فیضِ عالم بابر
بعض مفکرین کے نزدیک کائنات کی بنیاد دکھ(غم) پر رکھی گئی ہے،شاعری اسی دکھ کا اظہار ہے،عزیز و اقر ب کے ناروا سلوک،معاشرتی بے حسی،خود غرضی ،جھوٹ،فریب ،مکر اور اس قبیل کی ہزاروں بیماریوں سے جنم لینے والا دُکھ دلِ شاعر میں پلتا ہے ،زہر بنتا ہے اور شاعر اسے لفظوں میں ڈھال کر معاشرے کا عکاس بنا دیتا ہے۔یہ شاعر کے اندر موجود توانائی،ظرف اور حوصلے پر منحصر ہے کہ وہ اس دکھ کا اظہار کن لفظوں میں اور کتنی مہارت سے کرتا ہے۔دکھوں کے ترجمان شاعروں کی فہرست میں ایک شاعر محمد اکرم جاذب بھی ہیں جن کا حال ہی میں شعری مجموعہ ’’امکان‘‘ کے نام سے منظر عام پر آیا ہے۔ کتاب میں دعا اور نعت کے علاوہ 68 غزلیں شامل ہیں۔کتاب کا انتساب اور پیش لفظ منظوم ہے۔انتساب فیملی کے نام اور پیش لفظ ’حرف آغاز ‘کے عنوان سے فاعلاتن کے وزن پر ہے جس میں تنقید نگاروں پر طنز کرتے ہوئے صرف احساسات اورجذبات کے اظہار ہی کو شاعری بتایا گیا ہے۔کتاب میں ’’شکست عہد‘‘ کے نام سے ایک نظم ،متفرق اور یوم مزدور کی مناسبت سے چند اشعار اور کتاب کے آخر میں ایک پنجابی غزل بھی شامل ہے۔شعری مجموعے میں غزل و نظم کے ساتھ متفرق اشعار تو چل جائیں گے مگر پنجابی غزل کو الگ مجموعے کے لیے رکھ لیتے تو زیادہ مناسب ہوتا۔شعری مجموعے کو شعری مجموعہ ہی ہونا چاہیے۔کتاب کے ابتدائی حصے میں ’دعا‘ کے عنوان سے ایک غزل بھی موجود ہے،غزل کا کوئی عنوان نہیں ہوتا اب معلوم نہیں شاعر موصوف نے یہ حرکت لاعلمی میں کی ہے یا کوئی جدت دکھانے کی کوشش ہے۔ کتاب میں کسی سینیئر شاعر یا تنقید نگار کا کوئی مضمون شامل نہیں ہے جس سے شاعر کی بے نیازی اور خود پر اعتماد کی عکاسی ہوتی ہے یا پھر شاعر کی نظر میں تقریبا ہر شاعر کی طرح بس وہ ہی شاعر ہے کوئی اور نہیں۔ کتاب کے پسِ ورق پرتضادِ ظاہر و باطن کے شکار معروف شاعر افتخار عارف کی5 سطری اور قمر رضا شہزاد کی 6 سطری آراء شامل ہیں جو میرے خیال میں شاعر نے روایت کی پاسدار ی کرتے ہوئے رسما ً یا محض خانہ پر ی کے لیے شامل کی ہیں۔ فلیپ کے دونوںجانب بھیکسی کی آرا کے بجائے اپنی ہی دو غزلیں آویزاں کی ہیں ۔میرے نزدیک شاعر کے یہ تمام اقدامات قابل ِ تحسین ہیں اگر یہ ان کا پہلا مجموعہ نہیں ہے تو۔
کتاب میں شامل بیشتر غزلیں معروف اور رواں بحروں میں ہیں جن میں سے 16 غزلیں بحر ِ رمل کی مزاحف شکل(فاعلاتن،فعلاتن ،فعلاتن،فعلن )پر 11،11 غزلیں بحر ِ مجتث اور بحرِ مضارع کی مزاحف شکلوں(مفاعلن، فعلاتن،مفاعلن ،فعلن) اور( مفعول ،فاعلات،مفاعیل،فاعلن) کے وزن پراور 7،7 غزلیں بحرخفیف اور بحرِہزج ِ کی مزاحف شکلوں( فاعلاتن،مفاعلن فعلن )اور( مفعول، مفاعیل،مفاعیل ،فعولن) کے وزن پر ہیں۔
