زاہد عباس
’’آئو بھولے میاں آئو، کیا تم بھی پاکستان میں رہتے ہو! ہم تو سمجھ رہے تھے کہ شاید کسی دوسرے ملک میں جا بسے ہو، جب سے نئی حکومت آئی ہے ہم تو تمہارے دیدار کو ہی ترس گئے ہیں۔ یار دل برداشتہ نہ ہو، انتخابات میں ہر شخص اپنی من پسند سیاسی جماعت کی حمایت کرتا ہے اور عوام کی اکثریت جسے ووٹ دے وہ اقتدار میں آجاتا ہے، اگر تمہاری جماعت مطلوبہ اکثریت لینے میں ناکام رہی ہے تو اس میں ہمارا کیا قصور ہے! بھولے میاں، سیاسی اختلافات انتخابات تک ہی محدود رہنے چاہئیں، انہیں دل میں رکھنے سے آپس میں تلخیاں بڑھتی ہیں جو اچھی بات نہیں۔‘‘
’’قادر بھائی ایسی کوئی بات نہیں، پہلے چودہ اگست کے پروگراموں میں مصروف تھا، اس کے بعد سے مکان کی تعمیر کا کام چھیڑ رکھا ہے جس کی وجہ سے وقت نکالنا مشکل ہوگیا ہے۔ عید کی چھٹیوں میں وقت ملا ہے اس لیے ملاقات کرنے چلا آیا ہوں۔‘‘’’شکر ہے، ورنہ ہم تو سمجھ رہے تھے کہ شاید تم عمران خان کی حکومت بننے سے ناراض ہو۔‘‘
’’مجھے پچھلی حکومت نے کچھ دیا اور نہ خان صاحب میرے گھر راشن ڈلوائیں گے۔ انتخابات اقتدار کے حصول کی جنگ ہوتے ہیں، ان میں جو جیتے وہی سکندر کہلاتا ہے۔ تم میری طرف سے اپنا دل صاف کرلو۔ کسی کے اقتدار میں آنے یا جانے سے میں بھلا کیونکر ناراض ہوسکتا ہوں!‘‘
’’نہیں بھولے میاں، ایسا نہیں ہے۔ اِس مرتبہ اقتدار میں آنے والے کام کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، کپتان کا ویژن بڑا کلیئر ہے، میرے کانوں میں تو آج بھی وزیراعظم پاکستان عمران خان کی جانب سے کی جانے والی تقریر گونج رہی ہے جو مجھ سمیت کروڑوں پاکستانیوں کے دل کی آواز ہے، مجھے یقین ہے کہ وزیرِاعظم عمران خان کا پیش کردہ ایجنڈا قوم کی تقدیر بدل کر رکھ دے گا۔‘‘’’قادر بھائی جذباتی ہونے کی ضرورت نہیں ہے، آپ بھی یہیں ہیں اور میں بھی اس ملک میں ہی رہوں گا۔ بڑوں کی مثال ہے ’’ہاتھ کنگن کو آرسی کیا‘‘، ابھی تو حکومت کا ہنی مون چل رہا ہے، آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔ جب آپ دکھائے گئے خوابوں کی دنیا سے باہر نکل کر غیر جانب داری سے غور کریں گے تو سارے ویژن سے آگاہی ہوجائے گی۔‘‘’’بھولے میاں فضول باتیں نہ کرو، گول مول بات کرنے سے بہتر ہے کہ تم حقائق تسلیم کرو۔ انسان سے غلطیاں اور کوتاہیاں ہوتی ہیں، عمران خان کوئی فرشتہ نہیں، اس لیے ماضی کو ٹٹولنے کے بجائے اس کی جانب سے اٹھائے جانے والے عملی اقدامات کو دیکھو۔ ہمارے ملک کے سیاست دانوں کی منزل عالی شان وزیراعظم ہاؤس میں گوشہ نشینی اختیار کرنا، بڑے بڑے پروٹوکول لینا، مراعات اور لامحدود اختیارات کا حصول ہوتا ہے، جبکہ خان صاحب نے نہ صرف ایسی طرزِ حکمرانی سے بے زاری کا اظہار کیا بلکہ محل نما وزیراعظم ہاؤس کی آسائشوں کے بجائے دو کمروں میں رہنے کو ترجیح دیتے ہوئے غریبوں کے سر چھپانے کے لیے 50لاکھ گھر بنانے کا اعلان کیا ہے جس کی کوئی نظیر نہیں ملتی۔ اور صوبوں کے گورنر ہاؤسز کی دیواروں کو گرا کر پبلک پلیس کا درجہ دینا کیا کم کارنامہ ہے!‘‘
