رب العالمین کی قدرت کے کرشمے

1490

افروز عنایت
اس کائنات قدرت کے مالک کے لیے کچھ بھی ناممکن نہیں، ’’کن فیکون‘‘ ’’ہوجا‘‘ تو ہوجاتا ہے کسی کو فرش سے عرش پر تو کسی کو عرش سے فرش پر پہنچانے میں اسے دیر نہیں لگتی۔ یہ اسی کے کارخانہ قدرت کے کرشمے ہیں، کبھی آزمائش تو کبھی مصلحت خداوندی، لیکن ہر چیز اس کے لیے ممکن ہے۔ ربّ العزت کے ایسے ہی قدرت کے نظارے اس کائنات میں چاروں طرف نظر آتے ہیں۔ درج ذیل کہانی بھی اسی نوعیت کی مظہر ہے کہ ربّ الکریم کس طرح کٹیا میں رہنے والی ایک لڑکی کو حویلی کا مالک بنا دیتا ہے۔
٭…٭…٭
کرمو بابا نے رات کی بانسی روٹی اور چائے کی دو پیالیاں سکینہ اور سرور کے آگے رکھ دیں، لو پتر جلدی سے کھالو سورج سر پر آجائے گا۔ بڑی اماں کے گھر آج سودا (راشن) بھی پہنچانا ہے۔ دونوں بچے ناشتے سے فارغ ہوگئے تو کرمو بابا ان دونوں کو لے کر گلی کے نکڑ پر واقع بابا جی کی درگاہ پر پہنچے، بیٹی کے ہاتھ میں جھاڑو تھمائی کہ جلدی سے درگاہ کی جھاڑو لگائو اور بیٹے کو درگاہ کی جھاڑ پونچھ پر لگادیا، خود درگاہ کے صحن میں رکھے دونوں مٹکوں میں صاف پانی بھر کر زائرین کے لیے رکھ دیے۔
ایک نظر اس نے درگاہ میں چاروں طرف ڈالی اطمینان ہونے کے بعد بچوں کو لے کر گھر کی طرف پلٹا۔ گھر کے سامنے اماں خیرں کو دیکھا تو بولا ’’ادی‘‘ ان بچوں کا خیال رکھنا میں اپنی مزدوری پر چلا۔
دو گھنٹوں کے بعد کرمو بابا واپس آیا لکڑیوں کا بڑا گھٹا اس کے سر پر تھا، دونوں بچوں کو ساتھ لیا۔ دو تین گھروں میں لکڑیاں پہنچا کر بڑی اماں کے گھر پہنچا۔ بقیہ لکڑیاں سکینہ کے ہاتھ بڑی اماں کے گھر بھیجیں، خود دروازے پر سکینہ کا انتظار کرنے لگا، اس طرح دوپہر تک وہ بچوں کو لے کر واپس گھر آگیا، لکڑیوں کے عیوض جو دو تین روپے ملے اسی سے گھر کا سودا سپاٹا لے لیا۔
یہ کرمو اور اس کے بچوں کا روز کا معمول تھا، اس طرح اس کے گھر کا چولہا جلتا جو کچھ ملتا صبر کرکے کھالیتے، غربت کی وجہ سے بچوں کے تن پر ناکافی کپڑا اور پیٹ بھرنے کے لیے ناکافی غذا اس گھرانے کا معمول تھا۔ لیکن اکثر و بیشتر بڑی اماں سکینہ کو اپنی بیٹیوں کا پرانا لٹا کپڑا اور رات کا بچا کھچا کھانا دے دیتی تھی۔
٭…٭…٭
بڑی اماں اس حویلی نما گھر میں حاجی صاحب کی بڑی بیوی تھی، اپنی اولاد سے تو محروم تھی لیکن سوکن کے بچے کو پالا پوسا اسی نے ہی تھا۔ بچے نہ صرف اس سے مانوس تھے بلکہ ان کے دل میں بڑی اماں کا احترام و ادب بھی تھا۔ وہ ماں سے زیادہ بڑی اماں کے قریب تھے، ویسے بھی گھر میں حکمرانی بڑی اماں کی تھی، یہی وجہ تھی کہ حاجی صاحب اور سوکن کے انتقال کے بعد بھی گھر میں اس کی حیثیت و حکمرانی برقرار رہی۔ بڑی اماں خود بھی خدا ترس، بردبار اور نیک خاتون تھیں، اسی لیے آس پاس کے لوگ بھی اس کی عزت کرتے تھے۔
٭…٭…٭
