ہے۔ اس طرح تو ٹنڈولکر کو کوئی کھیلنے ہی نہیں دیتا، وہ تو سینچری بنائے بغیر آئوٹ نہیں ہوتا تھا‘‘۔ اکبر کا غصہ بھی ساتویں آسمان سے بات کرنے لگا۔ وہ شہروز کی روز روز کی کِل کِل سے عاجز آچکا تھا۔
’’کھیلنا ہے تو کھیلو، آخری نمبر ملے گا، ورنہ جائو یہاں سے، ٹائم مت خراب کرو‘‘۔ شہروز بولا۔
اب تو اکبر کا پارہ ہائی ہوگیا اور دھینگا مشتی شروع ہوگئی، پھر اکبر کو خیال آیا کہ اللہ دیکھ رہا ہے۔ ’’ہائے اللہ! اللہ نے مجھے جھگڑا کرتے ہوئے دیکھ لیا۔ اوہو اب تو اللہ نے مووی بھی بنا کر Save کرلی ہوگی اور قیامت کے دن یہ وڈیو چلا کر مجھے سزا دے گا‘‘۔ جیسے ہی اکبر کو یہ خیال آیا، وہ پیچھے ہٹ گیا۔ ’’کیوں کیا ہوا، ڈر گیا کیا؟‘‘ شہروز چیخ کر بولا۔
اکبر نے جواب دینا مناسب نہ سمجھا اور اپنے گھر کی طرف چل پڑا۔
’’اوئے چوزے! اتنا بزدل ہے تو پنگے کیوں لیتا ہے؟ گھر میں اپنی امی کی گود میں بیٹھا رہ، یہ کرکٹ کھیلنا تیرے جیسے بچوں کا کام نہیں ہے‘‘۔ شہروز نے طیش دلانے کے لیے پیچھے سے آواز لگائی۔ اکبر نے آسمان کی طرف دیکھا اور کہا ’’اللہ پاک! تُو دیکھ رہا ہے ناں‘‘۔
غریب لوگوں کا محلہ تھا، سارے لڑکے جانتے تھے کہ شہروز کے ہی گیند بلّے سے کھیلنا ہے، اس سے مخالفت مول لی تو وہ ساتھ نہیں کھیلنے دے گا، اس لیے لڑکے چپ ہی رہتے تھے۔
اکبر گھر آیا تو بہت اداس تھا۔ ’’آج تو ابو کو بولوں گا کہ مجھے گیند بلاّ فوراً دلائیں‘‘۔ اس نے سوچا اور اپنی کتابیں لے کر بیٹھ گیا۔ اس کا، پڑھائی کا طریقہ یہ تھا کہ امی آتیں تو پڑھنے لگتا، ورنہ موبائل پر گیم کھیلتا رہتا۔ یہ موبائل بھی اس نے ابو سے چھینا تھا، وہ بے چارے بغیر موبائل کے ہی فیکٹری چلے جاتے حالانکہ امی کہتی بھی تھیں کہ اتنی دور جاتے ہیں ابو، انہیں موبائل دے دو، ذرا رابطہ رہتا ہے، موبائل خریدا ہی اس مقصد سے ہے کمیٹیاں ڈال ڈال کر۔ مگر اکبر نہ مانتا۔
آج پھر موبائل لے کر پڑھائی کرنے بیٹھا تو امی کی آواز آئی ’’پڑھ رہے ہو ناں اکبر‘‘۔
’’جی امی جی‘‘۔ اکبر نے آواز لگائی۔ ’’ہائے میں نے تو جھوٹ بول دیا، اللہ دیکھ رہا ہے، اب تو سچ مچ پڑھنا پڑے گا‘‘۔ اکبر نے سوچا اور کتابیں کھول کر پڑھنے لگا۔
