افشاں نوید
آخری حصہ
ماریہ ایک بار ہم نے ان کی بیٹی کو کھانے پر بلایا۔ یوں تو دعوتیں عام سی روایت ہیں، مگر مجھے یاد ہے کہ کس قدر مرعوبیت تھی ہمارے گھر میں کہ سالن میں مرچیں نہ ہوں، میز پر طرح طرح کے جوسز ہوں، کانٹے اور چھریاں بھی رکھی جائیں لازمی۔ فریج کی پانی کی بوتلوں کے بجائے منرل واٹر کی بوتلیں ہوں۔ رشین سلاد بھی، تو چائینز بھی۔ چائے میں کافی کے ساتھ گرین ٹی بھی ہو تو قہو ہ بھی۔ جب وہ ہمارے گھر آئیں تو ان کے بچوں نے جس اجنبیت کا اظہار کیا اس سے ہم سب بہت دل گرفتہ ہوئے۔ ہم نے باتھ روم اور کمرے کے دروازے پر سفید تولیے خرید کر ڈالے ان کے اعزاز میں۔ انہوں نے ہاتھ دھوئے تو بھائی سفید براق تولیہ ان کو پیش کرنے لگا، مگر انہوں نے اپنے گول پرس سے چھوٹا سا تولیہ نکالا اور اس سے ہاتھ صاف کیے۔ کانٹوں سے سلاد کھاتی رہیں اور پاکستانی چیزوں کی ملاوٹ کے بارے میں باتیں کرتی رہیں۔ نہ محنت سے بنائے ہوئے سیخ کباب کو ہاتھ لگایا، نہ قورمے کی طرف التفات کیا۔ چھوٹے چھوٹے نوالوں سے مچھلی کے دوچار ٹکڑے کھائے اور پیالہ بھر کر انناس لیے اور کانٹے سے بڑے شوق سے کھائے۔ جب گرین ٹی کا ساشہ کپ میں ڈالتے ہوئے بہن نے پوچھا شکر کتنی لیں گی؟ تو بولیں: میں سفید شکر نہیں لیتی، برائون شوگر لیتی ہوں۔ ہم تو زمین میں گڑ گئے کہ اب کہاں سے لائیں؟ پہلے دماغ میں آگیا ہوتا تو اس کا بھی بندوبست کرلیتے۔ ارے میں خوامخواہ یادوں کا دریچہ کھول بیٹھی‘‘۔ مجھے اپنی گفتگو کی طوالت پر شرمندگی محسوس ہوئی تو میں نے بات سمیٹتے ہوئے کہا ’’ماریہ مجھے لگتا ہے کہ صرف یہی نہیں کہ آپ جسمانی طور پر فاصلوں پر چلے جاتے ہیں، بلکہ آپ ایک نئی دنیا میں جاکر کوشش کرتے ہیںکہ پرانی دنیا سے آپ کا رابطہ ہی باقی نہ رہے۔ سب لوگ ایسے نہیں ہیں مگر ایسے بھی ہیں۔ ارسلان بھائی سے میں کہتی ہوں کہ آپ تو عید بقرعید پر بھی فون نہیں کرتے، تو وہ زوردار قہقہہ لگا کر کہتے ہیں کہ رات اور دن کا فرق آڑے آجاتا ہے۔ جب خیال آتا ہے کہ چلو آج بات کریں تو فوراً احساس ہوجاتا ہے کہ اوہو! ہمارے ہاں دن کے چار بج رہے ہوتے ہیں تو تمہارے ہاں رات کا ایک بج رہا ہوتا ہے۔ بس یہ دن رات کا چکر بھی گھما کر رکھ دیتا ہے۔ تب میں دکھ سے سوچ کر رہ جاتی، جہاں تعلقات کی قدر نہ ہو وہاں رات اور دن آڑے آجاتے ہیں، ورنہ تو ساری دنیا کی درآمدات وبرآمدات اور وفود کے تبادلے روزوشب کے اسی سلسلے کے گرد گھوم رہے ہیں۔‘‘ میں کہہ کر خاموش ہوئی اور سوچنے لگی کہ ماریہ کتنی اچھی سامع ہے، طویل ترین بات بھی کتنی یکسوئی سے سنتی ہے۔ باتوں میں سہ پہر ڈھلنے کو آئی۔ ہماری فریکوئنسی ایسی ملتی تھی کہ یونہی پہروں بیت جاتے تھے دل کی باتیں کرتے ہوئے۔ میں نے بات جاری رکھی ’’دیکھو خالہ امی کا دس افراد کا پورا خاندان ہجرت کرگیا امریکا۔ وہ اور خالو جان کتنا دکھی ہوتے تھے کہ اب پاکستان میں اپنا آبائی گھر بھی بیچنا پڑے گا۔ وہ گھر ان کو اتنا پیارا تھا کہ ہر سال محض اس گھر کو دیکھنے وہ بوڑھے میاں بیوی پاکستان آتے تھے۔ ان کے گھر کا بڑا سا لان جہاں بلیوں اور چوزوں کے پیچھے بھاگتے ہمارا بچپن گزرا تھا مجھے بڑا دکھ ہوا تھا جب اس لان پر پکا فرش بنا دیکھا تھا۔ کیوں کہ بچا ہی کون تھا لان کی دیکھ بھال کرنے والا! وہ کتنی حسرت سے کہتی تھیں کہ مجھے لاالٰہ کی مٹی نصیب ہو، بیٹی دعا کیا کرو۔ میں انگریزوں کے دیس میں دفن نہیں ہونا چاہتی۔ مگر وائے قسمت خالو جان اور خالہ جان دونوں کا آخری مرقد اسی لاالٰہ کی مٹی میں نہ بن سکا۔ جس دن ان کے بیٹے نے ان کی تدفین کی ویڈیو مجھے بھیجی میں پھوٹ پھوٹ کر روئی تھی کہ پیاری خالہ جان ہمیں معاف کردیجیے گا۔ جو مٹی آپ کو پیاری تھی ہم اس مٹی میں آپ کو سلا نہ سکے۔ ہم تو خالو جان کے خاندان کو آئیڈیل سمجھتے تھے کہ کیا نصیب ہے، سب بیٹوں کو تو روزگار ملا ہی، بیٹیوں کو رشتے بھی وہاں نصیب ہوگئے۔ ایک بار وہ پاکستان آئی ہوئی تھیں، ان کا پیغام ملا کہ دو دن بعد جارہی ہوں ملنے آجائو۔ میں گئی، وہ گھر میں تنہا تھیں۔ گھر ہی کیا تھا، دو کمرے اور کچن۔ ان کے وسیع وعریض گھر کو جو بارہ کمروں اور کھلے دالانوں پر مشتمل تھا ان کے بیٹوں نے حصے کرکے علیحدہ علیحدہ کرائے پر چڑھا دیا تھا۔ جہاں ان کا ایک بڑا سا خاندان رہتا تھا اب اس گھر میں آٹھ اجنبی خاندان آباد ہوگئے تھے۔ دو کمرے ان کے بچوں نے ان کی ضد پر ان کے لیے رکھ چھوڑے تھے کہ پاکستان سے رشتہ برقرار رکھنے پر خالہ اور خالو جان بضد تھے، اور پھر ان کے انتقال کے بعد وہ گھر ہی بیٹوں نے فروخت کردیا۔ ہاں اس روز وہ تنہا تھیں، ورنہ ان کی بھاوج اور بچے انہیں تنہا نہ چھوڑتے تھے۔ میں ان کا ہاتھ تھام کر بیٹھ گئی، انہوں نے یکدم میرے کندھے پر سر رکھا اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگیں۔ میں نے بمشکل ان کو سنبھالا اور پریشانی کی وجہ دریافت کی، تو بولیں: ’’ میں سینے پر کتنا بڑا بوجھ لے کر دنیا سے جائوں گی بیٹا کہ میری تیسری نسل مسلمان نہیں ہوگی۔ میں نے بچوں کا ایمان بچا کر رکھا، ان کے ساتھ سائے کی طرح رہی۔ جس کے پاس نہ ہوتی فون پر تفصیلی آگہی رکھتی۔ مگر ان کے بچے تو اسی سماج میں رنگے ہوئے ہیں جہاں وہ پیدا ہوئے ہیں۔ وہ تو انگلش بھی اسی انداز میں بولتے ہیں، ان کے طور طریقے بھی انگریزوں جیسے ہی ہیں۔ مگر میری بہوئیں اور بیٹیاں ان کو دین سے جوڑنے کی ہر ممکن کوشش کرتی ہیں۔ میں سوچتی ہوں کہ ان کی اگلی نسل اور پھر ان کی نسل… بس اس سے آگے مجھ سے سوچا نہیں جاتا‘‘۔ ماریہ جب ان کے بیٹے نے وڈیو کلپ مجھے بھیجی جس میں لوگ ان کا جنازہ اٹھائے قبر کی طرف بڑھ رہے ہیں تو میں سوچنے لگی کہ یہ تو ان کے جسم کا بوجھ ہے جو لوگوں کے کاندھوں پر ہے، اگر ان کی روح اور ذہن کا بوجھ ان کے جسم کا حصہ ہوتا تو کئی درجن کاندھے مل کر بھی اس بوجھ کو نہ اٹھاپاتے۔ ‘‘
