جویریہ ندیم
میں خواب بہت دیکھتی ہوں مگریہ خواب کبھی نہ دیکھا تھا جو شاید میرے مقدر میں لکھ دیا گیا تھا۔ بعض دفعہ ہم مقدر پر لکھے کے ٹل جانے کے خواہش مند ہوتے ہیں اور بعض دفعہ کسی چیز کے مقدر کے لئے دعا گو مگر کبھی ایسا بھی ہوتا ہی کہ بن مانگے آپ کے مقدر میں انمول نعمت لکھ دی جاتی ہے اور وہ آپ کے یوں سامنے آتی ہے کہ آپ شکر اور حیرانی کے بیچ کی کیفیت میں آجاتے ہیں‘ میرے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔
یہ پچھلے سال کی بات ہے کہ رات کو کھانے سے فارغ ہو کر ہم سونے کے لئے جانے لگے تو ابو نے تیل لگانے کے لیے بلایا… میں نے کہا تھوڑی دیر میں آتی ہوں‘ کچھ دیر بعد جب کمرے میں گئی تو ابو نے پوچھا ’’عمرے پر جانا ہے…؟‘‘ میں ہنس دی۔ سمجھ نہیں آ رہا تھا کیا کہوں۔ ابو نے کہا ماما کا فون آیا تھا وہ جارہے ہیں تمھاری ماں رونے لگی۔ میں نے کہا کہ بچوں کے ساتھ تم بھی چلی جاو۔
اس انہونی خوشی کو ہم دل میں لے کر سونے چلے گئے…کچھ دن ہماری خالہ کا بھی ارادہ ہوگیا۔ ہم کل تیرہ افراد تھے۔ خانہ کعبہ کے دیدار سے متعلق بہت کچھ سن رکھا تھا مگر اس کو ’’پہلی بار‘‘ دیکھنے کا شرف ملنے والا تھا 18جنوری کو جب روانہ ہوئے تو خالہ کا بچوں سے بچھڑنا اور ہمارا ابو کو الوداع کہنا، ان کو چھوڑ کر جانا… کافی عجیب سما تھا۔
زندگی میں سب ’’پہلی بار‘‘ ہونے جارہا تھا نہ کبھی اس طرح پہلے جہاز کا سفر کیا تھا… نہ ہی ایک نئے ملک اور انجان جگہ ابو کے بغیر گئی تھی … جہاز میں بیٹھے تو ناقابل بیان کیفیت تھی… خیر مکہ پہنچ کر ہوٹل میں سامان رکھ کر یہ طے پایا کہ چونکہ رات بہت ہوچکی ہے اس لیے عمرہ اگلے دن ادا کیا جائے گا… فجر کی نماز پڑھ کر ہم سونے لیٹ گئے
اگلے دن ظہر پڑھ کر جب حرم میں قدم رکھا تو سمجھ نہیں آرہا تھا…! اپنے آپ سے ہی سوال کرنے لگی کہ کیا میں بھی اس قابل تھی کہ اس عظیم مقام کا, اس عظیم گھر کا دیدار کر سکوں۔ پھر ’’پہلی بار‘‘ خانہ کعبہ کو دیکھا… اس رب کا شکر ادا کیا جو اس وقت دل کے سب سے قریب تھا۔
عمرہ ادا کیا‘ سعی کے بعد مغرب کی نماز ادا کر کے باہر نکلتے ہوئے ہم تیرہ افراد میں سے میری ممی‘ مامی اور سارے بچے بچھڑ گئے۔ ماما، ان کی ایک بچی، میں اور خالہ اور میرا بھائی حرم کے صحن میں ہی ان کو ڈھونڈتے رہے پھر ماما‘ جو کہ ہم میں سب سے بڑے تھے‘ انہوں نے خالہ اور اپنی بیٹی کو باہر دیکھنے بھیجا مگر جب وہ بھی نہ آئے تو انہوں نے مجھے اور میرے بھائی کو بھیجا‘ اس ہدایت کہ ساتھ کہ وہ نہ ملیں تو اسی جگہ واپسی آنا۔ ہمیں باہر تو کوئی نہ ملا مگر عشاء کا وقت ہونے کی وجہ سے ہمیں مکہ کے سیکورٹی گارڈ (شرتوں) نے واپس صحن میں بھی نہ جانے دیا۔ اب حالت خراب تھی‘ رونے والی آواز تھی مگر میرے الفاظ کو وہاں کا کوئی فرد نہ سمجھ سکتا تھا۔ اللہ سے دعا کی اور شرتوں کو سمجھایا ۔
میری حالت اور آواز سے کچھ تو ان کی سمجھ آیا اور انہوں نے راستہ کھول دیا۔ اب صحن میں پہنچے تو ماما نہیں… نماز کا وقت ہونے کو تھا اس لیے میرا اور میرے بھائی کا الگ ہونا لازمی تھا۔ مگر بھائی جو‘ آخری ساتھی بچا تھا‘ اس کو کیسے چھوڑتی… بس اس لیے میں نے سیڑھیوں سے بالکل اوپر عورتوں کے ساتھ نماز پڑھی اور بھائی نے سیڑھیوں سے نیچے مردوں کے ساتھ نماز پڑھی۔
وہ نماز کوئی دیکھتا تو شاید کہتا کہ بڑے تقویٰ والی بندی ہے جو یوں آنسو بہا کر نماز ادا کر رہی ہے مگر سچ تو یہ ہے کہ وہ خوف کے آنسو تھے لیکن اللہ نے ان آنسوؤں کو بھی قبول کر لیا تھا… نماز کے بعد نیچے اتری تو ماما اور خالہ کو ساتھ پایا… بعد میں ممی اور مامی کا پتا چلا کہ وہ ہوٹل گئے ہیں۔
مکے میں تین دن مزید قیام کے بعد ہم مدینے کی جانب روانہ ہوئے.. مسجد نبویؐ کی وسعت کا صرف سنا تھا‘ آنکھوں سے دیکھا تو یقین نہ آیا کہ واقعی اس کا ایک دفعہ میں مکمل سفر کرنا بہت مشکل ہے۔
دل چاہ رہا تھا کہ جس نے یہ نہیں دیکھا ان سب کو پاکستان سے بلا کر یہاں لے آئوں… وہاں کے سکون کا اظہار شاید ناممکن ہے۔ وہاں کے بازار‘ گلیاں جن کا ذکر صرف نعتوں کے اشعار میں سنا تھا ‘ان کو دیکھا… مدینے سے واپسی پر ہم نے دوبارہ عمرے کے لیے احرام باندھا اور مکے کی طرف روانہ ہوئے۔
مکہ پہنچ کر یہی خیال کہ کچھ دن بعد یہاں کی عظمتوں‘ برکتوں‘ رحمتوں کو چھوڑ کر واپسی ہے… الوداعی طواف میں تو حالت تذبذب تھی یعنی گھر کی یاد‘ وہاں محبت کرنے والوں کی چاہت اور دوسری طرف اس سرزمین کو چھوڑنے کا غم!!!
جب واپسی کا سفر شروع ہوا تو دل میں مکہ واپس آنے کی خواہش اور دعا کے ساتھ یہ خیال بھی تھا کہ ان شاء اللہ پھر کبھی آئی تو اس ’’پہلی بار‘‘ کا مزا نہ لے پائوں گی کیونکہ پہلی بار تو صرف پہلی بار ہی ہوتا ہے!!