معروف شاعر و صحافی حامد علی سید کی جسارت سے گفتگو

659

انٹرویو: ڈاکٹرنثار احمد نثار
حامد علی سید ہمہ جہت شخصیت ہیں‘ شاعر میں صحافی ہیں‘ نظامت کار ہیں اور بہت اچھے انسان ہیں۔ 1996ء میں ان کا پہلا شعری مجموعہ ’’ابھرتا ڈوبتا سورج‘‘ 2010ء میں دوسرا شعری مجموعہ ’’شکستہ آئینہ خانہ‘‘ اور مئی 2018ء میں حمد و نعت کا مجموعہ کلام ’’روشنی کو چراغ لکھا ہے‘‘ شائع ہوئے ہیں۔ یہ نوجوان نسل کے نمائندہ شعرا میں شامل ہیں کراچی کے ادبی منظر نامے میں اپنی شناخت رکھتے ہیں۔ گزشتہ دنوں راقم الحروف نے جسارت سنڈے میگزین کے لیے ان سے مکالمہ کیا جس کی تفصیل قارئین کی خدمت میں پیش کی جارہی ہے۔
جسارت میگزین: آپ اپنی سوشل ایکٹی ویٹیز اور ادبی مصروفیات کے بارے میں کچھ بتائیں۔
حامد علی سید: میں بہت سے ادبی انجمنوں سے وابستہ ہوں اس لیے میری مصروفیات میں ادب بہت اہمیت کا حامل ہے ان انجمنوں کے تحت ادبی پروگرام ہوتے ہیںجن کے Arrangment کے باعث میری مصروفیات بڑھ جاتی ہیں اس کے علاوہ میں تنقیدی نشستوں میں جاتا ہوں اور نعتیہ مشاعروں میں بھی شرکت کرتا ہوں۔ میں بے حد مصروف زندگی گزار رہ اہوں لیکن اردو ادب کی ترقی میری پہلی ترجیح ہے۔ میں ہر حال میں یہ چاہتا ہوں کہ قلم کاروں کے مسائل حل ہوں اس سلسلے میں جو تنظیم کام کرتی ہے میں ان کے ساتھ کھڑا ہو جاتا ہوں کیونکہ میں سمجھتا ہوں کہ قلم کار معاشرے کا اہم حصہ ہیں۔
جسارت میگزین: اپنے خاندانی پس منظر کے بارے میں کچھ بتائیں۔
حامد علی سید: میرے خاندان کا تعلق بھی بھارت سے ہجرت کرکے آنے والوں میں ہے۔ میرے والدین ناگ پور‘ یو پی سے نقل مکانی کرکے کراچی آئے تھے‘ میں 1956ء میں لیاقت آباد کراچی میں پیدا ہوا۔ میرے خاندان میں میرے علاوہ کوئی شاعر و ادیب نہیں ہے۔ والد صاحب محکمہ ڈاک میں ملازمت کرتے تھے میں بھی اسی ڈپارٹمنٹ کا ملازم ہوں۔ میرے قبیلے والوں نے بھی پاکستان بنانے میں اپنی جان و مال کا نذرانہ پیش کیا۔ جیرے وال بتایا کرتے تھے کہ وہ مسلم لیگ کے جلسوں میں جا کر پاکستان کے قیام میں آواز بلند کرتے تھے۔ آج ہم پاکستان کی آزاد فضائوں میں سانس لے رہے ہں یہ سب ہمارے آبا و اجداد کی قربانیوں کا ثمر ہے پاکستان کی بقا کے لیے ہمیں ایک پلیٹ فارم پر آنا ہوگا‘ نوجوان نسل کو تعلیم یافتہ بنانا ہوگا۔
جسارت میگزین: آپ کی شاعری کی ابتدا کیسے ہوئی؟
حامد علی سید: شاعری کی ابتدا اسکول کے زمانے سے ہوئی میں مسلم پاپولر سیکنڈری اسکول ناظم آباد کراچی کا طالب علم تھا۔ اس وقت میں ہم نصابی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا تھا۔ بیت بازی ٹیم کا کیپٹن تھا۔ ہزاروں اشعار یاد تھے۔ میں تک بندی کیا کرتا تھا بعض شعر وزن میں ہوتے تھے اور بہت سے بے وزن۔ میں نے 1975ء میں پروفیسر جاذب قریشی کی صدارت میں پہلا مشاعرہ پڑھا تھا۔ میں شاعری کے حوالے سے ساقی جاوید مرحوم کا شاگرد ہوں لیکن میں نے سہیل غازی پوری‘ پروفیسر رحمن خاور اور محسن اعظم ملیح آبادی سے بھی مشاورت سخن کی ہے۔ شاعری ایک خداداد صلاحیت ہے لیکن اساتذۂ فن کی مشاورت سے آپ کے کلام میں نکھار آتا ہے جب تک آپ کسی کو اپنا استاد نہیں بنائیں گے بات نہیں بنے گی‘ بہت سے شاعر کہتے ہیں کہ وہ کسی سے اصلاح نہیں لیتے وہ تو ماں کے پیٹ سے ہی شاعری کر رہے ہیں یہ بات مناسب نہیں ہے آپ اپنے استاد کا نام بتایے‘ آپ کا کلام آپ کی فنی قابلیت کا اظہار ہوتا ہے۔