میں نے سوچا اِس وقت کے لیے اتنا ہی کافی ہے، اور ’’نماز عصر کا وقت ڈھلنے کو ہے‘‘ کہہ کر خدا حافظ کہہ دیا۔ ہمیشہ کی طرح ذہن پر ڈھیروں بوجھ بڑھ گیا۔ نماز کے بعد مصلے پر بیٹھتے ہوئے معاً ایک روشنی سی میرے اندر کودی کہ ہم چیزوں کے روشن پہلو پر بھی تو زیادہ بات کرسکتے ہیں چاہے ہمارے ذاتی معاملات ہوں یا اجتماعی معاملات۔ ہم میں سے اکثر ہمیشہ بات مایوسی سے شروع کرتے ہیں اور نوحے پر ختم کرتے ہیں اور عموماً ہم بے قصور ہوتے ہیں، قصوروار حکومت ہوتی ہے یا میڈیا یا سماج۔ صحت مند افراد اور معاشرے تو وہ ہوتے ہیں جو حقائق کے روشن پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے آگے کی منزلیں تلاش کرتے ہیں۔ چلو ٹھیک ہے اس سات سمندر پار بیٹھی ہوئی سے کل سویرے ہی فون کرکے اس کو کچھ روشن پہلو دکھانے کی کوشش کرتی ہوں۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہم میں سے روشنی کا انعطاف ہو تو ہمیں خود روشنی بننا پڑے گا۔ حقائق تلخ بھی ہوں تو بار بار زیر زبان آنے سے ان کی تلخی کم تو نہیں ہوجاتی، البتہ ہم بار بار تلخ ہوجاتے ہیں ان کو دہرا کر… میں نے فجر کے معمولات سے فارغ ہوکر صبح چھ بجے فون کیا تو وہاں رات کے نو بجے تھے، وہ دن بھر کے معمولات سے فارغ تھی۔ شوہر میسا چوسٹس گئے ہوئے تھے نواسے کی کامیابی پر مبارک باد دینے، جس نے اولیول امتیازی نمبروں سے پاس کیا تھا۔
میں نے سن کر گرم جوش مبارک باد دیتے ہوئے کہا کہ ایسے موقعوں پر ’’قرۃ العین‘‘کا مفہوم سمجھ میں آتا ہے جب وہ ٹھنڈک دل میں اتر جاتی ہے۔ میں نے کہا ’’ردابہ کے بیٹے نے بھی شکاگو میں قرآن حفظ کرلیا۔ میں نے مبارک باد کے لیے فون کیا تو خوشی سے سرشار تھی، بولی ہم دیارِ غیر کے رہنے والے اپنے بچوں کے دین اور اخلاق کے بارے میں بہت حساس ہوتے ہیں، جیسے کسی بیماری کا وائرس پھیل جائے تو ہم معمول کی زندگی گزارتے گزارتے ایک دم حساس ہوجاتے ہیں حفظانِ صحت کے اصولوں کے حوالے سے۔ کہہ رہی تھی بچوں کی دینی تعلیم کا وہاں باقاعدہ اہتمام کیا جاتا ہے کہ مغربی کلچر بالکل ہی مادہ پرست نہ بنادے۔ اپنے بھائی شہیر کا ذکر کررہی تھی کہ لاس اینجلس میں ان کا بیٹا خطیب بن گیا ہے، انہوں نے ٹیوٹر کے علاوہ مینٹور علیحدہ رکھے اس کے لیے۔ اتنی مثالی تربیت کی ہے بچے کی کہ رشک آتا ہے۔ بھائی کہتے ہیں کہ ہمیں اس سرزمین پر اللہ نے کسی مقصد سے بھیجا ہے۔ ہم قولی اور عملی تبلیغ کے ذریعے اسلام کی خدمت کرسکتے ہیں۔ بھائی ’’بیک ٹو اسکول‘‘ این جی او کے ساتھ نادار بچوں کے لیے اسکول کی فیسوں اور دوسری سہولتوں کا اہتمام کرتے ہیں، وہاں کے سماج میں بڑی معتبر شخصیت سمجھے جاتے ہیں۔