عہدِ موجود کے اکثر شعرا کے مجموعوں کا مطالعہ کیا جائے تو کچھ اشعار ایسے مل جاتے ہیں جنھیں پڑھو تو وہ کہتے ہیں ’ہم تو پہلے سے موجود ہیں‘ اور یہ بات سن کر قاری کا ذہن حافظے کے اسٹور سے وہ شعر سامنے لاکر رکھ دیتا ہے،مثلاً
بھری دنیا میں جی نہیں لگتا
جانے کس چیز کی کمی ہے ابھی
ناصرکاظمی
کتنی بے کیف زندگی ہے ابھی
ایسے لگتا ہے کچھ کمی ہے ابھی
خورشید بیگ میلسوی
صبح ہوتی ہے شام ہوتی ہے
عمر یونہی تمام ہوتی ہے
تسلیم لکھنوی
صبح ہوتی ہے رات ہوتی ہے
وہی دنیا کی بات ہوتی ہے
ناطق جعفری
ملتے جلتے اشعار چاہے خیال کی سطح پر ہوں یا ملفوظی صورت میں ،شاعر کوچبائے ہوئے لقمے چبانے سے گریز کرنا چاہیے،اگر کوئی کتاب کی اشاعت سے پہلے اس کی نشاندہی کردے تو اسے اپنا دشمن یا مخالف ماننے کے بجائے محسن سمجھ کر ایسے اشعار تبدیل یا ہٹادینے چاہییں بصورت ِ دیگر سرقہ کے الزام کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ اگر کوئی شاعر پرانا مضمون دہراتا ہے تو اسے پھر اس طرح دہرانا چاہیے کہ اندازِ بیان نیا اور شاعر کی ذات سے جڑا ہوا ہو۔مثلاّ
ہر بوالہوس نے حسن پرستی شعار کی
اب آبروئے شیوہِ اہلِ نظر گئی!
مرزا غالب
پیار پر ہے آج کل ہر سْو ہَوس چھائی ہوئی
کام اچھا تھا کبھی یہ اب مگر اچھا نہیں
ڈاکٹر سعید اقبال سعدی
محولہ بالا دونوں اشعار کا مضمون یکساں مگر انداز ِ بیاں جدا ہے۔
اکرم جاذب کے شعری مجموعے میں بھی جا بہ جا ایسے اشعار نظر آتے ہیں جنھیں پڑھ کر وہی آواز وجدان سے گونجتی ہے کہ ’میں تو پہلے سے موجود ہوں‘۔مثلاّ
پرانے پھول کتابوں میں جیسے رکھے ہوں
ترے لباس میں یادوں کی باس چھوڑ آیا
یہ شعر پڑھ کر احمد فراز کا یہ شعر یاد آجاتا ہے۔
اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں
جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں
اسی طرح۔۔۔
دانش وآگہی سے ڈرتے ہیں
لوگ کیوں روشنی سے ڈرتے ہیں
۔۔۔۔
بعد مدت کے اسے ایک نظر دیکھیں گے
دل کے خاموش سمندر میں بھنور دیکھیں گے
۔۔۔۔
اس نے تو دل جلا کے سرِ راہ رکھ دیا
اور لوگ کہہ رہے ہیں دیا ہے فقیر کا
۔۔۔۔
آنکھیں ہوں اور کوئی خواب نہ ہو
اس طرح زندگی عذاب نہ ہو
۔۔۔۔
کس انہماک سے سچ جان کر میں سنتا رہا
وہ جھوٹ بول رہے تھے بڑی روانی میں
۔۔۔۔
محولہ بالا اشعارپڑھ کر بالترتیب یہ اشعار یاد آجاتے ہیں۔
شعر سے شاعری سے ڈرتے ہیں
کم نظر روشنی سے ڈرتے ہیں
(حبیب جالب)
بعد مدت اسے دیکھالوگو
وہ ذرا بھی نہیں بدلا لوگو
(پروین شاکر)
اب جس کے جی میں آئے وہی پائے روشنی
ہم نے تو دل جلا کے سر عام رکھ دیا
(قتیل شفائی)
اس سے بڑھ کرعذاب کوئی نہیں
میری آنکھوں میں خواب کوئی نہیں
(نوید احمد نوید)
میں سچ کہوں گی مگر پھر بھی ہار جائوں گی