رات کو ابا آئے تو اکبر نے پانی تک نہ پوچھا اور گیند بلّے کی رٹ لگا دی۔ ابا تھکن سے چور تھے مگر مسکراتے رہے۔ آخرکار امی کو غصہ آگیا ’’اکبر! گھوڑے کے گھوڑے ہوگئے ہو، لیکن ذرا احساس نہیں ہے، ابو دو بسیں بدل کے آتے ہیں پھر بھی آدھا گھنٹہ چلنا پڑتا ہے، فیکٹری میں بھی سارا دن کھڑے کھڑے مشینیں چلاتے ہیں، سوچو کتنا تھک گئے ہیں، بجائے ان کو کھانا پانی پوچھنے کے تم اپنی ضدیں پوری کروا رہے ہو! کیا جواب دو گے اللہ کو؟ اللہ ایسی بے حس اور لالچی اولاد کسی کو نہ دے‘‘۔ انہوں نے بلند آواز سے کہا۔
’’ہاں یار! امی سچ کہہ رہی ہیں، اللہ تو دیکھ رہا ہے، وہ تو پھر پوچھے گا بھی‘‘۔ اکبر نے سوچا اور جلدی سے ابا کے لیے پانی لے کر آیا۔ ابا حیران رہ گئے کہ اکبر نے کیسے ان کو پانی پلا دیا! ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا تھا۔ اکبر تو صرف اپنی ضدیں پوری کرواتا تھا۔ وہ اتنے خوش ہوئے کہ فوراً اسے گیند بلا دلانے کا وعدہ کرلیا، خریداری کے لیے اتوار کا دن طے پایا۔
یوں اکبر میں خاطر خواہ تبدیلی آنا شروع ہوگئی، مگر وہ پریشان رہنے لگا تھا۔ امی نے یہ کیفیت دیکھی تو وجہ پوچھی۔
’’کیا کروں امی! اللہ تعالیٰ ہر وقت مجھے دیکھتا رہتا ہے، میری آزادی ختم ہوگئی، کچھ بھی اپنی مرضی سے نہیں کرسکتا، ہر وقت خوف رہتا ہے‘‘۔ اکبر نے جواب دیا۔
امی ہنس پڑیں ’’ہاں بیٹا! اللہ تو دیکھ رہا ہے اور اسے دیکھنے سے منع بھی نہیں کرسکتے، چند دنوں میں البتہ تمہیں عادت پڑ جائے گی، تم کو پھر اللہ کے دیکھنے سے الجھن نہیں ہوگی بلکہ تم چاہو گے کہ تمہارے سب اچھے اچھے کام اللہ دیکھے اور ڈھیروں ڈھیر ثواب تمہارے لیے تیار رکھے‘‘۔ امی نے کہا۔
’’مگر مجھے ڈر لگتا ہے کہ مجھ سے کوئی غلط کام نہ ہوجائے اور اللہ دیکھ نہ لے‘‘۔ اکبر نے اداسی سے کہا۔
’’بیٹا یہ ڈر ہی تو مومن کی پہچان ہے، اسی کو تو تقویٰ کہتے ہیں۔ دنیا مومن کے لیے قید خانہ ہے، یہاں مومن کی حالت جیل کے اُس قیدی کی سی ہوتی ہے جس پر مسلسل نظر رکھی جارہی ہو اور اسے کسی کام کی آزادی نہ ہو۔ ہم کو ہر وقت، ہر کام میں اللہ تعالیٰ کے احکامات کی پاسداری کرنی ہوتی ہے، ہم دنیا میں تفریح کرنے نہیں آئے، تفریح تو ہم کریں گے جنت میں جاکر۔ یہاں کافر تفریح کرتے ہیں، ایک ایک لمحہ عیش و نشاط میں گزارتے ہیں، اللہ کے کسی حکم کی پابندی کا خیال نہیں کرتے، بھلا کیوں؟‘‘ امی نے پوچھا۔
’’کیونکہ ان کو آخرت میں جیل کی قید بھگتنی ہوگی، صرف سزا‘‘۔ اکبر نے جواب دیا۔