ماریہ پچھلے دنوں ردابہ پورے پانچ برس بعد پاکستان آئی، مجھ سے بھی ملاقات ہوئی، وہ بولی ہمارے سماج کے مقابلے میں پاکستانی سماج زیادہ تیزی سے بدل رہا ہے۔ بالخصوص وہ شادی بیاہ کی تقریبات کی فضول خرچی اور یہاں کی لڑکیوں کی بولڈ ڈریسنگ پر بہت حیران ہوئی۔ ایک تقریب میں ملی تو کہنے لگی کہ ٹی وی کے اشتہارات سے لے کر سڑکوں پر لگے فحش اشتہارات اس بات کے غماز ہیں کہ برائی سے کراہت کم ہورہی ہے بتدریج اس معاشرے کی۔ اس کے میاں شرجیل یہاں کی ایلیٹ کلاس سے تعلق رکھتے ہیں، بولی: ان کے رشتے داروں سے مل کر تو بہت ہی میرا دل خراب ہوا ہے کہ جس کے پاس جتنا پیسہ ہے وہ اتنا ہی مذہب سے دور ہے۔ بچوں کو بولڈ بناتے بناتے انہیں خودسر بنادیا ہے۔ وہاں پر بچے پھر بھی کنٹرول میں رہتے ہیں کم از کم ہمارے مسلمان گھرانوں میں۔ یہاں تو موبائل کی دنیا نے بچوں کو کہیں کا نہیں چھوڑا۔ وہ اسٹریٹ فوڈ کلچر سے سخت نالاں تھی کہ گھر سے باہر مہنگے اور غیر معیاری کھانوں پر دولت لٹانا کیسے اسٹیس سمبل بن گیا۔ چند سال پہلے تو اس معاشرے کے یہ اطوار نہ تھے۔‘‘
ماریہ جو بیچ میں ہوں ہاں پر اکتفا کررہی تھی، بولی ’’اب ذرا میری بھی بات توجہ سے سننا۔ میں نے بہت انہماک سے سنی ہے ردابہ کی اسٹوری تمہاری زبانی، مجھے تو وہ فون تک نہیں کرتی، اور سچی بات تو یہ ہے کہ فرصت مجھے بھی نہیں ملتی، بہت سے رشتے یوں کمزور پڑتے چلے جارہے ہیں۔ اس کے بھائی نے جو بیٹے پر محنت کی، بہت قابلِ ستائش ہے۔ ایک بچے پر اتنی محنت اور وسائل لگائے جاسکتے ہیں، میں چار بچوں کو اس مہنگے ملک میں کہاں اتنے وسائل سے پال پوس سکتی تھی! اسلامی اسکول ہی اتنے مہنگے ہیں کیوں کہ ان کو گورنمنٹ سپورٹ نہیں کرتی، جب کہ یہاں تعلیم فری ہے، لیکن پبلک اسکول میں داخلہ کرانا تو اپنے بچے کو دریا میں پھینکنا ہے اس نصیحت کے ساتھ کہ دیکھو پانی ہرگز نہ لگے۔ میں نے پبلک اسکولوں کی حالتِ زار دیکھتے ہوئے اپنے وسائل کا بڑا حصہ بچوں کی اسلامی اسکولنگ پر خرچ کیا۔ بچوں پر سماج کا کوئی رنگ نہ چڑھے یہ ممکن ہی نہیں۔ خود سوچو، طاعون کی وبا پھیلی ہو تو کوئی گھر کے دروازے بند کرکے کیسے بچ سکتا ہے۔ رہی یہ بات کہ ہم تبلیغ دین کے لیے یہاں ہیں، تو ریاستی سطح پر نہ سہی خود اپنے خاندان کے لوگوں کا ہی سروے کرلو کہ کتنے دین کی تبلیغ کررہے ہیں اور کتنے یہاں کے رنگ میں رنگ کر صرف نام کی حد تک مسلمان رہ گئے ہیں۔ خود کتنی فیملیز میرے سرکل میں ہیں جو خود کی مسلمان شناخت بھی بہ کراہت ہی بتاتے ہیں۔ لباس اور چال ڈھال سمیت وہ بالکل اس رنگ میں رنگ گئے ہیں۔ مسلمان ہونا ان کے لیے ثانوی اہمیت رکھتا ہے۔ اصل اہمیت ایک کامیاب اور پُرتعیش زندگی کی ہے۔ کتنی عرب فیملیز ہیں جن کی نسلیں یہاں بوڑھی ہورہی ہیں، وہ اپنی مسلم شناخت تک سے بے نیاز ہیں۔ جن کے بچے یہاں تعلیم کی غرض سے آئے یا ملازمت کے حصول کے لیے، انہوں نے یہاں شادیاں کیں۔ کیا تم سوچ سکتی ہو کہ ان کی نسلیں کتنے فیصد مسلمان رہتی ہیں۔ نائن الیون کے بعد کی دنیا تو بڑی ہی مختلف دنیا ہے۔ ایسا نہ ہو کہ خدانخواستہ ہمیں اپنی مسلم شناخت ہی چھپانا پڑے کسی وقت، میں تو یہ سوچ کر لرز جاتی ہوں۔جو یہاں معاش کے لیے آئے ہیں میرے مشاہدے کی حد تک تو وہ معاش ہی کے بندے ہیں، میں نے تو تبلیغِ اسلام کے لیے اپنے اطراف میں کسی کو فکرمند نہیں پایا۔ جو فکرمند ہیں اُن کا تناسب بہت کم ہی ہوگا۔ یہاں سب مشینیں ہیں۔ یہاں کے طرزِ زندگی نے کسی کو انسان چھوڑا ہی نہیں ہے کہ وہ اپنے مقصدِ زندگی کے بارے میں سوچے۔ یہاں سماج کے تقاضوں کو آپ مشین بن کر ہی پورا کرسکتے ہیں جب پورا خاندان کمائے۔ ساری زندگی معاش کے گرد ہی گھومتی ہے یہاں، کیوں کہ تعیش زندگی کا بنیادی مقصد ہے، اور اس کے لیے آپ کو وسائل درکار ہوتے ہیں۔ یہاں روبوٹ بستے ہیں۔ دن مصروف ترین ہے اور راتیں طویل ترین۔ اسی لیے ڈرگس کی کثرت ہے، خودکشی کی شرح بہت بلند ہے۔ جنسی بے راہ روی نے معاشروں کو اتنے ہیجان میں مبتلا کررکھا ہے کہ سکون کی تلاش میں وہ منشیات کا سہارا لیتے ہیں۔ اسکول کے بچے سگریٹ نوشی کرتے ہیں، شراب کی اتنی کثرت کہ الامان الحفیظ۔ اب تو ہم جنسی پرستی کی وبا عام ہے۔ اپنے اور اپنے خاندان کے ایمان کو بچانا یہاں بہت بڑی آزمائش ہے۔ جو یہاں خوش ہیں اللہ انہیں خوش رکھے اور ہدایت دے۔ مگر ساری زندگی اس سماج میں گزار کر بہرحال ہم اجنبی ہی ٹھیرے، ایک کشمکش میں گزری زندگی۔ کاش کہ بلند معیارِ زندگی کا حصول ہماری زندگی کا مقصد نہ بنتا۔ میں تو آج تیس برس بعد بھی یہاں کے شاپنگ مالز اور سٹی سینٹرز میں خود کو اجنبی ہی محسوس کرتی ہوں۔ میری نند شہنیلا پاکستان سے آرہی تھی پچھلے دنوں، بولی: بھابھی کچھ منگوانا ہے تو بتائیے۔ میں نے کہا پاکستان کی مٹی لے آنا تھوڑی سی۔ کوئی وہاں سے آتا ہے مجھے تو سچ بڑی سوندھی سی خوشبو آتی ہے اُس کے پاس سے… اپنے دیس کی خوشبو، اپنی مٹی کی خوشبو۔ جو کپڑے میں پاکستان سے پہن کر آئی تھی میں نے ان کو آج تک دھویا نہیں ہے کہ مجھے لگتا ہے اس میں پاکستان کی مٹی کی خوشبو بسی ہے۔
سچ ہے کہ اپنی شناخت کھو کے جینا کوئی جینا نہیں ہوتا۔ پاکستان تو ہماری شناخت ہے، ہمارا مان ہے، ہمارے پرکھوں کا تحفہ… شاید تم کہو کہ میں شدت پسند ہوں، بند گلی میں رہتی ہوں، یہ بے باک سماج مجھے اپنی گلیوں کا اسیر نہ بناسکا۔ جو میں سوچتی ہوں شاید اور بھی بہت سے سوچتے ہوں مگر کہہ نہ پاتے ہوں۔ کوئی مجھ سے مشورہ طلب کرتا ہے کہ ہم پاکستان چھوڑنا چاہتے ہیں، یہاں ملازمت کے مواقع کیا ہیں؟ میں تو یہی کہتی ہوں کہ
جس کو ہو جان و دل عزیز
اس کی گلی میں جائے کیوں‘‘
اس نے ایک ٹھنڈی آہ بھر کر خدا حافظ کہا اور میں موبائل اسکرین کو دیکھتی رہ گئی کہ بظاہر تو فاصلے گھٹ گئے ہیں مگر فاصلے تو بہرحال فاصلے ہیں۔