وہ جھوٹ بولے گا اور لاجواب کردے گا
(پروین شاکر)
تکرار ِ مضامین یا سرقہ عجلت پسندی سے جنم لیتے ہیں۔ان سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ شاعر صبر سے کام لے اور اپنے اندر باہر(معاشرے) سے داخل ہونے والے خام مال کو پکنے دے ۔اس پکنے کے عمل کے دوران میں تکلیف ہوگی،غصہ حاوی ہوگا،وحشت آنکھیں دکھائے گی مگر شاعر ان سب بلائوں کو برداشت کرے،اس وقت تک جب تک یہ کسی شیرے کی طرح درخت سے خود بہ خود ٹپکنے نہ لگیں،جب ایسا ہونے لگے تو اس وقت شاعر جو بھی لکھے گا اس میں خالص اس کا اپنا رنگ جھلکے گا۔
کتاب میں ایک غزل کا مطلع کچھ یوں ہے ۔
وہی کہا کہ جو دیکھا ہے زندگانی میں
کوئی فسانہ نہیں ہے مری کہانی میں
کہانی کہی نہیں، سنی ،سنائی اور پڑھی جاتی ہے۔ نظم یا غزل کہی جاتی ہے۔کہا کی جگہ لکھا کردیں تو زبان درست ہوجاتی ہے،تاہم کچھ شعرا نے کہانی یا فسانہ کہا بھی لکھا ہے مثلاّ۔
استاد قمر جلالوی کا شعر ہے۔
کبھی کہا نہ کسی سے ترے فسانے کو
نہ جانے کیسے خبر ہوگئی زمانے کو
کتاب میں شامل کچھ اور اشعار۔
چاک ہوتی رہیں پھولوں کی قبائیں جاذب
برگِ گل کہتی رہی،موجِ ہوا آہستہ
کیسی انصاف پسندی کہ شہنشاہوں کے
منتخب لوگوں پہ الطاف و کرم ملتے ہیں
کیسے کہوں کہ جائے مکافات ہے جہاں
جاذب یہاں پہ کوئی کرے اور بھرے کوئی
ہم لوٹ آئے گھر کو بناں عرضِ مدعا
وہ آج پھر تھے اپنے تمنائیوں میں گم
کبھی کرتا ہے نتائج کا تعین کردار
کبھی توجیہہ کو تقدیر ضروری ہوئی ہے
ہم نے تمام عمر اُجڑنے نہیں دیئے
خوابوں میں جو بسائے چمن زار دشت میں
پہلے شعر میں’ برگ‘ کو مونث باندھا گیا ہے جو درست نہیں،لفظ برگ مذکر ہے۔
دوسرے شعر میں ’الطاف و کرم‘ ملنا درست نہیں الطاف و کرم ہونا ٹھیک ہے۔
تیسرے شعر میں لفظ ’یہاں ‘کے ساتھ پہ کا استعمال کیا گیا ہے جو کہ زبان نہیں۔یہاں ،وہاں،جہاں وغیرہ کے ساتھ پر یا پہ استعمال نہیں کرنا چاہیے۔
چوتھے شعر میں ’بناں‘ کے بغیر کے معنوں میں استعمال کیا گیا ہے ۔نون غنہ کے ساتھ اس لفظ کا استعمال درست نہیں،درست لفظ’ بنا‘ ہے۔
پانچویں شعر میں لفظ’ توجیہہ‘ غلط لکھا گیا ہے اسے’ توجیہ‘ لکھنا چاہیے اسی طرح چھٹے شعر میں لفظ’ دیئے‘ غلط لکھا گیا ہے اسے’ دیے ‘یا ’دئے‘ لکھنا چاہیے ،واضح رہے کہ ہمزہ بذات خود ’ی‘ کے معنی بھی دیتا ہے ،یہ لغزشیں اکثر شعرا کے ہاں نظر آتی ہیں مگر شعرا کو صحتِ زبان کا خیال رکھنا چاہیے کہ آئندہ نسلیں ان کے لکھے سے ہی استفادہ کرتی ہیں۔
کتاب میں پروف کی غلطیاں ہونا ایک عام روش ہے مگر جاذب صاحب کی کتاب میں یہ غلطیاں بہت کم ہیں۔
نمایاں ہونے لگے دھڑکوں کے زیر و بم
تمھاری زلف الجھنے لگی ہے بالی سے
اف یہ ظلمت کہ روشی میں بھی
آدمی آدمی سے ڈرتے ہیں