’’اس میں کیا نیا ہے؟ ماضی میں صدر ایوب خان کے دورِ حکومت میں کراچی کے بے گھر خاندانوں کو رہائش کے لیے لانڈھی، کورنگی، ملیر، ڈرگ کالونی، ناظم آباد، نیو کراچی، ایف بی ایریا سمیت متعدد علاقے اور درجنوں سیکٹر بنا کر دیئے گئے، اور لاہور میں آشیانہ اسکیم کے تحت تعمیر کیے جانے والے مکانات بھی بے گھر افراد کے لیے ہی تو ہیں، اور تو اور ماضی میں اسی طرح کے درجنوں رہائشی سیکٹر اسلام آباد میں بھی تعمیر کیے جا چکے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ قرضوں کے بوجھ تلے دبے ملک کی موجودہ معاشی صورتِ حال میں جہاں قرض کی ادائیگی تو درکنار سود کی ادائیگی کے لیے مزید قرضہ لینا پڑتا ہو، وہاں لاکھوں مکانات کی تعمیر جیسی بات سیاسی لطیفے سے کم نہیں۔ جہاں تک وزیراعظم ہاؤس میں رہائش اختیار نہ کرنے کا تعلق ہے تو یہ کارنامہ ماضیٔ قریب میں شاہد خاقان عباسی پہلے ہی انجام دے چکے ہیں، جبکہ عمران خان نے تو حلف اٹھانے سے قبل ہی وزیراعظم ہاؤس میں رہائش اختیار کرنے کے لیے مکان کا انتخاب کرلیا تھا۔ اب مکان چھوٹا ہو یا بڑا، رہائش تو وزیراعظم ہاؤس کی حدود میں ہی کہلائے گی۔ اب رہ گئی بات وی آئی پی کلچر اور بڑی گاڑیوں کا پروٹوکول استعمال نہ کرنے کی، تو بھائی یہ بات ہم پہلے سے ہی جانتے ہیں کہ جہازوں میں سفر کرنے والوں کے لیے زمین پر چلنے والی چیزیں بے معنی ہوا کرتی ہیں۔ اور قادر بھائی آپ جیسے پڑھے لکھے شخص کے منہ سے گورنر ہاؤس گرانے جیسی بات کا دہرایا جانا حیرت سے کم نہیں۔ قومی خزانے سے اربوں روپے لگاکر بنائی جانے والی عمارتیں کسی کی ذاتی ملکیت نہیں ہوتیں، یہ قومی اثاثہ ہوا کرتی ہیں۔ دوسرے صوبوں کی چھوڑیے، صوبہ سندھ، خاص طور پر کراچی کی ہی مثال لیجیے، جہاں بدنام زمانہ چائنا کٹنگ کے نام سے منسوب ناجائز طور پر تعمیر کیے جانے مکانات کا کیا ہوا؟ سڑکوں کا سروے کرکے دیکھ لیجیے، ہر مکان پہلے سے زیادہ جدید اور بنیادی سہولتوں سے آراستہ اپنی جگہ پر قائم ہی نظر آئے گا۔ جس ملک میں رفاہی پلاٹوں، پارکوں اور سروس روڈ کے کنارے تعمیر شدہ غیر قانونی مکانات کے خلاف کسی بھی قسم کی کارروائی نہ کی جا سکے وہاں وزیراعلیٰ و گورنر ہاؤس سمیت کسی بھی قانونی عمارت کو گرانا دیوانے کے خواب سے کم نہیں۔‘‘