جسارت میگزین: آپ کے نزدیک شاعری میں علمِ عروض کی کیا اہمیت ہے؟
حامد علی سید: علم عروض شاعری کا فیصلہ کرتا ہے وہ یہ بتاتا ہے کہ آپ کا مصرع بحر میں ہے یا نہیں۔ اساتذہ نے علم عروض کی بحروں کا تعین کر دیا ہے ہم جب کوئی شعر کہتے ہیں وہ کسی نہ کسی بحر میں ہوتا ہے لہٰذا علم عروض سیکھنا چاہیے لیکن بغیر علم عروضظ سیکھے بھی شاعری کی جاسکتی ہے‘ شاعری ایک ودیعت الٰہی صفت ہے‘ شاعر پر اشعار کا نزول ہوتا ہے جس کو ’’آمد‘‘ کہتے ہیں وہ مصرع بحث میں ہوتے ہیں کیونکہ وہ تو ہمارے رب نے ہم پر اتارے ہوتے ہیں۔ لیکن ’’آورد‘‘ کے مصرعوں کے لیے ہمیں محنت کرنی پڑتی ہے میں بہت سے ایسے شاعروں کو جانتا ہوں جنہیں علم عروض نہیں آتا لیکن وہ بہت اچھی شاعری کر رہے ہیں۔ شاعری کے محاسن جانے بغیر آپ اچھی شاعری نہیں کرسکتے اس لیے گہرے مطالعے اور قربتِ استاد ضروری ہے۔ علم عروض ہماری خامیوں کی نشان دہی کرتا ہے۔
جسارت میگزین: فی زمانہ تنقیدی معیار کیا ہے؟
حامد علی سید: کسی بھی فن پارے کو جانچنے‘ پرکھنے کا نام تنقید ہے۔ تنقید نگار یہ فیصلہ کرتے ہیں کہ آپ کا تخلیقی معیار کیا ہے۔ تنقیدی روّیوں سے ہم اپنی اصلاح کرتے ہیں لیکن اس وقت تنقیدی نگاری کا ادارہ ’’انجمن ستائش باہمی‘‘ کا شکار ہوگیا ہے اب صرف قلم کار کی خوبیاں بیان کی جاتی ہیں اس کی خرابیوں کی نشاندہی نہیں کی جارہی۔ آج کی صورتِ حال یہ ہے کہ ہم اپنے من پسند تنقید نگار سے اپنی کتاب پر لکھواتے ہیں‘ سخت تنقید نگار سے گھبراتے ہیں‘ ہمارے ان روّیوں کی وجہ سے ادبی فن پاروں کا معیار بلند نہیں ہو رہا یعنی اب وہ ادب تخلیق نہیں ہو رہا جو فیض و اقبال کے زمانے میں ہو رہا تھا۔ اچھی تنقید سے آپ کی شاعری میں نکھار پیدا ہوتا ہے ہمیں چاہیے کہ ہم اس ادارے کو مضبوط کریں۔
جسارت میگزین: اردو زبان و ادب کے فروغ میں پرنٹ میڈیا اور الیکٹانک میڈیا کتنے اہم ہیں؟
حامد علی سید: الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا ادب کے فروغ میں سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں جب تک آپ کی آواز الیکٹرانک میڈیا پر نہیں جائے گی‘ آپ کی بات نہیں سنی جائے گی آپ کا کلام اخبارات و رسائل کی زینت بنے گا تو لوگ آپ کو پہچانیں گے۔ مشاعرے بھی آپ کی پرومیشن میں حصہ دار ہیں۔ اب صورت حال یہ ہے کہ الیکٹرانک میڈیا نے ادب سے کچھ لینا دینا نہیں ہے ان کا سارا کام اشتہارات پر چل رہا ہے‘ ہر پروگرام کا کوئی نہ کوئی اسپانسر درکار ہوتا ہے اسی طرح اخبارات کے ادبی صفحے کم ہوتے جارہے ہیں‘ اب اخبارات کے میگزین میں ہفتہ واری ادبی رپورٹیں شائع ہو رہی ہیں یہ دمِ غنیمت ہے ورنہ ادب شعر و ادب کی حیثیت ثانوی ہوئی ہے‘ لوگوں کی ترجیحات میں زبان و ادب کی ترقی شامل نہیں ہے۔ ہر شخص اپنے مفاد کی خاطر اپنے من پسند Job میں دلچسپی لیتا ہے۔ اب اردو بھی رومن انداز میں لکھی جارہی ہے۔ ہماری نوجوان نسل اردو سے دور ہوتی جارہی ہے۔ ہمارے بچوں کو فیض و غالب کے اشعار یاد نہیں ہیں اب انگلش میڈیم اسکولوں کا زمانہ ہے۔ ہم اپنے بچوں کو انگریزی سکھانے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔
جسارت میگزین: آپ کا نظریۂ ادب کیا ہے؟
حامد علی سید: شاعری اور زندگی میں چولی دامن کا ساتھ ہے اگر آپ روز مرہ زندگی کے مشاہدات و تجربات سے نگاہیں چرائیں گے تو آپ متاثر کن شاعری نہیں کرسکتے زمینی حقائق پر بات کرنی چاہیے۔ میرے خیال میں ادب کسی نظریے کے تحت رہ کر نہیں لکھا جاتا اگر آپ کی شاعری میں انسان دوستی‘ روشن خیالی موجود ہے اور آپ اپنے عہد سے جڑے ہوئے ہیں تو آپ کی شاعری یقینا اس عہد اور سماج پر اپنے خوش کن اثرت مرتب کرے گی جو دیرپا ہوں گے اور دوسروں کے لیے مشعل راہ بھی۔ ترقی پسند تحریک نے شاعری کو نئے نئے مضامین دیے ہیں اس نے گل و بلبل کے افسانوں کے بجائے معاشرے کے مسائل اجاگر کرنے پر زور دیا لہٰذا شاعروں میں نکھار پیدا ہوا لوگوں میں سخن فہمی بیدار ہوئی۔ یہ الگ مسئلہ ہے کہ لوگ ترقی پسند تحریک سے کیوں بے زار ہوئے اسی طرح سے یورپ میں جنم لینے والی جدیدیت اور مابعد جدیدیت کی تحریک نے شاعری میں کئی مضامین کا اضافہ کیا۔ پاکستان میں ڈاکٹر فہیم اعظمی اور ہندوستان میں ڈاکٹر گوپی چند نارنگ نے جدیدیت اور مابعد جدیدیت کے حوالے سے کافی کام کیا ہے۔
جسارت میگزین: آپ کے نزدیک قلم کاروں کے کیا مسائل ہیں؟
حامد علی سید: قلم کار بھی اس معاشرے کا حصہ ہے لہٰذا غم جاناں کے ساتھ وہ غمِ روزگار کا بھی شکار ہے شاعری کے ساتھ ساتھ اسے گھریلو ذمے داریاں بھی پوری کرنی ہوتی ہیں اس لیے ہم چاہتے ہیںکہ حکومت اربابِ سخن کے لیے روزگار کے مواقع فراہم کرے‘ ان کی رہائش کے مسائل پر توجہ دے‘ ان کے کلام کی اشاعت کا بندوبست کرے‘ ان کے لیے میڈیکل سہولیات فراہم کرے‘ ان کی مالی معاونت کی جائے۔ حکومتی سطح پر جو ادارے قلم کاروں کی فلاح و بہبود کے لیے قائم کیے گئے ہیں انہیں پابند کیا جائے کہ وہ میرٹ کی بنیاد پر قلم کاروں کے مسائل حل کریں‘ من پسند افراد کی پروجیکشن کے بجائے جینوئن شاعروں کو پروموٹ کرے۔ ادبی تنظیموں کو چاہیے کہ وہ قلم کاروں کے مسائل پر حکومت سے بات کرے‘ اب نئی حکومت آگئی ہے تبدیلی کا نعرہ لگایا جارہا ہے میں اپنی آواز وزیر اعظم پاکستان عمران خان تک پہنچانا چاہتا ہوں کہ وہ شاعروں کے مسائل پر توجہ دیں کیونکہ شعرائے کرام معاشرے کے عروج و زوال میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
جسارت میگزین: آپ نئے لکھنے والوں کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں؟
حامد علی سید: شاعری میں نئے لکھنے والوں کے لیے عرض ہے کہ وہ مطالعہ کریں اساتذہ کا کلام پڑھیں‘ ادبی گروہ بندیوں میں نہ پڑیں۔ سینئر کی عزت کریں اور سینئرز کا فرض ہے کہ وہ نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کریں کیونکہ نوجوان ہمارے مستقبل ہیں۔ ہمارے ادب کا سلسلہ اسی طرح آگے بڑھتا ہے کہ جب ہم اپنی ادبی روایات کو نوجوان نسل تک پہنچا دیتے ہیں اس وقت کراچی میں کئی نوجوان شعرا بہت اچھا کہہ رہے ہیں‘ یہ ایک خوش آئند بات ہے۔

حصہ