پہلے شعر میں روشی کی روشنی اور دوسرے شعر میںدھڑکوں کی جگہ دھڑکنوں ہوگا۔
کتاب میں شامل دو شعر کچھ یوں ہیں۔
یہ کون کہتا ہے پیاسا ہی جائے کنویں پر
مرے قریب تو خود سایہِ شجر آیا
۔۔۔۔
احسان اہلِ شہر کی نسلوں پہ ہے بڑا
کردے الگ الگ اگر کھوٹے کھرے کوئی
پہلا شعر ’مفاعلن فعلاتن مفاعلن فعلن‘ کے وزن پر ہے جس کا پہلا مصرع بے وزن ہے،اگر لفظ ’کنویں‘ کو تشدید کے ساتھ پڑھیں تو وزن میں آتا ہے مگر اس لفظ پر تشدید کا استعمال درست نہیں۔دوسرا شعر’ مفعول فاعلات مفاعیل فاعلن‘کے وزن پر ہے جس کا دوسرا مصرع بے وزن ہے۔
کسی شعر یا مصرع میں ذم کا پہلو لا اختیاری طور پر در آتا ہے،شاعر کے علم میں بھی نہیں ہوتا مگر جب وہ کسی مشاعرے یا شعری نشست میں شعر سناتا ہے تو سامعین شاعر سے وہ شعر بار بار پڑھوا کر خوب مزے لیتے ہیں اس لیے شاعر کو اس پہلو کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے کہ وہ مذاق بن کر نہ رہ جائے۔
غالب کا شعر ہے۔
مت پوچھ کے کیا حال ہے میرا تیرے پیچھے
تو دیکھ کے کیا رنگ ہے تیرا مرے آگے
ناطق لکھنوی کا شعر ہے۔
نیا ہے زخم ابھی ،تیرِ ناز رہنے دے
خدا کے واسطے او جلد باز رہنے دے
یار لوگ جون ایلیا کا ایک شعر بھی اکثر سناتے ہیں کہ
اب نہ لانا کہ ہم نے دنیا کو
بیچ میں بار بار ڈالا ہے
یارانِ سخن کے مطابق غالب اور ناطق لکھنوی کے ان اشعار میں بھی ذم کا پہلو موجود ہے جب کہ جون صاحب کے شعر کا صرف دوسرا مصرع پڑھیں تو یہ عیب خود نمایاں ہوکر سامنے آجاتا ہے۔اکرم جاذب کے دوشعر کچھ یوں ہیں کہ۔۔
قائل ہوں جدتوں کا روایت کے ساتھ ساتھ
پیچھے نگاہ ڈال کے آگے چلا ہوں میں
ہزاروں لوگ محبت سے لیتے آئے ہیں
جو کام لینے لگے ہیں جناب گالی سے
اکرم جاذب کے پہلے شعر کا صرف دوسر ا مصرع اور دوسرے شعر کا صرف پہلا مصرع پڑھیں تو ذم کا پہلو آپ کو ہنسنے پر مجبور کردے گا یا آپ کی حسِ ظرافت کو جگا دے گا۔
جاذب کہاں خبر تھی کہ ہے باز تاک میں
ہم شاد تھے قفس سے پرندہ نکال کے
۔۔۔۔
مشروط مفلسی سے نہیں زندگی کے غم
خوشیاں دلوں کی ظاہری اسباب میں کہاں
۔۔۔۔
خود بہ خود معرضِ اظہار میں آجاتے ہیں
تجر بے زیست کے اشعار میں آجاتے ہیں
۔۔۔۔
لطف ِزر کے مرید ہیں جاذب
شیخ صاحب؟نہیں،ارے سارے
۔۔۔۔
مسلسل ایک سی حالت کو موت کہتے ہیں
کبھی کبھی تو لہو میں اُبال لازم ہے
محمد اکرم جاذب کارنگ ِ سخن روایتی ہونے کے باوجود چند اشعار میں جدید لہجہ بھی جھلکتا دکھائی دیتا ہے، کتاب میں شامل24 اشعار مجھے پسند آئے،جگہ کی کمی کے باعث اوپر چند اشعار درج کیے ہیں۔پہلا شعر آہنگ اور مضمون کی سطح پر بھی نیا ہے ،اگر وہ اسی رنگ میں مشقِ سخن کرتے رہیں تو زندہ شاعروں کی صف میں شامل ہوجائیں گے مگر وقت معینہ پر۔