’’یار بھولے تُو نے کیا کوّے کھا رکھے ہیں، مستقل کائیں کائیں کیے جارہا ہے! کوئی بات تو مان لے۔ یار تیری سوچ اتنی منفی کیوں ہے؟ انسان کو اچھے کی ہی امید رکھنی چاہیے، ہوسکتا ہے بہتری آجائے۔ بنیادی سہولتیں ہمارا بھی حق ہے، ہماری بھی خواہش ہے کہ ہمارے بچے اچھے ماحول میں تعلیم حاصل کریں، ہماری جان بھی ان چوروں، وڈیروں، گدی نشینوں، جاگیرداروں اور سرمایہ داروں سے چھوٹے جنہوں نے طاقت اور پیسے کے بل پر گزشتہ ستّر برسوں سے اس ملک پر قبضہ کررکھا ہے۔‘‘
’’قادر بھائی آپ خود کہہ رہے ہیں کہ ہوسکتا ہے ہمارے مسائل بھی حل ہوجائیں، یعنی آپ خود تسلیم کررہے ہیں کہ ایسا ہونا ممکن نہیں، تب ہی تو ’ہوسکتا ہے‘ اور ’امید رکھنی چاہیے‘ جیسے الفاظ استعمال کررہے ہیں۔ جس طاقت ور طبقے سے نجات حاصل کرنے کی آپ بات کررہے ہیں وہی طبقہ تو پی ٹی آئی کے ساتھ کھڑا ہے۔ خان صاحب نے اپنی تقریر میں تعلیم پر فوکس کرتے ہوئے کہا تھا کہ سرکاری اسکولوں کی تعداد میں کمی کے باعث پاکستان میں 2 کروڑ بچے تعلیم جیسی بنیادی سہولت سے محروم ہیں، حکومت اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے جنگی بنیادوں پر کام کرے گی، اس کے لیے پرائیویٹ اداروں کے ساتھ مل کر سرکاری اسکولوں میں شام کی شفٹ شروع کی جائے گی۔ قادر بھائی مسئلہ سرکاری اسکولوں کی کمی کا نہیں… ہوسکتا ہے چند علاقوں میں یہ معاملہ بھی ہو… بھائی، اصل مسئلہ بے روزگاری اور سرکاری اسکولوں پر اعتماد کا ہے جہاں عملہ تو موجود ہوتا ہے لیکن کوئی بھی داخلہ لینے کو تیار نہیں، اگر بھولے بھٹکے کوئی آ بھی جائے تو عملے کے رویّے کے باعث وہ اپنے بچوں کو کسی بھی نجی اسکول میں داخل کروانے پر مجبور ہے۔ ظاہر ہے جب سرکاری اسکولوں کے اساتذہ کی اکثریت نجی اسکولوں کی مالک ہو اور ہر آنے والے بچے کو اپنے ذاتی اسکول کی راہ دکھائے تو ایسی صورت میں ویران سرکاری اسکولوں کو کس طرح آباد کیا جاسکتا ہے! ایسے میں پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت سرکاری اسکولوں میں شام کی شفٹ کا آغاز نجی سیکٹر کو سرکاری عمارتوں میں قانونی طور پر کاروبار کرنے کی سند سے زیادہ کچھ نہیں۔‘‘
’’بھولے، تجھ جیسا شخص میں نے آج تک نہیں دیکھا۔ ساری دنیا میں لوگ اچھی امیدیں لگاتے ہیں… اور ملکی ترقی کے خواب دیکھنا کون سی بری بات ہے! یاد رکھ، خواب بھی وہی دیکھتے ہیں جنہیں ان کے پورا ہونے کی امید ہو۔ بھئی مجھے تو عمران خان کی حکومت سے تمام وعدے پورے ہونے کی امید ہے۔‘‘
’’قادر بھائی آپ کچھ زیادہ ہی پُرامید دکھائی دے رہے ہیں، مجھے لگتا ہے شاید اجمل سراج نے آپ کی کیفیت کو دیکھ کر ہی یہ قطعہ کہا ہے:
خوش گمانی ہے بہت تو کیا عجب
کیونکہ وعدے اور وعید ہیں بہت
خود سے ناامید لوگوں کو اجملؔ
خان صاحب سے امیدیں ہیں بہت