’’بالکل بیٹا! ہم اگر یہاں تنگی کی زندگی گزاریں تو وہ زندگی صرف 60 یا 70 سال کی ہے، اور اس کے بعد جنت میں آرام ہی آرام ہے، آزادی ہی آزادی‘‘۔ امی نے سمجھایا۔
’’مگر مجھ سے نہیں ہوتا ہر وقت نیک بن کر رہنا، بیزار ہوجاتا ہوں‘‘۔ اکبر ہمیشہ کی طرح ضد پر قائم تھا۔
’’اچھا، اور اگر تم فلسطین یا کشمیر میں پیدا ہوتے تو کیا کرتے؟ وہاں تو یہ نخرے نہیں چلتے کہ آلو نہیں کھانا، دال نہیں کھانی۔ چار دن میں ایک بار کھانا ملتا ہے وہ بھی آدھا پیٹ، جو ملے وہ کھانا پڑتا ہے۔ وہاں کی مائیں ایسے چونچلے نہیں اٹھاتیں، دو سال کی عمر میں ہاتھ میں پتھر اور دودھ کی بوتل دے کر سڑک پر کھڑا کردیتی ہیں کہ اسرائیلی ٹینکوں کو پتھر مارو۔ تم لوگوں کے جتنے نخرے اٹھائو اتنا سر پر چڑھے جاتے ہو‘‘۔ امی نے غرا کر کہا۔
’’سچ امی! دو سال کی عمر میں؟‘‘ اکبر نے حیرانی سے سوال کیا۔
’’جی ہاں! یہ سارا فلسطین کی مائوں کا کمال ہے، کشمیری مائوں کا کمال ہے جو دھڑادھڑ غازیوں اور شہیدوں کی نسلوں پر نسلیں تیار ہورہی ہیں، ہمارے جیسی مائیں ہوتیں تو کب کی تحریکِ آزادی ختم ہوچکی ہوتی اور غلام ابنِ غلام پیدا ہورہے ہوتے۔ ہماری مائوں کی طرح نہیں کہ ہاتھ جوڑ جوڑ کر بچوں کو صرف کھانا کھانے کے لیے راضی کرتی ہیں، اسی کا نتیجہ ہے کہ پاکستانی بچوں کی خواہش اور آرام طلبی ہی ختم نہیں ہوتی، وہ کبھی کشمیریوں اور فلسطینیوں کی طرح جانباز اور یکسو نہیں بن سکتے، ہم مائیں ہی ٹھیک نہیں ہیں‘‘۔ امی نے غصے سے کہا۔
’’نہیں امی، اللہ دیکھ رہا ہے کہ آپ نے مجھے سدھارنے کی کتنی کوشش کی ہے، میں ہی آپ کی بات نہیں مانتا۔ مائیں خراب نہیں ہیں، بچے سوائے تفریح کے کچھ سوچتے ہی نہیں‘‘۔ اکبر نے شرمندہ ہوکر کہا۔
’’بیٹا! ہم غریب ہیں، لیکن جب بھی میں نے کسی کی مدد کی، تمہارے سامنے کی، تاکہ تمہیں لوگوں کی مدد کرنے کی عادت ہو۔ تم دو سال کے تھے اُس وقت سے تمہیں ساتھ لے کر نماز پڑھتی ہوں تاکہ تمہیں عادت ہو۔ بچپن سے دال، سبزی، گوشت سب کھلایا تاکہ ہر چیز کھانے کی عادت ہو۔ معلوم نہیں مجھ سے کہاں غلطی ہوگئی کہ تم اتنے ضدی نکلے‘‘۔ امی نے نہایت افسردگی سے کہا۔