آج بڑی اماں نے رات کو بڑا عجیب خواب دیکھا کہ کوئی اس سے کہہ رہا ہے کہ تو چھوٹے بیٹے کے لیے دلہن ڈھونڈ رہی ہو۔ سکینہ کو اپنے بیٹے سے بیاہ دو۔ صبح سکینہ جب اس کے گھر لکڑیاں پہنچانے آئی تو اسے اپنا خواب یاد آگیا، اسے دیکھ کر بڑی اماں زیر لب مسکرا دی۔ میں بھی بڑی عجیب ہوں کیسے کیسے خواب دیکھتی ہوں، لیکن اگلے دو دن بھی اماں نے جب یہی خواب دیکھا تو اس نے گھر والوں سے تذکرہ کیا، سب خوب ہنسے کہ آپ بے تکے خواب دیکھتی ہیں جس کا نہ کوئی سر ہے نہ پیر۔ لیکن اماں کے دل میں یہ بات سما گئی کہ حرج ہی کیا ہے۔ غریب ہے تو کیا گودڑی میں لعل ہے۔ دونوں شادی شدہ بیٹیوں کو بڑی اماں کی بات پر بڑی حیرانی ہوئی کہ کہاں ہم اور کہاں وہ بھکاری کی بیٹی، اور سرور بھائی وہ تو ناک پر مکھی نہیں بیٹھنے دیتے اس لڑکی سے شادی پر راضی ہوجائیں گے؟ ناممکن۔
لیکن بڑی اماں کے آگے کسی کی نہ چل سکی۔ کہنے لگی بیشک سرور چار شادیاں اور کرلے لیکن میں اس کو بہو ضرور بنائوں گی کیونکہ یہ ربّ کی طرف سے اشارہ ہے۔ بڑی اماں نے آخر سرور کو بھی راضی کرلیا یہ کہہ کر کہ اس کے بعد تم جہاں چاہو گے میں تمہاری دوسری شادی کروادوں گی۔ اس طرح سکینہ اس گھر کی بہو بن گئی۔
٭…٭…٭
سرور اس شادی سے مطمئن نہ تھا اس نے بارہا دوسری شادی کا سوچا اور کوشش کی لیکن ناکام ہوا۔ آخر اس نے بھی سمجھوتہ کرلیا کہ قدرت کی طرف اس کا بندھن اس خاتون کے ساتھ باندھا گیا ہے۔ سکینہ نے ایک غریب اور دیہاتی ماحول میں پرورش پائی تھی اسے اس گھر میں جگہ بنانے کے لیے کافی تگ و دو کرنی پڑی۔ اس خاندان کے افراد کے دل میں وہ جگہ بنا پائی یا نہیں لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کہ ربّ العزت نے اس کو یہ مقام عطا کیا کہ وہ ایک صاحبِ حیثیت، صاحبِ عزت خاندان کی بہو بن گئی۔ اس کی خوش نصیبی کی ایک اور بات جس کا اقرار تمام رشتے دار کرتے تھے کہ جب وہ اس گھر میں داخل ہوئی ہے جیسے خوش نصیبی نے اس گھر کا دروازہ دیکھ لیا ہو۔ روپے پیسے کی فراوانی، سرور کے کاروبار میں دن بدن اضافہ اور اللہ نے انہیں بہت ساری اولاد سے بھی نوازا جس کی وجہ سے آس پاس کے لوگ سکینہ پر رشک کرتے کہ سکینہ واقعی قسمت کی دھنی ہے۔
٭…٭…٭
مرحومہ سکینہ آج اس دُنیا میں موجود نہیں لیکن آس پاس کے لوگ عزیزواقارب سب اس کی زندگی کے ان واقعات سے واقف ہیں۔ مرحومہ نے اپنی زندگی کے یہ صفحات مجھ سے بھی شیئر کیے تھے جسے میں نے آپ سب سے شیئر کیا۔
٭…٭…٭
واقعی میں میرا ربّ ستر مائوں سے بھی زیادہ اپنے بندوں پر مہربان ہے وہ چھیر پھاڑ کردیتا ہے کسی غریب کی کٹیاں میں پرورش پانے والی کو محلوں کی رانی بنا دیتا ہے تو کہیں غریب کے بیٹے کے سر پر تاج پہنا دیتا ہے اور کبھی کبھی تاج داروں کو تخت سے اُتار کر زمین پر دے مارتا ہے۔ یہ سب میرے ربّ کے کرشمے ہیں۔
٭…٭…٭

حصہ