یہ وعدے وعید اپنی جگہ، کیا آپ کو یقین ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت اپنے دورِ اقتدار میں ایک کروڑ نوکریاں دینے کا وعدہ پورا کرسکتی ہے؟ دیکھیے بات بڑی غور طلب ہے، ایک تو عمران خان صاحب یہ فرماتے ہیں کہ وزیراعظم ہاؤس سمیت سندھ، بلوچستان، خیبر پختون خوا اور پنجاب کے گورنر ہاؤسز میں تعینات ملازمین کی فوج خزانے پر بوجھ ہے، وہ نہ صرف اس عملے کو کم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں بلکہ پاکستان بھر کے سرکاری اداروں میں بھرتی کیے گئے اضافی عملے پر بھی تحفظات رکھتے ہیں، جبکہ دوسری طرف ایک کروڑ نوکریاں دینے کا وعدہ بھی کرتے ہیں، اب ہم کس بات کو مانیں اور کس کو نہ مانیں! ہم تو بس اتنا جانتے ہیں کہ ہر روز پانچ ہزار سے زائد نوکریاں دینے سے ہی پانچ برسوں میں ایک کروڑ نوکریاں دی جاسکتی ہیں، حکومت بنے پندرہ دن ہوچکے ہیں، اگر 5000 کو 15سے ضرب دیں تو اب تک 75000 بے روزگاروں کو نوکریاں مل جانی چاہیے تھیں، اگر مل گئی ہیں تو وعدہ وفا، اور اگر نہ مل سکیں تو آپ خود فیصلہ کرلیں۔‘‘
’’چپ کر جا بھولے، تجھ سے تو بات کرنا ہی فضول ہے، تیرا ذہن تنقیدی ہے اسی لیے بال کی کھال نکال رہا ہے۔ ابھی نئی نئی حکومت آئی ہے، تھوڑا وقت گزرنے دے چیزیں بہتر ہونے لگیں گی۔ اس حکومت نے اگر صحیح سمت کا تعین بھی کرلیا تو سمجھنا کہ گاڑی نئے پاکستان کی جانب چل پڑی ہے۔ بلاشبہ برسوں کی خرابیاں یک دم ٹھیک نہیں ہوسکتیں، وقت تو لگتا ہے۔ بس عوامی شعور اجاگر کرنے کی ضرورت ہوتی ہے پھر نتائج خودبخود آنے لگتے ہیں۔ خان صاحب کی نیت صاف ہے اور وہ کچھ کر گزرنے کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ انہوں نے اپنی تقریر میں کفایت شعاری، پولیس اصلاحات سمیت غریب کی دہلیز تک انصاف کی فراہمی جیسے نکات پر گفتگو کرنے کے ساتھ ساتھ نوجوانوں کے لیے سستے قرضے، پینے کے صاف پانی کے منصوبہ، پبلک ٹرانسپورٹ کی سہولت، اور ملک بھر میں شجرکاری مہم کے آغاز کا بھی اعلان کیا ہے… سب سے بڑھ کر بیرون ملک سے، لوٹی ہوئی دولت کی واپسی کے لیے ٹاسک فورس کے قیام اور پاکستان کو ریاست مدینہ بنانے کی بھی نوید سنائی ہے، ایسی ریاست جہاں زکوٰۃ دینے والے تو ہوں لیکن لینے والا کوئی نہ ہو۔ بھولے میاں اتنا کچھ سننے کے بعد تیرا دماغ ٹھیک ہوا یا پھر وہی ’میں نہ مانوں‘ کی ہی تسبیح پڑھتا رہے گا!‘‘
’’قادر بھائی مجھے تو آپ کی رائے جان کر حیرت ہورہی ہے۔ یقین مانیں آج آپ مجھ سے بھی زیادہ بھولے لگ رہے ہیں۔ میں کسی کی تسبیح نہیں پڑھ رہا، میں تو حقائق بیان کررہا ہوں، کسی کے نہ ماننے سے میری وزارت جانے والی نہیں، سچ بولنے سے مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا، میں ان تمام لوگوں کو ہوش دلانے کی کوشش کرتا رہوں گا جو نیا پاکستان بنانے والوں کی لچھے دار تقریروں کے نشے میں ایسے مدہوش ہوئے کہ یہ خیال تک نہ رہا کہ خان صاحب نے اپنی ہی تقریر کے برعکس چودھری سرور، شاہ محمود قریشی، زبیدہ جلال، فروغ نسیم، سرور خان، عبدالرزاق داؤد، عشرت حسین اور بابر اعوان سمیت بیشتر ایسے پرانے کاریگروں کو ایسا ’نیا پاکستان‘ یا یوں کہیے ایسی نئی’ سلطنتِ عمرانیہ‘ بنانے کا ٹھیکہ دے دیا، جن کی ’’سادگی‘‘ اور ’’کفایت شعاری‘‘ کے قصے دنیا بھر میں مشہور ہیں۔ ایک ایسا نیا پاکستان جہاں طاقت کے نشے میں بدمست ایم پی اے سڑک پر اپنی عدالت لگاکر کمزور شہریوں کو تھپڑ لگاتا پھرے، ایسا نیا پاکستان جہاں وی آئی پی کلچر کے خاتمے اور پولیس اصلاحات کا نعرہ لگانے والوں کی جانب سے ایک فرض شناس پولیس افسر ڈی پی او پاکپتن رضوان گوندل کو خاور مانیکا (عمران خان کی اہلیہ کے سابق شوہر) سے معافی مانگنے کے لیے نہ صرف مجبور کیا جائے بلکہ اس پولیس افسر کا تبادلہ بھی کردیا جائے۔
یہ کفایت شعاری اور سادگی جیسے الفاظ بھی خوب ہیں، جس کے جی میں آئے بول دے۔ کتابوں میں لکھے لفظوں کی تشہیر کرنا بری بات نہیں، عرض اتنی ہے کہ کہنے والے ایسے الفاظ کا چناؤ کرنے سے پہلے لغات ضرور دیکھ لیا کریں، اگر پھر بھی تشنگی باقی رہ جائے تو سابق میئر کراچی عبدالستار افغانی کی زندگی پر ایک نگاہ ضرور ڈال لیں جو بابائے کراچی اور رکن قومی اسمبلی رہنے کے باوجود بھی کراچی کی بستی لیاری کے ایک چھوٹے سے گھر کے ہی مکین رہے اور اسی سادگی کے ساتھ اِس جہانِ فانی سے کوچ کرگئے۔ قادر بھائی ہماری بدقسمتی یہی رہی ہے کہ ہم چڑھتے سورج کو سلام کرنے لگتے ہیں، ہمیں نعمت اللہ خان جیسے باکردار اور کفایت شعار لوگ نظر نہیں آتے۔ کون نہیں جانتا کہ نعمت اللہ خان نے اپنے دورِ نظامت میں کراچی کا نقشہ بدل کر رکھ دیا اور اربوں روپے کے فنڈز کا اختیار رکھنے کے باوجود کفایت شعاری کا وہ عملی مظاہرہ پیش کیا جس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ اور پھر چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار صاحب کی جانب سے امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق کے بارے میں ادا کیے گئے ان جملوں کو بھلا کون بھول سکتا ہے جن میں انہیں واحد صادق و امین جیسے الفاظ سے نوازا گیا۔ قادر بھائی آپ اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر پوچھیے، آپ کا دل بھی کہے گا کہ جماعت اسلامی ہی وہ واحد جماعت ہے جس کے لوگ باکردار اور ایمان دار ہیں، اسی جماعت کے لوگ خدا اور اس کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے ہوئے نظام کے نفاذ کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔ ایسے لوگوں کو منتخب کرکے ہی پاکستان کو صحیح اسلامی اور ریاست مدینہ جیسی فلاحی ریاست بنایا جاسکتا ہے۔ بصورتِ دیگر چہرے تو بدلے جاسکتے ہیں، ریاست مدینہ بنانے کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہوسکتا۔‘‘