’’امی! آپ نے مجھ سے اللہ کے بارے میں باتیں نہیں کیں، مجھے اللہ کا واقف کار نہیں بنایا، مجھے یہ تک نہیں بتایا کہ اللہ دیکھ رہا ہے۔ اگر آپ مجھ کو اللہ کے بارے میں بتاتیں، مجھے اس کا دوست بناتیں، تو میں بھی کسی کشمیری اور فلسطینی بچے کی طرح ہوتا۔ آپ نے یہ تو بتایا کہ پھوپھو سے بات نہیں کرنی کیونکہ وہ ہر بات اگلوا لیتی ہیں، آپ نے بتایا کہ دادی کچھ بھی پوچھیں انہیں ٹال جانا ہے، مگر یہ نہیں بتایا کہ اللہ کیا کیا پوچھے گا اور کیسے جواب دینا ہے‘‘۔ اکبر نے امی سے کہا۔
’’ہاں بیٹا! ہم اپنے بچوں سے اللہ کے بارے میں بات نہیں کرتے، یا صرف یہ کہتے ہیں کہ یہ کرو گے تو اللہ جہنم میں ڈال دے گا، وہ کرو گے تو اللہ آگ میں جلائے گا۔ ہم اپنے بچوں کی تربیت کے دوران اللہ کی محبت ان کے دل میں پیدا نہیں کرتے، ان کی اللہ سے دوستی نہیں کراتے، بلکہ انہیں صرف اللہ کے خوف سے ڈراتے ہیں، اس لیے ہمارے بچے کشمیری اور فلسطینی بچوں کی طرح اُس جذبے کی نمو اپنے اندر نہیں کرپاتے جسے عشق کہا جاتا ہے، وہ اللہ کے لیے اپنی زندگیاں نہیں تیاگ پاتے، ان میں وہ یقین پیدا نہیں ہوتا جس کی بنیاد پر پتھر کے بھروسے پر ٹینک کے آگے کھڑے ہوجاتے ہیں‘‘۔ امی نے اپنی غلطی کا اعتراف کیا۔
’’جی امی! ہمارے ہاں بچوں کی تربیت میں دین و ایمان کی پختگی کے بجائے معاشی مستقبل کو ملحوظ رکھا جاتا ہے، ایک پانچ سال کے بچے کو بار بار سمجھایا جاتا ہے کہ تم کو ڈاکٹر بننا ہے تاکہ خوب پیسہ کما سکو، لڑکیوں کو بتایا جاتا ہے کہ کوئی شہزادہ آئے گا تم سے شادی کرنے۔ یعنی ہم بچوں کو سمجھا دیتے ہیں کہ تمہارا مستقبل اسی وقت ہے جب تم کسی نہ کسی ذریعے سے بہت سا پیسہ حاصل کرلو۔ جب کہ فلسطینی مائیں اپنے بچوں کو بتا رہی ہیں کہ تم جنت صرف اُس وقت حاصل کرسکتے ہو جب تم شہید ہوجائو اور جدوجہدِ آزادی میں شریک ہو۔ ان کا مقصدِ زندگی ہی بالکل الگ ہے، وہ دنیا میں عیاشیاں کرنے کے لیے محنت نہیں کرتے بلکہ ان کا مقصود آخرت کا کامیاب دور ہے۔ تو پھر ہمارے اعمال اور اُن کے اعمال میں فرق تو ہوگا، جب مقصدِ زندگی ہی الگ ہے‘‘۔ اکبر نے امی کو سمجھایا۔
’’بالکل بیٹا! صرف ایک جملہ کہ ’’اللہ دیکھ رہا ہے‘‘ ہماری دنیا اور عاقبت تبدیل کرسکتا ہے، اگر ہر فرد اس کو سمجھ جائے تو کوئی رشوت نہ لے، غیر مستحق کو نوکری نہ ملے، کوئی کرپشن نہ ہو، کوئی کسی پر الزام نہ لگائے۔ کاش کہ لوگ سمجھ جائیں کہ اللہ دیکھ رہا ہے‘‘۔ امی نے اکبر سے اتفاق کیا۔